اور دیکھو ذرا آئینہ
روزانہ 15 ارب روپے خردبرد ہوتے ہیں مگر کراچی میں جل کر مرنے والےمزدوروں کے قاتلوں کا تعین ہوتا ہے اور نہ سزا ہوتی ہے۔
لاہور:
اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ کینیڈا کی صورت حال دیکھو، ویلفیئر اسٹیٹ ہے، بیروزگاری ہے اور نہ غربت۔ جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ غربت کے خلاف کینیڈا میں عوام اکثر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ 18 جنوری 2013ء کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں غربت کے خلاف عوام کا سمندر اُمڈ آیا۔ مظاہرین نے امریکا جانے والی مرکزی شاہراہ بند کر دی۔ خراب معاشی حالات اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے ڈرم بجا کر حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کے باعث پانچ صوبوں میں مختلف مقامات پر ریلوے، سڑکیں اور پل بند ہو گئے۔
ٹریفک کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔ اسی طرح کا واقعہ ایران کے شہر تہران، شیراز، زاہدان اور اصفہان میں ہوا۔ گزشتہ دنوں اصفہان اسٹیل مل کے ہزاروں مزدوروں نے ہڑتال کی مگر مزدور دشمن حکمرانوں نے تنخواہوں میں اضافہ اور سال کا ایک بونس کا مطالبہ نہیں مانا۔ اس وقت ایران میں 18 ہزار ریال (ایرانی کرنسی) کا ایک ڈالر ہے۔ ایک روٹی 300 ریال کی ہے۔ بیروزگاری 7.3 فیصد ہے۔ پاکستان کو بجلی دینے کے لیے ایران تیار ہے لیکن ایران کی پانچ سرکاری بجلی کمپنیوں کو سامراجیوں کے ہاتھوں فروخت کیا گیا۔ علاقوں، شہروں اور ملکوں کے نام بدلنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر گزشتہ سال سرحد کا نام پختونخوا رکھا گیا مگر مسائل جوں کے توں ہیں۔ حکمرانوں کی لوٹ مار میں مزید اضافہ ہوا ہے اور غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صوبائی سیکریٹریٹ سمیت تمام سرکاری دفاتر کے زیر استعمال گاڑیوں کی مجموعی تعداد 3 ہزار ہے، جس کے ماہانہ پٹرول اور ڈیزل کا خرچہ ساڑھے چار کروڑ اور مرمت کا خرچہ 50 لاکھ روپے ہے جب کہ پٹرول اور مرمت کا سالانہ خرچہ 1 ارب 20 کروڑ روپے ہے۔ سرمایہ دارانہ قانون کے مطابق گریڈ 17 کے افسران کو سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے اور گریڈ 18 اور اس کے اوپر کے افسران کو سرکاری گاڑیاں صرف انھیں پک اینڈ ڈراپ کے لیے دی جاتی ہیں لیکن 80 فیصد گریڈ 17 کے افسران کے پاس بھی سرکاری گاڑیاں ہیں۔
ایک جانب حکمرانوں کے اخراجات نہ صرف شاہی ہیں بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ دوسری جانب شہریوں کی جان کی حفاظت بھی نہیں کر پاتے۔ گزشتہ دنوں خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں 18 افراد کا قتل ہوا۔ اس قتل کے خلاف دوسرے روز بھی پشاور پریس کلب کے سامنے طلبا اور قبائلیوں نے احتجاج کیا۔ انھیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ہوائی فائرنگ، شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا جس سے متعدد طلبا زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے پولیس کی جانب سے گزشتہ رات گورنر ہاؤس کے سامنے لاشوں کے ساتھ دھرنا دینے والوں پر واٹر کینن سے پانی، آنسو گیس، شیل پھینکنے اور لاٹھی چارج کرنے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ اور پشاور پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا۔ مظاہرین نے اس سے قبل ہشتنگری سے پشاور پریس کلب تک ریلی نکالی جس کی وجہ سے شیرشاہ سوری روڈ میدان جنگ بنا رہا۔ پولیس نے 50 سے زائد طلبا کو گرفتار کر لیا۔ بعدازاں کامیاب مذاکرات کے بعد لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئیں۔
