اقتصادی سروے رپورٹ اور عوامی توقعات
ضرورت اس عہد کو حقیقت میں بدلنے کی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا
رواںمالی سال 2016-17 کے دوران گزشتہ دس سال میں سب سے زیادہ جی ڈی پی گروتھ کے باوجود حکومت مقرر کردہ اقتصادی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے تاہم سروسز سیکٹر میں نمو مقررہ ہدف سے زیادہ رہی جب کہ زرعی شعبہ کی ترقی بھی ہدف کے قریب ترین رہی ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جمعرات کو اکنامک سروے جاری کرتے ہوئے کہا کہ 10 برس میں پہلی مرتبہ معاشی شرح نمو 5 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے اور اسے عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جارہا ہے، 2013 میں معاشی شرح نمو 3 فیصد تھی جو اب 5.28 فیصد ہوچکی ہے اور آیندہ مالی سال کے لیے شرح نمو کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا گیا ہے جب کہ ملکی معیشت کا حجم 300ارب ڈالر کے حجم سے تجاوز کر گیا ہے، ملک میں غربت و بیروزگاری بھی کم ہوگئی ہے، پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی 1629 ڈالر جب کہ پاکستان کے ذمے واجب الاداقرضے بھی کم ہوگئے ہیں۔
اقتصادی سروے بلاشبہ ملکی اقتصادی ترقی ، مثبت میکرو اکنامک پیش رفت ، عوامی ریلیف ، امید اور امکانات و اہداف کے عدم حصول سے متعلق خدشات کے دھندلکوں میں لپٹا رہا جب کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا ایک اعتراض ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کا ہے۔تاہم مجموعی اقتصادی ترقی اور معیشت میں استحکام کی کوششوں کے تناظر میں موجودہ حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے ۔
اس حوالہ سے سب سے بڑی پیش قدمی سی پیک کے دلکش مستقبل سے وابستہ نظر آتی ہے، ادھر رواں مالی سال کے اقتصادی جائزے میں غربت اور بیروزگاری میں کمی کے اعلان پر عوام مطمئن نہیں، وہ رات بھر ٹی وی پر اپنی محرومیوں کا ذکر کرتے رہے، اس لیے غربت اور بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے مربوط اقدامات اور ٹھوس منصوبہ بندی ضروری ہے، مہنگائی ایک اور درد سر ہے ، شہر قائد اور لاہور کے درمیان اشیائے خور ونوش کے تقابلی جائزہ سے پتا چلتا ہے کہ آٹا ،گوشت ، دودھ اور سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوںمیں ہوشربا فرق ہے، اس لیے جب تک خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے دن نہیں پھریں گے عوام کی خوشیوں کے افقی و عمودی ترقی کے خواب پریشاں ہی رہیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا ملک کی جی ڈی پی میں خدمات کا حصہ 60 فیصد رہا، زراعت کا حصہ 19.53 فیصد جب کہ صنعتوں کا حصہ 28.88 فیصد ہے۔ زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 3.46 فیصد جب کہ خدمات کے شعبے میں 5.98 فیصد ترقی ہوئی۔ انھوں نے کہا رواں مالی سال 475 ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہوئے، وزیر خزانہ نے کہا رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 4.06 فیصد رہی، فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3.86 فیصد اور نان فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 4.25 فیصد رہی ، درآمدات کا حجم 37ارب84 کروڑ ڈالر جب کہ برآمدات کا حجم 21 ارب 76 کروڑ رہا ۔ دس ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سوا 7 ارب ڈالر رہا جب کہ رواں سال مالیاتی خسارہ 4.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
گردشی قرضہ پر کنٹرول کی بابت کچھ نہیں کہا گیا، اسی طرح 10ماہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ایک ارب 73 کروڑ ڈالر رہی جب کہ سال کے آخر تک بڑھ کر 2ارب 58 کروڑ ڈالر تک ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے امن و آسودگی کا ماحول ناگزیر ہے۔ بیرون ملک سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں 2.6 فی صد کمی ہوئی، وار آن ٹیرر سے اب تک ملکی معیشت کو 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستحکم رکھنے سے قومی خزانے کو 120 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ دنیا کی پانچویں بہترین اسٹاک مارکیٹ بن چکی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ ایک سال میں شرح خواندگی میں ایک فیصد بھی اضافہ نہ کیا جا سکا، انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (آئی پی آر)نے کہا ہے کہ معیشت نازک ستونوں پر کھڑی ہے جب کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بری طرح متاثر ہونیوالے ملکوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر پہنچ گیا، چنانچہ منفی موسمی اثرات سے نمٹنے اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کے لیے سالانہ 7 بلین ڈالر سے 14بلین ڈالردرکار ہونگے۔اقتصادی رپورٹ کے مطابق بہتر سیکیورٹی آپریشن ضرب عضب اور دیگر اقدامات کے باعث پاکستانی معیشت کو درپیش خسارہ میں بالواسطہ اور بلاواسطہ 40 فیصد یعنی3 ارب88 کروڑ روپے کی کمی آئی ہے جب کہ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں افغانستان و پاکستان کی تزویراتی صورتحال کے باعث نقصانات .77 230 بلین ڈالر تک پہنچ گئے تھے۔
