وفاقی بجٹ… محتاط ومتوازن
بجٹ کے اعداد وشمار سے کہیں نہیں لگتا کہ حکومت نے جو دیو مالائی اہداف پیش نظر رکھے ہیں ان کو آخر کس طرح پورا کر ے گی
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے مالی سال2017-18 کا 53کھرب دس ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا جسے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ قرار دیا گیا ہے، بجٹ کی کل تفصیلات اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے جاری کردی ہیں اور ان پر عوامی، معاشی، سیاسی حلقوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل وطن آزادانہ تبصرے کر رہے ہیں۔
بجٹ تقریر سے پہلے قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے کسانوں پر تشدد کے خلاف شدید احتجاج کیا، بجٹ کاپیاں پھاڑ ڈالیں، نعرے بازی کی اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے حکومت کی پرتشدد حکمت عملی پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ حکومت نے رواج بنا لیا ہے کہ جو احتجاج کرے اسے مارو، انھوں نے کہا یہ ہم سب کی آواز ہے، جبر پر ہم خاموش نہیں رہیں گے۔
ملک کی خاموش اکثریت نے اسے ''محتاط'' بجٹ کا نام دیا جو ان کے بقول آئندہ انتخابی مشکلات ، مضمرات ، ووٹرز کی نفسیات اور انہیں درپیش معاشی اور مالیاتی مصائب و مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے، ملکی اپوزیشن جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے مطابق بجٹ مایوس کن اور غریب دشمن ہے جو کشکول کو دیگ بنا دیگا، حکومت غریب عوام کو خواب دکھا سکی، نہ کوئی ٹارگٹ پورا کرسکی، تاہم تاجر اور صنعتکار برادری نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا، تاجروں اور انڈسٹری اسٹیک ہولڈرز کے نزدیک بجٹ متوازن جب کہ صنعتکاروں نے قدرے مایوسی ظاہر کی اور کہا کہ ملک میں کرپشن کے دروازے کھل جائیں گے۔
ایک ممتاز معاشی مبصر نے غیر ملکی ادائیگیوں کے توازن کی بگڑتی صورتحال کو تشویش ناک کہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں اس کا کہیں ذکر نہیں ، اسی طرح برآمدات زوال پذیر ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری کا افق وسیع تر ہونا شرط ہے ، صنعتی شعبہ نے ایف بی آر کے 1500 ارب کے ٹارگٹ پر تشویش، ایسوسی ایشن آف بلڈرز (آباد) نے بجٹ پر کڑی تنقید کی ۔ حکومتی وزرا نے کہا ہے کہ بجٹ متوازن ہے ، اپوزیشن مٹھائی کھلائے۔
وزیراعظم نواز شریف نے بجٹ کو متوازن اور عوام دوست کہا ہے،وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مسلسل پانچواں بجٹ پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں حکومت کے کارناموں کی تفصیل بھی بیان کی، ان کے اعلان کے مطابق کم آمدنی والے طبقوں کے لیے قرضوں کی فراہمی کا فنڈ قائم ہوگا جب کہ چھوٹے کاروبار کے لیے اسلامی طریقہ سے قرضے دیے جائیں گے۔
بجٹ میں ملکی سالمیت اور سیکیورٹی اقدامات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے وزارت داخلہ کے زیر انتظام رینجرز، فرنٹیئر کور سمیت سول آرمڈ سروسز کے لیے نئے بجٹ میں 44 ارب98 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، سندھ میں امن و امان کے لیے 2 ارب کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے، سندھ رینجرز کو گذشتہ برس 9 ارب دیے گئے تھے، آئندہ سال کے لیے 11 ارب23 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں ، پنجاب رینجرز کے بجٹ میں ایک ارب روپے کا اضافہ ہوگا اور نئے مالی سال میں پنجاب رینجرز کو 8 ارب روپے دیے جائیں گے۔
