سی ٹی ایس CTS۔
عام انسان یہی سمجھتا ہے کہ لکھنے والااس لیے لکھتا ہے کہ اسے عوضانہ ملتا ہے
'' آپ لکھنا چھوڑ نہیں سکتیں بہن؟'' ان کے سوال پر میں نے خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھا۔ وہ میرے ساتھ مذاق نہیں کر رہے تھے۔
''یہ لکھنا نہیں چھوڑ سکتیں ...'' میری بجائے صاحب نے جواب دیا۔ میں خوش ہوئی کہ انھیں کس قدر احساس ہے کہ میرے لیے لکھنا کس قدر اہم ہے، جس طرح... جس طرح... مجھے سوچنے کو بھی کوئی مثال نہ سوجھی تھی۔
''لکھنا کس قدر ضروری ہے آپ کے لیے؟'' انھوں نے پھر سوال کیا، میں لکھنا کیوں نہیں چھوڑ سکتی۔
عام انسان یہی سمجھتا ہے کہ لکھنے والااس لیے لکھتا ہے کہ اسے عوضانہ ملتا ہے... مگر انھیں ادراک نہیں ہوتا کہ لکھنے والے کی بھی مجبوری ہوتی ہے، جب ذہن میں خیالات کی یلغار ہو اور اللہ نے طاقت و استعداد دے رکھی ہو تو لکھنا پڑتا ہے۔ لکھنا سیکھا نہیں جاتا، یہ اللہ کا دیا ہوا ٹیلنٹ ہے جو لکھاری کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ہم کوئی بادشاہوں کے قصیدہ خوان تو نہیں محنت مشقت کر کے جو کمائی ہاتھ میں آتی ہے وہ اتنی ہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح خدمت خلق کے کام آ جاتی ہے۔ ہاں آج قصیدہ خوان خوب نوازے جاتے ہیں۔ ایک اور سوال آیا، ''اور کتنا لکھتی ہیں؟''
'' لکھنے والوں کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہوتا کہ کتنا لکھا اور کیوں لکھتی ہوں ... جیسے بھوک، نیند تو جبلی چیزیں ہیں، لکھنا تو جبلت نہیں؟''
'' لکھنے والوں میں ایک جبلت زیادہ ہوتی ہے... '' میں نے رسان سے کہا،
'' آپ نے ٹھیک کہا، لکھاری خاص ہی ہوتے ہیں، ہر شخص لکھ نہیں سکتا!!!''
''پھر سوال کیا گیا۔
''نہ لکھنا کتنا ضروری ہے؟'' میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا۔''اور پھر میری کیس ہسٹری آپ کے سامنے پڑی ہے، میرے دونوں ہاتھوں میں یہ مسئلہ شدید تھا جب سات سال قبل آپریشن ہوا تھا، بائیں ہاتھ سے تو میں لکھتی بھی نہیں لیکن اس میں یہ مسئلہ جلد ہی دوبارہ شروع ہو گیا تھا!!'' میرے پاس اس کا جواب بھی موجود تھا۔
'' well ... '' انھوں نے میز پر پیپر ویٹ گھمایا، ''اگر آپ کو لگتا ہے کہ لکھنا بھی اہم ہے اور لکھ بھی نہیں پا رہی ہیں تو پھر آپ کو جلد کوئی فیصلہ کرنا ہو گا!!''
زندگی اور موت کے بیچ کا فیصلہ؟ یا جب ڈاکٹر ہیرو سے کہے کہ آپ کی بیوی کی حالت بہت تشویش ناک ہے آپ کی بیوی اور بچے میں سے کسی ایک کو بچایا جاسکتا ہے!! میرے پاس بھی ایسی ہی آپشنز تھیں۔ لکھنے کے لیے اپنا ہاتھ بچا لوں یا لکھنا چھوڑ کر لوگوں کو اس اذیت سے بچا لوں جو ان کو میری تحریروں سے ملتی ہے۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ان کو جواب کیا دیا جائے، چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ جہاں میں کوئی ایسا کالم لکھوں کہ کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو اس کے جواب میں جتنے لوگ دامے، درمے، سخنے اور قدمے مدد کے لیے رابطہ کرتے ہیں اس پر میں اس ذات باری تعالی کا شکر ادا کرتی ہوں کہ جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں کسی کی بہتری کا وسیلہ بن جاتی ہوں۔
میں یہ کالم... اپنے سن ہاتھ کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔ ا س پرابلم کو ڈاکٹری زبان میں''سی ٹی ایس'' Carpal tunnel syndrome کہا جاتا ہے، آسان زبان میں، ہمارے ہاتھ میں جو نسیں سپلائی کے لیے جاتی ہیں ان کا منبع کلائی میں ہے، وہاں کسی وجہ سے جب یہ نس median nerve دبتی ہے تو اس سے ہاتھوں میں سن ہونے اور ہاتھ کی گرفت کمزور ہونے کا مسئلہ ہوجاتا۔ یہ مسئلہ دنیا بھر میں بہت زیادہ ہے۔ نیٹ پر سرچ کرنے پر معلوم ہوا کہ صرف امریکا میں ہی ہر سو میں سے پانچ لوگوں کو سی ٹی ایس کا مسئلہ ہے... ہمارے ہاں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے اعداد و شمار ہی مرتب نہیں کیے جاتے، مردم شماری ہونا ہی ہمارے ہاں ناممکنات جیسا مسئلہ ہے تو بیماریوں کے اعداد و شمار کون جمع کرے!!
