ماہِ صیام کا اصل پیغام
ربِ ذوالجلال کا یہ فرمانِ ذی شان کہ روزہ میرے لیے ہے
KARACHI:
حضور سرورِ عالم ؐ کی طرف سے عطا کردہ ضابطۂ حیات کا ہر گوشہ قربتِ خداوندی کا مظہر ہے۔ نیّت میں اخلاص اور گداز ہو تو عبادت کا ہر انداز انسان کو اپنے خالق و مالک کے قریب تر کر دیتا ہے۔ اور بالآخر ایک مقام ایسا بھی آجاتا ہے جب خدائے بزرگ و برتر کا سحاب ِ کرم خود پکار اٹھتا ہے کہ اے میری قربتوں کی انتہا کے طلب گار انسان مجھے اپنی رضا بتا کہ میں تری تمناؤں کا محور بن جاؤں۔
رمضان المبارک کا مہینہ فیوض و برکات اور نجاتِ اُخروی کے اعتبار سے تمام اسلامی مہینوں کا سردار گردانا جاتا ہے۔ جمالِ فاقہ مستی کا شاہ کار یہ بابرکت مہینہ کبھی گرمیوں میں آتا ہے اور کبھی سردیوں میں۔ اگرچہ موسم ِ سرما میں بھی اس کے ثمراتِ دارین کم نہیں ہوتے مگر گرمیوں کے موسم میں ایک مسلمان کے صبر و شکیبائی کی آزمائش کی انتہا ہوتی ہے۔ برداشت، رواداری اور تحمل کی دولت سے اگر ایک مسلمان کا دامن مالامال ہو تو اس فیاضِ فطرت کی عطائیں بھی آبشار کی طرح نازل ہوتی ہیں۔
نعائم ِ فطرت کی اہمیت باقی گیارہ مہینوں سے بڑھ کر واضح تر نظر آنے لگتی ہے۔ اللہ کی رضا ابرِباراں کی طرح برستی محسوس ہوتی ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے عیوب و اسقام سے بچ کر چلنے کا جذبہ آسمان کی رفعتوں کو چُھوتا نظر آتا ہے۔ وسعتِ قلبی اور عالی ظرفی لامحدود ہو کر شش جہت میں پھیل جاتی ہے۔ طاغوتی قوتیں پابہ زنجیر دارالبوار میں پھینک دی جاتی ہیں۔ توحید کبریائی کا ڈنکا چار سُو بجنے لگتا ہے۔
طائرانِ زُہد و اتقا فضائے بسیط میں اُڑان بھرنے لگتے ہیں۔ مسجدوں کی چٹائیاں جبینانِ فرزندانِ اسلام سے آشنا ہونے لگتی ہیں۔ دل ہیں کہ سورۃ یٰس کے گدازِ و قرات سے پگھلنے لگتے ہیں۔ آنکھیں ہیں کہ سورۃ رحمٰن کے سوزِ دروں سے اشک بار ہونے لگتی ہیں۔ لب ہیں کہ کلیدِ قرآن کے لمس سے بوسہ ہائے لذت کے مظہر بنتے نظر آتے ہیں۔ وضو کے بعد روزہ دار کی انگشتِ شہادت اٹھتی ہے تو طلب ِ مغفرت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ روزہ دار کا دستِ دعا اٹھتا ہے تو رضائے خلاقِ دوجہاں ادائے طلبِ مسلمان پر نثار ہونے لگتی ہے۔
جب ایک مخلص اور درد مند مسلمان تمام دن اپنے مالک کی رضا کے لیے اشتہا اور تشنگی برداشت کرنے کے بعد افطار کے وقت دستر خوان پر بیٹھتا ہے تو ان چند لمحوں کے انتظار میں جو حلاوت محسوس کرتا ہے، کوثر و تسنیم بھی اس پر فدا ہوتے معلوم ہوتے ہیں اور پھر جب مغرب کی اذان کے وقت اللہ اکبر کی ندا ایک روزہ دار کے فردوسِ گوش بنتی ہے تو وہ دنیا و مافیہا میں پائی جانے والی نعمتوں کو بھول جاتا ہے۔
