سچے سروں سے بنامیوزک اثررکھتا ہے زیب ہانیہ
بھارت میں یہ تاثرتھا کہ پاکستان میں خواتین گلوکارائیں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اب وہاں ہماری مثالیں دی جاتی ہیں۔
پاکستان کی دھرتی موسیقی کے میدان میں ہمیشہ سے انتہائی زرخیزرہی ہے۔یہاں کے عظیم گائیکوں نے موسیقی کے ذریعے اپنے فن کواس قدراپنائیت سے متعارف کروایا کہ لوگ اس کوبھلا نہیں سکتے۔
ماضی کے مقبول گیت ، ان عظیم گائیکوں، موسیقاروں، شاعروں اورمیوزیشنز کی صلاحیوں کی ایسی مثال ہے جس کوماننے سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔ یہ گیت لوگوں کی خوشیوں اور غم سے جڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی گھرانوں تک محدود رہنے کی بجائے اب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی پسند بن چکی ہے اوربہت سے نوجوان تو صدا بہارگیتوں اورغزلوں کوسن کرموسیقی کی طرف آرہے ہیں اوراعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود موسیقی کو اپنا پروفیشن بنا رہے ہیں جومیوزک کے شعبے کیلئے بہت خوش آئند بات ہے۔
اس طرح کی مثالیں ہمیں ماضی میں بھی ملتی ہیں ۔ ان دنوں جومنفرد آوازسماعتوں کومعطرکرنے میں لگی ہے وہ نوجوان نسل کی پسندیدہ گلوکارائوں زیب اورہانیہ کی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی پسندیدگی پاکستان کے بعد دیارغیر تک جاپہنچی ہے۔ یہی نہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے توان کے فن کاایسااعتراف کیا ہے کہ جلد ہی دونوں خالہ زاد بہنیں بھارتی میوزک انڈسٹری کے سامراٹ پر راج کرتی دکھائی دینگی۔ ''ایکسپریس'' کے ساتھ انٹرویو میں گلوکارہ زیب اور ہانیہ نے جہاں اپنے فنی سفرپربات کی وہیں اپنی نجی زندگی کے خوبصورت پلوں کا بھی تذکرہ کیا جوقارئین کی نذرہے۔
گلوکارہ زیب اور ہانیہ نے اپنے پروفیشن کے حوالے سے گفتگوکا آغاز کرتے ہوئے بتایاکہ ملکہ ترنم نورجہاں، شمشاد بیگم، روشن آراء بیگم، مہناز اور پٹھانے خان کوبہت سُنااوریہی ہمارے آئیڈیل ہیں جبکہ بھارت سے آر ڈی برمن، ایس ڈی برمن ، او پی نیّر اور ماسٹرمدن کی دھنوں نے بھی بہت متاثر کیا ۔ یہی موسیقی کی وہ عظیم شخصیات ہیں جن کا میوزک سن سن کر ہمیںموسیقی سے عشق ہوااور اب یہی ہمارا پروفیشن بھی ہے۔ سچے سروں سے بنامیوزک کسی بھی زبان میں ہووہ اثررکھتا ہے۔ ہم ویسے توپاپ سنگرہیں لیکن کلاسیکی موسیقی، غزل ، ٹھمری اورقوالی سے بھی خاصالگائوہے۔ ہم نے ابتک جتنابھی کام کیا وہ معمول سے ہٹ کرتھا۔ کوک سٹوڈیوکے دونوں سیزن کا بہترین رسپانس رہا ہے اوراس میں پیش کیا فارسی زبان کا کلام ''بی بی صنم جانم'' سرحدیں پارکرتا ہوا ہماری شہرت کاسبب بھی بنا۔
مگراس کے ساتھ ساتھ ہمارے حوالے سے یہ تاثربھی عام ہونے لگا ہے کہ شاید ہم صرف فارسی یا پشتوزبان میں گاتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے، ہم نے فارسی اور پشتو زبان میں گیت ضرور گائے ہیں لیکن ہم اردو اورپنجابی زبان کے علاوہ انگریزی زبان میںبھی گاتی ہیں۔ بھارت میں ہم نے جوکام شروع کیا ہے وہ تمام اردو زبان میں ہے۔ انھوں نے کہاکہ ہماراآڈیوالبم پاکستان اوربھارت کی تاریخ کا وہ پہلا البم ہوگا جس کو بنانے میں دونوں ملکوں کے میوزیشن نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ بولی وڈ فلموں کے معروف موسیقارشانتنو اور سوانند کرکرے نے ہمارے ساتھ مل کرنئے البم کا میوزک کمپوزاورارینج کیا جبکہ گیتوں کی ریکارڈنگ میں بھی حصہ لیا ہے۔
