بھارت نے لوڈشیڈنگ پر کیسے قابو پایا
وطن عزیز میں سنگین بجلی بحران کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی منفرد تحقیقی رپورٹ۔
KARACHI:
دورجدید میں دو اشیا... تیل اور بجلی نے انسانی ترقی و زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھا ہوا ہے۔ چناں چہ انسان دونوں میں سے ایک شے سے محروم ہو تو کاروبارِ حیات ٹھپ سا ہوجاتا ہے۔ جب بھی موسم گرما آئے، تو بجلی کی قلت کے باعث لوڈشیڈنگ ہونے سے کروڑوں پاکستانی متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو کارخانوں، دکانوں، دفتروں میں روزانہ کمائی کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ان کے ذریعہ معاش کو ملیامیٹ کرڈالتی ہے۔
حیرت انگیز امر یہ کہ لوڈشیڈنگ نے ایسے ملک پر حملہ کررکھا ہے جہاں نظریاتی طور پر پانی، سورج ، ہوا اور کوئلے کے ذریعے سالانہ ''لاکھوں'' میگاواٹ بجلی بن سکتی ہے۔ گویا قدرت نے ارض پاک کو جی بھر کر قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ افسوس بس یہ کہ پاکستانی قوم کو باصلاحیت، اہل اور باشعور حکمران طبقہ میسر نہیں آسکا۔ راقم کو یاد ہے، تیس پینتیس سال قبل جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں پہلے پہل پاکستانی لوڈشیڈنگ کے عذاب کا نشانہ بنے تھے۔ تب سے حکمران طبقے کی نااہلی اور مستقبل سے پہلو تہی برتنے کے باعث پاکستانی قوم وقتاً فوقتاً اس عجیب و غریب عذاب میں مبتلا ہوکر تکالیف اٹھاتی چلی آرہی ہے۔
بجلی کی مقدار بڑھانے کی خاطر ہونا یہ چاہیے تھا کہ مزید ڈیم بنائے جاتے۔ یہ دنیا بھر میں بجلی پانے اور پانی بچانے کا سستا و سہل طریقہ ہے۔ مگر پاکستانی حکمرانوں نے تیل سے چلنے والے بجلی گھر لگانے کو ترجیح دی... حالانکہ ان بجلی گھروں میں سب سے مہنگی بجلی بنتی ہے۔ حکمرانوں نے ہر لحاظ سے نقصان دہ یہ فیصلہ کیوں اپنایا، سمجھ سے بالاتر ہے۔آج بھی پاکستان میں تیل سے چلنے والے بجلی گھروں میں ہی ہر سال کل بجلی کا ''33 تا 37 فیصد'' حصہ تیار ہوتا ہے۔ یہ بجلی بنانے کی خاطر پاکستان کو اربوں ڈالر کا تیل خریدنا پڑتا ہے۔ یوں نہ صرف ہمارا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا بلکہ درآمدات کا بل بھی آسمان پر جاپہنچتا ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق وطن عزیز میں گرمیوں میں بجلی کی طلب 19 تا 22 ہزار میگاواٹ کے درمیان رہتی ہے جبکہ حکومت پاکستان تمام وسائل بروئے کار لاکر 14 تا 15 ہزار میگاواٹ بجلی ہی بنا پاتی ہے۔ یوں چھ سات ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے کروڑوں پاکستانیوں پر لوڈشیڈنگ کا عذاب تھوپ دیا جاتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اس عذاب کا شکار نہیں ہوتا،اسے عموماً چوبیس گھنٹے بجلی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے، اسے بالکل احساس نہیں کہ عوام الناس لوڈشیڈنگ کے دوران کیسی پریشانیوں، تکالیف اور مصائب سے دوچار رہتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں سے کہیں بہتر کارکردگی بھارتی حکمران طبقے نے دکھائی۔ تقریباً تیس سال پہلے ہی بجلی کی طلب بڑھنے سے بھارتی شہروں میں لوڈشیڈنگ کرنا پڑی تھی۔ عوام کے احتجاج نے بھارتی حکمران طبقے کو چوکنا کردیا۔ چناں چہ وہ ملک کے طول و عرض میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر اور ڈیم بنانے لگے۔ بھارتی حکمران عیش و عشرت میں پڑ کر مست الست نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ملک و قوم کی بھلائی اور بہتر مستقبل کو مدنظر رکھا۔
