اس وقت ڈراما نہیں ڈراما بازی ہورہی ہے
لگتا ہے اب انڈسٹری کو میری ضرورت نہیں ہے اس وقت ڈراما انڈسٹری کو جن افراد کی ضرورت ہے وہ کام کررہے ہیں۔
پاکستان کے سینئر اداکار گلاب چانڈیو نے زندگی کے 35 برس فلم،ڈراما اور تھیٹر کو دیا۔
ان کے بے شمار ڈراموں نے عالمی شہرت حاصل کی 80ء اور 90ء کی دہائی میں گلاب چانڈیو نے ڈراما انڈسٹری میں راج کیا۔ گلاب چانڈیو کے مقبول ترین ڈراموں میں ''چاند گرہن''، ''غلام''،''زینت''، ''روش''و دیگر شامل ہیں۔ ڈراموں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انھوں نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اور ''سرگم'' ''طوبہ'' ''الزام'' جیسی خوبصورت فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 35سال تک اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر دنیا میں خود کو منوانے والا فنکار آج مایوسی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈراما، فلم اور تھیٹر ختم ہوچکا ہے۔ آیئے ان سے گفتگو کرتے ہیں ۔
سوال:۔آج کل آپ ڈراما انڈسٹری سے دور ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب:۔مجھے لگتا ہے اب انڈسٹری کو میری ضرورت نہیں ہے اس وقت ڈراما انڈسٹری کو جن افراد کی ضرورت ہے وہ کام کررہے ہیں جب مجھے یاد کیا تو میں نے اپنی بھر پورتوانائی کے ساتھ انھیں وقت دیاہے مگر اب جو لوگ انڈسٹری میں کام کررہے ہیں وہ اتنے بد مزاج ہیں کہ سینئرز کو برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔
سوال:۔کیا نئے فنکاروں نے سینئر فنکاروں کو رد کردیا ہے؟
جواب:۔ہاں مجھے ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ اب وگ والے فنکار چھاگئے ہیں ،فردوس جمال ،قوی خان، آصف رضا میر، گلاب چانڈیوکے ساتھ کام کرنے میں نئے فنکاروں کو شرم آتی ہے اس وقت جس معیار کا کام ہورہا ہے اس میں ہم اکثر انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور نئے لڑکے لڑکیوں کو برا لگتا ہے۔
سوال:۔ڈراما انڈسٹری اس وقت کن مسائل کا شکار ہے؟
جواب:۔ہمارے فنکار زبان پرستی ،قوم پرستی، گروپ بندی کا شکار ہیں۔ سندھی فنکار ،پنجابی اور پنجابی فنکار سندھی کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔
سوال:۔آپ آج کے ڈرامے سے مطمئن ہیںِ؟
جواب:۔نہیں اس وقت ڈراما نہیں ڈرامے بازی ہورہی ہے جب پاکستان میں اچھا ڈراما لکھنے والے تھے تو فنکار بھی معیاری کام کرتے تھے اب لکھنے والے بھی ماٹھے ہیں اور کام تو اتنا گھٹیا ہے کہ ہمیں شرم آتی ہے۔
سوال:۔نئے فنکار کیسا کام کررہے ہیں؟
جواب:۔کون سے نئے فنکار پاکستان ڈراما انڈسٹری میں نئے فنکار مدت ہوئی نہیں آئے ،اب صرف گشتی فنکار کام کررہے ہیں جنہیں اپنی اور ملک کی عزت کاکوئی پاس نہیں ہے صرف پیسہ ان کا دین مذہب ہے اور اسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
سوال:۔آپ نے جب اپنے کیرئر کا آغاز کیا تو کیسا ماحول تھا؟
جواب:۔میں نے جس وقت ڈراما انڈسٹری میں قدم رکھا تو ہمارے سینئرز نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہر لمحہ ہماری رہنمائی کی ہم بھی اپنے والدین کے بعد انھیں اپنا سر پرست مانتے تھے
سوال۔آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز کب کیا؟
جواب۔1980میں ہارون رند کا لکھا ہوا ڈراما تھا 'خان صاحب'اس سے میرے کیریئر کا آغاز ہوایہ سندھی ڈراما تھا جسے بعد میں 'چھوٹی سی دنیا'کے نام سے اردو میں بھی پیش کیا گیا اور میں نے اس میں بھی کام کیا اس طرح میرے کیریئر کا آغاز ہوا
