اندھوں کی لوٹ مار
ہم مزید کسی اشارے کے تحت ملک کو تباہ و برباد کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
کسی پر وقار تقریب میں میزبان نے ایک ایسے گروپ کو بھی مدعو کیا ہوا تھا جو نابینا و بہرہ تھا، جب وہ گروپ دعوت میں پہنچ گیا تو ان میں سے ایک شخص کو خیال آیا کہ ہمیں کس طرح یہ پتہ چلے گا کہ کھانا ٹیبل پر لگ گیا اور لوگوں نے کھانا شروع کر دیا، چونکہ ہمارے گروپ کے جو چھ ساتھی ہیں وہ نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کی سننے کی بساط ہے، جس شخص کو خیال آیا تو وہ برابر میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو اشاروں کی زبان سے یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو گیا کہ اگر کھانا شروع ہو تو ہمیں ہاتھ کی کہنی مار کر اشارہ کر دینا تاکہ ہم بھی کھانا شروع کر دیں گے اور اسی طرح ہم یہ پیغام اپنے دوسرے ساتھی کو بھی دے دیں گے اور اس سے ہماری کسی بدتمیزی کی خبر نہ تو میزبان کو ہوگی اور نہ کسی دوسرے مہمان کو۔
آدھے سے زیادہ میز پر کھانا لگ چکا تھا اور مزید کھانا لایا جا رہا تھا، اتفاق سے برابر والے شخص جس نے کہنی مار کر ان اندھوں اور بہروں کو کھانا شروع کرنے کا پیغام دینا تھا اس کی کہنی برابر والے اندھے سے ٹکرا گئی تو وہ یہ سمجھا کہ ہمیں کھانا شروع کرنے کی ہدایت مل گئی، اس نے کھانا شروع کر دیا بلکہ اپنے تمام ساتھیوں کو بھی کہنی مار کر کھانے کا اشارہ دے دیا اور یہ سب شروع ہو گئے، میزبان اور دیگر مہمان ان اندھوں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ برابر میں بیٹھے شخص کو غصہ آ گیا، اس نے اس اندھے اور بہرے شخص کو زور سے کہنی ماری کہ شاید وہ کھانا روک دیں لیکن وہ اندھے یہ سمجھے کہ لوگ اب بہت تیزی سے کھانا کھا رہے ہیں وہ سارے اندھے کھانے پر ٹوٹ پڑے، جس پر اس شخص کو مزید غصہ آ گیا اور اس نے اندھے کو ایک لات گھما کر ماری جس پر وہ سمجھا اب کھانے میں لوٹ مار ہو رہی ہے اور وہ سارے اندھے کھانے کی ساری ڈشیں لے کر رفو چکر ہو گئے اور وہ سارے دیگر مہمان اور میزبان منہ تکتے رہ گئے۔
یہی حال آج کل ہمارے حکمرانوں کا ہے، اگرچہ وہ اندھے اور بہرے نہیں ہیں، لیکن اندھے بہرے بن کر پورے ملک کی لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہیں۔ نہ ان کو کوئی چیز دکھائی دے رہی ہے اور نہ سنائی دے رہی ہے۔ لاچاری، بے روزگاری اور مفلسی کا دور دورہ ہے، ملک کو اس نہج پر لا کھڑا کر دیا ہے جہاں مظلوم و محکوم طبقہ غربت کی اس سطح پر پہنچ گیا جہاں وہ خودکشی کو اپنی زندگی کا بہترین حل سمجھنے لگا۔ بھوک، بیماری اور افلاس کے شکار لوگوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، پاکستان اکانومی واچ کے مطابق بے روزگاری کے شکار افراد کی تعداد پچاس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، آج سے 4 سال قبل ڈالر جو 60 روپے کا تھا اب 100 روپے تک پہنچنے کو ہے، پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی کو دہشت گردوں نے گزشتہ کئی سال سے یرغمال بنایا ہوا ہے، گزشتہ چند برسوں میں 5 ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے، کرپشن ہر جگہ منہ چڑھ کر بول رہی ہے، بلکہ اب تو کرپشن کی تحقیقات کرنیوالے مردہ پائے جا رہے ہیں اور نام خودکشی قرار دی جا رہی ہے، جیسا کہ حال ہی میں رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر کامران فیصل مردہ حالت میں پائے گئے۔
9/11 کے بعد امریکا کا ساتھ دینے پر بلین سے زائد ڈالر دیے گئے اور موجودہ حکمران بھی سیکڑوں ملین ڈالر عوام کی فلاح و بہود کے نام پر وصول کرتے رہے لیکن عوام کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی، کوئی پرسان حال نہیں، حکمراں ٹولہ وہی اپنی عیش و عشرت میں لگے ہوا ہے۔ ملک اب تک اﷲ توکل ہی چل رہا ہے۔ ملک 70 بلین ڈالر سے زائد کا مقروض ہو گیا ہے، آئی ایم ایف نے مزید قرضہ فراہم کرنے سے معذرت کر لی ہے جب کہ سوئس بینک میں ملک کا لوٹا ہوا 97 بلین ڈالر پڑا ہے، بینک کے ڈائریکٹر کہہ چکے ہیں کہ اس رقم سے پاکستان میں60 ملین افراد کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے۔