بجٹ پر بلیک منی ، انڈر گراؤنڈ متوازی معاشی سسٹم پر کلہاڑا چلانے اور جاگیرداروں پر زرعی ٹیکس عائد نہ کرنے کو معنی خیز بتاتے ہوئے بعض میڈیا اینکروں ، تجزیہ کاروں اور معاشی مبصرین نے بجٹ کو ملکی اقتصادی حقیقت سے چشم پوشی کی کوشش قراردیا ، اس سیاق و سباق میں یقیناً وزیر خزانہ سے استفسار کیا جا سکتا ہے کہ بجٹ میں 34 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف دینے کی خوشخبری دی گئی مگر ساتھ ہی 120 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اعلان کیا گیا، اسے شہریوں نے ''اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے'' سے تعبیر کیا ہے ، ملک کے مختلف شہروں سے صارفین نے بجٹ کو مہنگائی بم قرار دیا۔
بعض ماہرین اقتصادیات کے مطابق بجٹ کے اعداد وشمار سے کہیں نہیں لگتا کہ حکومت نے جو دیو مالائی اہداف پیش نظر رکھے ہیں ان کو آخر کس طرح پورا کر ے گی، تاہم حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک ٹریلین رقم مختص کرنے کو صائب تجویز قرار دیا ہے، ایف پی سی سی آئی نے اگست تک ریفنڈ دینے کے اعلان کو خوش آئند کہا، یکم جولائی سے 2010 کا ایڈہاک ریلیف الاؤنس ضم کرکے سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافے، محنت کش کی کم سے کم اجرت ایک ہزار روپے اضافے کے ساتھ 14ہزار سے بڑھا کر 15ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے، ڈیلی الاؤنس کی شرح60فیصد بڑھانے اور اردلی الاؤنس12ہزار سے بڑھا کر14ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔
دفاعی بجٹ میں 79 ارب روپے کے اضافہ کیے جانے کی تجویز رکھی گئی ہے ، دفاعی بجٹ 841 ارب سے بڑھا کر 920 ارب روپے ہوگیا ہے، ایف سی کی تنخواہ میں فکس 8000 روپے بڑھانے کی تجویز ہے، شہدا کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے ایک ارب کا پیکیج اور ساڑھے 5 لاکھ بیواؤں کے5 لاکھ روپے تک قرضے معاف کیے جائیں گے، وزیر خزانہ نے عسکری اداروں کے لیے پیکیج کا بھی اعلان کیا جب کہ فوج کے افسروں اور جوانوں کی تنخواہوں میں مجموعی طور پر 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس میں 10 فیصد تنخواہوں میں اضافہ کے علاوہ 10 فیصد ردالفساد اسپیشل الاؤنس بھی شامل ہے۔
بجٹ تجاویز کی روشنی میں سیمنٹ ، سریا، درآمدی کپڑے ، سگریٹ ، پان ، چھالیہ، چاکلیٹ، کاسمیٹکس، الیکٹرانکس ، دوائیں، خشک دودھ ، غیرملکی مشروبات مہنگی کرنے جب کہ چھوٹی گاڑیاں، اسمارٹ موبائل فون، فون کالز، مرغی، شتر مرغ ، ٹیکسٹائل، یوریا، ڈی اے پی کھاد، زرعی مشینری، بے بی ڈائپرز ، ہائبرڈ کار ، لبریکیٹنگ آئل پر درآمدی ڈیوٹی ختم کی جائے گی، وزیر خزانہ نے کہا 85 ہزار روپے سے زائد ماہانہ تنخواہ لینے والوں کو ایڈوانس ٹیکس دینا ہوگا،1 تا5 گریڈ کے سرکاری ملازمین ہاؤس رینٹ الاؤنس کٹوتی سے مستثنیٰ ہونگے۔
بجٹ میں تنخواہ دار طبقہ کو ایڈوانس ٹیکس کے شکنجہ میں جکڑنا اور جہاں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے اور 10 لاکھ ٹیکس گوشوارے داخل کرنے والوں کی تعداد 20 لاکھ ہونی چاہیے وہاں انکم ٹیکس دینے والے تنخواہ دار طبقے پر مسلسل اضافی بوجھ ڈالنا کہاں کا انصاف ہے۔ اسی طرح اگر ٹریڈ یونین رہنماؤں اور محنت کشوں نے بجٹ پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے تو ان کی داد رسی ہونی چاہیے، کسان اور انڈسٹریل مزدور ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، مگر افسوس انہیں بدحالی، کسمپرسی اور غربت سے نجات دلانے کے لیے بجٹ میں کوئی بریک تھرو نہیں۔ تاہم بجٹ میں گریٹر کراچی واٹر اسکیم کے لیے 13 ارب جب کہ شاہراہوں ، سی پیک منصوبوں ، چینی ماہرین اور مزدوروں کی سیکیورٹی، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و صحت ، مدرسہ ریفارمز،خلائی تحقیق سمیت دیگر شعبوں اوراسکیموں کے لیے خاطر خواہ رقوم رکھی گئی ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ انشاء اﷲ آئندہ سال لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کا سال ہو گا، نوشتہ دیوار آج بھی واضح ہے صرف پیغام تبدیل ہوا ہے، آج معتبر عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان 2030ء تک دنیا کی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2013 میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ مالی خسارہ آٹھ فیصد سے بڑھ چکا تھا۔ توانائی کا بحران حد سے زیادہ تھا۔
گذشتہ ادوار میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی معیشت کو غیر مستحکم قرار دیا جاچکا تھا۔ عالمی بینک پاکستان کے ساتھ کام کرنے سے گریزاں تھا لیکن آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ صنعتوں کے لیے لوڈشیڈنگ نہیں کی جا رہی۔ گھریلو صارفین کے لیے بھی لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں واضح کمی ہوئی۔ دنیا کی بڑی ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی ریٹنگ بہتر کی ہے جب کہ عالمی برادری کا ہم پر معاشی اعتبار مضبوط ہوا ہے۔
حکومتی اصلاحات کی بدولت حال ہی میں ہم نے اوپن گورنمنٹ پارٹنرشپ(او جی پی) پر دستخط کیے جس کے لیے ایک خاص معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے جو شفافیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انھوں نے استدعا کی کہ اپوزیشن کو معیشت پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ملک کو میثاق ِ معیشت پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی اقتصادی شرح نمو بلند ترین سطح پر ہے، سینیٹ میں اپوزیشن کے احتجاج پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ڈار نے کہا پاکستان کو 2030 میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ معیشت کا حجم 300 ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔ فی کس آمدن 1631 ڈالر رہی۔ یکم جون سے پاکستان ایمرجنگ مارکیٹ بن جائے گا۔
انھوں نے مزید کہاکہ آئندہ مالی سال 2017-18کے بجٹ میں این ایف سی کے تحت قابل تقسیم محاصل کے پُول سے صوبوں کو مجموعی طور پر 23کھرب،84ارب ملیں گے جس میں سے پنجاب کو سب سے زیادہ 11 کھرب، 61ارب، 82 کروڑ40لاکھ، سندھ کو 6 کھرب، 12 ارب، 59 کروڑ روپے، خیبر پختونخوا کو 3 کھرب، 89ارب،85کروڑ 40لاکھ روپے اور بلوچستان کو دو کھرب، 19 ارب 97کروڑ 40لاکھ روپے ملیں گے۔
این ایف سی کے تحت قابل تقسیم ٹیکسوں کی مد میں صوبوں کو 22 کھرب 68ارب 99کروڑ 90لاکھ ملیں گے جب کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو براہ راست ایک کھرب پندرہ ارب24کروڑ40لاکھ روپے منتقل ہونگے۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے نان فائلرزر، ٹھیکوں، فروخت اور خدمات، غیر مقیم افراد کو ادائیگی، کرائے سے آمدنی ، پرائز پانڈ اور لاٹری کے انعامات، کمیشن، نیلامی ، سی این جی اسٹیشن کے گیس بل پر ودہولڈنگ ٹیکس کی وصولی، صنعت کاروں اور درآمدکنندگان کی ڈسٹری بیوٹرز ، ڈیلرز اور ہول سیلرز کو فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے تاہم فائلر کیلیے موجودہ شرحیں بغیر کسی اضافے کے برقرار رہیں گی۔ پولٹری کے کاروبار میں استعمال ہونے والی سات مختلف قسم کی مشینوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کر کے 7فیصد کرنے کی تجویز ہے ۔ اس اقدام سے اس سیکٹر میں سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
معاشی ماہرین کا کہنا تھا کہ معاشی نظام کی مکمل قلب ماہیت پر مبنی بجٹ حکومتیں اپنے مینڈیٹ اور میعاد کے ابتدائی سالوں میں پیش کرتی ہیں اور موجودہ حکومت سے یہ توقع بے جا ہے کیونکہ اسے تو ایک متلاطم انتخابی دریا عبور کرنے کے ساتھ ساتھ شدید مزاحمت، مخالفت اور کشیدگی کا سامنا ہے اس لیے ایسی صورتحال میں جمود شکن انقلابی اور دلیرانہ بجٹ پیش کرنے اور بنیادی تبدیلیاں لانے کی امید نہیں رکھنی چاہیے، لہٰذا بجٹ کی تیاری کے ضمن میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ن لیگ نے نامساعد حالات میں 'باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی' جیسا بجٹ ''تنی ہوئی رسی'' پر چلتے ہوئے پیش کیا ہے۔