سوال۔ابھی تک کتنے ڈراموں میں کام کرچکے ہیں؟
جواب۔ 75سے زائد اردو سیریل جب کے 8سیریز میں کام کرچکا ہوں اس کے علاوہ سندھی کے بے شمار ڈراموں میںکام کیا ہے آرٹ تھیٹر کا کوئی شمار ہی نہیں ہے اسکے لئے تو اتنا کام کرچکا ہوں
سوال :۔ گلاب چانڈیو شناخت کیسے بنی؟
سوال:۔ میری شناخت ویسے تو سندھی ڈراموں سے تھی مگر پاکستان کی حد تک ۔پاکستان سے باہر مجھے لوگ اصغر ندیم سید کے لکھے ہوئے کھیل 'چاند گرہن'سے پہچانے لگے۔
سوال ۔آپ نے فلموں میں بھی کام کیا اور ایک سندھی فلم میں آپ بطور ہیرو آئے یہ تجربہ کیسا رہا؟
جواب۔اکثر اپنا فلمی کیریئر یاد کرکے لطف اندوز ہوتا ہوں۔میں نے ویسے تو عدنان سمیع کی فلم 'سرگم' سنگیتا کی فلم 'طوبہ'اور محسن خان کے ساتھ ''الزام'' میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے مگر ایک یادگا فلم تھی جس میں بطور ہیرو مجھے جلوہ گر ہونے کا موقع ملا وہ تھی سندھی فلم 'موب شیدی'شاید یہ سندھی کی آخری فلم تھی اس کے بعد انڈسٹری تباہی کی طرف جاتی رہی۔
سوال۔فلم انڈسٹری کی زبوں حالی کا سبب کیا رہا؟
جواب۔ اس کا جواب بہت تلخ ہے دراصل ہمارے ملک میں فلم اور ڈرامے میں وہ لوگ کام کررہے ہیں جن کا آرٹ سے کوئی تعلق نہیں اداکار ندیم کو ہم نے فلم انڈسٹری میں اپنا دیوتا بنالیا تھا ایک دور میں اورآخر وہ ہی شخص اس انڈسٹری کی تباہی کا سبب بنا اس کے بعد اداکار شان نے اس کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے فلم کا خاتمہ کردیا جب کہ پاکستان میں بہت اچھے فنکار کام کرنے کے لئے پر تولے بیٹھے تھے مگر انھیں مواقع نہ مل سکے۔
سوال۔کیا فلم انڈسٹری بحال ہوسکتی ہے؟
جواب۔نہیں اب کبھی یہ معجزہ نہیںہوسکتا
سوال۔پاکستان میںبیرون ممالک کے ڈراموں اور فلموں سے کیا نقصان پہنچا؟
جواب۔کوئی نقصان نہیں پہنچا میں سمجھتا ہوں غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں پاکستان میں بڑی تعداد میں آنی چاہئیں تاکہ مقابلہ برقرار رہے۔
سوال۔آپ کو کون سا فنکار پسند ہے؟
جواب۔طلعت حسین،امیتابھ بچن
سوال۔کھانے میں کیا پسند ہے؟
جواب۔سب کچھ کھا لیتا ہوں اگر کبھی بہت موڈ ہو تو ہرن کا گوشت پسند ہے اسکا شکار کرنے جاتا ہوں پھر اسے کھاتا ہوں
سوال۔شاعری پسند ہے؟
جواب۔نہیں
سوال۔کھیل کون سا پسند ہے؟
جواب۔کرکٹ پسند تھا مگر اپنے کھلاڑیوں کو بکتا دیکھ کر نفرت ہوگئی ہے اس کھیل سے بھی
سوال۔موسیقی پسند ہے؟
جواب۔ہاں موسیقی پسند ہے میں اکثر مہدی حسن، نور جہاں،مہناز،اور محمد رفیع کو سنتا ہوں
سوال۔محبت کی ہے آپ نے؟
جواب۔ہاں محبت کی ہے اپنی بیوی سے مگر افسوس وہ مجھ سے جدا ہوگئی
سوال۔سیاستدان کون سا پسند ہے؟
جواب۔مجھے پیر صاحب پگاڑا بہت پسند ہیں انکی سیاست کا انداز دیکھ کر میں بہت کچھ سیکھتا ہوں
سوال۔کیا سیاست میں قدم رکھنے کا سوچا ہے کبھی؟
جواب۔یہ پرانا خواب ہے اور آئندہ ہونے والے ملکی الیکشن میں نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑونگا تاکہ ملک کو چور اور ڈاکووں سے نجات مل سکے۔
سوال۔نئے فنکاروں کو اپنے تجربے کی روشنی میں کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب۔نئے فنکاروں کو اتنا ہی کہونگا کہ اگر وہ خود سے سچے ہیں تو اس انڈسٹری میں قدم رکھیں ورنہ اسکا مذاق اڑانے کے لئے پہلے بہت سے لوگ کام کررہے ہیں ۔اور اگر واقعی سچے ہیں تو اپنے کام پر توجہ دیں اور کام حاصل کرنے کے لئے کسی کی منتیں نہ کریں اپنی صلاحیتوں کے بل پر لوگوں کی ضرورت بن جائیں ۔