روزہ افطار کرتے وقت اسے جو لذت و لطافت محسوس ہوتی ہے اس کا اظہار الفاظ کے بیان کا محتاج نہیں۔ اس کے گلوئے خشک میں ٹپکنے والے پانی کا ہر قطرہ اس کے لیے آبِِ حیات بن جاتا ہے اور بے ساختہ اس کی زبان سے اللہ کی حمد و ثناء کے زم زمے بلند ہونے لگتے ہیں۔ وہ پُکار اٹھتا ہے کہ اے فاقہ کش مخلوق کے رازق و خالق میں تیری اس عنایت کے نثار کہ تو نے ایسا فیض رساں ماہ ِ مبارک عطا کیا، جس نے مجھے ایسے روحانی ارتقاء کی دولت سے مالا مال کر دیا کہ بادِ سموم کے جھونکے بھی نسیم ِ صبح کی فرحتوں میں بدلتے محسوس ہوتے ہیں۔
نطام ِ فطرت کی بُوقلمونیاں روزہ دار کے لیے دعاؤں کے نذرانے لیے حاضر ہوتی ہیں۔ تابانیِ سحر اور انجم ِ فروزاں عروسِ زیبائی کے پیچ و خم کھول کر بارگاہِ روزہ دار کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ کم و پیش چودہ گھنٹے تک معدہ خالی رہنے کی وجہ سے روزہ دار کے منہ سے آنے والی ایک خاص بدمزہ بُو برگ ِ گُل کی شمیم انگیزیوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ ربِ ذوالجلال کا یہ فرمانِ ذی شان کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، کی اہمیت باغِ جنت میں جاکر ظہور پذیر ہوگی۔
محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ جب اہل جنت اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے تو ایک روز ندا آئے گی کہ روزہ دار جنہوں نے دنیا میں فقط میری رضا کے لیے متنوع اشیائے خور و نوش سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی آج انہیں دیدار الٰہی سے مشرف کیا جائے گا، آج روزہ داروں کو اللہ رب العزت اپنے قریب تر لے آنا چاہتے ہیں، جو دنیا میں سوچتے رہے کہ ہمارا خالق و مالک کیسا ہے۔ جب روزہ دار ایک جگہ اکھٹے ہوجائیں گے تو ایک فرحت بخش ہوا چلنے لگے گی جس کے جھونکے اتنے فرحت آفرین ہوں گے کہ مشام ِ جام معطر ہوتے چلے جائیں گے، پھر روزہ داروں کو لحنِ داؤدی کی مٹھاس سے بہرہ یاب کیا جائے گا۔
یہ اتنی مسحور کُن ہوگی کہ روزہ دار اس کے سوز سے نیم جاں ہوجائیں گے۔ اس کے بعد ندا آئے گی کہ اے میری رضا پر اپنی خواہشات و تمناؤں کو قربان کردینے والے روزہ دارو ، اے دنیا میں اپنی ہر آرزو کو مجھ پر نثار کردینے والو، اے دن کے اجالوں اور رات کی تاریکی میں میری محبت میں منازل طے کرنے والو، اے موسم سرما میں شمشیر کی تیزی کے باوجود اپنے آرام و آسائش کو تج کر رکوع و سجود میں محو ہوجانے والو، اے تمازتِ آفتاب میں بھی اپنے سامنے سامان ِ لذت موجود ہونے کے باوجود دائرہِ صبر و قرار میں رہنے والو، آج میں تمھیں ایک ایسے انعام سے نواز رہا ہوں جو صرف اور صرف تمھارے لیے مخصوص ہے۔
محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ وجد آفرین لمحے کا آغاز ہوگا جو خود روزہ داروں کے تارِ نفس کو ہلا دے گا۔ اس دوران خالقِ ارض و سماء اپنے رُخ سے نقاب الٹ دے گا اور روزہ داروں کے دلوں میں اس قولِ رسول ﷺ کی اہمیت و صداقت راسخ تر ہو جائے گی کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ دیدارِ الٰہی سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے۔ روزہ دار بحر مسرت و شادمانی میں اس طرح غوطہ زن ہوجائیں گے کہ لذاتِ فردوسِ بریں کو یک سر فراموش کر دیں گے اور دل میں کہہ اٹھیں گے۔