البم کا ٹائٹل سانگ ''کیا خیال ہے'' پہلے ہی بھارت میں بے حد مقبول ہوچکا ہے اوریہ البم رواں برس کے وسط میں بھارت اورپاکستان سمیت دنیا کے بیشترممالک میں بیک وقت ریلیزکیا جائے گا۔ ایک طرف توبھارت میں کام کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہااور دوسری جانب بھارت میں جہاں جہاں بھی ہمیں پرفارم کرنے کاموقع ملا لوگوں نے ہمیں بہت پیارکیا، جس کوبیان کرنے کے لئے الفاظ کم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم خالہ زاد بہنیں ہیں اورامریکہ میں دوران تعلیم اپنی تنہائی کوکم کرنے کیلئے گٹارپرگیت گاتے رہتے تھے۔ حانیا گٹاربجاتی اورمیں پاکستان اوربھارت کے عظیم گائیکوں کے صدابہارگیت گایا کرتی۔ تنہائی ماحول کچھ ہی دیر میں بدل جاتا اورہمارے بہت سے ساتھی طالبعلم کمرے میں اکھٹے ہوجاتے۔ اسی دوران ہم نے ایک ویڈیو تیارکی جس کو شادی کروانے والی ویب سائٹ پرڈائون لوڈ کر دیا لیکن جب ہم پاکستان پہنچے تووہ گیت یہاں کے پرائیویٹ ریڈیوچینل پرچلایا جارہا تھااوران کوخاصا پسند کیاجارہاتھا۔
اس رسپانس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنی فیملی کی سپورٹ کے ساتھ میوزک کو بطورپروفیشن اپنانے کا فیصلہ کیا۔ زیب نے بتایا کہ میرے والد کا تعلق پاک فوج اورحانیا کے والد بیوروکریٹ تھے۔ اس لئے ہم نے اپنی فیملی کواعتماد میں لے کرہی میوزک کواپنا پروفیشن بنایا اورفیملی کی جانب سے ہمیں مکمل تعاون ملا۔ زیب نے بتایاکہ وہ گزشتہ دس برس سے باقاعدہ استاد مبارک علی خاں سے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کررہی ہیں جبکہ حانیا کا کہنا تھا کہ وہ گٹار، طبلہ اوررباب کی تربیت حاصل کرچکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے مختصر عرصہ کے دوران کوک سٹوڈیوکے دوسیزن میں پرفارم کیا اوراس کا زبردست رسپانس پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت اوردیگرممالک سے بھی آیا۔
اسی پروگرام کے بعد ہمیں بھارت میں پروگراموں کی آفرہوئی ۔ ہم نے بھارتی چینل کے پروگرام میں شانتنو اورسوانند کرکرے کے ساتھ مل کرایک گیت بنایا، جس کو بہت زیادہ سراہا گیا۔ بھارت میں یہ تاثربہت عام تھا کہ پاکستان میں خواتین گلوکارائیں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ہماری جوڑی کی اب وہاں مثالیں دی جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بھارت میں پاکستانی فنکاروںکو قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ معروف غزل گائیک استاد غلام علی جب بھارت جاتے ہیں تولوگ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں وہاں پر ابن انشا ء اوراحمد فرازکی شاعری کوبہت پسند کیا جاتا ہے۔ زیب اور حانیا نے مزید کہا کہ ہماری نانی جمشیدہ بیگم اردو ، پشتواور فارسی میں شاعری کرتی ہیں۔ان کی شخصیت نے ہمیں بہت متاثر کیا اوران کی وجہ سے ہمیں شعروادب اور فنون سے خاصا لگائورہا۔ انٹرویوکے آخرمیں زیب اورحانیا کا کہنا تھا کہ میوزک کے ذریعے لوگوں کو انٹرٹین کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں امن کا پیغام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوگا۔
