ماہ رمضان غریب بازار لگائیے
لوگ رمضان اور عیدکی خریداری میں دل و جان سے بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماہ رمضان تمام مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، بہت ہی بابرکت اور اللہ کا پسندیدہ مہینہ۔ چھوٹے بڑے، جوان، بزرگ سب کے سب اس ماہ مبارک کی برکتوں کو سمیٹنا چاہتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ یہ بہتر پورے سکون اور اللہ کی عبادتوں میں محو ہو کرگزار سکیں، مگر بھلا ہو ہمارے معاشرے کا، ہماری حکومتوں کا، ہماری پالیسیزکا۔
حیرت بھی ہوتی ہے کہ کیوں نہیں ہماری حکومتیں اس ماہ رمضان کو مکمل سہولتوں سے بھرا بنا سکیں، دوسرے مسئلے مسائل اپنی جگہ سالہا سال کی جنگ اپنی جگہ لیکن کیا صرف ایک مہینے کو مثالی نہیں بنایا جا سکتا؟ پورے مڈل ایسٹ میں ماہ رمضان میں عوام کو سستی ضروریات زندگی فراہم کی جاتی ہے، روزمرہ کی گروسری میں بہت حد تک قیمتیں کم کی جاتی ہیں ان کے ساتھ Buy One Get One کی طرح سہولت عوام کو دی جاتی ہے اور ہم نہ جانے کیوں اس ماہ مبارک کو سب سے زیادہ آمدنی کا مہینہ بنا بیٹھے ہیں۔
کمانے میں کوئی حرج نہیں، بیشک لوگ رمضان اور عیدکی خریداری میں دل و جان سے بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں، اپنی حیثیت سے زیادہ چیریٹی کرتے ہیں، لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، عبادتوں کا ذوق و شوق دیکھنے کو ملتا ہے، مساجد آخری عشرے میں بھری ہوئی نظر آتی ہیں، اعتکاف کا اہتمام ہزاروں کی تعداد میں ہوتا ہے اتنا حسین اور برکتوں سے بھرا ہوا ماہ مبارک کوکیا عوام کے لیے سہولتوں اور آسائشوں سے آراستہ نہیں کیا جا سکتا؟ کیا ہماری حکومت جوکہ ایک اسلامی ملک کی اسلامی حکومت ہے تو کیا صرف ایک مہینے کو اللہ کی رضا کے لیے عوام کی فلاح و بہبود فراہم نہیں کر سکتی ہے؟ کیا بے چارے غریب لوگ کم از کم اس ماہ مبارک میں اچھے سے نہیں رہ سکتے ہیں؟
بے حساب ماشا اللہ ہمارا ملک خیراتی عطیات دیتے میں آگے آگے ہیں۔ لوگ دل سے ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتے ہیں اورکرتے ہیں پھرکیا وجہ ہے کہ حکومت اور صوبائی گورنمنٹ بہترین پرفارمنس ادا نہیں کر سکتی ہے، دو سال پہلے ہیٹ اسٹروک نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، کئی اموات ہوئیں، اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے، علاج و معالجہ نہیں اور لوڈ شیڈنگ کی انتہا۔ مبارک ماہ رمضان میں لوگ بے حال ہو گئے اور مختلف پریشانیوں میں گھر گئے خوف کی ایک فضا قائم ہو گئی اور اتنی ہو گئی کہ اگلے سال رمضان کی آمد پر ایدھی مرحوم اور چھیپا صاحب نے پہلے سے قبریں کھدوا کر رکھ لی۔
خبر پڑھ کر ہنسی آتی تھی، سوچیے زندہ انسانوں کے لیے پہلے سے ہی قبریں کھو دنا۔ ہم کیا تھے کیا ہوگئے اورکیا ہوتے جا رہے ہیں؟ ابھی سے بجلی اور پانی کی فراہمی کی حالت مخدوش ہے دھرنے بھی جاری ہیں۔ احتجاج بھی ہو رہا ہے اورکئی گھنٹوں تک بجلی کا غائب ہونا بھی موجود ہے۔ گرمی کی شدت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور انشا اللّہ 27 یا 28 مئی سے رمضان شریف کا بھی آغاز ہو جائے گا۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے اور سبزی، دال سے لے کر تمام ضروریات زندگی تک کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگی ہیں، حد یہ ہے کہ لیموں 500 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔
کیا ہماری کمزور حکومتوں کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کم ازکم ایک بابرکت، رحمتوں سے بھرے ہوئے اس ماہ مبارک کو عوام کے لیے بہتر سے بہتر بنائیں۔