اپنے خدا سے مانگے تھے رحمت کے چند پھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا
روزہ دار کے چہرے پر اختتام ِ رمضان تک ایک فطری بالیدگی اور کیفیت جمال پیدا ہوجاتی ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رضا طلبی پروردگار میں طلب گارِ رحمت نے ارتقاء کی جو منازل طے کی ہیں انہوں نے اس کے خدوخال کو ایسا رنگِ حسن عطا کردیا ہے جس پر سیارگانِ فلک کی رعنائی بھی نثار ہونے کو تیار ہوتی ہے۔
غروب ِ آفتاب تک اپنے آپ کو بچا کر رکھنے اور پھر اس امتحان میں پورا اترنے والوں کو جو جزا ملے گی اس کا تصور بھی اتنا کیف آفریں اتنا وجد انگیز، اتنا خوب صورت ہوتا ہے کہ روزے دار کی قوتِ احساس حریم ِ قدس کی جانب محو پرواز نظر آنے لگتی ہے۔ تابشِ جلوہ ہائے جمالِ خدا سے نگاہِ روزہ دار میں کمال درجے کی جاذبیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس کی وسعتِ نظر میں فرازِ آسمان بھی گُم نظر آنے لگتا ہے۔ جب وہ خلوص و وفا کے ساتھ سحری کرنے کے بعد مسجد کی جانب چلنے لگتا ہے تو قدم قدم پہ جبین ِ نیاز جھکتی معلوم ہوتی ہے۔
انوارِ رب ذوالجلال سمٹ کر اس کے دل کو بُقعہ نور بنا دیتے ہیں۔ مشیت پروردگار اس کی فاقہ مستی پر تبسم زار ہوتی ہے۔ روزہ دار کے ویرانہ خیال میں ایسے ایسے نقوش ابھرتے ہیں جو اسے فانی کائنات سے بے نیاز کر کے درِکریم پر لے آتے ہیں۔
حضور سرورِ عالم ؐ کی طرف سے عطا کردہ ضابطۂ حیات کا ہر گوشہ قربتِ خداوندی کا مظہر ہے۔ نیّت میں اخلاص اور گداز ہو تو عبادت کا ہر انداز انسان کو اپنے خالق و مالک کے قریب تر کر دیتا ہے۔ اور بالآخر ایک مقام ایسا بھی آجاتا ہے جب خدائے بزرگ و برتر کا سحاب ِ کرم خود پکار اٹھتا ہے کہ اے میری قربتوں کی انتہا کے طلب گار انسان مجھے اپنی رضا بتا کہ میں تری تمناؤں کا محور بن جاؤں۔
رمضان المبارک کا مہینہ فیوض و برکات اور نجاتِ اُخروی کے اعتبار سے تمام اسلامی مہینوں کا سردار گردانا جاتا ہے۔ جمالِ فاقہ مستی کا شاہ کار یہ بابرکت مہینہ کبھی گرمیوں میں آتا ہے اور کبھی سردیوں میں۔ اگرچہ موسم ِ سرما میں بھی اس کے ثمراتِ دارین کم نہیں ہوتے مگر گرمیوں کے موسم میں ایک مسلمان کے صبر و شکیبائی کی آزمائش کی انتہا ہوتی ہے۔ برداشت، رواداری اور تحمل کی دولت سے اگر ایک مسلمان کا دامن مالامال ہو تو اس فیاضِ فطرت کی عطائیں بھی آبشار کی طرح نازل ہوتی ہیں۔
نعائم ِ فطرت کی اہمیت باقی گیارہ مہینوں سے بڑھ کر واضح تر نظر آنے لگتی ہے۔ اللہ کی رضا ابرِباراں کی طرح برستی محسوس ہوتی ہے۔ معاشرے میں پائے جانے والے عیوب و اسقام سے بچ کر چلنے کا جذبہ آسمان کی رفعتوں کو چُھوتا نظر آتا ہے۔ وسعتِ قلبی اور عالی ظرفی لامحدود ہو کر شش جہت میں پھیل جاتی ہے۔ طاغوتی قوتیں پابہ زنجیر دارالبوار میں پھینک دی جاتی ہیں۔ توحید کبریائی کا ڈنکا چار سُو بجنے لگتا ہے۔
طائرانِ زُہد و اتقا فضائے بسیط میں اُڑان بھرنے لگتے ہیں۔ مسجدوں کی چٹائیاں جبینانِ فرزندانِ اسلام سے آشنا ہونے لگتی ہیں۔ دل ہیں کہ سورۃ یٰس کے گدازِ و قرات سے پگھلنے لگتے ہیں۔ آنکھیں ہیں کہ سورۃ رحمٰن کے سوزِ دروں سے اشک بار ہونے لگتی ہیں۔ لب ہیں کہ کلیدِ قرآن کے لمس سے بوسہ ہائے لذت کے مظہر بنتے نظر آتے ہیں۔ وضو کے بعد روزہ دار کی انگشتِ شہادت اٹھتی ہے تو طلب ِ مغفرت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ روزہ دار کا دستِ دعا اٹھتا ہے تو رضائے خلاقِ دوجہاں ادائے طلبِ مسلمان پر نثار ہونے لگتی ہے۔
جب ایک مخلص اور درد مند مسلمان تمام دن اپنے مالک کی رضا کے لیے اشتہا اور تشنگی برداشت کرنے کے بعد افطار کے وقت دستر خوان پر بیٹھتا ہے تو ان چند لمحوں کے انتظار میں جو حلاوت محسوس کرتا ہے، کوثر و تسنیم بھی اس پر فدا ہوتے معلوم ہوتے ہیں اور پھر جب مغرب کی اذان کے وقت اللہ اکبر کی ندا ایک روزہ دار کے فردوسِ گوش بنتی ہے تو وہ دنیا و مافیہا میں پائی جانے والی نعمتوں کو بھول جاتا ہے۔
روزہ افطار کرتے وقت اسے جو لذت و لطافت محسوس ہوتی ہے اس کا اظہار الفاظ کے بیان کا محتاج نہیں۔ اس کے گلوئے خشک میں ٹپکنے والے پانی کا ہر قطرہ اس کے لیے آبِِ حیات بن جاتا ہے اور بے ساختہ اس کی زبان سے اللہ کی حمد و ثناء کے زم زمے بلند ہونے لگتے ہیں۔ وہ پُکار اٹھتا ہے کہ اے فاقہ کش مخلوق کے رازق و خالق میں تیری اس عنایت کے نثار کہ تو نے ایسا فیض رساں ماہ ِ مبارک عطا کیا، جس نے مجھے ایسے روحانی ارتقاء کی دولت سے مالا مال کر دیا کہ بادِ سموم کے جھونکے بھی نسیم ِ صبح کی فرحتوں میں بدلتے محسوس ہوتے ہیں۔
نطام ِ فطرت کی بُوقلمونیاں روزہ دار کے لیے دعاؤں کے نذرانے لیے حاضر ہوتی ہیں۔ تابانیِ سحر اور انجم ِ فروزاں عروسِ زیبائی کے پیچ و خم کھول کر بارگاہِ روزہ دار کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ کم و پیش چودہ گھنٹے تک معدہ خالی رہنے کی وجہ سے روزہ دار کے منہ سے آنے والی ایک خاص بدمزہ بُو برگ ِ گُل کی شمیم انگیزیوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ ربِ ذوالجلال کا یہ فرمانِ ذی شان کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، کی اہمیت باغِ جنت میں جاکر ظہور پذیر ہوگی۔
محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ جب اہل جنت اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے تو ایک روز ندا آئے گی کہ روزہ دار جنہوں نے دنیا میں فقط میری رضا کے لیے متنوع اشیائے خور و نوش سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی آج انہیں دیدار الٰہی سے مشرف کیا جائے گا، آج روزہ داروں کو اللہ رب العزت اپنے قریب تر لے آنا چاہتے ہیں، جو دنیا میں سوچتے رہے کہ ہمارا خالق و مالک کیسا ہے۔ جب روزہ دار ایک جگہ اکھٹے ہوجائیں گے تو ایک فرحت بخش ہوا چلنے لگے گی جس کے جھونکے اتنے فرحت آفرین ہوں گے کہ مشام ِ جام معطر ہوتے چلے جائیں گے، پھر روزہ داروں کو لحنِ داؤدی کی مٹھاس سے بہرہ یاب کیا جائے گا۔