نریندر مودی میں لاکھ خامیاں ڈھونڈ لیجیے مگر اسی بھارتی حکمران کی خاصیت یہ ہے کہ اس نے بھارت میں ''قابل تجدید توانائی'' کے ذرائع کو رواج دیا۔ جب وہ وزیراعلیٰ گجرات تھے، تو ریاست میں شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے فارم لگائے۔ وزیراعظم منتخب ہوئے تو دیگر بھارتی ریاستوں میں بھی فارم بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آٹھ ماہ قبل ریاست تامل ناڈو میں دنیا کا دوسرا بڑا شمسی فارم بجلی بنانا شروع کرچکا۔ یہ فارم پچیس سو ایکڑ پر محیط ہے اور اس میں ڈھائی لاکھ سولر موڈول نصب ہیں۔ یہ فارم 658 میگاواٹ بجلی بنائے گا۔
نریندر مودی کا ویژن یہ ہے کہ 2022ء تک بھارت 175 گیگاواٹ (ایک ہزار میگاواٹ برابر ایک گیگا واٹ) بجلی قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ یہی وجہ ہے اقتدارسنبھالتے ہی انہوں نے نجی شعبے کے تعاون سے شمسی توانائی، ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرنے والے سیکڑوں منصوبے شروع کردیئے۔
2013ء میں بھارت میں قابل تجدید توانائی سے تقریباً 2 گیگاواٹ بجلی بنتی تھی۔ مودی حکومت کے انقلابی اقدامات سے آج یہ عدد ''12 گیگاواٹ''( ایک لاکھ بیس ہزار میگاواٹ) تک پہنچ چکا۔آج بھارت عملی طور پر ''310 گیگاواٹ بجلی'' بنانے پر قادر ہے۔ جبکہ ملک میں بجلی کی طلب 170 گیگاواٹ ہے۔ یہی وجہ ہے جب اوائل 2017ء میں بھارت کی تاریخ میں پہلی بار فاضل بجلی پیدا ہوئی، تو فروری تا مارچ بھارتی حکومت نے بنگلہ دیش، نیپال اور میانمار کو 5798 میگاواٹ بجلی بیچ کر قیمتی زرمبادلہ کمایا۔
بھارت میں اب بھی خصوصاً دیہات میں آباد تقریباً 50 کروڑ شہری بجلی کی نعمت سے محروم ہیں۔ مودی حکومت چاہتی ہے کہ ان شہریوں کی ہر ممکن مدد کی جائے تاکہ وہ قابل تجدید ذرائع توانائی سے فائدہ اٹھا کر روزانہ اتنی بجلی ضرور حاصل کرلیں جو ان کی زندگی اور روزمرہ کام انجام دینا آسان بناسکے۔ شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی بہتر اور متعلقہ آلات سستے ہونے سے مودی حکومت کا کام آسان ہورہا ہے۔ اب چند ہزار روپے سے ایک گھر میں 40 واٹ کا شمسی پینل لگ جاتا ہے۔ یہ پینل روزانہ اتنی بجلی بناتا ہے کہ تین بلب جل سکیں۔ یوں ان کی روشنی میں اہل خانہ اس قابل ہو گئے کہ رات کو بھی کام کرسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں سائنس داں مصروف تحقیق ہیںکہ قابل تجدید ذرائع توانائی کی ٹیکنالوجیوں کو بہتر سے بہتر بناسکیں۔ مزید براں وہ آلات کا معیار اور کارکردگی بھی بہتر بنارہے ہیں۔ خصوصاً شمسی توانائی کے شعبے میں جاری زبردست تحقیق دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ 2025ء تک ایسے چھوٹے مگر معیاری شمسی نظام وجودمیں آجائیں گے جنہیں باسہولت گھروں میں نصب کیا جاسکے۔ یوں ایک بار خرچ کے بعد گھر والے بیس پچیس سال تک شمسی توانائی کی برکات سے مستفید ہوسکیں گے۔
مودی حکومت قابل تجدید ذرائع ایندھن سے مستفید ہوکر تیل و کوئلے کی درآمد کا خرچ بھی گھٹانا چاہتی ہے۔ مزید براں یہ دونوں ذرائع ایندھن سبزمکانی گیسیں بھی خارج کرتے ہیں جن سے عالمی آب وہوائی نظام کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے۔۔ ان سے ناتا توڑنے پر مودی حکومت کو یقین ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کو سراہا جائے گا۔
یاد رہے، بھارت اب بھی اپنی 60 فیصد سے زائد بجلی کوئلے کے بجلی گھروں سے بناتا ہے۔ بھارت کوئلہ پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ نیز وہ بڑی تعداد میں باہر سے بھی کوئلہ منگواتا ہے۔ بھارت میں دو سو سے زائد چھوٹے بڑے کوئلے کے بجلی گھر کام کررہے ہیں۔ نیز کئی نئے بجلی گھرزیر تعمیر ہیں۔ کوئلے کے بجلی گھروں کی کثرت کے باعث ہی بھارت دنیا میں آلودگی خارج کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا۔
دنیا میں بھارت کا مقام و مرتبہ باعزت و محترم بنانے کی خاطر بھی نریندر مودی کوئلے کے بجلی گھروں سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ تاہم چین سے بڑھتی کشیدگی ان کی پالیسی کوشکست دے کرسکتی ہے۔ دراصل بھارت چین ہی سے شمسی توانائی کے چھوٹے بڑے بجلی گھروں کے آلات مثلاً شمسی سیل، موڈول وغیرہ خریدتا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکا کے بنے آلات بہت مہنگے ہیں جبکہ بھارت کو چین سے یہ سستے داموں مل جاتے ہیں۔
شمسی توانائی کے سستے چینی ساختہ بجلی گھروں کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں اب ان سے بننے والی بجلی کوئلے کے بجلی گھروں میں بنتی بجلی سے سستی ہوچکی۔ بھارت میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر میں جنم لیتی ایک یونٹ بجلی کی ''تھوک'' قیمت 3.20 روپے ہے ۔جبکہ شمسی توانائی سے چلنے والے بجلی گھر میں ایک یونٹ 2.62 روپے میں دستیاب ہے۔ گویا بھارت میں شمسی توانائی سے بننے والی بجلی کوئلے کی نسبت سستی ہوچکی جو ایک بہت بڑا انقلاب ہے۔ مگر یہ انقلاب چین کی بدولت ہی برپا ہوا۔
بھارت میں شمسی سیل، موڈول اور شمسی توانائی کے بجلی گھر کے دیگر آلات بنانے والے کارخانے عنقا ہیں۔یہ آلات بنانے کی خاطر بڑا نفیس انفراسٹرکچر کھڑا کرنا پڑتا ہے، نیز نایاب دھاتیں حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ بھارت کو یہ انفراسٹرکچر بنانے میںکئی عشرے درکار ہیں۔ اس لیے مودی حکومت قابل تجدید ذرائع کا اپنا وژن انجام دینے کے لیے چین کی محتاج ہے۔
چینی حکومت کی خوبی ہے کہ وہ اپنی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو غلط ملط نہیں کرتی۔ اس کی سعی رہتی ہے کہ سیاسی اور معاشی معاملات کو الگ تھلگ رکھا جائے۔ اس حکمت عملی نے چین کو معاشی سپرپاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چناں چہ امریکا اور بھارت، دونوں سے کئی اختلافات رکھنے کے باوجود ہر سال اربوں ڈالر کا چینی مال دونوں ممالک میں جارہا ہے۔ چینی حکمت عملی دیکھتے ہوئے امکان یہی ہے کہ تمام تر کشیدگی کے باوجود چین بھارت کو شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں مستعمل آلات کی فروخت جاری رکھے گا۔ البتہ چینی کرنسی کی قدر بڑھنے سے چینی مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ جبکہ مستقبل میں چینی کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا سکتی ہیں۔ چونکہ تب لاکھوں بھارتی صارفین چینی مصنوعات کے محتاج ہوں گے لہٰذا انہیں مہنگی داموں بھی مجبوراً خریدنا پڑے گا۔
پاکستان کی صورتحال
سی پیک منصوبے کے تحت چین اور پاکستان نے مل کر وطن عزیز میں توانائی کے ''19 منصوبے'' شروع کررکھے ہیں۔ ان منصوبوں پر ''35 ارب ڈالر'' لاگت آئے گی۔ پندرہ سال کی مدت میں تکمیل کے بعد یہ منصوبے ''سولہ ہزار میگاواٹ'' بجلی پیدا کریں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان انیس منصوبوں میں سے بارہ منصوبے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بنانے پر مشتمل ہیں۔ ان بجلی گھروں میں مقامی اور درآمدی کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔
یاد رہے، وطن عزیز کے صحرائے تھر میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوچکا۔ ماہرین کی رو سے اس ذخیرے میں 175 ارب ٹن کوئلہ محفوظ ہے۔ تخمینہ ہے کہ اس کوئلے کے ذریعے تین سو برس تک ہر سال ''ایک لاکھ میگاواٹ'' بجلی بنانا ممکن ہے۔ پاکستان میں کوئلے کا ذخیرہ توانائی کے اعتبار سے سعودی عرب اور ایران میں ذخائر تیل کے برابر ہے۔
پاکستانیوں کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ مستقبل میں وطن عزیز سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن یہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ بیشتر نئی بجلی کوئلے کے بجلی گھروں میں جنم لے گی۔ گو حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ بجلی گھر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کام کریں گے۔ اس باعث وہ کوئلے کے عام بجلی گھروں کی نسبت کم آلودگی ماحول میں چھوڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔
موجودہ حکومت کا دعوی ہے کہ اگلے ایک دو برس میں ان بجلی گھروں کی تعمیر سے تقریباً چھ ہزار میگاواٹ بجلی میسر آئے گی۔اگر یہ دعوی سچ ہے تو حکومت کے منہ میں گھی شکر کہ یوں پاکستانی قوم کو خاصی حد تک لوڈشیڈنگ کے عفریت سے نجات مل جائے گی۔
دورجدید میں دو اشیا... تیل اور بجلی نے انسانی ترقی و زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھا ہوا ہے۔ چناں چہ انسان دونوں میں سے ایک شے سے محروم ہو تو کاروبارِ حیات ٹھپ سا ہوجاتا ہے۔ جب بھی موسم گرما آئے، تو بجلی کی قلت کے باعث لوڈشیڈنگ ہونے سے کروڑوں پاکستانی متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو کارخانوں، دکانوں، دفتروں میں روزانہ کمائی کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ان کے ذریعہ معاش کو ملیامیٹ کرڈالتی ہے۔
حیرت انگیز امر یہ کہ لوڈشیڈنگ نے ایسے ملک پر حملہ کررکھا ہے جہاں نظریاتی طور پر پانی، سورج ، ہوا اور کوئلے کے ذریعے سالانہ ''لاکھوں'' میگاواٹ بجلی بن سکتی ہے۔ گویا قدرت نے ارض پاک کو جی بھر کر قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ افسوس بس یہ کہ پاکستانی قوم کو باصلاحیت، اہل اور باشعور حکمران طبقہ میسر نہیں آسکا۔ راقم کو یاد ہے، تیس پینتیس سال قبل جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں پہلے پہل پاکستانی لوڈشیڈنگ کے عذاب کا نشانہ بنے تھے۔ تب سے حکمران طبقے کی نااہلی اور مستقبل سے پہلو تہی برتنے کے باعث پاکستانی قوم وقتاً فوقتاً اس عجیب و غریب عذاب میں مبتلا ہوکر تکالیف اٹھاتی چلی آرہی ہے۔
بجلی کی مقدار بڑھانے کی خاطر ہونا یہ چاہیے تھا کہ مزید ڈیم بنائے جاتے۔ یہ دنیا بھر میں بجلی پانے اور پانی بچانے کا سستا و سہل طریقہ ہے۔ مگر پاکستانی حکمرانوں نے تیل سے چلنے والے بجلی گھر لگانے کو ترجیح دی... حالانکہ ان بجلی گھروں میں سب سے مہنگی بجلی بنتی ہے۔ حکمرانوں نے ہر لحاظ سے نقصان دہ یہ فیصلہ کیوں اپنایا، سمجھ سے بالاتر ہے۔آج بھی پاکستان میں تیل سے چلنے والے بجلی گھروں میں ہی ہر سال کل بجلی کا ''33 تا 37 فیصد'' حصہ تیار ہوتا ہے۔ یہ بجلی بنانے کی خاطر پاکستان کو اربوں ڈالر کا تیل خریدنا پڑتا ہے۔ یوں نہ صرف ہمارا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا بلکہ درآمدات کا بل بھی آسمان پر جاپہنچتا ہے۔
اعدادو شمار کے مطابق وطن عزیز میں گرمیوں میں بجلی کی طلب 19 تا 22 ہزار میگاواٹ کے درمیان رہتی ہے جبکہ حکومت پاکستان تمام وسائل بروئے کار لاکر 14 تا 15 ہزار میگاواٹ بجلی ہی بنا پاتی ہے۔ یوں چھ سات ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے کروڑوں پاکستانیوں پر لوڈشیڈنگ کا عذاب تھوپ دیا جاتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اس عذاب کا شکار نہیں ہوتا،اسے عموماً چوبیس گھنٹے بجلی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے، اسے بالکل احساس نہیں کہ عوام الناس لوڈشیڈنگ کے دوران کیسی پریشانیوں، تکالیف اور مصائب سے دوچار رہتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں سے کہیں بہتر کارکردگی بھارتی حکمران طبقے نے دکھائی۔ تقریباً تیس سال پہلے ہی بجلی کی طلب بڑھنے سے بھارتی شہروں میں لوڈشیڈنگ کرنا پڑی تھی۔ عوام کے احتجاج نے بھارتی حکمران طبقے کو چوکنا کردیا۔ چناں چہ وہ ملک کے طول و عرض میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر اور ڈیم بنانے لگے۔ بھارتی حکمران عیش و عشرت میں پڑ کر مست الست نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ملک و قوم کی بھلائی اور بہتر مستقبل کو مدنظر رکھا۔
نریندر مودی میں لاکھ خامیاں ڈھونڈ لیجیے مگر اسی بھارتی حکمران کی خاصیت یہ ہے کہ اس نے بھارت میں ''قابل تجدید توانائی'' کے ذرائع کو رواج دیا۔ جب وہ وزیراعلیٰ گجرات تھے، تو ریاست میں شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے فارم لگائے۔ وزیراعظم منتخب ہوئے تو دیگر بھارتی ریاستوں میں بھی فارم بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آٹھ ماہ قبل ریاست تامل ناڈو میں دنیا کا دوسرا بڑا شمسی فارم بجلی بنانا شروع کرچکا۔ یہ فارم پچیس سو ایکڑ پر محیط ہے اور اس میں ڈھائی لاکھ سولر موڈول نصب ہیں۔ یہ فارم 658 میگاواٹ بجلی بنائے گا۔
نریندر مودی کا ویژن یہ ہے کہ 2022ء تک بھارت 175 گیگاواٹ (ایک ہزار میگاواٹ برابر ایک گیگا واٹ) بجلی قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ یہی وجہ ہے اقتدارسنبھالتے ہی انہوں نے نجی شعبے کے تعاون سے شمسی توانائی، ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرنے والے سیکڑوں منصوبے شروع کردیئے۔
2013ء میں بھارت میں قابل تجدید توانائی سے تقریباً 2 گیگاواٹ بجلی بنتی تھی۔ مودی حکومت کے انقلابی اقدامات سے آج یہ عدد ''12 گیگاواٹ''( ایک لاکھ بیس ہزار میگاواٹ) تک پہنچ چکا۔آج بھارت عملی طور پر ''310 گیگاواٹ بجلی'' بنانے پر قادر ہے۔ جبکہ ملک میں بجلی کی طلب 170 گیگاواٹ ہے۔ یہی وجہ ہے جب اوائل 2017ء میں بھارت کی تاریخ میں پہلی بار فاضل بجلی پیدا ہوئی، تو فروری تا مارچ بھارتی حکومت نے بنگلہ دیش، نیپال اور میانمار کو 5798 میگاواٹ بجلی بیچ کر قیمتی زرمبادلہ کمایا۔
بھارت میں اب بھی خصوصاً دیہات میں آباد تقریباً 50 کروڑ شہری بجلی کی نعمت سے محروم ہیں۔ مودی حکومت چاہتی ہے کہ ان شہریوں کی ہر ممکن مدد کی جائے تاکہ وہ قابل تجدید ذرائع توانائی سے فائدہ اٹھا کر روزانہ اتنی بجلی ضرور حاصل کرلیں جو ان کی زندگی اور روزمرہ کام انجام دینا آسان بناسکے۔ شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی بہتر اور متعلقہ آلات سستے ہونے سے مودی حکومت کا کام آسان ہورہا ہے۔ اب چند ہزار روپے سے ایک گھر میں 40 واٹ کا شمسی پینل لگ جاتا ہے۔ یہ پینل روزانہ اتنی بجلی بناتا ہے کہ تین بلب جل سکیں۔ یوں ان کی روشنی میں اہل خانہ اس قابل ہو گئے کہ رات کو بھی کام کرسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں سائنس داں مصروف تحقیق ہیںکہ قابل تجدید ذرائع توانائی کی ٹیکنالوجیوں کو بہتر سے بہتر بناسکیں۔ مزید براں وہ آلات کا معیار اور کارکردگی بھی بہتر بنارہے ہیں۔ خصوصاً شمسی توانائی کے شعبے میں جاری زبردست تحقیق دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ 2025ء تک ایسے چھوٹے مگر معیاری شمسی نظام وجودمیں آجائیں گے جنہیں باسہولت گھروں میں نصب کیا جاسکے۔ یوں ایک بار خرچ کے بعد گھر والے بیس پچیس سال تک شمسی توانائی کی برکات سے مستفید ہوسکیں گے۔
مودی حکومت قابل تجدید ذرائع ایندھن سے مستفید ہوکر تیل و کوئلے کی درآمد کا خرچ بھی گھٹانا چاہتی ہے۔ مزید براں یہ دونوں ذرائع ایندھن سبزمکانی گیسیں بھی خارج کرتے ہیں جن سے عالمی آب وہوائی نظام کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے۔۔ ان سے ناتا توڑنے پر مودی حکومت کو یقین ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کو سراہا جائے گا۔
یاد رہے، بھارت اب بھی اپنی 60 فیصد سے زائد بجلی کوئلے کے بجلی گھروں سے بناتا ہے۔ بھارت کوئلہ پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ نیز وہ بڑی تعداد میں باہر سے بھی کوئلہ منگواتا ہے۔ بھارت میں دو سو سے زائد چھوٹے بڑے کوئلے کے بجلی گھر کام کررہے ہیں۔ نیز کئی نئے بجلی گھرزیر تعمیر ہیں۔ کوئلے کے بجلی گھروں کی کثرت کے باعث ہی بھارت دنیا میں آلودگی خارج کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا۔
دنیا میں بھارت کا مقام و مرتبہ باعزت و محترم بنانے کی خاطر بھی نریندر مودی کوئلے کے بجلی گھروں سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ تاہم چین سے بڑھتی کشیدگی ان کی پالیسی کوشکست دے کرسکتی ہے۔ دراصل بھارت چین ہی سے شمسی توانائی کے چھوٹے بڑے بجلی گھروں کے آلات مثلاً شمسی سیل، موڈول وغیرہ خریدتا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکا کے بنے آلات بہت مہنگے ہیں جبکہ بھارت کو چین سے یہ سستے داموں مل جاتے ہیں۔
شمسی توانائی کے سستے چینی ساختہ بجلی گھروں کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں اب ان سے بننے والی بجلی کوئلے کے بجلی گھروں میں بنتی بجلی سے سستی ہوچکی۔ بھارت میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر میں جنم لیتی ایک یونٹ بجلی کی ''تھوک'' قیمت 3.20 روپے ہے ۔جبکہ شمسی توانائی سے چلنے والے بجلی گھر میں ایک یونٹ 2.62 روپے میں دستیاب ہے۔ گویا بھارت میں شمسی توانائی سے بننے والی بجلی کوئلے کی نسبت سستی ہوچکی جو ایک بہت بڑا انقلاب ہے۔ مگر یہ انقلاب چین کی بدولت ہی برپا ہوا۔
بھارت میں شمسی سیل، موڈول اور شمسی توانائی کے بجلی گھر کے دیگر آلات بنانے والے کارخانے عنقا ہیں۔یہ آلات بنانے کی خاطر بڑا نفیس انفراسٹرکچر کھڑا کرنا پڑتا ہے، نیز نایاب دھاتیں حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ بھارت کو یہ انفراسٹرکچر بنانے میںکئی عشرے درکار ہیں۔ اس لیے مودی حکومت قابل تجدید ذرائع کا اپنا وژن انجام دینے کے لیے چین کی محتاج ہے۔
چینی حکومت کی خوبی ہے کہ وہ اپنی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو غلط ملط نہیں کرتی۔ اس کی سعی رہتی ہے کہ سیاسی اور معاشی معاملات کو الگ تھلگ رکھا جائے۔ اس حکمت عملی نے چین کو معاشی سپرپاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چناں چہ امریکا اور بھارت، دونوں سے کئی اختلافات رکھنے کے باوجود ہر سال اربوں ڈالر کا چینی مال دونوں ممالک میں جارہا ہے۔ چینی حکمت عملی دیکھتے ہوئے امکان یہی ہے کہ تمام تر کشیدگی کے باوجود چین بھارت کو شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں مستعمل آلات کی فروخت جاری رکھے گا۔ البتہ چینی کرنسی کی قدر بڑھنے سے چینی مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ جبکہ مستقبل میں چینی کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا سکتی ہیں۔ چونکہ تب لاکھوں بھارتی صارفین چینی مصنوعات کے محتاج ہوں گے لہٰذا انہیں مہنگی داموں بھی مجبوراً خریدنا پڑے گا۔
پاکستان کی صورتحال
سی پیک منصوبے کے تحت چین اور پاکستان نے مل کر وطن عزیز میں توانائی کے ''19 منصوبے'' شروع کررکھے ہیں۔ ان منصوبوں پر ''35 ارب ڈالر'' لاگت آئے گی۔ پندرہ سال کی مدت میں تکمیل کے بعد یہ منصوبے ''سولہ ہزار میگاواٹ'' بجلی پیدا کریں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان انیس منصوبوں میں سے بارہ منصوبے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بنانے پر مشتمل ہیں۔ ان بجلی گھروں میں مقامی اور درآمدی کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔
یاد رہے، وطن عزیز کے صحرائے تھر میں کوئلے کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوچکا۔ ماہرین کی رو سے اس ذخیرے میں 175 ارب ٹن کوئلہ محفوظ ہے۔ تخمینہ ہے کہ اس کوئلے کے ذریعے تین سو برس تک ہر سال ''ایک لاکھ میگاواٹ'' بجلی بنانا ممکن ہے۔ پاکستان میں کوئلے کا ذخیرہ توانائی کے اعتبار سے سعودی عرب اور ایران میں ذخائر تیل کے برابر ہے۔
پاکستانیوں کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ مستقبل میں وطن عزیز سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن یہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ بیشتر نئی بجلی کوئلے کے بجلی گھروں میں جنم لے گی۔ گو حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ بجلی گھر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کام کریں گے۔ اس باعث وہ کوئلے کے عام بجلی گھروں کی نسبت کم آلودگی ماحول میں چھوڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔
موجودہ حکومت کا دعوی ہے کہ اگلے ایک دو برس میں ان بجلی گھروں کی تعمیر سے تقریباً چھ ہزار میگاواٹ بجلی میسر آئے گی۔اگر یہ دعوی سچ ہے تو حکومت کے منہ میں گھی شکر کہ یوں پاکستانی قوم کو خاصی حد تک لوڈشیڈنگ کے عفریت سے نجات مل جائے گی۔