26 نومبر سے 26 دسمبر 2012ء کے دوران ملک بھر میں 115 افراد نے خودکشی کی جن میں 32 خواتین شامل تھیں۔ اسی عرصے کے دوران 44 افراد نے خودکشی کرنے کی کوشش کی جنھیں طبی امداد دے کر بچا لیا گیا۔ اقدام خودکشی کرنے والوں میں 20 خواتین شامل ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں 65 افراد نے گھریلو جھگڑوں اور مسائل سے تنگ آ کر اور 19 نے معاشی تنگدستی سے مجبور ہو کر خودکشی کی۔ 43 نے زہر کھایا، 27 نے خود کو گولی ماری اور 23 نے گلے میں پھندا ڈال کر جان دی۔ خودکشی اور اقدام خودکشی کے 159 واقعات میں سے صرف 13 کی ایف آئی آر درج ہوئیں۔ 21 نومبر سے 24 دسمبر 2012ء میں 23 خواتین اور 6 مردوں کو کاروکاری کا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔
15 نومبر سے 18 دسمبر 2012ء تک 10 افراد کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں 7 خواتین شامل ہیں۔ 5 واقعات کے مقدمات درج اور صرف 6 واقعات میں ملوث افراد گرفتار ہوئے۔ اس کے علاوہ دو اہم واقعات بیان کرنا ضروری ہیں اس لیے کہ یہ دل دہل ادینے والے واقعات ہیں۔ فیصل آباد کا گل نواز چک نمبر 228 کا رہائش پذیر ہے اس کے گاؤں کے چوہدری محمد اعظم نے نواز شریف کے دوسرے دور میں لڑکیوں کا پرائمری اسکول بند کروا دیا تھا۔ گل نواز کے احتجاج پر آصف علی زرداری کے دور میں اسکول کھولا گیا۔ گل نواز نے چوہدری کے کہنے پر ووٹ نہیں دیا۔ اس پر چوہدری نے اس کے گھر والوں کو دھمکا کر گھر سے بھگا دیا۔
گل نواز کے بچے جوان ہیں، اس کی بوڑھی ماں رانی، جس کی عمر 60 سال تھی، کو گاؤں کے چوہدری نے اپنے کارندوں سے اغوا کروا لیا اور بعد ازاں اسے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا، پھر بوڑھے باپ ملاح خان جس کی عمر 75 سال تھی کو چوہدری نے زہریلی دوائیاں دے کر مروا دیا۔ چوہدری نے اپنے کارندوں کو شہید ملاح خان کے بیٹے کے پیچھے لگا دیا ہے۔ گل نواز پولیس کے پاس گیا، ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش کی مگر پولیس نے اس کی ایک نہ سنی۔ وہ اس سلسلے میں اعلیٰ حکام کو درخواست بھیج چکا ہے، مگر سب کچھ بے نتیجہ نکلا۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ خیرپور سیٹھارجہ کے ایک 17 سالہ لڑکے رمضان کو 49 سالہ بوڑھی خاتون نسیمہ کے ساتھ کاروکاری کے جھوٹے الزام میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے خلاف مقتول لڑکے رمضان کے والد محمد احمد نے ملزمان غلام دستگیر اور غلام نبی ولد قابل لُونڈ کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف منسٹر سندھ سمیت کئی اعلیٰ حکام کو درخواستیں بھیجی ہیں جب کہ ڈی آئی جی سکھر ڈویژن نے گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے ہیں اس کے باوجود اب تک ملزم گرفتار نہیں ہو پائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان حیوان نما قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، مگر اس بے ہودہ، ظالم سرمایہ دارانہ نظام میں یہی ہو سکتا ہے۔
