شفاف انتخابات… سیاسی جماعتوں کی ذمے داری

امید ہے کہ حکومت اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے منصفانہ اور شفاف الیکشن کے عمل کو یقینی بنائے گی

مسلم لیگ (ن) پنجاب اور سندھ میں سیاسی خاندانوں سے رابطے کر رہی ہیں۔ فوٹو: پی پی آئی/فائل

ملک میں آئندہ عام انتخابات کے لیے ماحول بن گیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جوڑتوڑ میں مصروف ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پنجاب اور سندھ میں سیاسی خاندانوں سے رابطے کر رہی ہیں۔ بااثر سیاسی گھرانے ایک سیاسی جماعت سے نکل کر دوسری میں داخل ہو رہے ہیں۔ ایم کیو ایم' اے این پی' جے یو آئی' تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی آئندہ الیکشن کے لیے بھرپور تیاریاں کر رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان ترازو کے حصول کے لیے دائر درخواستوں کا فیصلہ کر کے یہ نشان جماعت اسلامی کو الاٹ کر دیا۔

یوں دیکھا جائے تو ایک سیاسی جماعت کو انتخابی نشان بھی الاٹ ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے صوبوں کے گورنروں کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہے اور اب فنکشنل لیگ نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا ہے۔ یہ ساری سرگرمیاں الیکشن کے حوالے سے ہی ہیں۔ جمہوریت میں ہر سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھرپور تیاریاں کرے۔ اب یہ خدشات دم توڑ گئے ہیں کہ ملک میں کسی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کے قیام کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں۔ اب نگران وزیراعظم اور صوبوں میں نگران وزیراعلیٰ کی تقرریوں کا مرحلہ باقی رہ گیا ہے۔ مارچ کے مہینے میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کی باتیں بھی منظرعام پر آ رہی ہیں۔ جیسے ہی نگران سیٹ اپ کا قیام عمل میں آیا تو باقاعدہ انتخابی مہم شروع ہو جائے گی۔

صدر مملکت آصف علی زرداری ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ عام انتخابات بغیر کسی تاخیر کے اپنی مدت پر ہوں گے اور یہ غیرجانبدارانہ' منصفانہ اور شفاف ہوں گے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بدھ کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسمبلیاں چند ہفتوں میں تحلیل کر دی جائیں گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم انتقامی سیاست کے قائل نہیں' جمہوری استحکام پر یقین رکھتے ہیں۔ جمعرات کو بھی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے مسلم لیگ (ن) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی سے اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کے دوران واضح کیا کہ شفاف' آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔


طویل آمریت کے بعد ظہور پذیر ہونے والی یہ پہلی جمہوری حکومت ہے جو اپنی آئینی مدت بلا کسی رکاوٹ کے پوری کرنے جا رہی ہے۔ اس دوران بہت سے نشیب وفراز بھی آئے۔ بعض موقعوں پر ایسا محسوس ہوا جیسے جمہوریت کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے لیکن سیاست دانوں کے تدبر اور بصیرت نے غیرجمہوری قوتوں کو ناکامی سے دوچار کیا۔ اس حکومت کی خوش قسمتی یہ رہی کہ صدر بھی حکومتی پارٹی سے متعلق تھا ورنہ اس سے قبل آنے والی جمہوری حکومتیں صدور کے ہاتھوں اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قبل ہی توڑ دی جاتی رہیں۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاری تو کر رہی ہیںلیکن یہ سارا کچھ سیاسی جوڑ توڑ ہی نظر آ رہا ہے۔ ابھی تک کسی سیاسی جماعت کے حوالے سے یہ خبر سامنے نہیں آئی کہ اس نے اپنا منشور بھی تیار کر لیا ہے۔

سیاسی جوڑ توڑ اپنی جگہ درست عمل ہو سکتا ہے لیکن اصل کام پارٹی منشور ہوتا ہے۔ پاکستان کو جس قسم کے مسائل کا سامنا ہے' اس کا تقاضا ہے کہ جو سیاسی جماعت عوام کے پاس حکمرانی کا منڈیٹ لینے کے لیے جائے تو وہ یہ بھی بتائے کہ برسراقتدار آ کر موجودہ مسائل کو کیسے حل کرے گی۔ اس وقت ساری سیاسی جماعتیں نگران سیٹ اپ پر بات کر رہی ہیں' گورنروں کی تبدیلی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں' سیاسی گھرانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن کسی نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک کی خارجہ' داخلہ اور معاشی پالیسی میں کیا ایسی تبدیلیاں لائے گی جس سے پاکستان کے عوام کی مشکلات میں کمی ہو سکے بہرحال یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے اور وہ شفاف الیکشن کرانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔

شفاف الیکشن ہی جمہوری تسلسل کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے اور نئی وجود میں آنے والی اسمبلیوں کو بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ اس سے قبل ہونے والے الیکشن کو حزب اختلاف کی جماعتیں انجینئرڈ قرار دے کر تحریکیں چلاتی رہی ہیں جو حکومتوں کے خاتمے کا باعث بنیں۔ اس حکومت کا یہ کریڈٹ ہے کہ اس نے تمام تر سیاسی مخالفتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے کسی سیاسی مخالف کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا اور نہ کسی کو سیاسی قیدی ہی بنایا گیا۔ اسی لیے آج وزیراعظم یہ بات فخر سے کہہ رہے ہیں کہ حکومت انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں۔

حکومت نے اپنی آئینی مدت کے آخری دور میں طاہر القادری کے دھرنے کو بھی تشدد کے بجائے مذاکرات کے ذریعے اپنے اختتام تک پہنچایا اور اپنے دامن کو سیاسی تشدد کے الزام سے بچا لیا۔ اس طرح اس حکومت کا پانچ سالہ دور مفاہمت کی سیاست پر عمل پیرا اور انتقامی سیاست کے الزام سے پاک نظر آتا ہے۔ امید ہے کہ حکومت اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے منصفانہ اور شفاف الیکشن کے عمل کو یقینی بنائے گی تاکہ جمہوریت کا تسلسل جاری و ساری رہے اور ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی جانب گامزن ہو۔
Load Next Story