ننّھی شبنم ہوس کی بھینٹ چڑھ گئی
درندوں نے شبنم کے منہ اور ناک میں کیچڑ بھر کر اس کی سانسیں بند کر ڈالیں، لاتوں کی بارش سے بچی دم توڑ گئی ۔
KARACHI:
''واہ رے غریب تیری قسمت! تیری پوری زندگی ظلم، جبر اور حالات کے ستم سہتے سہتے بیت جاتی ہے اور زندگی بھر درماندگی و لاچاری کا بوجھ اٹھاتے تیری کمر جھک جاتی ہے ،نہ تو خود سکھ پاتا ہے اور نہ تیری اولاد اس کا مزا چکھ سکتی ہے اور ایسے میں تو جب حیوانوں کی درندگی کا شکاربنتا ہے تو تُو موت کے لیے ترستا ہے''۔
یقیناً غریب کی زندگی اذیتوں سے بھری ہوتی ہے، وہ عمر بھر محنت مزدوری کر کے اپنے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے، اپنے بچوں کے لیے آنکھوں میں سنہرے خواب سجائے رکھتا ہے لیکن جب اس کی معصوم بیٹی کے ساتھ گینگ ریپ ہو جاتا ہے اوروہ موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے تو پھر اس کی زندگی جہنم بن جاتی ہے، وہ زندگی سے نفرت کرنے لگتا ہے اور موت کو فوقیت دینے لگتا ہے۔
ا یسا ہی واقعہ پولیس تھانہ لوند خو ڑ کی حدود ہاتھیان کے نواحی گائون جھاڑے حافظ آبادکے غریب محنت کش رحم زیب کے ساتھ پیش آیا۔ رحم زیب نو بچوں کا باپ ہے، محنت مزدوری کرکے ایک طرف اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا متلاشی رہتا ہے تو دوسری جانب اپنی کما ئی سے تھوڑا بہت بچا کر اپنی پھول سی نو سا لہ بیٹی شبنم کو پڑھنے اسکول بھیجتا ہے۔ شبنم اس کی بہت چہیتی ہے، وہ معمول کے مطابق اچھلتی کودتی اسکو ل جاتی ہے اور گھر سے نکلتے وقت دروازے سے آواز دیتی ہے ''ماں میں گئی'' اور واپس آکر دروازے سے پھر پکاراٹھتی ''ماں میں آ گئی''۔ معصوم شبنم گورنمنٹ گرلزپرائمری اسکول ھشت نغرو کلے ہاتھیان میں دوسری جماعت کی طالبہ تھی۔
17ستمبر کو جب صبح شبنم نیند سے بیدار ہوئی تو خلاف معمول ضد کر نے لگی ''ماں میرے لیے پراٹھا پکا دو'' مگر غریب و مجبور ماںکر کیا کرتی کہ گھر میں گھی نہیں تھا، ماں نے شبنم کو ناشتے میں سو کھی روٹی کا ایک ٹکڑا کھلا یا، شبنم یو نی فارم پہن کر جب اسکول جانے کے لیے تیار ہوگئی تو اس کی ایک اور فرمائش آئی اور باپ کے پاس آکر کہنے لگی بابا مجھے پانچ روپے دے دو لیکن باپ کے پاس پانچ روپے کہاں تھے، اس نے بہانہ کر کے شبنم کو رخصت کردیا، شبنم منہ بسورتی اسکول چلی گئی۔ چھٹی کے بعد وہ اسکو ل کے قریب واقع اپنی دادی کے گھر چلی گئی۔ اس کی داد ی اسی اسکول میں ملازمہ تھی۔
اسی دن اسکول میں استانیوں کی پارٹی تھی، دادی نے اپنی لاڈلی کو کھانا کھلا یا اور گھر بھیج دیا جب اس کی دادی اسکول سے گھرآئی تو شبنم کی ماں نے اس سے پوچھا کہ شبنم کہا ں ہے تو اس نے بتایا کہ اس کو تو میں چھٹی کے فوراََبعد گھر بھیج چکی ہوں۔ ماں باپ نے اس کی بات سنی تو دونوں پریشان ہو گئے اور شبنم کی تلاش میں نکل پڑے۔ انہوں نے جگہ جگہ تلاش کیا مگر وہ کہیں نہ ملی۔ آخر شبنم کو تلاش کرتے کرتے رات سر پر آگئی، مجبوراً وہ مایوس گھر خالی ہاتھ لو ٹ آئے۔ رات آنکھوں میں گزار دی اور انتظار کی سولی پر لٹکتے رہے لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ شبنم اب اس دنیا میں نہیں رہی کیوں کہ وہ جب اسکول سے نکلی تھی تو وہ گنے اور مکئی کی فصل کے درمیان سے گزرنے والی پگ ڈنڈی پر گھر کی طرف جا رہی تھی تو پہلے سے شبنم کی تاک میں بیٹھے تین شیطا ن صفت نوجوانوں زاہد، واحدعرف وٹے پسران رازق اورکبیر ولد زمان ساکنا ن جھاڑے ہاتھیان نے معصوم بچے کو 300 روپے دکھا کرکہا کہ آئو یہ رقم لے کر اپنے بھائی کو دے دو۔