ماضی کے مقبول گیت ، ان عظیم گائیکوں، موسیقاروں، شاعروں اورمیوزیشنز کی صلاحیوں کی ایسی مثال ہے جس کوماننے سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔ یہ گیت لوگوں کی خوشیوں اور غم سے جڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موسیقی گھرانوں تک محدود رہنے کی بجائے اب تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی پسند بن چکی ہے اوربہت سے نوجوان تو صدا بہارگیتوں اورغزلوں کوسن کرموسیقی کی طرف آرہے ہیں اوراعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود موسیقی کو اپنا پروفیشن بنا رہے ہیں جومیوزک کے شعبے کیلئے بہت خوش آئند بات ہے۔
اس طرح کی مثالیں ہمیں ماضی میں بھی ملتی ہیں ۔ ان دنوں جومنفرد آوازسماعتوں کومعطرکرنے میں لگی ہے وہ نوجوان نسل کی پسندیدہ گلوکارائوں زیب اورہانیہ کی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی پسندیدگی پاکستان کے بعد دیارغیر تک جاپہنچی ہے۔ یہی نہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے توان کے فن کاایسااعتراف کیا ہے کہ جلد ہی دونوں خالہ زاد بہنیں بھارتی میوزک انڈسٹری کے سامراٹ پر راج کرتی دکھائی دینگی۔ ''ایکسپریس'' کے ساتھ انٹرویو میں گلوکارہ زیب اور ہانیہ نے جہاں اپنے فنی سفرپربات کی وہیں اپنی نجی زندگی کے خوبصورت پلوں کا بھی تذکرہ کیا جوقارئین کی نذرہے۔
گلوکارہ زیب اور ہانیہ نے اپنے پروفیشن کے حوالے سے گفتگوکا آغاز کرتے ہوئے بتایاکہ ملکہ ترنم نورجہاں، شمشاد بیگم، روشن آراء بیگم، مہناز اور پٹھانے خان کوبہت سُنااوریہی ہمارے آئیڈیل ہیں جبکہ بھارت سے آر ڈی برمن، ایس ڈی برمن ، او پی نیّر اور ماسٹرمدن کی دھنوں نے بھی بہت متاثر کیا ۔ یہی موسیقی کی وہ عظیم شخصیات ہیں جن کا میوزک سن سن کر ہمیںموسیقی سے عشق ہوااور اب یہی ہمارا پروفیشن بھی ہے۔ سچے سروں سے بنامیوزک کسی بھی زبان میں ہووہ اثررکھتا ہے۔ ہم ویسے توپاپ سنگرہیں لیکن کلاسیکی موسیقی، غزل ، ٹھمری اورقوالی سے بھی خاصالگائوہے۔ ہم نے ابتک جتنابھی کام کیا وہ معمول سے ہٹ کرتھا۔ کوک سٹوڈیوکے دونوں سیزن کا بہترین رسپانس رہا ہے اوراس میں پیش کیا فارسی زبان کا کلام ''بی بی صنم جانم'' سرحدیں پارکرتا ہوا ہماری شہرت کاسبب بھی بنا۔
مگراس کے ساتھ ساتھ ہمارے حوالے سے یہ تاثربھی عام ہونے لگا ہے کہ شاید ہم صرف فارسی یا پشتوزبان میں گاتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے، ہم نے فارسی اور پشتو زبان میں گیت ضرور گائے ہیں لیکن ہم اردو اورپنجابی زبان کے علاوہ انگریزی زبان میںبھی گاتی ہیں۔ بھارت میں ہم نے جوکام شروع کیا ہے وہ تمام اردو زبان میں ہے۔ انھوں نے کہاکہ ہماراآڈیوالبم پاکستان اوربھارت کی تاریخ کا وہ پہلا البم ہوگا جس کو بنانے میں دونوں ملکوں کے میوزیشن نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ بولی وڈ فلموں کے معروف موسیقارشانتنو اور سوانند کرکرے نے ہمارے ساتھ مل کرنئے البم کا میوزک کمپوزاورارینج کیا جبکہ گیتوں کی ریکارڈنگ میں بھی حصہ لیا ہے۔