ایک غریب ملک کے سربراہ دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں، ہمارے چاروں پڑوسی ممالک ایران، افغانستان، چین اور بھارت کے سربراہوں میں سب سے زیادہ دولت مند سربراہ ہمارے ہیں جن کا سرمایہ 108 بلین ڈالر سے زائد بتایا جاتا ہے دوسرے نمبر پر چین کے ہوجن تاؤ ہیں جن کی ملکیت 2.7 بلین ڈالر ہے، یہ سرمایہ ان کے پاس برسر اقتدار میں آنے سے پہلے سے تھا، تیسرے نمبر پر افغان صدر حامد کرزئی ہیں جو طالبان کے خاتمے کے بعد امیر ترین اشخاص میں شمار ہونے لگے اور 12 ملین ڈالر کے سرمائے کے مالک بن گئے جب کہ افغان کسٹم نے دعویٰ کیا کہ ان کے دور حکومت میں 1.3 بلین ڈالر غیر قانونی طور پر افغانستان سے بیرون ملک منتقل ہوئے۔
تیسرے نمبر پر بھارت کے سربراہ من موہن سنگھ ہیں جو 10.73 کروڑ روپے کے مالک ہیں جب کہ سب سے غریب ترین شخص ایران کے صدر احمدی نژاد ہیں جن کا کل سرمایہ 175 اسکوائر میٹر پر ایک گھر تہران کے نواحی علاقے میں قائم ہے اور جو 40 سال پرانا ہے، ان کے پاس چیکنگ بینک اکاؤنٹ ہیں جو 5 ہزار ڈالر سے کم ہے، اپنی تنخواہ پر گزارا کرتے ہیں اور ایک پرانی گاڑی میں اپنے دفتر جاتے ہیں، اور ان میں اسرائیلی انٹیلی جنس کی ہدایت پر متعدد سائنسدانوں کی ہلاکت کے بعد اب ان کو سخت سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے لیکن اب بھی ان کی سیکیورٹی کے قافلے میں سو گاڑیاں نہیں چلتیں۔ ہمارے یہاں غریب عوام سیکڑوں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارے جا رہے ہیں اور ہمارے لیڈر سیکڑوں گاڑیوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ ملک میں بدنظمی کا دور دورہ ہے، سیاسی جماعتیں اختلاف کا شکار ہیں، عالمی میڈیا میں ہمارے تاریک مستقبل پر پھر چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں پھر ایک مرتبہ ناکام ریاست کی پیشگوئی کا آغاز ہو چکا ہے۔
ہم ڈیموکریسی کے بچانے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، ہم بلوچستان اور قبائلی علاقوں کو کیا کراچی کو تباہی سے نہیں بچا پا رہے، ملک کی شہ رگ کو خون کی ہولی سے نہیں روک پا رہے۔ شیعہ، سنی، وہابی اور بریلوی کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں، تینوں اسٹیک ہولڈر جماعتوں نے پہلے سے پیغامات پرنٹ کیے ہوئے ہوتے ہیں جو میڈیا کو وقفے وقفے سے جاری کیے جاتے رہتے ہیں، جو قارئین بھی اکثر و بیشتر سنتے یا پڑھتے چلے آ رہے ہیں، مثلاً دہشت گردوں کی کارروائی کی شدید مذمت، دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان، ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم، کمیٹی کی تشکیل جو تحقیقات کرے گی، عزیز و اقارب کو تعزیت کا پیغام اور اس کے علاوہ ایک دن یا تین دن سوگ کا اعلان، لیکن آج تک کسی دہشت گرد کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا سکا، دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اب عوام کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ ایسے لیڈروں کو نہ بلائیں جو دانستہ طور پر اندھے اور بہرے بنے رہیں، ایسے مہمانوں کو بلانے سے گریز کرنا چاہیے۔
ورنہ یہ ملک کو مزید لوٹ کھسوٹ کر فرار ہو جائیں گے، ہم تباہ و برباد ہو کر منہ تکتے رہ جائیں گے اور اپنی قسمت پر آنسو بہاتے رہیں گے کہ پیارے وطن کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ وہ برباد کر دیا۔ اب ہم مزید کسی اشارے کے تحت ملک کو تباہ و برباد کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