شبنم بلا خوف وخطر ان کی طرف بڑھی تو ان سفاکوں نے اسے دبوچ لیا اور ہوس کا نشانہ بنایا اور پھراس کے ہاتھ میں 300 روپے تھماکر اس کو خاموش رہنے پر آمادہ کرتے رہے مگروہ بابا کو بتا نے کی ضد کرتی اور کہتی رہی کہ میں بابا کو ضرور بتا وں گی، جس کے بعد بچی کی حالت بگڑتی گئی جس پر ان درندوں نے شبنم کے منہ اور ناک میں کیچڑ بھر کر اس کی سانسیں بند کر ڈالیں لیکن اس سے بھی ظالموں کی تشفی نہیں ہوئی تو انہوں نے لاتوں کی بارش کردی جس کی وجہ سے معصوم شبنم کی روح وجسم کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ لاش پہلے گنے کی فصل میںاور نصف شب کو مکئی کی فصل میں پھینک دی، اگلی سہ پہر ملزموں نے ایک بچہ شبنم کے بھائی کے پاس بھیج دیا کہ شبنم کی لاش مکئی کی فصل میں پڑی ہے۔ یہ خبر ان مظلوم والدین پر قیامت بن کر ٹو ٹ پڑی۔ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ اب ان کو کیا کرنا ہے مگر گائوں کے لوگ لاش اٹھا کر پولیس تھانہ لوند خو ڑ لے گئے۔ پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لوند خوڑ اسپتال بھیج دی جہاں سے ڈاکٹر نے مردان اسپتال بھجوا دی۔
عینی شاھدین کے مطابق ملزمان پو سٹ مارٹم کے وقت اسپتال بھی گئے اور جنازہ میں بھی شریک رہے لیکن لوگ ابھی قبرستان سے لوٹے نہیں تھے کہ پولیس نے مخبر کی اطلاع پر زاہد اور واحد عرف وٹے کو گرفتار کرلیا اور ان کی نشان دہی پر ان کے تیسرے ساتھی کبیر بھی گرفتار کر لیا۔ قتل کے دوسرے روز علاقے کے سیکڑوں باشندوں اور اسکول کی طالبات نے ایک جلوس نکالا اور مارچ کرتے ہو ئے شیرگڑھ پہنچ گئے۔ جلوس نے شاہ راہ ملاکنڈ پر جلسے کی شکل اختیار کر لی جس سے خطاب کر تے ہوئے مقررین نے مطالبہ کیاکہ شبنم کے قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ لگائی جائے، ایک ماہ کے اندراندر ٹرائیل مکمل کرکے ملزمان کو سزا دی جائے اور ان کے خاندانوں کو علاقہ بدر کیا جائے جب کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ اس واقعہ کا از خود نوٹس لے کر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔
اس موقع پر اسکول کی طالبات ''شبنم کے قاتلوں کوپھانسی دو'' کے نعرے لگاتے ہوئے زار و قطار رورہی تھیں، یہ ایسا منظر تھا کہ کوئی بھی شخص آنسووں پر قابو نہ پا سکا۔ علاقے کے باشندوں نے ملزمان کے خلاف بروقت کارروائی کر نے پر ایس ایچ او فضل سبحان خان، اے ایس آئی جاوید خان اور سپاہی صابر خان کو پھولوں کے ہار پہنائے اور نقد انعامات بھی دیے۔ شبنم کی ننھی ننھی ہم جولیاں اس کے گھر اب بھی آ کر پوچھتی ہیں ''انٹی کیا شبنم اب بھی نہیں آئی۔۔؛ وہ کہاں گئی ہے''۔
وہ گھنٹوںاس کے والدین اور بہن بھا ئیوں کے پاس بیٹھ کر شبنم کو یا دکرتی ہیں جب کہ شبنم کی ماں شبنم کی معصوم سہیلیوں کو دیکھ کر اپنے آنسو روک نہیں پاتی، وہ کہتی ہے کہ کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم غریب اور بے بس ہیں، کیا غریبوں کی کوئی عزت و آبرو نہیں ہوتی، وہ شبنم کے بستے، گڑیا اورکھلونے کو سکتے کے عالم میں گھنٹوں دیکھتی رہتی ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ شبنم کے والدین کو انصاف ملتا ہے یاوہ بھی ہمارے قانون وانصاف کے روایتی پاٹوں میں پستے پستے مایوسیوں کی دلدل میں دھنسا دیے جائیں گے۔