ان کے بے شمار ڈراموں نے عالمی شہرت حاصل کی 80ء اور 90ء کی دہائی میں گلاب چانڈیو نے ڈراما انڈسٹری میں راج کیا۔ گلاب چانڈیو کے مقبول ترین ڈراموں میں ''چاند گرہن''، ''غلام''،''زینت''، ''روش''و دیگر شامل ہیں۔ ڈراموں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انھوں نے فلم انڈسٹری کا رخ کیا اور ''سرگم'' ''طوبہ'' ''الزام'' جیسی خوبصورت فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 35سال تک اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر دنیا میں خود کو منوانے والا فنکار آج مایوسی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈراما، فلم اور تھیٹر ختم ہوچکا ہے۔ آیئے ان سے گفتگو کرتے ہیں ۔
سوال:۔آج کل آپ ڈراما انڈسٹری سے دور ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب:۔مجھے لگتا ہے اب انڈسٹری کو میری ضرورت نہیں ہے اس وقت ڈراما انڈسٹری کو جن افراد کی ضرورت ہے وہ کام کررہے ہیں جب مجھے یاد کیا تو میں نے اپنی بھر پورتوانائی کے ساتھ انھیں وقت دیاہے مگر اب جو لوگ انڈسٹری میں کام کررہے ہیں وہ اتنے بد مزاج ہیں کہ سینئرز کو برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔
سوال:۔کیا نئے فنکاروں نے سینئر فنکاروں کو رد کردیا ہے؟
جواب:۔ہاں مجھے ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ اب وگ والے فنکار چھاگئے ہیں ،فردوس جمال ،قوی خان، آصف رضا میر، گلاب چانڈیوکے ساتھ کام کرنے میں نئے فنکاروں کو شرم آتی ہے اس وقت جس معیار کا کام ہورہا ہے اس میں ہم اکثر انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور نئے لڑکے لڑکیوں کو برا لگتا ہے۔
سوال:۔ڈراما انڈسٹری اس وقت کن مسائل کا شکار ہے؟
جواب:۔ہمارے فنکار زبان پرستی ،قوم پرستی، گروپ بندی کا شکار ہیں۔ سندھی فنکار ،پنجابی اور پنجابی فنکار سندھی کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہیں۔
سوال:۔آپ آج کے ڈرامے سے مطمئن ہیںِ؟
جواب:۔نہیں اس وقت ڈراما نہیں ڈرامے بازی ہورہی ہے جب پاکستان میں اچھا ڈراما لکھنے والے تھے تو فنکار بھی معیاری کام کرتے تھے اب لکھنے والے بھی ماٹھے ہیں اور کام تو اتنا گھٹیا ہے کہ ہمیں شرم آتی ہے۔
سوال:۔نئے فنکار کیسا کام کررہے ہیں؟
جواب:۔کون سے نئے فنکار پاکستان ڈراما انڈسٹری میں نئے فنکار مدت ہوئی نہیں آئے ،اب صرف گشتی فنکار کام کررہے ہیں جنہیں اپنی اور ملک کی عزت کاکوئی پاس نہیں ہے صرف پیسہ ان کا دین مذہب ہے اور اسی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
سوال:۔آپ نے جب اپنے کیرئر کا آغاز کیا تو کیسا ماحول تھا؟
جواب:۔میں نے جس وقت ڈراما انڈسٹری میں قدم رکھا تو ہمارے سینئرز نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہر لمحہ ہماری رہنمائی کی ہم بھی اپنے والدین کے بعد انھیں اپنا سر پرست مانتے تھے
سوال۔آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز کب کیا؟
جواب۔1980میں ہارون رند کا لکھا ہوا ڈراما تھا 'خان صاحب'اس سے میرے کیریئر کا آغاز ہوایہ سندھی ڈراما تھا جسے بعد میں 'چھوٹی سی دنیا'کے نام سے اردو میں بھی پیش کیا گیا اور میں نے اس میں بھی کام کیا اس طرح میرے کیریئر کا آغاز ہوا
سوال۔ابھی تک کتنے ڈراموں میں کام کرچکے ہیں؟