اب ضرورت اس عہد کو حقیقت میں بدلنے کی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔اس کے لیے کشکول توڑ دیجیے، معاشی بدحالی کا منظر نامہ تبدیل کیے بغیر خودکشیوں اور جرائم کے اٹھتے ہوئے طوفان نہیں تھم سکتے۔ تعلیم و صحت کے شعبہ کے لیے خطیر رقم بجٹ میں رکھنی ہوگی، ملکی معیشت کو خود انحصاری ، خود کفالت اور سماج کی تبدیلی کو استحصال سے پاک معاشی نظام کی منزل تک لانے کے لیے موجودہ حکومت کے پاس یہ زریں موقع ہے ۔
اقتصادی سروے بلاشبہ ملکی اقتصادی ترقی ، مثبت میکرو اکنامک پیش رفت ، عوامی ریلیف ، امید اور امکانات و اہداف کے عدم حصول سے متعلق خدشات کے دھندلکوں میں لپٹا رہا جب کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا ایک اعتراض ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کا ہے۔تاہم مجموعی اقتصادی ترقی اور معیشت میں استحکام کی کوششوں کے تناظر میں موجودہ حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے ۔
اس حوالہ سے سب سے بڑی پیش قدمی سی پیک کے دلکش مستقبل سے وابستہ نظر آتی ہے، ادھر رواں مالی سال کے اقتصادی جائزے میں غربت اور بیروزگاری میں کمی کے اعلان پر عوام مطمئن نہیں، وہ رات بھر ٹی وی پر اپنی محرومیوں کا ذکر کرتے رہے، اس لیے غربت اور بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے مربوط اقدامات اور ٹھوس منصوبہ بندی ضروری ہے، مہنگائی ایک اور درد سر ہے ، شہر قائد اور لاہور کے درمیان اشیائے خور ونوش کے تقابلی جائزہ سے پتا چلتا ہے کہ آٹا ،گوشت ، دودھ اور سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوںمیں ہوشربا فرق ہے، اس لیے جب تک خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے دن نہیں پھریں گے عوام کی خوشیوں کے افقی و عمودی ترقی کے خواب پریشاں ہی رہیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا ملک کی جی ڈی پی میں خدمات کا حصہ 60 فیصد رہا، زراعت کا حصہ 19.53 فیصد جب کہ صنعتوں کا حصہ 28.88 فیصد ہے۔ زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 3.46 فیصد جب کہ خدمات کے شعبے میں 5.98 فیصد ترقی ہوئی۔ انھوں نے کہا رواں مالی سال 475 ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہوئے، وزیر خزانہ نے کہا رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 4.06 فیصد رہی، فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3.86 فیصد اور نان فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 4.25 فیصد رہی ، درآمدات کا حجم 37ارب84 کروڑ ڈالر جب کہ برآمدات کا حجم 21 ارب 76 کروڑ رہا ۔ دس ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سوا 7 ارب ڈالر رہا جب کہ رواں سال مالیاتی خسارہ 4.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
گردشی قرضہ پر کنٹرول کی بابت کچھ نہیں کہا گیا، اسی طرح 10ماہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ایک ارب 73 کروڑ ڈالر رہی جب کہ سال کے آخر تک بڑھ کر 2ارب 58 کروڑ ڈالر تک ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے امن و آسودگی کا ماحول ناگزیر ہے۔ بیرون ملک سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں 2.6 فی صد کمی ہوئی، وار آن ٹیرر سے اب تک ملکی معیشت کو 123 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستحکم رکھنے سے قومی خزانے کو 120 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ دنیا کی پانچویں بہترین اسٹاک مارکیٹ بن چکی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ ایک سال میں شرح خواندگی میں ایک فیصد بھی اضافہ نہ کیا جا سکا، انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (آئی پی آر)نے کہا ہے کہ معیشت نازک ستونوں پر کھڑی ہے جب کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بری طرح متاثر ہونیوالے ملکوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر پہنچ گیا، چنانچہ منفی موسمی اثرات سے نمٹنے اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کے لیے سالانہ 7 بلین ڈالر سے 14بلین ڈالردرکار ہونگے۔اقتصادی رپورٹ کے مطابق بہتر سیکیورٹی آپریشن ضرب عضب اور دیگر اقدامات کے باعث پاکستانی معیشت کو درپیش خسارہ میں بالواسطہ اور بلاواسطہ 40 فیصد یعنی3 ارب88 کروڑ روپے کی کمی آئی ہے جب کہ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں افغانستان و پاکستان کی تزویراتی صورتحال کے باعث نقصانات .77 230 بلین ڈالر تک پہنچ گئے تھے۔
اب ضرورت اس عہد کو حقیقت میں بدلنے کی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔اس کے لیے کشکول توڑ دیجیے، معاشی بدحالی کا منظر نامہ تبدیل کیے بغیر خودکشیوں اور جرائم کے اٹھتے ہوئے طوفان نہیں تھم سکتے۔ تعلیم و صحت کے شعبہ کے لیے خطیر رقم بجٹ میں رکھنی ہوگی، ملکی معیشت کو خود انحصاری ، خود کفالت اور سماج کی تبدیلی کو استحصال سے پاک معاشی نظام کی منزل تک لانے کے لیے موجودہ حکومت کے پاس یہ زریں موقع ہے ۔