''واہ رے غریب تیری قسمت! تیری پوری زندگی ظلم، جبر اور حالات کے ستم سہتے سہتے بیت جاتی ہے اور زندگی بھر درماندگی و لاچاری کا بوجھ اٹھاتے تیری کمر جھک جاتی ہے ،نہ تو خود سکھ پاتا ہے اور نہ تیری اولاد اس کا مزا چکھ سکتی ہے اور ایسے میں تو جب حیوانوں کی درندگی کا شکاربنتا ہے تو تُو موت کے لیے ترستا ہے''۔
یقیناً غریب کی زندگی اذیتوں سے بھری ہوتی ہے، وہ عمر بھر محنت مزدوری کر کے اپنے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے، اپنے بچوں کے لیے آنکھوں میں سنہرے خواب سجائے رکھتا ہے لیکن جب اس کی معصوم بیٹی کے ساتھ گینگ ریپ ہو جاتا ہے اوروہ موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے تو پھر اس کی زندگی جہنم بن جاتی ہے، وہ زندگی سے نفرت کرنے لگتا ہے اور موت کو فوقیت دینے لگتا ہے۔
ا یسا ہی واقعہ پولیس تھانہ لوند خو ڑ کی حدود ہاتھیان کے نواحی گائون جھاڑے حافظ آبادکے غریب محنت کش رحم زیب کے ساتھ پیش آیا۔ رحم زیب نو بچوں کا باپ ہے، محنت مزدوری کرکے ایک طرف اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا متلاشی رہتا ہے تو دوسری جانب اپنی کما ئی سے تھوڑا بہت بچا کر اپنی پھول سی نو سا لہ بیٹی شبنم کو پڑھنے اسکول بھیجتا ہے۔ شبنم اس کی بہت چہیتی ہے، وہ معمول کے مطابق اچھلتی کودتی اسکو ل جاتی ہے اور گھر سے نکلتے وقت دروازے سے آواز دیتی ہے ''ماں میں گئی'' اور واپس آکر دروازے سے پھر پکاراٹھتی ''ماں میں آ گئی''۔ معصوم شبنم گورنمنٹ گرلزپرائمری اسکول ھشت نغرو کلے ہاتھیان میں دوسری جماعت کی طالبہ تھی۔
17ستمبر کو جب صبح شبنم نیند سے بیدار ہوئی تو خلاف معمول ضد کر نے لگی ''ماں میرے لیے پراٹھا پکا دو'' مگر غریب و مجبور ماںکر کیا کرتی کہ گھر میں گھی نہیں تھا، ماں نے شبنم کو ناشتے میں سو کھی روٹی کا ایک ٹکڑا کھلا یا، شبنم یو نی فارم پہن کر جب اسکول جانے کے لیے تیار ہوگئی تو اس کی ایک اور فرمائش آئی اور باپ کے پاس آکر کہنے لگی بابا مجھے پانچ روپے دے دو لیکن باپ کے پاس پانچ روپے کہاں تھے، اس نے بہانہ کر کے شبنم کو رخصت کردیا، شبنم منہ بسورتی اسکول چلی گئی۔ چھٹی کے بعد وہ اسکو ل کے قریب واقع اپنی دادی کے گھر چلی گئی۔ اس کی داد ی اسی اسکول میں ملازمہ تھی۔
اسی دن اسکول میں استانیوں کی پارٹی تھی، دادی نے اپنی لاڈلی کو کھانا کھلا یا اور گھر بھیج دیا جب اس کی دادی اسکول سے گھرآئی تو شبنم کی ماں نے اس سے پوچھا کہ شبنم کہا ں ہے تو اس نے بتایا کہ اس کو تو میں چھٹی کے فوراََبعد گھر بھیج چکی ہوں۔ ماں باپ نے اس کی بات سنی تو دونوں پریشان ہو گئے اور شبنم کی تلاش میں نکل پڑے۔ انہوں نے جگہ جگہ تلاش کیا مگر وہ کہیں نہ ملی۔ آخر شبنم کو تلاش کرتے کرتے رات سر پر آگئی، مجبوراً وہ مایوس گھر خالی ہاتھ لو ٹ آئے۔ رات آنکھوں میں گزار دی اور انتظار کی سولی پر لٹکتے رہے لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ شبنم اب اس دنیا میں نہیں رہی کیوں کہ وہ جب اسکول سے نکلی تھی تو وہ گنے اور مکئی کی فصل کے درمیان سے گزرنے والی پگ ڈنڈی پر گھر کی طرف جا رہی تھی تو پہلے سے شبنم کی تاک میں بیٹھے تین شیطا ن صفت نوجوانوں زاہد، واحدعرف وٹے پسران رازق اورکبیر ولد زمان ساکنا ن جھاڑے ہاتھیان نے معصوم بچے کو 300 روپے دکھا کرکہا کہ آئو یہ رقم لے کر اپنے بھائی کو دے دو۔