البم کا ٹائٹل سانگ ''کیا خیال ہے'' پہلے ہی بھارت میں بے حد مقبول ہوچکا ہے اوریہ البم رواں برس کے وسط میں بھارت اورپاکستان سمیت دنیا کے بیشترممالک میں بیک وقت ریلیزکیا جائے گا۔ ایک طرف توبھارت میں کام کرنے کا تجربہ بہت اچھا رہااور دوسری جانب بھارت میں جہاں جہاں بھی ہمیں پرفارم کرنے کاموقع ملا لوگوں نے ہمیں بہت پیارکیا، جس کوبیان کرنے کے لئے الفاظ کم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم خالہ زاد بہنیں ہیں اورامریکہ میں دوران تعلیم اپنی تنہائی کوکم کرنے کیلئے گٹارپرگیت گاتے رہتے تھے۔ حانیا گٹاربجاتی اورمیں پاکستان اوربھارت کے عظیم گائیکوں کے صدابہارگیت گایا کرتی۔ تنہائی ماحول کچھ ہی دیر میں بدل جاتا اورہمارے بہت سے ساتھی طالبعلم کمرے میں اکھٹے ہوجاتے۔ اسی دوران ہم نے ایک ویڈیو تیارکی جس کو شادی کروانے والی ویب سائٹ پرڈائون لوڈ کر دیا لیکن جب ہم پاکستان پہنچے تووہ گیت یہاں کے پرائیویٹ ریڈیوچینل پرچلایا جارہا تھااوران کوخاصا پسند کیاجارہاتھا۔
اس رسپانس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنی فیملی کی سپورٹ کے ساتھ میوزک کو بطورپروفیشن اپنانے کا فیصلہ کیا۔ زیب نے بتایا کہ میرے والد کا تعلق پاک فوج اورحانیا کے والد بیوروکریٹ تھے۔ اس لئے ہم نے اپنی فیملی کواعتماد میں لے کرہی میوزک کواپنا پروفیشن بنایا اورفیملی کی جانب سے ہمیں مکمل تعاون ملا۔ زیب نے بتایاکہ وہ گزشتہ دس برس سے باقاعدہ استاد مبارک علی خاں سے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم حاصل کررہی ہیں جبکہ حانیا کا کہنا تھا کہ وہ گٹار، طبلہ اوررباب کی تربیت حاصل کرچکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے مختصر عرصہ کے دوران کوک سٹوڈیوکے دوسیزن میں پرفارم کیا اوراس کا زبردست رسپانس پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت اوردیگرممالک سے بھی آیا۔
اسی پروگرام کے بعد ہمیں بھارت میں پروگراموں کی آفرہوئی ۔ ہم نے بھارتی چینل کے پروگرام میں شانتنو اورسوانند کرکرے کے ساتھ مل کرایک گیت بنایا، جس کو بہت زیادہ سراہا گیا۔ بھارت میں یہ تاثربہت عام تھا کہ پاکستان میں خواتین گلوکارائیں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ہماری جوڑی کی اب وہاں مثالیں دی جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بھارت میں پاکستانی فنکاروںکو قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ معروف غزل گائیک استاد غلام علی جب بھارت جاتے ہیں تولوگ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں وہاں پر ابن انشا ء اوراحمد فرازکی شاعری کوبہت پسند کیا جاتا ہے۔ زیب اور حانیا نے مزید کہا کہ ہماری نانی جمشیدہ بیگم اردو ، پشتواور فارسی میں شاعری کرتی ہیں۔ان کی شخصیت نے ہمیں بہت متاثر کیا اوران کی وجہ سے ہمیں شعروادب اور فنون سے خاصا لگائورہا۔ انٹرویوکے آخرمیں زیب اورحانیا کا کہنا تھا کہ میوزک کے ذریعے لوگوں کو انٹرٹین کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں امن کا پیغام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوگا۔