جواب۔ 75سے زائد اردو سیریل جب کے 8سیریز میں کام کرچکا ہوں اس کے علاوہ سندھی کے بے شمار ڈراموں میںکام کیا ہے آرٹ تھیٹر کا کوئی شمار ہی نہیں ہے اسکے لئے تو اتنا کام کرچکا ہوں
سوال :۔ گلاب چانڈیو شناخت کیسے بنی؟
سوال:۔ میری شناخت ویسے تو سندھی ڈراموں سے تھی مگر پاکستان کی حد تک ۔پاکستان سے باہر مجھے لوگ اصغر ندیم سید کے لکھے ہوئے کھیل 'چاند گرہن'سے پہچانے لگے۔
سوال ۔آپ نے فلموں میں بھی کام کیا اور ایک سندھی فلم میں آپ بطور ہیرو آئے یہ تجربہ کیسا رہا؟
جواب۔اکثر اپنا فلمی کیریئر یاد کرکے لطف اندوز ہوتا ہوں۔میں نے ویسے تو عدنان سمیع کی فلم 'سرگم' سنگیتا کی فلم 'طوبہ'اور محسن خان کے ساتھ ''الزام'' میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے مگر ایک یادگا فلم تھی جس میں بطور ہیرو مجھے جلوہ گر ہونے کا موقع ملا وہ تھی سندھی فلم 'موب شیدی'شاید یہ سندھی کی آخری فلم تھی اس کے بعد انڈسٹری تباہی کی طرف جاتی رہی۔
سوال۔فلم انڈسٹری کی زبوں حالی کا سبب کیا رہا؟
جواب۔ اس کا جواب بہت تلخ ہے دراصل ہمارے ملک میں فلم اور ڈرامے میں وہ لوگ کام کررہے ہیں جن کا آرٹ سے کوئی تعلق نہیں اداکار ندیم کو ہم نے فلم انڈسٹری میں اپنا دیوتا بنالیا تھا ایک دور میں اورآخر وہ ہی شخص اس انڈسٹری کی تباہی کا سبب بنا اس کے بعد اداکار شان نے اس کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے فلم کا خاتمہ کردیا جب کہ پاکستان میں بہت اچھے فنکار کام کرنے کے لئے پر تولے بیٹھے تھے مگر انھیں مواقع نہ مل سکے۔
سوال۔کیا فلم انڈسٹری بحال ہوسکتی ہے؟
جواب۔نہیں اب کبھی یہ معجزہ نہیںہوسکتا
سوال۔پاکستان میںبیرون ممالک کے ڈراموں اور فلموں سے کیا نقصان پہنچا؟
جواب۔کوئی نقصان نہیں پہنچا میں سمجھتا ہوں غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں پاکستان میں بڑی تعداد میں آنی چاہئیں تاکہ مقابلہ برقرار رہے۔
سوال۔آپ کو کون سا فنکار پسند ہے؟
جواب۔طلعت حسین،امیتابھ بچن
سوال۔کھانے میں کیا پسند ہے؟
جواب۔سب کچھ کھا لیتا ہوں اگر کبھی بہت موڈ ہو تو ہرن کا گوشت پسند ہے اسکا شکار کرنے جاتا ہوں پھر اسے کھاتا ہوں
سوال۔شاعری پسند ہے؟
جواب۔نہیں
سوال۔کھیل کون سا پسند ہے؟
جواب۔کرکٹ پسند تھا مگر اپنے کھلاڑیوں کو بکتا دیکھ کر نفرت ہوگئی ہے اس کھیل سے بھی
سوال۔موسیقی پسند ہے؟
جواب۔ہاں موسیقی پسند ہے میں اکثر مہدی حسن، نور جہاں،مہناز،اور محمد رفیع کو سنتا ہوں
سوال۔محبت کی ہے آپ نے؟
جواب۔ہاں محبت کی ہے اپنی بیوی سے مگر افسوس وہ مجھ سے جدا ہوگئی
سوال۔سیاستدان کون سا پسند ہے؟
جواب۔مجھے پیر صاحب پگاڑا بہت پسند ہیں انکی سیاست کا انداز دیکھ کر میں بہت کچھ سیکھتا ہوں
سوال۔کیا سیاست میں قدم رکھنے کا سوچا ہے کبھی؟
جواب۔یہ پرانا خواب ہے اور آئندہ ہونے والے ملکی الیکشن میں نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑونگا تاکہ ملک کو چور اور ڈاکووں سے نجات مل سکے۔
سوال۔نئے فنکاروں کو اپنے تجربے کی روشنی میں کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب۔نئے فنکاروں کو اتنا ہی کہونگا کہ اگر وہ خود سے سچے ہیں تو اس انڈسٹری میں قدم رکھیں ورنہ اسکا مذاق اڑانے کے لئے پہلے بہت سے لوگ کام کررہے ہیں ۔اور اگر واقعی سچے ہیں تو اپنے کام پر توجہ دیں اور کام حاصل کرنے کے لئے کسی کی منتیں نہ کریں اپنی صلاحیتوں کے بل پر لوگوں کی ضرورت بن جائیں ۔