
انھوں نے زندگی میں سیکڑوں ہزاروں شاگرد بنائے اور یہ لوگ اس وقت ملک بھر کی یونیورسٹیوں' لیبارٹریوں' دوا ساز کمپنیوں اور عالمی اداروں میں کام کر رہے ہیں' سائنس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کا کمال ان کی طویل العمری تھا' ڈاکٹر صاحب نے ماشاء اللہ 97 سال عمر پائی اور یہ آخری سانس تک کام کرتے رہے' انھیں لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے دل پر بوجھ محسوس ہوا' یہ اسپتال لے جائے گئے اور یہ مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے' طویل العمری اللہ کی نعمت ہوتی ہے لیکن انسان کو اس نعمت کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے' لوگ ایکسرسائز کرتے ہیں' کھانے میں پرہیز کرتے ہیں' دوائیں استعمال کرتے ہیں' وقت پر کام شروع کرتے ہیں اور وقت پر چھٹی کر کے آرام کرتے ہیں' لوگ صحت مند زندگی کے لیے سگریٹ' شراب اور نسوار سے بھی بچتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے طویل العمری کے لیے ان میں سے کسی اصول پر عمل نہیں کیا' وہ ایکسرسائز نہیں کرتے تھے' کھانے میں بھی بدپرہیزی کرتے تھے' وقت پر دوا نہیں لیتے تھے اور دن کا زیادہ تر وقت لیبارٹری میں گزار دیتے تھے' ڈاکٹر صاحب نے پانچ سال کی عمر میں سگریٹ پینا شروع کی اور آخری دن تک سگریٹ پیتے رہے' وہ چین سموکر تھے' ایک سگریٹ بجھتا تھا تو وہ دوسرا جلا لیتے تھے' وہ دن میں تین چار ڈبی سگریٹ پی جاتے اور انھوں نے یہ معمول مذہبی فریضے کی طرح نبھایا' مگر اس تمام تر بدپرہیزی اور غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے 97 سال زندگی پائی او وہ آخری لمحے تک لیبارٹری میں کام بھی کرتے رہے' کیوں اور کیسے؟ یہ کیوں اور کیسے اس کالم کا اصل موضوع ہے' ہم میں سے ہر شخص طویل زندگی بھی چاہتا ہے اور ہم آخری سانس تک اپنے قدموں پر بھی کھڑا رہنا چاہتے ہیں' اپنی آنکھوں سے دیکھنا' اپنے کان سے سننا' اپنے ہاتھ سے چیزیں پکڑنا اور اپنے دانتوں سے چبانا چاہتے ہیں' ہم زندگی کی آخری سانس تک اپنے دفتر' اپنی دکان' اپنی فیکٹری اور اپنے کھیتوں میں بھی جانا چاہتے ہیں اور ہم اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہزاروں جتن بھی کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہماری یہ خواہش پوری نہیں ہوتی' ہم سگریٹ' شراب' نسوار سے بھی پرہیز کرتے ہیں' ہم کھانے میں بھی احتیاط کرتے ہیں' ڈاکٹروں' دندان سازوں اور جوڑوں کے ماہرین کی مدد بھی لیتے ہیں اور ایکسرسائز بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے دانت جھڑ جاتے ہیں' سرننگا ہو جاتا ہے' آنکھیں کمزور ہو جاتی ہیں' ہم پائوں رکھتے کہیں ہیں اور یہ پڑتا کہیں ہے اور ہمیں سننے میں بھی پریشان ہوتی ہے مگر ڈاکٹر سیلم الزمان صدیقی ہم سے مختلف انسان تھے' وہ اپنی خواہش کو تکمیل تک لے گئے اور انھوں نے کوئی پرہیز بھی نہیں کیا' کیسے؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
یہ سوال ڈاکٹر صاحب سے ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر مشتاق اسماعیل نے بھی پوچھا تھا' ڈاکٹر مشتاق اسماعیل بھی سائنس دان ہیں اور یہ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کے ساتھ کام کرتے تھے' ڈاکٹر صاحب اس وقت سگریٹ کا آخری کش لگا رہے تھے اور ان کا چپڑاسی اگلا سگریٹ سلگا رہا تھا' ڈاکٹر صدیقی نے پرانا سگریٹ بجھایا اور نیا پکڑ لیا اور ہنس کر بولے '' میری طویل العمری کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے' میں کسی سے حسد نہیں کرتا'' یہ جواب ڈاکٹر مشتاق اسماعیل کے لیے بھی حیران کن تھا اور میرے لیے بھی کیونکہ دنیا میں لمبی اور صحت مند زندگی کی جتنی کتابیں ہیں یہ نسخہ ان میں سے کسی کتاب میں موجود نہیں' دنیا بھر کے کئی ڈاکٹر' دنیا بھر کے کئی غذائی ماہر اور دنیا بھر کے ٹرینر ہمیں لمبی اور صحت مند زندگی کے لیے متوازن خوراک' پوری نیند' ایک گھنٹہ ایکسرسائز اور فکروں سے آزادی کا مشورہ دیتے ہیں' آج تک کسی نے نہیں بتایا حسد انسان کی عمر اور صحت کو کم کرتا ہے' آپ خوراک میں جتنا چاہیں اعتدال پیدا کر لیں' آپ جتنی چاہیں ایکسرسائز کر لیں اور آپ خود کو فکر اور پریشانی سے خواہ کتنا آزاد کر لیں لیکن آپ کے اندر اگر حسد کا بیج موجود ہے تو یہ بیج کھیتی ضرور بنے گا اور یہ کھیتی آہستہ آہستہ آپ کی صحت اور عمر دونوں کو کھا جائے گی' دنیا بھر کے ایکسپرٹ اس حقیقت سے واقف نہیں مگر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اس سے آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے اس نسخہ کیمیا کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا' انھوں نے خود کو ہمیشہ حسد اور رقابت سے پاک رکھا اور یوں 97 سال لمبی اور صحت مند زندگی پائی۔
ہماری کاغذی زندگی کے لیے حسد' رقابت اور غیبت آگ کی حیثیت رکھتی ہے' ہم جب اپنی زندگی میں یہ آگ دُھکا لیتے ہیں تو ہماری عمر اور صحت آہستہ آہستہ پگھلنے لگتی ہے اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے بیمار ہو جاتے ہیں' میرے ایک دوست پانچ وقتہ حاسد ہیں' یہ کسی انسان کی خوشی کو ہضم نہیں کر سکتے' ان کا کوئی کولیگ اچھے کپڑے پہن کر دفتر آ جائے' کوئی نئی گاڑی خرید لے' کوئی اپنے گھر میں نیا پینٹ کرا لے' کوئی لوگوں میں بیٹھ کر ہنس لے' کسی کا بچہ اسکول میں اچھی پوزیشن لے لے یا ان کے راستے میں کوئی شخص اپنی پرانی دکان گرا کر نئی تعمیر شروع کر دے یہ حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں' یہ شروع شروع میں اس شخص کی کامیابی یا خوشی سے آنکھ چرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب تعریف پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ اس کے دودھ میں ایسی ایسی مینگنیاں ڈالتے ہیں کہ وہ شخص دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے' ان کا حسد صرف ان کے ماحول یا دائیں بائیں تک محدود نہیں بلکہ اس کی حدود بین الاقوامی ہیں' یہ دوسری اقوام اور غیر ملکیوں کی کامیابیوں میں بھی ایسے کیڑے نکالتے ہیں کہ بعض اوقات کیڑے بھی پریشان ہو جاتے ہیں مثلاً وہ پچھلے دس برسوں سے بل گیٹس کو دنیا کا امیر ترین اور وارن بفٹ کو دوسرا امیر ترین شخص ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں' یہ جب بھی ان دونوں کے خلاف کوئی خبر پڑھتے ہیں تو یہ اخبار اٹھا کر ہمارے پاس آ جاتے ہیں اور ہمیں بڑے فخر سے وہ خبر سناتے ہیں اور اس وقت ان کے چہرے پر عجیب قسم کا تفاخر ہوتا ہے' ہمیں اس وقت محسوس ہوتا ہے جیسے وارن بفٹ اور بل گیٹس کو '' غریب'' بنانے میں ہمارے اس دوست نے دن رات کام کیا' ہمارا یہ دوست حسد کی اس آگ کی وجہ سے چالیس سال کی عمر میں دنیا بھر کے مہلک امراض میں مبتلا ہو چکا ہے' یہ دل کا مریض بھی ہے' یہ بلڈ پریشر' شوگر اور جوڑوں کے عارضے کی گرفت میں بھی ہے اور یہ جوں جوں ان کا علاج کراتا ہے اس کا مرض بڑھتا جا رہا ہے' یہ روزانہ ایکسرسائز بھی کرتا ہے' خوراک میں بھی اعتدال سے کام لیتا ہے اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر بھی عمل کرتا ہے لیکن اس کے باوجود چالیس سال کی عمر میں ساٹھ سال کا بوڑھا دکھائی دیتا ہے اور اس کی واحد وجہ اس کا حسد ہے' حسد ہماری زندگی میں شک پیدا کرتا ہے اور شک ہماری خوشیاں' ہماری زندگی کی تمام لذتیں نگل جاتا ہے اور ہمارا یہ دوست اسی برائی کا شکار ہے مگر ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اس حقیقت سے آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے اپنے دل کو حسد سے پاک کر لیا' ڈاکٹر صاحب کے دل میں حسد نہیں تھا چنانچہ ان میں شک اور غیبت بھی نہیں تھی لہٰذا ان کی عمر لمبی اور جسم صحت مند تھا' وہ جانتے تھے جس دن انھوں نے حسد کیا اس دن صحت اور عمر دونوں رخصت ہو جائیں گی' وہ اس دن ٹین کا خالی ڈبہ بن جائیں گے ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرح جو اس ملک میں ہمارے دائیں بائیں پھر رہے ہیں۔


















