شام اگر وہاں جمہوریت ہوتی
اگر شام میں ہماری ہی طرح کی بری بھلی جمہوریت ہوتی تو کیا وہاں اپنے ہی شہریوں کا یوں قتل عام ممکن ہو سکتا تھا؟
تاریخ میں اس عرب سلطنت کا ذکر ملتا ہے جو تدمر کہلاتی تھی اور جس کے بادشاہ کا نام اذنیہ تھا۔ 267ء میںحمص کے شہر میں اسے اور اس کے ولی عہد کو سازش کے تحت قتل کر دیا گیا۔ اس کی بیوہ نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لی اور اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر شان سے حکومت کرتی رہی۔ وہ ملکہ زنوبیا کے نام سے مشہور ہوئی۔ عربوں کی نیم افسانوی حکایتوں میں اسے ''الزباء'' کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ زنوبیا کے عہد میں اس کے ملک نے ایک شاندار سلطنت کی حیثیت اختیار کی جس میں شام اور شمالی عرب کے علاوہ اشیائے کوچک کا بھی ایک حصہ شامل تھا۔
ایشیائے کوچک کا تاریخی، تہذیبی، تمدنی اور علمی اعتبار سے وہ بے مثال خطہ، جس نے انسان کو ''ابجد'' کا تحفہ دیا اور دنیا میں لکھنے اور علوم و فنون کو محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ یہ علاقہ آج دنیا میں ''شام'' کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود وہ ایک عظیم الشان تاریخ اور تہذیب کا وارث ہے۔ اس کے بارے میں بیسویں صدی کے محترم مستشرق فلپ کے حتی نے لکھا ہے کہ ''شام ایشیاء کا دروازہ تھا اور قوموں کے چوراہے پر واقع تھا۔ جنگ کے زمانوں میں یہ بین الاقوامی میدان کار زار بن جاتا اور امن کے ادوار میں تجارتی شاہراہ کی حیثیت اختیار کر لیتا۔''
کیسی المناک بات ہے کہ وہ سر زمین جہاں سب سے پہلے گیہوں بویا گیا، جہاں تانبا دریافت ہوا اور جہاں انسان نے پہلی مرتبہ مٹی کے برتن بنائے اور انھیں آگ میں پکایا، جہاں انسان نے شہری زندگی بسر کرنے کے آداب سیکھے، جس کا دارالحکومت دمشق دنیا کا وہ شہر ہے جو ہزاروں برس پہلے آباد ہوا اور آج تک آباد چلا آتا ہے۔ وہی شام اپنے مطلق العنان حکمران بشار الاسد کی خوں آشام فوجوں کے نشانے پر ہے۔ حمص اور حلب پر بے محابہ بم برسائے جاتے ہیں۔ اپنے ہی شہری خاک و خون میں سلائے جاتے ہیں۔ وہاں کے شہریوں کی کیسی المناک تصویریں شائع ہوتی ہیں۔ اپنے شاندار تہذیبی ورثے پر ناز کرنے والے اپنے جوانوں اور بے حرمت کر دی جانے والی بیٹیوں کی لاشیں دفن کرتے ہیں۔
ملبے کا ڈھیر ہو جانے والے گھروں پر حسرت سے نظر ڈالتے ہیں۔ اپنے ہی ملک میں محفوظ علاقے تلاش کرتے ہیں اور جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو آس پاس کے ملکوں کی سرحدیں عبور کرتے ہیں۔ اردن، ترکی، لبنان، عراق اور مصر کے ان کیمپوں میں پناہ لیتے ہیں جو شام کی سرحد سے ملحق ان ملکوں کی حکومتوں نے قائم کیے ہیں۔ بیشتر شامی وہ ہیں جن کی جدی پشتی حویلیاں تھیں۔ وہ جو غریب ہیں ان کے گھروں کو بھی ان کے باپ دادا اور پردادا نے تعمیر کیا تھا۔ ہر اینٹ سے بزرگوں اور نوجوانوں کی یادیں وابستہ تھیں۔ وہ تمام ورثہ بشار الاسد کی توپوں نے دھول بنا کر اڑا دیا۔ وہ تہذیبی اور تمدنی علامتیں جو قدیم بازاروں، مسجدوں اور گلیوں کی صورت میں ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں انھیں ٹینکوں نے زمیں بوس کیا۔ حکومتِ وقت سے اختلاف کرنے والی بستیوں پر شامی شہریوں کے ٹیکس سے خریدے جانے والے بمبار طیارے مسلسل بارود برساتے ہیں۔
شامی شہریوں کی خطا اتنی سی تھی کہ جب عرب دنیا میں آمریت اور مطلق العنانیت کے خلاف انقلاب کی لہر چلی تو وہ تیونس اور دوسرے ملکوں سے ہوتی ہوئی شام بھی پہنچی لیکن صرف اس حد تک کہ 15 مارچ 2011ء کو شام کے ایک قصبے میں نوجوانوں نے بعض گھروں کی دیواروں پر حکومت کے خلاف چند نعرے لکھ دئیے تھے۔ نعرے لکھنے والے نوجوانوں پر پولیس نے سخت تشدد کیا۔ اس تشدد کے خلاف طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے۔
بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کے بعد اصلاحات کے وعدوں کے ساتھ برسر اقتدار آئے تھے لیکن ان وعدوں میں سے کوئی ایک بھی تکمیل کو نہ پہنچا۔ لوگوں کے اندر اس بات کی تلخی پہلے سے ہی موجود تھی اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا کہ 15 مارچ 2011ء کا واقعہ ہو گیا۔ بشار الاسد کے حکم پر اس احتجاج کو نہایت سختی سے کچلا گیا۔ شامی طلبہ اور ناراض شہریوں نے یہ سمجھا تھا کہ حکومت ان کے مطالبات پر غور کرے گی اور انھیں ایک بہتر طرز حکمرانی میسر آئے گا۔ انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ بشار الاسد کس سفاکی سے اپنے ہی شہریوں کو کچلیں گے۔
چند ہفتوں بعد مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے اس احتجاج کو دو برس مکمل ہو جائیں گے جو اب بغاوت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس دوران60 ہزار سے زیادہ شامی شہری ہلاک ہو چکے اور ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی میں اپنا نام درج کرا چکے ہیں یا اس اندراج کے منتظر ہیں۔ وہ شامی جو پڑوسی ملکوں میں کیمپوں میں موجود ہیں ان میں سے 1 لاکھ 55 ہزار ترکی، 1 لاکھ 48 ہزار لبنان، 1 لاکھ 42 ہزار اردن، 73 ہزار عراق اور 14 ہزار مصر میں ان اچھے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ ایک بار پھر اپنے وطن کو لوٹ سکیں۔ اپنے گھر کی چھت کے نیچے اودنیس، نزار قبانی، ذکریا تمر اور سلیم برکت کو پڑھ سکیں۔ انگیٹھی پر کھولتے ہوئے قہوے اور تمباکو کی خوشبو سے سرشار ہوتے ہوئے صابری اور صبح فخری کے گائے ہوئے گیتوں پر جھوم سکیں۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شام میں امن و سکون کے دن کب لوٹیں گے لیکن غور و فکر اس نکتے پر کرنا چاہیے کہ دنیا کا قدیم ترین اور شاندار ترین تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی ورثہ رکھنے والا شام اس المناک صورتحال سے کیوں دوچار ہوا؟۔ شام اور اس کے پڑوسی بیشتر عرب ملکوں نے خلافت عثمانیہ سے علیحدہ ہو کر پہلے یورپی طاقتوں کی سرپرستی میں کچھ وقت گزارا اور جب نام نہاد آزادی میسر آئی تو وہ اس سرد جنگ کی لپیٹ میں آ گئے جو امریکا اور سوویت بلاک کے درمیان لڑی جا رہی تھی۔
امریکا اور سوویت یونین، دونوں ہی نے ان فوجی آمروں، مطلق العنان حکمرانوں اور بادشاہتوں کی حمایت کی اور انھیں بھاری امداد دی جو ان کے حلقہ اثر میں آنے کو اپنی نجات سمجھتے تھے۔ سرد جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچی، دونوں کیمپوں کی شکست ہوئی، دنیا کو ان کی بالادستی کی جنگ سے نجات ہوئی۔ سوویت یونین کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ سنگین معاشی، سماجی اور سیاسی بحران سے امریکا بھی دو چار ہے اور بارک اوباما کی سربراہی میں اپنی مملکت کو نئے خطوط پر تشکیل دینے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
اس وقت عرب ملکوں میں جس بے چینی اور بغاوت کا ابھار ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ان ملکوں کے عوام کی وہ نفسیات ہے جس کے تحت وہ مہدی موعود کی آمد سے پہلے ہر لمحہ یہ آرزو اور دعا کرتے ہیں کہ کوئی نجات دہندہ کوئی مسیحا آئے اور انھیں تمام مسائل سے نجات دلائے۔ صالحین پر مشتمل کوئی راسخ العقیدہ جماعت اقتدار پر قبضہ کر لے اور ڈاکوئوں، لٹیروں اور بدمعاشوں کو نیست و نابود کر کے ایک خالص عقیدہ پرست مملکت کی بنیاد رکھ دے۔
کسی مسیحا کی آمد کا انتظار اور اس کے لیے نیک خواہشات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب کوئی آمر اور جابر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے تو چند دنوں تک اس کی آمد پر نفلیں ادا کی جاتی ہیں، مٹھایاں تقسیم ہوتی ہیں۔ اور جب یہ ''مسیحا'' اپنی کرسی پر جم کر بیٹھ جاتا ہے تب مخالفین کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور لوگوں کو یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ مخالفت کسی طور برداشت نہیں کی جائے گی۔ آخر کار لوگ اپنے ہی بلائے ہوئے نجات دہندہ کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں اور پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو شام میں ہو رہا ہے کہ شامی فوج اپنے ہی لوگوں کو بے دریغ قتل کر رہی ہے۔ بوسنیا میں مسلمان لڑکیوں اور عورتوں کے خلاف عیسائی فوجیوں نے زنا بالجبر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ کیا ستم ہے کہ یہ شرم ناک ہتھیار شام کی کلمہ گو فوج نے اپنی مخالف کلمہ گو خواتین کے خلاف استعمال کیا اور نو عمر لڑکے بھی اس بربریت کا شکار ہوئے۔
آج شام میں اپنے ہی لوگوں پر جو ستم توڑے جا رہے ہیں، اس المناک صورتحال میں ہم سب کے لیے بھی ایک نکتہ پنہاں ہے اور وہ یہ کہ جمہوریت ناقص ہو، ہمارے معیار پر پوری نہ اترتی ہو، تب بھی کسی 'نجات دہندہ' کسی ''مسیحا'' کو راستہ نہ دیا جائے، جمہوریت کا دامن نہ چھوڑا جائے کہ آخر ہمیں نجات اسی کے دامن میں ملے گی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر شام میں ہماری ہی طرح کی بری بھلی جمہوریت ہوتی تو کیا وہاں اپنے ہی شہریوں کا یوں قتل عام ممکن ہو سکتا تھا؟ ایک ایسی عدلیہ جو وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے اور ہتھکڑیاں لگانے کے در پے ہو، جہاں بر سر اقتدار جماعت کا ایک سینیٹر احتجاج کرتے ہوئے واک آئوٹ کرتا ہو، جہاں حزب اختلاف چھوٹی سی چھوٹی بات پر حکومت کی گرفت کرتی ہو، جہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کو سخت سست کہتے ہوں، جہاں بلوچستان پر ہونے والے ظلم کی جواب طلبی ہوتی ہو۔ وہاں انصاف دیر سے ملے، جمہوریت کے حقیقی ثمرات تاخیر سے لوگوں تک پہنچیں لیکن شام جیسی ''شام غریباں'' برپا نہیں ہو سکتی۔ نجات کسی ''نجات دہندہ'' کسی ''مسیحِ دوراں'' کی راہ دیکھنے میں نہیں، جمہوری اداروں اور روایات کو مستحکم کرنے میں ہے۔