کالام شاہراہ کی تعمیر آخر کب ہوگی

مقامی لوگ مسلسلس اِس الجھن کا شکار ہیں کہ آخر سڑک پر تاحال عملی طور پر بحالی کے کام کا آغاز کیوں نہیں کیا جارہا؟


’اگر مزید ہمارے صبر کا امتحان لیا گیا تو سیاحتی سیزن کے لئے بحرین تا کالام سڑک کو سیاحوں کے لئے بند کردیں گے اور چندہ مہم کا آغاز کریں گے۔‘

وزیرِاعظم کے مشیر انجینئر امیر مقام نے رواں ماہ ایک بار پھر بحرین تا کالام مرکزی شاہراہ کے تعمیراتی کام کا باقاعدہ افتتاح کردیا۔ یاد رہے کہ بحرین تا کالام 34 کلومیٹر طویل شاہراہ سات سال قبل سوات میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی نذر ہوگئی تھی، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سوات کوہستان کی بڑی آبادی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی تھی۔

یہ وہ سڑک تھی جس کے ذریعے رمضان المبارک کے مہینے میں مقامی لوگ سحر و افطار کے لئے مدین سے کاندھوں پر اشیائے خورد و نوش لاتے تھے۔ اگرچہ ہنگامی طور پر مقامی لوگوں نے پاک آرمی کے تعاون اور اپنی مدد آپ کے تحت سڑک کو بمشکل ایک ماہ بعد فورویل گاڑیوں کے لئے قابل استعمال تو بنالیا تھا، لیکن بعد میں مختلف ملکی اور غیر ملکی اداروں کی جانب سے فنڈ جاری ہونے کے باوجود پکی سڑک کی تعمیر ایک خواب بن کر رہ گیا۔



مقامی لوگوں کی طویل جدوجہد کے بعد 2013ء میں بھی مشیر وزیراعظم انجینئیر امیر مقام نے کالام سڑک کے تعمیراتی کام کا افتتاح کیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ سڑک کی تعمیر پر 48 کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے جبکہ یہ تین ماہ کے اندر مکمل طور پر تیار کرلی جائے گی، مگر اب تک ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ اُس وقت افتتاحی تقریب سیاسی ہلڑ بازی کا شکار بھی ہوئی کیونکہ عین ''فیتے'' کی رسم کے دوران ایم پی اے، پی کے 85 سید جعفر شاہ بھی میدان میں کود پڑے اور سڑک کی تعمیر کے پروجیکٹ کو اپنی جدوجہد کا ثمر قرار دیتے ہوئے خود فیتہ کاٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب صورتحال بگڑنے لگی تو کارکنوں کے متوقع تصادم کے پیشِ نظر مقامی انتظامیہ نے سید جعفر شاہ کو نظر بند کردیا تھا۔



بحرین سے تعلق رکھنے والے صحافی مجاہد توروالی کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کی جانب سے بھرپور احتجاج کے بعد انجنیئر امیر مقام نے 2014ء میں بھی کالام شاہراہ پر دوبارہ تعمیراتی کام کا افتتاح کیا تھا مگر عملی کام دیکھنے کو نہیں ملا۔ پچھلے سال حلقہ ایم پی اے سید جعفرشاہ کی جانب سے ایک پریس ریلیز شائع کی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ اُن کی طویل جدوجہد کے بعد ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے سڑک کی تعمیر کے لیے 20 ارب روپے مختص کئے ہیں، جس سے بحرین تا کالام دو طرفہ سڑک تعمیر کی جائے گی، مگر نہ وہ رقم ابھی تک جاری ہوسکی اور نہ سڑک پر کسی قسم کے کام کا آغاز ہوا۔



گزشتہ سال سوات کوہستان کی چاروں یونین کونسلوں سے مقامی عمائدین، بلدیاتی نمائندوں اور نواجوانوں کی کثیر تعداد نے مینگورہ شہر میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومت کو 15 دن کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پڑاؤ ڈالنے کا اعلان کیا۔ اگلے ہی دن انجینئیر امیر مقام نے مقامی عمائدین کو سنگوٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر بلا کر یقین دہانی کرائی کہ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی جانب سے 8 ارب روپے مختص ہوچکے ہیں اور اگلے ایک ماہ کے اندر کام شروع ہوجائے گا۔

لیکن ایک مزید یقین دہانی کے بعد ایک بار پھر معاملہ سردخانے کی نذر ہوگیا۔ مقامی لوگ اِس الجھن میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ سڑک پر تاحال عملی طور پر بحالی کے کام کا آغاز کیوں نہیں کیا جاتا؟ اِس سوال پر عوامی حلقوں کی جانب سے ملے جلے ردِعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کالام شاہراہ سیاست کی بھینٹ چڑھنے کی وجہ سے عدم تعمیر کا شکار ہے۔ یعنی کالام مین شاہراہ N-95 وفاقی ادارے این ایچ اے کے زیر انتظام ہے، جبکہ صوبے میں وفاق مخالف سیاسی جماعت کی حکومت ہے، اِس لئے وفاق سنجیدگی ظاہر نہیں کررہا، حالانکہ وزیراعظم نواز شریف نے 2013ء کے عام انتخابات سے قبل سوات میں عوامی جلسے کے دوران چکدرہ تا سوات ایکسپریس وے تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

پرانی باتیں اپنی جگہ، لیکن امیر مقام نے تو اِس ماہ بھی سڑک کی تعمیر کا افتتاح کردیا اور افتتاح کے دوران انہوں نے بتایا کہ سڑک پر 11 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ عوامی حلقوں میں یہ اُمید بھی پائی جارہی ہے کہ چونکہ انتخابات نزدیک ہیں اِس لیے عین ممکن ہے کہ وفاقی حکومت صوبے میں اپنے پنجے گاڑنے کے لئے اِس منصوبے پر عملی کام شروع کردے۔

علاقہ عمائدین نے اِس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اگر مزید اُن کے صبر کا امتحان لیا گیا تو سیاحتی سیزن کے لئے بحرین تا کالام سڑک کو سیاحوں کے لئے بند کردیں گے اور چندہ مہم کا آغاز کریں گے۔



دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے معتبر ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور ایم این اے سلیم الرحمن بھی کالام شاہراہ کا ایک بار پھر افتتاح کریں گے کیونکہ وہ امیر مقام کی جانب سے کیے جانے والے افتتاح کو جعلی قراردے چکے ہیں۔ اِس حوالے سے مقامی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایسا واقع بریکوٹ میں بھی ایک گریڈ اسٹیشن کے افتتاح کے دوران پیش آیا تھا جب امیر مقام اور پی ٹی آئی کے ایم پی اے ڈاکٹر امجد کے مابین فیتہ کاٹنے پر سرد جنگ چھڑ گئی تھی اور دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے مابین تصادم بھی ہوا تھا۔

اِس لیے اگر معاملہ بریکوٹ گرڈ اسٹیشن کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو کالام شاہراہ ایک بار پھر سیاست کی بھینٹ چڑھنے سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانے کا خدشہ ہے۔ لہذا کالام کا رہائشی ہونے کے تحت میں یہ اُمید کررہا ہوں کہ اب کی بار کسی قسم کی کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئے اور دونوں سیاسی جماعتیں صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں تاکہ سڑک کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں