ساکھ

بات تیری مہلت کی نہیں، میری پرچی کی ’’حرمت‘‘ کی ہے، بلکہ یہاں میری ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

s_nayyar55@yahoo.com

KARACHI:
یہ ستّر کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے، میں کالج سے گھر واپس آ رہا تھا۔ راستے میں ایک کچی آبادی کی پر رونق سڑک پر ٹریفک رکا ہوا تھا اور سڑک کے بیچوں بیچ لوگوں کا ایک ہجوم موجود تھا۔ میں نے بائیک سڑک کے کنارے کھڑی کی اور حقیقت جاننے کے لیے ہجوم میں شامل ایک شخص سے پوچھا ''کیا ہوا ہے؟'' اس نے بتایا کہ ''فلاں سیٹھ خود آیا ہوا ہے اور سٹّے کی ایک پرچی کا تنازعہ فوری طور پر حل کرنے کے لیے ایک دکان کی نیلامی ہو رہی ہے۔'' میں آگے بڑھ کر ہجوم میں شامل ہو گیا۔ یہ بھٹو کا دورِ حکومت تھا۔ کراچی میں امن و امان مثالی ہوا کرتا تھا۔

سال چھ مہینے میں اگر شہر میں قتل کی کوئی واردات ہو جاتی تو پورے شہر میں اس قتل کا چرچا ہو جاتا تھا۔ قاتل کو حریف کے قتل کے لیے زور بازو کے ساتھ ساتھ صرف چاقو کی مدد حاصل ہوتی تھی، پستول یا ریوالور کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کا شرف بہت ہی کم لوگوں کو حاصل تھا۔ لیکن یہ کوئی قتل کی واردات نہ تھی۔ ہوا یہ تھا کہ اس زمانے میں کراچی شہر میں ایک بہت بڑے سٹّہ باز کے نام کا ڈنکا بجتا تھا، جو شام کو ایک مخصوص وقت پر بذریعہ قرعہ اندازی اپنے مرکزی اڈّے سے ایک نمبر کا اعلان کرتا تھا۔ یہ قرعہ اندازی سٹّہ کھیلنے والے عام لوگوں کی موجودگی میں ایک ''شفاف'' عمل کے ذریعے کی جاتی تھی، جس میں شرکت کے لیے دعوتِ عام ہوا کرتی تھی۔

اعلان شدہ نمبر کی ''خبر'' لے کر سیٹھ کے موٹر سائیکل سوار ہرکارے فوراً ہی شہر بھر میں دوڑ جاتے اور ہر اُس ''فرنچائز'' پر یہ نمبر پہنچا دیا جاتا، جہاں اُس علاقے کے ''غریب عوام'' نے صفر سے لے کر نو نمبر تک پر رقم لگا کر پچھلے چوبیس گھنٹوں میں ''فرنچائز ڈیلر'' کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک سادہ پرچی حاصل کر لی ہوتی تھی۔ ٹیلی فون عام نہ تھے۔ بعض ہوشیار ''کھلاڑی'' تو خبر آنے سے صرف گھنٹہ بھر پہلے ہی اپنی پسند کے نمبر پر رقم لگایا کرتے تھے، تا کہ جلد سے جلد فیصلہ سامنے آ جائے۔ صفر سے لے کر نو نمبر تک، ایک روپیہ کے عوض 9 روپے کی رقم فرنچائز ڈیلر ادا کرنے کا پابند تھا۔ نمبر نہ آنے کی صورت میں لگائی ہوئی رقم کا مالک وہ فرنچائز ڈیلر ہوا کرتا تھا۔ اب یہ کھیلنے والے کی مرضی تھی کہ وہ 50 پیسے کی پرچی کٹواتا ہے یا ہزار روپے کی۔ اِس سے اعلیٰ درجے کا جوا، دس نمبر سے 99 نمبر تک کی پرچی پر کھیلا جاتا تھا۔

اس پر انعامی رقم ایک روپے کے عوض 80 روپے تھی۔ اب ہوا یہ کہ کسی ''غریب کھلاڑی'' نے دوسرے درجے یعنی ڈبل فیگر نمبر پر اس کچی آبادی کے ڈیلر کے پاس ایک بڑی رقم لگا دی اور اتفاق سے وہ نمبر نکل آیا۔ انعامی رقم سولہ ہزار نقد بنتی تھی۔ فرنچائز کا مالک جو اپنی فرنچائز کو دن بھر سائیکل کے پنکچر لگانے کے لیے بھی استعمال کرتا تھا بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ سائیکل کے پنکچر لگانے کی دکان کو ''فرنچائز'' کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ اتنی بڑی انعامی رقم نکل آنے پر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے کھلاڑی کو فوری طور پر رقم ادا کرنے سے معذرت کر کے اگلے دن پر ٹال دیا۔ کھلاڑی غصے سے بھناتا ہوا فوراً سیٹھ کی خدمت میں حاضر ہوا، فرنچائز کی لکھی ہوئی پرچی سیٹھ کے سامنے رکھی اور انصاف کا طلبگار ہوا۔

سیٹھ نے ساری داستان سننے کے بعد پکی پینسل سے لکھے گئے عام سی کاپی کے پھاڑے گئے چھوٹے سے ٹکڑے کو اپنی جیب میں رکھا اور فریادی کو اگلے دن دوپہر کے وقت فرنچائز پر پہنچنے کی ہدایت کی اور یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ اور اب سیٹھ صاحب خود فرنچائز پر موجود تھے۔ انھوں نے ڈیلر کو حکم دیا کہ سولہ ہزار کی رقم کھلاڑی کو فوری ادا کی جائے۔ سولہ ہزار کی رقم اس زمانے میں ایک بڑی رقم تھی۔ ڈالر شاید 5 یا 7 روپے کا ہو گا۔ ڈیلر نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ سیٹھ صاحب نے کہا فوراً اپنی دکان بیچو، دکان کی مالیت دس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ ڈیلر مہلت کا طلبگار تھا۔


سیٹھ کو یہ منظور نہ تھا۔ نیلامی دس ہزار پر جا کر رک گئی۔ مجبوراً سیٹھ نے یہ دکان خود سولہ ہزار کے عوض خرید لی۔ اس کے آدمیوں نے دکان پر اپنا تالا لگایا۔ کچی آبادی کی دکان تھی، جس کی کوئی دستاویز نہ تھی، ''جس کا قبضہ وہی مالک'' کا اصول کارفرما تھا۔ پھر بھی اس کے ''ملبے'' کی رسید سیٹھ نے اسٹامپ پیپر پر لکھوالی اور ڈیلر کے ہاتھ پر سولہ ہزار نقد رکھ کر، اسے حکم دیا کہ یہ رقم سب کے سامنے کھلاڑی کو ادا کر کے اپنی لکھی گئی یہ پرچی ضایع کر دے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔

اس بے وقعت کاغذ کی پرچی نے، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی، نہ اس پر کوئی مہر تھی، صرف ایک نمبر اور کھلاڑی کی لگائی ہوئی رقم پینسل سے تحریر تھی۔ مجھے اپنی زندگی کا ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے کا موقع عطا کیا۔ اس سارے تماشے کا دلچسپ ترین ایکٹ وہ تھا، جب ڈیلر کی بے چارگی اور بے بسی پر خود کھلاڑی کو ترس آ گیا اور اس نے سیٹھ سے سفارش کی کہ ڈیلر کو رقم کی ادائیگی کے لیے ایک ہفتے کی مہلت عطا کر دی جائے۔

لیکن سیٹھ نے کھلاڑی کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ ''بات تیری مہلت کی نہیں، میری پرچی کی ''حرمت'' کی ہے، بلکہ یہاں میری ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے، میرے نام کی پرچی بے وقعت ہو رہی ہے۔ اگر آج رقم فوراً ادا نہ کی گئی تو کل کون میرے نام کی پرچی پر اعتبار کرے گا؟ کیا تیرے کہنے سے میں اپنی ''ساکھ'' تباہ کر لوں؟ یہ ادائیگی ابھی ہو گی اور سب کے سامنے ہو گی بلکہ اسے کل رات آٹھ بجے ہی ہو جانا چاہیے تھا، اس لیے سزا کے طور پر اس ڈیلر کو ہمیشہ کے لیے میں پہلے ہی بلیک لسٹ کر چکا ہوں۔''

اب آپ دیکھیے کہ دو نمبر کے اس کاروبار میں لاکھوں روپے کی سرگرمی صرف ایک غیر قانونی کام کرنے والے سیٹھ کی ''ساکھ'' کے بل بوتے پر ہوتی تھی تو پھر ریاست کے کاروبار میں، عوام کی خدمت اور ان کی فلاح کا دعویٰ کرنے والے نمائندوں کی ساکھ آپ کے نزدیک کیسی ہونی چاہیے؟ کیا ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی اکثریت واقعی کسی قسم کی کوئی ''ساکھ'' رکھتی بھی ہے؟ ایک سیاستدان کی ساکھ کیا ہوتی ہے؟ اس کی مثال بانی پاکستان حضرت قائداعظم اپنے ان نا اہل اور انسان بیزار جانشینوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ بانیٔ پاکستان جلسہ عام میں انگریزی زبان میں تقریر کیا کرتے تھے۔

حاضرین جلسہ کی نوے فیصد اکثریت انگریزی سمجھنے سے قاصر تھی لیکن دل جمعی کے ساتھ پوری تقریر سنتی تھی۔ پوچھا جائے کہ تم نے کیا سنا؟ اور قائد نے کیا کہا؟ جواب ملتا تھا ''ہمیں نہیں معلوم کہ قائد اعظم نے کیا کہا ہے؟ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس شخص نے جو کچھ بھی کہا ہے، سچ کہا ہے اور ہمارے مفاد میں ہی کہا ہے اور یہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہی کچھ کرے گا اور جو کچھ کرے گا وہ ہماری بہتری کے لیے ہی ہو گا۔'' یہ ہوتی ہے عوام سے جڑے ہوئے ایک لیڈر کی ساکھ۔ آگے کچھ لکھنے کی میں ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ سوائے اس کے کہ آپ جسے مرضی اپنی قیادت سونپیں، صرف ایک گزارش ہے، یہ ضرور دیکھ لیجیے گا کہ آپ کا لیڈر اس جرائم پیشہ سٹّے باز سیٹھ سے بہتر ساکھ کا مالک اگر نہیں بھی ہے تو کم سے کم اس سیٹھ کا ہم پلّہ تو ضرور ہو۔ اطمینان کر لیجیے۔ وقت سر پر آ گیا ہے۔
Load Next Story