ادبی افق پر
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
ISLAMABAD:
ادبی افق پر خوبصورت تخلیقات، قابل ذکر جرائد اور پرکشش و یادگار تقریبات آئے دن ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں، ان ہی تخلیقی کتب میں کچھ کتابیں ذہن کے گوشوں میں محفوظ رہتی ہیں، اچھی اور معیاری کتابوں میں ایک کتاب ''کارِ شیشہ گری'' کے عنوان سے پچھلے دنوں شایع ہوئی تھی، کتاب کے مصنف بزرگ شاعر صدیق فتح پوری ہیں، یہ شعری مجموعہ ہے۔ کارِ شیشہ گری سے چند حمدیہ اشعار:
خدایا تو ہمیشہ سے، محبت ہی محبت ہے... زمین و آسمان کے درمیاں، الفت ہی الفت ہے... غریبوں، بے کسوں کے واسطے دل میں ترے، کتنی محبت ہے... کوئی اندازہ کر سکتا نہیں اس کا، خدا حیّ و قیوم ہے، سوا اس کے جو بھی ہے، معدوم ہے... وہ چاہے تو دریا کو قطرہ کرے، ہمالہ کو پل بھر میں رائی کرے... ازل سے ابد تک یہ ہے سلسلہ، جو چاہے کرے اس کا فیصلہ... بعید اس کی قدرت سے کچھ بھی نہیں، کہ مالک و مختار، تنہا ہے وہ... ہمیں چاہیے اس کی اطاعت کریں، شب و روز دل سے عبادت کریں... اسی سے ملے گا دل کو قرار، صدا آرہی ہے یہی بار بار... خدا حیّ و قیوم ہے، سوا اس کے جو بھی ہے، معدوم ہے۔
نعت کے تین شعر، ربیع الاول کی مناسبت سے قارئین کی نذر۔
دور تاریکی ہوئی، نور کا ہالہ پھیلا
آپ آئے تو زمانے میں اجالا پھیلا
علم و حکمت سے مزین ہوئے جب شاہ زمن
شہر میں گاؤں میں قرآں کا حوالہ پھیلا
شرق میں غرب میں اصحاب نبیؐ پھیل گئے
ان کی کوشش سے بھی اسوہ شہ والا پھیلا
معجزہ ہے یہ شہر کون و مکاں کا زندہ
کم سے کم وقت میں یہ دین نرالا پھیلا
یہ شعری مجموعہ حمد و نعت کے ساتھ ساتھ غزلیات اور نظموں سے مزین ہے۔ ہمارے بزرگ شاعر محترم صدیق فتح پوری کی شاعری میں خیال کی نکہت خلوص کی چاشنی، راستی اور خوشبو مہک رہی ہے۔ لفظوں کے برجستہ استعمال نے ندرت خیال کو وقعت بخشی ہے۔
پریس کلب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ہمیشہ سے بلا تعصب، خلوص دل کے ساتھ ادبی تقریبات کا انعقاد کرتا ہے، گزشتہ ایام میں کئی یادگار اور شاندار مجالس منعقد ہوئیں لیکن اس کا احوال چند سطور کے بعد کریں گے پہلے ہم ''اجمال'' کا تذکرہ کرتے چلیں، یہ سہ ماہی رسالہ ہے۔ بڑی محنت، لگن اور ادب سے بے پایاں محبت کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ اجمال میں وہ سب تحریریں موجود ہیں جسے ادب کا قاری پڑھنا چاہتا ہے۔ پریس کلب کی لائبریری کمیٹی نے ''شام افسانہ'' کے حوالے سے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا۔ اس کی تقریب و پیشکش میں جناب زیب اذکار، اسرار حسین، موسیٰ کلیم کے اسم گرامی نمایاں تھے، نظامت کے فرائض انجام دیے تھے۔
تقریب کی خصوصیت یہ تھی کہ اس روایت کو توڑا گیا تھا جس کے تحت نامور اور معتبر افسانہ نگار اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں۔ زیب اذکار اور ان کے ساتھیوں نے جن کا تعلق لائبریری ادبی کمیٹی سے ہے، ان لوگوں کو متعارف کرایا تھا، جنھیں ہم یا تو بالکل ہی نہیں جانتے ہیں یا بہت کم ان کی تخلیقات کو پڑھنے یا سننے کا موقع ملا ہے۔ لیکن ساتھ میں وہ افسانہ نگار بھی اس سہانی شام کا حصہ بنے جو ادبی دنیا میں شناخت رکھتے ہیں۔ تقریب کی صدارت شہناز پروین نے کی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے راقم السطور نے شرکت کی جب کہ پروفیسر علی حیدر ملک مہمان اعزازی کے طور پر تشریف لائے تھے، صاحب صدر، مہمان اعزازی و خصوسی نے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔
افسانہ نگاروں میں علی بابا، اقبال خورشید، جبار جعفر، احتشام انور وغیرہ کے نام شامل تھے۔ جب کہ کئی افسانہ نگار ایسے بھی تھے جو صاحب کتاب تھے اور عرصہ دراز سے لکھ رہے ہیں انھی میں زیب اذکار، مسرت افزا روحی، ڈاکٹر ارشاد جاوید رضوی کے نام قابل ذکر ہیں۔ موسیٰ کلیم نے بھی اپنا افسانہ، خوشی، محبت، خریدار سنا کر حیران کر دیا۔ چونکہ انھوں نے افسانے لکھنے کی ابتدا کی ہے جو کہ خوشگوار حیرت ثابت ہوئی۔ زیب اذکار کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ ان کا انداز سخن دوسرے افسانہ نگاروں کی تحریروں سے جداگانہ ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ دور کی کوڑی لاتے ہیں اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ ''حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے'' اس موضوع پر انھوں نے اپنا افسانہ نذر سامعین کیا اور سب کو حیران کر دیا کہ محاوروں کا استعمال اس قدر ہنر مندی کے ساتھ کیا تھا کہ تسلسل برقرار رہا۔ مسرت افزا رومی نے اپنا افسانہ ''کافر'' سنایا، اس سے کہیں زیادہ اچھے افسانے وہ لکھ چکی ہیں اور ایک بار گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں افسانہ سنایا تھا جو یادگار ثابت ہوا۔ ذکر گوئٹے انسٹیٹیوٹ کا آیا ہے تو جناب شمیم منظر کا نام ضرور یاد آئے گا چونکہ شمیم منظر وہاں جرمن زبان کے استاد تو ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ ادبی پروگرام بھی ہر ماہ پابندی کے ساتھ کرتے ہیں اور اس بات میں شک نہیں کہ بہت شاندار اور کامیاب پروگرام منعقد کراتے رہے ہیں، جرمن ادب کے تراجم کا سہرا بھی شمیم منظر کے سر بندھتا ہے، ہر ماہ باقاعدگی سے ایک جرمن افسانے یا جرمن شاعری کا ترجمہ کر کے نشست میں سناتے ہیں اور داد وصول کرتے ہیں، شمیم منظر نے فیض احمد فیض کی نظموں کا ترجمہ ''جب تیری سمندر آنکھوں میں'' کے عنوان سے کیا ہے، جو کتابی شکل میں شایع ہو گئی ہے اور اس کی تقریب تعارف گوئٹے انسٹیٹیوٹ میں ہوئی۔ تقریب کی مہمان خصوصی فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی تھیں۔ انھوں نے بے حد خلوص کے ساتھ کتابوں پر دستخط کیے اور یہ نسخے شعر اور ادباء میں تقسیم کیے گئے، مذکورہ کتاب کے متراجم میں شمیم منظر کے ساتھ مارکوس لسٹز کا نام بھی شامل ہے۔ فیض احمد فیض کی نظموں کا انگلش میں ترجمہ جسے خصوصی نفاست کے ساتھ کیا گیا ہے، ایک طرف اردو شاعری ہے تو دوسری طرف اس کا ترجمہ ہے اور بہت خوبصورت اشعار کا انتخاب ان کے ذوق سلیم کی نشاندہی کرتا ہے۔ چند اشعار کتب فیض سے:
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراوں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
(نقش فریادی ۔1941ء)
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا' کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
(دست صبا۔1953)
اس تشدد زدہ ماحول میں جو تھوڑا سا سکھ ہے وہ دینی و ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ورنہ سکھ کی چھاؤں کو چھیننے میں کسی بھی قسم کی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