ایسے واقعات کوئی انوکھے نہیں ہیں، روز کا معمول ہیں۔ اس دنیا میں 50 ہزار انسان روز بھوک سے مرتے ہیں، ہزاروں غلاموں کو قتل کر کے ان کے خون سے دیوار چین کو مضبوط بنایا گیا۔ اہرام مصر بنانے والے محنت کشوں کو روٹی کے ساتھ پیاز تک نہیں ملتی تھی۔ تاج محل بنانے والے 22 ہزار مزدوروں میں 2 ہزار مر گئے اور اس عمل میں انڈیا میں قحط پڑا۔ انارکلی کو دیوار میں چنا گیا اور شہزادہ سلیم کو نہیں۔
ایک خلیجی بادشاہ کی بیٹی ایک کیمرہ مین سے عشق کرنے پر کیمرہ مین کی گردن زنی ہوئی مگر بیٹی محفوظ رہی۔ امن و امان کے لیے روزانہ 10 ارب روپے اور کرپشن پر 15 ارب روپے خرد برد ہوتے ہیں مگر بلدیہ کراچی میں جل کر مرنے والے 300 مزدوروں کے قاتلوں کا تعین ہوتا ہے اور نہ سزا ہوتی ہے۔ طاہر القادری کے کنٹینر پر مذاکرات ہوتے ہیں لیکن باڑہ میں 18 لاشوں کو لے کر مظاہرہ کرنے والوں پر گیس، گولے، پانی، شیل اور لاٹھی چارج کیا جاتا ہے۔ حبیب جالب نے درست کہا کہ ''اوجھڑی کیمپ میں لوگ مرے تو مرگئے، جتنے ڈاکو مرے، چنگیز مرے، ہلاکو مرے شہید ہوئے۔''
دنیا کے امیر ترین انسانوں میں کینیڈا کے بھی 2 امیر ترین آدمی شامل ہیں جب کہ عام لوگ بے روزگاری کی آگ میں تڑپ رہے ہیں۔ پختونخوا میں صرف سرکاری گاڑیوں پر سالانہ ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں تو دوسری جانب لاکھوں افغان اور پختون بچے کچرا چنتے نظر آتے ہیں۔ جب محنت کش ان ریاستی جبر اور بندھنوں کو توڑ کر سائنسی انداز میں دور وحشت کی طرح امداد باہمی کا راج قائم کریں گے، جہاں دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہو گی، تب جا کر یہ ظلم و ستم ختم ہو گا۔ ہم محنت کش جب اپنا حصہ مانگیں گے، ایک کھیت نہیں، ایکڑ زمین نہیں ساری دنیا مانگیں گے۔
اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ کینیڈا کی صورت حال دیکھو، ویلفیئر اسٹیٹ ہے، بیروزگاری ہے اور نہ غربت۔ جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ غربت کے خلاف کینیڈا میں عوام اکثر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ 18 جنوری 2013ء کو کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں غربت کے خلاف عوام کا سمندر اُمڈ آیا۔ مظاہرین نے امریکا جانے والی مرکزی شاہراہ بند کر دی۔ خراب معاشی حالات اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے ڈرم بجا کر حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کے باعث پانچ صوبوں میں مختلف مقامات پر ریلوے، سڑکیں اور پل بند ہو گئے۔
ٹریفک کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔ اسی طرح کا واقعہ ایران کے شہر تہران، شیراز، زاہدان اور اصفہان میں ہوا۔ گزشتہ دنوں اصفہان اسٹیل مل کے ہزاروں مزدوروں نے ہڑتال کی مگر مزدور دشمن حکمرانوں نے تنخواہوں میں اضافہ اور سال کا ایک بونس کا مطالبہ نہیں مانا۔ اس وقت ایران میں 18 ہزار ریال (ایرانی کرنسی) کا ایک ڈالر ہے۔ ایک روٹی 300 ریال کی ہے۔ بیروزگاری 7.3 فیصد ہے۔ پاکستان کو بجلی دینے کے لیے ایران تیار ہے لیکن ایران کی پانچ سرکاری بجلی کمپنیوں کو سامراجیوں کے ہاتھوں فروخت کیا گیا۔ علاقوں، شہروں اور ملکوں کے نام بدلنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر گزشتہ سال سرحد کا نام پختونخوا رکھا گیا مگر مسائل جوں کے توں ہیں۔ حکمرانوں کی لوٹ مار میں مزید اضافہ ہوا ہے اور غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صوبائی سیکریٹریٹ سمیت تمام سرکاری دفاتر کے زیر استعمال گاڑیوں کی مجموعی تعداد 3 ہزار ہے، جس کے ماہانہ پٹرول اور ڈیزل کا خرچہ ساڑھے چار کروڑ اور مرمت کا خرچہ 50 لاکھ روپے ہے جب کہ پٹرول اور مرمت کا سالانہ خرچہ 1 ارب 20 کروڑ روپے ہے۔ سرمایہ دارانہ قانون کے مطابق گریڈ 17 کے افسران کو سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے اور گریڈ 18 اور اس کے اوپر کے افسران کو سرکاری گاڑیاں صرف انھیں پک اینڈ ڈراپ کے لیے دی جاتی ہیں لیکن 80 فیصد گریڈ 17 کے افسران کے پاس بھی سرکاری گاڑیاں ہیں۔
ایک جانب حکمرانوں کے اخراجات نہ صرف شاہی ہیں بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ دوسری جانب شہریوں کی جان کی حفاظت بھی نہیں کر پاتے۔ گزشتہ دنوں خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں 18 افراد کا قتل ہوا۔ اس قتل کے خلاف دوسرے روز بھی پشاور پریس کلب کے سامنے طلبا اور قبائلیوں نے احتجاج کیا۔ انھیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ہوائی فائرنگ، شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا جس سے متعدد طلبا زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے پولیس کی جانب سے گزشتہ رات گورنر ہاؤس کے سامنے لاشوں کے ساتھ دھرنا دینے والوں پر واٹر کینن سے پانی، آنسو گیس، شیل پھینکنے اور لاٹھی چارج کرنے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ اور پشاور پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا۔ مظاہرین نے اس سے قبل ہشتنگری سے پشاور پریس کلب تک ریلی نکالی جس کی وجہ سے شیرشاہ سوری روڈ میدان جنگ بنا رہا۔ پولیس نے 50 سے زائد طلبا کو گرفتار کر لیا۔ بعدازاں کامیاب مذاکرات کے بعد لاشیں ورثا کے حوالے کر دی گئیں۔
26 نومبر سے 26 دسمبر 2012ء کے دوران ملک بھر میں 115 افراد نے خودکشی کی جن میں 32 خواتین شامل تھیں۔ اسی عرصے کے دوران 44 افراد نے خودکشی کرنے کی کوشش کی جنھیں طبی امداد دے کر بچا لیا گیا۔ اقدام خودکشی کرنے والوں میں 20 خواتین شامل ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں 65 افراد نے گھریلو جھگڑوں اور مسائل سے تنگ آ کر اور 19 نے معاشی تنگدستی سے مجبور ہو کر خودکشی کی۔ 43 نے زہر کھایا، 27 نے خود کو گولی ماری اور 23 نے گلے میں پھندا ڈال کر جان دی۔ خودکشی اور اقدام خودکشی کے 159 واقعات میں سے صرف 13 کی ایف آئی آر درج ہوئیں۔ 21 نومبر سے 24 دسمبر 2012ء میں 23 خواتین اور 6 مردوں کو کاروکاری کا الزام لگا کر قتل کیا گیا۔
15 نومبر سے 18 دسمبر 2012ء تک 10 افراد کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں 7 خواتین شامل ہیں۔ 5 واقعات کے مقدمات درج اور صرف 6 واقعات میں ملوث افراد گرفتار ہوئے۔ اس کے علاوہ دو اہم واقعات بیان کرنا ضروری ہیں اس لیے کہ یہ دل دہل ادینے والے واقعات ہیں۔ فیصل آباد کا گل نواز چک نمبر 228 کا رہائش پذیر ہے اس کے گاؤں کے چوہدری محمد اعظم نے نواز شریف کے دوسرے دور میں لڑکیوں کا پرائمری اسکول بند کروا دیا تھا۔ گل نواز کے احتجاج پر آصف علی زرداری کے دور میں اسکول کھولا گیا۔ گل نواز نے چوہدری کے کہنے پر ووٹ نہیں دیا۔ اس پر چوہدری نے اس کے گھر والوں کو دھمکا کر گھر سے بھگا دیا۔
