لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کی تباہی
ریلوے اسٹیشن شہرکے لوگوں کے لیے ایک تفریح بھی ہوتی تھی
ذرائع مواصلات کا نظام ملکوں کی ترقی میں نمایاںکردار ادا کرتا ہے انگریزوں کے زمانے میں جب ریلوے کا نظام شروع ہوا تو لوگوں کو ایک سے دوسرے علاقے تک جانے کی بڑی سہولت مل گئی۔ سندھ میں بھی ریلوے اسٹیشن بننا شروع ہوئے، ریل گاڑیاں صبح اور رات کو اپنی منزلیں طے کرتی رہتی تھیں اور کئی مسافروں کو منزل تک پہنچانا، رشتے داروں اوردوستوں کو ملانے کا کام کرنا شروع کیا۔ گڈز ٹرین بھی چلنا شروع ہوگئی جس سے تجارت کو فروغ ملا اور سندھ کی معاشی حالت اوربہتر ہوگئی۔ ریل گاڑی کے سفرکا بھی ایک سحر تھا اور پھر ریلوے اسٹیشن پر آنا اور وہاں سے دوسرے ریلوے اسٹیشن پر اترنا ایک رومانس سے کم نہیں تھا۔
ریلوے اسٹیشن شہرکے لوگوں کے لیے ایک تفریح بھی ہوتی تھی گرمیوں کے موسم میں شام اور رات کے وقت لوگ وہاں جاکر ہوا کھاتے تھے۔ لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن جسے جنکشن کا اعزاز حاصل تھا وہ میرے گھر سے بہت قریب تھا۔ لاڑکانہ ریلوے1891ء میں مکمل ہوگئی اور نئی عمارت پرانی کے سامنے بھٹو نے 1973ء میں بنوائی تھی کیونکہ پرانے ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم خستہ ہوگیا تھا۔ جہاں نیا اسٹیشن بنایا گیا ہے وہاں پر ریلوے گودام ہوتا تھا۔
پرانے اسٹیشن میں ریلوے ملازموں کے لیے ایک چھوٹی ڈسپنسری بھی انگریزوں نے قائم کروائی تھی یہ اب بھی اسپتال کے طور پر موجود ہے مگر اس کا حال بھی برا ہے۔ پرانے اسٹیشن کے برابر ایک پرانی مسجد قائم ہے جہاں ہر عید الفطر اور عیدالاضحی کے موقعے پر دور، دور سے لوگ نماز ادا کرنے آتے تھے جس میں ہم لوگ بھی شامل تھے۔
ریلوے اسٹیشن کے لیے وہاں پر چھوٹے ملازموں کے لیے کوارٹرز، افسران کے لیے بنگلے، باہر سے آنے والے افسران کے لیے ڈاک بنگلہ، اسٹیشن ماسٹر کے لیے الگ بنگلہ، انجن ڈرائیورز اورگارڈز کے لیے الگ الگ ریسٹ ہاؤس بنوائے تھے۔ جیساکہ پہلے کالا انجن ہوتا تھا اوراس کی ڈائریکشن تبدیل کرنے کے لیے لوکوشیڈ بنا ہوا تھا جہاں پر انجن بھی کھڑا ہوتا تھا۔ان کے ساتھ بھٹو صاحب نے ایک الگ وی آئی پی پلیٹ فارم بنوایا تھا جہاں پر باہر ممالک سے آنے والے سربراہوں اورپاکستانی وزرا کے سیلون کھڑے ہوتے تھے۔
وہاں پر ایک اچھا چھوٹا پارک بھی تھا تاکہ وی آئی پی پی باہر نکل کرکھلی فضا اور ہریالی کا مزہ لے سکیں۔ جب وی آئی پی نہیں ہوتے تو ہم لوگ صبح اورشام وہاں جاکر واک کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لوکوشیڈ میں بھی ایک چھوٹا پارک تھا جہاں پر ہم امتحانوں کے دنوں میں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔
نئی ریلوے اسٹیشن کی عمارت میں نیچے انڈرگراؤنڈ بھی کمرے بنے ہوئے تھے جوگرمیوں میں بڑے ٹھنڈے ہوا کرتے تھے۔ میں اکثر وہاں پر موجود پوسٹ آفس میں دفترکی ڈاک بھی دے آتا تھا۔ پرانے اسٹیشن پر ایک ٹکٹ گھر تھا جب کہ نئے میں دو الگ الگ ٹکٹ گھر بنے ہوئے تھے۔اس میں تھرڈ، سیکنڈ کلاس کی ٹکٹ اور دوسرے میں فرسٹ کلاس کی ٹکٹ اور برتھ ریزرویشن تھی جو اب بھی ہیں۔ نئی عمارت میں ویٹنگ رومز جو مرد اور مستورات کے لیے الگ الگ تھے۔ اس زمانے میں بھی ٹھنڈے پانی کی سہولت نئی اور پرانی عمارتوں میں موجود تھی۔اخباروں کے اسٹال بھی تھے۔
پرانی عمارت میں باہر پڑی ہوئی بینچوں پر بیٹھ کرگاڑی کے آنے کا انتظار ہوتا تھا جب کہ نئی عمارت میں اندر بیٹھتے تھے لیکن زیادہ رش ہونے کی صورت میں باہرکبھی بینچ پر بیٹھ جاتے،کبھی ٹہلتے رہتے اور جیسے ہی لوہے کے گھنٹے کی آواز آتی تو پلیٹ فارم کی طرف مرد اورعورتیں لپک پڑتے۔ سب سے پہلے خواتین اور بچوں کوکمپارٹمنٹ میں کلاس کے حوالے سے بٹھایا جاتا پھر اپنے لیے بھاگ دوڑکرتے۔