یہ اتنی مسحور کُن ہوگی کہ روزہ دار اس کے سوز سے نیم جاں ہوجائیں گے۔ اس کے بعد ندا آئے گی کہ اے میری رضا پر اپنی خواہشات و تمناؤں کو قربان کردینے والے روزہ دارو ، اے دنیا میں اپنی ہر آرزو کو مجھ پر نثار کردینے والو، اے دن کے اجالوں اور رات کی تاریکی میں میری محبت میں منازل طے کرنے والو، اے موسم سرما میں شمشیر کی تیزی کے باوجود اپنے آرام و آسائش کو تج کر رکوع و سجود میں محو ہوجانے والو، اے تمازتِ آفتاب میں بھی اپنے سامنے سامان ِ لذت موجود ہونے کے باوجود دائرہِ صبر و قرار میں رہنے والو، آج میں تمھیں ایک ایسے انعام سے نواز رہا ہوں جو صرف اور صرف تمھارے لیے مخصوص ہے۔
محدثین تحریر فرماتے ہیں کہ وجد آفرین لمحے کا آغاز ہوگا جو خود روزہ داروں کے تارِ نفس کو ہلا دے گا۔ اس دوران خالقِ ارض و سماء اپنے رُخ سے نقاب الٹ دے گا اور روزہ داروں کے دلوں میں اس قولِ رسول ﷺ کی اہمیت و صداقت راسخ تر ہو جائے گی کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ دیدارِ الٰہی سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے۔ روزہ دار بحر مسرت و شادمانی میں اس طرح غوطہ زن ہوجائیں گے کہ لذاتِ فردوسِ بریں کو یک سر فراموش کر دیں گے اور دل میں کہہ اٹھیں گے۔
اپنے خدا سے مانگے تھے رحمت کے چند پھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا
روزہ دار کے چہرے پر اختتام ِ رمضان تک ایک فطری بالیدگی اور کیفیت جمال پیدا ہوجاتی ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رضا طلبی پروردگار میں طلب گارِ رحمت نے ارتقاء کی جو منازل طے کی ہیں انہوں نے اس کے خدوخال کو ایسا رنگِ حسن عطا کردیا ہے جس پر سیارگانِ فلک کی رعنائی بھی نثار ہونے کو تیار ہوتی ہے۔
غروب ِ آفتاب تک اپنے آپ کو بچا کر رکھنے اور پھر اس امتحان میں پورا اترنے والوں کو جو جزا ملے گی اس کا تصور بھی اتنا کیف آفریں اتنا وجد انگیز، اتنا خوب صورت ہوتا ہے کہ روزے دار کی قوتِ احساس حریم ِ قدس کی جانب محو پرواز نظر آنے لگتی ہے۔ تابشِ جلوہ ہائے جمالِ خدا سے نگاہِ روزہ دار میں کمال درجے کی جاذبیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس کی وسعتِ نظر میں فرازِ آسمان بھی گُم نظر آنے لگتا ہے۔ جب وہ خلوص و وفا کے ساتھ سحری کرنے کے بعد مسجد کی جانب چلنے لگتا ہے تو قدم قدم پہ جبین ِ نیاز جھکتی معلوم ہوتی ہے۔
انوارِ رب ذوالجلال سمٹ کر اس کے دل کو بُقعہ نور بنا دیتے ہیں۔ مشیت پروردگار اس کی فاقہ مستی پر تبسم زار ہوتی ہے۔ روزہ دار کے ویرانہ خیال میں ایسے ایسے نقوش ابھرتے ہیں جو اسے فانی کائنات سے بے نیاز کر کے درِکریم پر لے آتے ہیں۔