گل نواز کے بچے جوان ہیں، اس کی بوڑھی ماں رانی، جس کی عمر 60 سال تھی، کو گاؤں کے چوہدری نے اپنے کارندوں سے اغوا کروا لیا اور بعد ازاں اسے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا، پھر بوڑھے باپ ملاح خان جس کی عمر 75 سال تھی کو چوہدری نے زہریلی دوائیاں دے کر مروا دیا۔ چوہدری نے اپنے کارندوں کو شہید ملاح خان کے بیٹے کے پیچھے لگا دیا ہے۔ گل نواز پولیس کے پاس گیا، ایف آئی آر کٹوانے کی کوشش کی مگر پولیس نے اس کی ایک نہ سنی۔ وہ اس سلسلے میں اعلیٰ حکام کو درخواست بھیج چکا ہے، مگر سب کچھ بے نتیجہ نکلا۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ خیرپور سیٹھارجہ کے ایک 17 سالہ لڑکے رمضان کو 49 سالہ بوڑھی خاتون نسیمہ کے ساتھ کاروکاری کے جھوٹے الزام میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے خلاف مقتول لڑکے رمضان کے والد محمد احمد نے ملزمان غلام دستگیر اور غلام نبی ولد قابل لُونڈ کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف منسٹر سندھ سمیت کئی اعلیٰ حکام کو درخواستیں بھیجی ہیں جب کہ ڈی آئی جی سکھر ڈویژن نے گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے ہیں اس کے باوجود اب تک ملزم گرفتار نہیں ہو پائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان حیوان نما قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جاتی، مگر اس بے ہودہ، ظالم سرمایہ دارانہ نظام میں یہی ہو سکتا ہے۔
ایسے واقعات کوئی انوکھے نہیں ہیں، روز کا معمول ہیں۔ اس دنیا میں 50 ہزار انسان روز بھوک سے مرتے ہیں، ہزاروں غلاموں کو قتل کر کے ان کے خون سے دیوار چین کو مضبوط بنایا گیا۔ اہرام مصر بنانے والے محنت کشوں کو روٹی کے ساتھ پیاز تک نہیں ملتی تھی۔ تاج محل بنانے والے 22 ہزار مزدوروں میں 2 ہزار مر گئے اور اس عمل میں انڈیا میں قحط پڑا۔ انارکلی کو دیوار میں چنا گیا اور شہزادہ سلیم کو نہیں۔
ایک خلیجی بادشاہ کی بیٹی ایک کیمرہ مین سے عشق کرنے پر کیمرہ مین کی گردن زنی ہوئی مگر بیٹی محفوظ رہی۔ امن و امان کے لیے روزانہ 10 ارب روپے اور کرپشن پر 15 ارب روپے خرد برد ہوتے ہیں مگر بلدیہ کراچی میں جل کر مرنے والے 300 مزدوروں کے قاتلوں کا تعین ہوتا ہے اور نہ سزا ہوتی ہے۔ طاہر القادری کے کنٹینر پر مذاکرات ہوتے ہیں لیکن باڑہ میں 18 لاشوں کو لے کر مظاہرہ کرنے والوں پر گیس، گولے، پانی، شیل اور لاٹھی چارج کیا جاتا ہے۔ حبیب جالب نے درست کہا کہ ''اوجھڑی کیمپ میں لوگ مرے تو مرگئے، جتنے ڈاکو مرے، چنگیز مرے، ہلاکو مرے شہید ہوئے۔''
دنیا کے امیر ترین انسانوں میں کینیڈا کے بھی 2 امیر ترین آدمی شامل ہیں جب کہ عام لوگ بے روزگاری کی آگ میں تڑپ رہے ہیں۔ پختونخوا میں صرف سرکاری گاڑیوں پر سالانہ ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں تو دوسری جانب لاکھوں افغان اور پختون بچے کچرا چنتے نظر آتے ہیں۔ جب محنت کش ان ریاستی جبر اور بندھنوں کو توڑ کر سائنسی انداز میں دور وحشت کی طرح امداد باہمی کا راج قائم کریں گے، جہاں دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہو گی، تب جا کر یہ ظلم و ستم ختم ہو گا۔ ہم محنت کش جب اپنا حصہ مانگیں گے، ایک کھیت نہیں، ایکڑ زمین نہیں ساری دنیا مانگیں گے۔