جیسے ہی گاڑی پلیٹ فارم پہ آجاتی اس کے ساتھ کھانے پینے کی اشیا بیچنے والوں کی آوازیں شروع ہو جاتیں۔ اکثر لوگ اپنے ساتھ گھرکا کھانا لے آتے تھے لیکن کئی لوگ اسٹیشن سے ہی لے کرکھاتے مگر افسوس کے آج تک وہاں کا کھانا اور چائے اچھی نہیں ملی۔ وہی سوکھی روٹی، پکوڑے، مچھلی،گوشت کے کباب جن کے کھانے سے ہم جیسے لوگ تو بیمار ہوجاتے ہیں۔ اب یہاں پر چائے بیچنے اورکھانا بیچنے والے مایوس اورکم نظر آتے ہیں۔
اخبارکا اسٹال بھی وقتی طور پر کھلتا ہے کیونکہ پلیٹ فارم پر کوئی گہما گہمی نہیں ہوتی۔ وہاں پر موجود ریلوے پولیس کا ایک سپاہی یا تو اخبار پڑھتا رہتا ہے یا پھر موبائل کے استعمال میں مصروف رہتا ہے۔کبھی اسٹیشن پر 12 سے 15 قلی سامان اٹھانے کے لیے ہوا کرتے تھے جو اب صرف ایک بچا ہے وہ بھی اپنا پیٹ نہیں پال سکتا کیونکہ اب زیادہ تر لوگ بس اور ویگن پر سفرکرتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ صرف دو گاڑیاں صبح اور رات کو اپ ڈاؤن چلتی ہیں جن کے مسافر پورے ہوتے ہیں۔
لوگ ٹرین کے سفرکو ترجیح دے رہے ہیں مگر گاڑیاں نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً بس اور ویگن میں سفرکرتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا کہ لوگ ٹکٹ لینے کے لیے آتے جاتے رہتے تھے اور مایوس ہوکر ریلوے انتظامیہ اور حکومت کو برا بھلا کہتے ہوئے نکل جاتے تھے۔افسوس اس بات کا ہے کہ لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کا عروج تھا جہاں سے صبح وشام 12 گاڑیاں اپ اینڈ جایا اور آیا کرتی تھیں اور چوبیس گھنٹے رش کا عالم تھا۔ آنے اورجانے والے مسافروں کے چہروں پر مسکراہٹ اور رونق دکھائی دیتی تھی۔ ٹانگے اور رکشے والے، قلی، چیزیں بیچنے والے بڑے خوش تھے۔
ریلوے سفر میں خاص طور پر فیملی کی بڑی دلچسپی اب بھی نظر آتی ہے کیونکہ ایک تو عورتوں اور بچوں کے لیے الگ انتظام ہے اور دوسرا وہ چلتی ٹرین میں اپنی قدرتی ضرورت کو بھی بغیر رکاوٹ اور پریشانی کے پوری کر سکتے ہیں۔ تھک جائیں توکھڑے ہوکر ٹہل بھی سکتے ہیں۔ چلتی گاڑی میں کھانا کھاتے ہیں۔کھڑکی سے باہر جھانک کر تیزی کے ساتھ گزرتے ہوئے مناظر کو دیکھتے ہیں۔
اب سمجھ نہیں آتا کہ خاص طور پر سندھ میں ریلوے نظام کو حکومت نے کیوں تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم لوگوں کی بھی غلطیاں تھیں اور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت لوگوں کو سفری سہولتیں دینا بندکر دے یا کم کردے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت پر ہمارے لوگوں نے ریلوے اسٹیشن کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس سے پہلے بھی مسافروں نے، ریلوے پولیس، ریلوے گارڈز نے بھی ریلوے کو اربوں روپوں کا نقصان پہنچایا۔ ایک تو ریلوے کی آمدنی کم ہوگئی اور پھر اوپر سے منسٹری نے کرپشن کرکے ریلوے کو تباہ کردیا، لیکن اب تو دوسرے صوبوں میں خاص طور پر پنجاب میں اسے بہترکردیا گیا ہے پھر سندھ میں ایسا کیوں نہیں کیا جا رہا ہے جس سے دادو، لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد والی لائن صحیح ہوجائے۔
لاڑکانہ جسے جنکشن کا اعزاز حاصل تھا وہ بھی ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں بڑی مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ قبضہ خور ریل کی پٹریاں اکھاڑ کر لے گئے ہیں اور لاڑکانہ، قمبر، شہداد کوٹ کی لائن جو جیکب آباد تک جاتی تھی اب اس کا نام و نشان مٹتا جا رہا ہے۔
وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی اس نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی اور نواز شریف حکومت تو سندھ کے علاقوں میں صرف تقریرکرکے چلی جاتی ہے کیونکہ اس کا ووٹ بینک سندھ میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کی سندھ والوں کے لیے کوئی دلچسپی نہیں رہی جب کہ بے نظیر صاحبہ کے جانے کے بعد تو پی پی پی صرف دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز کو کاٹ کر اپنی پارٹی میں شمولیت کروانے میں لگی ہوئی ہے۔ انھیں اپنے لیے وسائل چاہیے اور لوگوں کے لیے مسائل چھوڑے ہوئے ہیں ورنہ لاڑکانہ ریلوے اور دوسرے قومی اداروں کا یہ حال نہیں ہوتا۔ (جاری ہے۔)