یقین جانیے اس میں کوئی بھی راکٹ سائنس نہیں اس میں کچھ بھی ایسا نہیں جوکہ حکومت کے بس میں نہ ہو۔
مگر نہ جانے کیوں یہ لوگ غریب عوام کے خون چوسنے والے بن گئے ہیں۔ دوسری طرف یہی لوگ رمضان کے مختلف ٹی وی شوز میں موبائل فون سے لے کر گاڑی تک بانٹ رہے ہیں۔ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے عوام کو ایسے ایسے انعامات سے نواز رہے ہیں کہ بے کس بے بس عوام سوچتے ہیں کہ چلو اسی کے ذریعے وہ اپنی ضروریات پوری کرلیں مگر کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟ کیا اس طرح عوام کے جذبات اور احساسات سے کھیلنا صحیح طریقہ ہے، لوگوں کی عزت نفس کو سرعام مذاق کا نشانہ بنانا کیا بہتر عمل ہے؟
کہاں ہیں وہ پالیسی میکر،کہاں ہیں وہ لوگ جو ووٹ لے کر عوام کی فلاح وبہبود کرنے کا حلف لیتے ہیں اور پھر سالہا سال اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، غضب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ معصوم شکلیں بناکر حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کہتے ہیں کہ وہ بے بس ہیں، ہاں اپنے لیے وہ تمام ضروریات کئی گنا بڑھا کر حاصل کررہے ہوتے ہیں۔
کب تک اور کہاں تک یہ کھیل چلتے رہیں گے، لگتا نہیں کہ اب زیادہ دیر تک یہ اندھیرا چھایا رہے گا آخر عوام کب تک زندہ ہوتے ہوئے بھی اپنی قبریں کھدوائیں، آخر کب روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے در بدر اپنے آپ کو ذلیل کروائیں، کب تک بچے اپنی ضروریات کو ترسیں کب تک جوان بچیاں اپنی شادیوں کے خواب سیکھتے دیکھتے بوڑھی ہوجائیں، پتھر کے دل رکھنے والے جب اپنی اور اپنے اہل خانہ کی تصاویر شایع کرواتے ہیں جس میں ان کی عورتیں ہیرے جواہرات سے لدی ہوں، جس میں وہ خود لاکھوں کے کپڑے زیب تن کیے ہوتے ہوں تو کیا ان کو شرم نہیں آتی،کیا ان کو دل میں ذلت کا احساس نہیں ہوتا ہے جن لوگوں کے حلق سے نوالے چھین کر یہ عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہیں وہی لوگ جو ان کو ووٹ دیتے ہیں جوان سے بھلائی کی امید رکھتے ہیں، ان ہی کا یہ لوگ سب کچھ چھین لینے کو تیار ہیں۔
ماؤں کے دل تو داد سے محبتوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ جو خواتین حکومتوں کا حصہ ہیں کیا وہ صرف اپنی اولاد کا ہی سوچتی ہیں کیوں نہیں وہ جذبہ رسول، وہ جذبہ خلفائے راشدین ان میں پیدا ہوتے، کھانے کے ٹیبل پر 20 ڈشز ہو یا دو انسان اتنا ہی کھائے گا جتنا وہ کھاسکے گا پھر ان لوگوں کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا جو بھوک وافلاس سے مر جاتے ہیں اپنے اہل خانہ کو مار دیتے ہیں۔
ایک ہی درخواست ہے کہ براہ مہربانی پورے ملک میں ہنگامی اقدامات کیے جائیں، صوبائی سطح پر بھی اور وفاقی سطح پر بھی، ماہ رمضان کو عوام کے لیے بے انتہا شاندار بنایا جائے۔ تمام ضروریات زندگی کی سستی فراہمی حکومت کا اولین فریضہ ہو، چھوٹے اور بڑے تمام بازاروں میں حکومتی نمایندے بروقت موجود ہوں، سبزی سے لے کر تمام بنیادی ضروریات کا حصول عوام کے لیے بے انتہا آسان بنایا جائے، خاص طور پر غریب علاقوں میں ایسے بازاروں کا اہتمام کیا جائے۔
لاکھوں کروڑوں کے حساب سے عطیات دینے والے حضرات بھی اپنے اپنے اسٹال ایسی جگہوں پر لگوا سکتے ہیں جہاں کے عوام زیادہ ضرورت مند ہوں۔ خدا کے واسطے اس مبارک اور رحمتوں سے بھرے ہوئے بابرکت مہینے کو اتنا شاندار بنا دیجیے جیساکہ اللہ کا حکم ہے۔ تمام مسلمانوں کو رمضان شریف مبارک ہو۔