شبنم بلا خوف وخطر ان کی طرف بڑھی تو ان سفاکوں نے اسے دبوچ لیا اور ہوس کا نشانہ بنایا اور پھراس کے ہاتھ میں 300 روپے تھماکر اس کو خاموش رہنے پر آمادہ کرتے رہے مگروہ بابا کو بتا نے کی ضد کرتی اور کہتی رہی کہ میں بابا کو ضرور بتا وں گی، جس کے بعد بچی کی حالت بگڑتی گئی جس پر ان درندوں نے شبنم کے منہ اور ناک میں کیچڑ بھر کر اس کی سانسیں بند کر ڈالیں لیکن اس سے بھی ظالموں کی تشفی نہیں ہوئی تو انہوں نے لاتوں کی بارش کردی جس کی وجہ سے معصوم شبنم کی روح وجسم کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ لاش پہلے گنے کی فصل میںاور نصف شب کو مکئی کی فصل میں پھینک دی، اگلی سہ پہر ملزموں نے ایک بچہ شبنم کے بھائی کے پاس بھیج دیا کہ شبنم کی لاش مکئی کی فصل میں پڑی ہے۔ یہ خبر ان مظلوم والدین پر قیامت بن کر ٹو ٹ پڑی۔ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ اب ان کو کیا کرنا ہے مگر گائوں کے لوگ لاش اٹھا کر پولیس تھانہ لوند خو ڑ لے گئے۔ پولیس نے لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لوند خوڑ اسپتال بھیج دی جہاں سے ڈاکٹر نے مردان اسپتال بھجوا دی۔
عینی شاھدین کے مطابق ملزمان پو سٹ مارٹم کے وقت اسپتال بھی گئے اور جنازہ میں بھی شریک رہے لیکن لوگ ابھی قبرستان سے لوٹے نہیں تھے کہ پولیس نے مخبر کی اطلاع پر زاہد اور واحد عرف وٹے کو گرفتار کرلیا اور ان کی نشان دہی پر ان کے تیسرے ساتھی کبیر بھی گرفتار کر لیا۔ قتل کے دوسرے روز علاقے کے سیکڑوں باشندوں اور اسکول کی طالبات نے ایک جلوس نکالا اور مارچ کرتے ہو ئے شیرگڑھ پہنچ گئے۔ جلوس نے شاہ راہ ملاکنڈ پر جلسے کی شکل اختیار کر لی جس سے خطاب کر تے ہوئے مقررین نے مطالبہ کیاکہ شبنم کے قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ لگائی جائے، ایک ماہ کے اندراندر ٹرائیل مکمل کرکے ملزمان کو سزا دی جائے اور ان کے خاندانوں کو علاقہ بدر کیا جائے جب کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ اس واقعہ کا از خود نوٹس لے کر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے۔
اس موقع پر اسکول کی طالبات ''شبنم کے قاتلوں کوپھانسی دو'' کے نعرے لگاتے ہوئے زار و قطار رورہی تھیں، یہ ایسا منظر تھا کہ کوئی بھی شخص آنسووں پر قابو نہ پا سکا۔ علاقے کے باشندوں نے ملزمان کے خلاف بروقت کارروائی کر نے پر ایس ایچ او فضل سبحان خان، اے ایس آئی جاوید خان اور سپاہی صابر خان کو پھولوں کے ہار پہنائے اور نقد انعامات بھی دیے۔ شبنم کی ننھی ننھی ہم جولیاں اس کے گھر اب بھی آ کر پوچھتی ہیں ''انٹی کیا شبنم اب بھی نہیں آئی۔۔؛ وہ کہاں گئی ہے''۔
وہ گھنٹوںاس کے والدین اور بہن بھا ئیوں کے پاس بیٹھ کر شبنم کو یا دکرتی ہیں جب کہ شبنم کی ماں شبنم کی معصوم سہیلیوں کو دیکھ کر اپنے آنسو روک نہیں پاتی، وہ کہتی ہے کہ کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم غریب اور بے بس ہیں، کیا غریبوں کی کوئی عزت و آبرو نہیں ہوتی، وہ شبنم کے بستے، گڑیا اورکھلونے کو سکتے کے عالم میں گھنٹوں دیکھتی رہتی ہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ شبنم کے والدین کو انصاف ملتا ہے یاوہ بھی ہمارے قانون وانصاف کے روایتی پاٹوں میں پستے پستے مایوسیوں کی دلدل میں دھنسا دیے جائیں گے۔