میں اس وقت اسی مسئلے کو لے کر اپنے ڈاکٹر کے پاس بیٹھی تھی جس نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا علاج دوبارہ آپریشن ہے۔ سات سال قبل میں دوونوں ہاتھوں کا ایک بار یہ آپریشن کروا چکی ہوں۔... مگر اللہ تعالی نے مجھے ان دو سے پانچ فیصد لوگوںمیں شامل کیا جن میں یہ مسئلہ دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اس کی ذات کا پھر بھی کروڑوں بار شکر ہے کہ اس نے مجھے علاج کروانے کے قابل رکھا، میرے لیے ہمیشہ ایسے اساب پیدا کیے کہ جب بھی مجھے کوئی طبی مسئلہ ہوا تو اس کے علاج کے لیے مجھے بہترین ڈاکٹروں کی مشاورت اور مہارت ملی۔ میں یہ کالم منگل کی نصف سے زائد رات کے بعدلکھ رہی ہوں کیونکہ کل مجھے آپریشن کے لیے جانا ہے، آج دن بھرمیں میں نے اپنے باقی کام نمٹائے کہ جو میں چند دن تک کرنے کی اہل نہ ہوں گی، دوسری بار کی سرجری میں مجھے بہت احتیاط کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ مجھے آپ سب کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ آپ میں سے جس جس کی نظر سے یہ کالم گزرے، آپ زیادہ تر لوگ روزے کی حالت میں ہوں گے، آپ سے عرض ہے کہ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ میری جو عمر باقی بچی ہے اس میں اللہ تعالی مجھے دوبارہ ایسی کڑی آزمائش سے نہ گزارے۔
ڈاکٹر نے کہا ہے کہ مجھے کچھ عرصہ کے لیے ہر اس چیز سے احتیاط کرنا ہو گی جس کے باعث مجھے یہ تکلیف پھر ہو سکتی ہے، ابھی کے آپریشن میں بھی انھوں نے رسک کا عنصر کافی کہا ہے مگر ایک بار تو چانس لینا ہے، کامل شفاء اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ ان ڈاکٹروں کو میرے لیے وسیلہ بنائے گا انشا اللہ۔
''دنیا میں اتنی ترقی ہو رہی ہے... اب تو وہ سافٹ وئیر آ گیا ہے کہ آپ بولتے ہیں اور کمپیوٹر خود بخود لکھتا ہے... '' بہت سے لوگ یہ بات کہتے ہیں ، بالخصوص میرے ہاتھ کے پرابلم کے حوالے سے- اگر میرے پڑھنے والوں میں سے کسی کو ایسے سافٹ وئیر کا علم ہو جو بولنے پر '' اردو اسکرپٹ'' بھی لکھتا ہو تو براہ مہربانی مجھے ضرور آگاہ کریں۔ اگر نہیں تو ان لوگوں سے درخواست ہے جو کہ کمپیوٹر کے سافٹ وئیر بناتے ہیں وہ ایسی ایجادات کرتے وقت ہمیں بھی یاد رکھیں، وہ ہمارا بھلا کریں گے تو اللہ ان کا بھی بھلا کرے گا۔
چند دن کے لیے کمپیوٹر اور فون کا استعمال ممکن نہ ہو گا اس لیے ای میل پر بھی رابطہ نہ ہو سکے گا۔ زخم بھرتے ہی، اپنے ڈاکٹر کی اجازت سے... آپ سے جلد ملاقات ہو گی، کسی نئے موضوع پر اپنے خیالات کے اظہار کے ساتھ۔
دعاؤں کی طالب، آپ کے لیے دعا گو!!
نوٹ- گزشتہ ایک کالم کے ذریعے میں نے جس نوجوان کی مدد کی درخواست کی تھی، اس کے مسائل کے حل کے لیے فوری طور پر جتنی رقم کی ضرورت تھی، اس سے بڑھ کرچند قارئین اور چند اہل خاندان نے کر دی تھی۔ اب اسے مزید رقم نہ بھجوائیں۔ جزاک اللہ !!