اے بسا آرزو
ٹرمپ کو پشاور سے کراچی تک کئی کئی بار مقتل بننے والے پاکستانی شہر ان کے ذہن سے محو ہوگئے
جمعہ 19 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے بیرون ملک دورے پر سعودی عرب پہنچے۔ جہاں انھوں نے ایک نئے عرب اسلامی اتحاد کی سربراہ کانفرنس کی صدارت کے علاوہ سعودی حکمرانوں کے ساتھ مختلف دفاعی اور تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے۔
یہ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی سربراہ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد NAFTA ممالک (کینیڈا یا میکسیکو) کے بجائے مشرق وسطیٰ سے اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز کرے۔ لیکن دیگر صدور اور ٹرمپ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ یہ اول وآخر تاجرانہ ذہن کی مالک شخصیت ہے، جو ہر معاملے کو تجارتی نکتہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔
اس کانفرنس میں شرکت کے لیے 50 سے زائد مسلم ممالک کے سربراہان موجود تھے۔ مگر عالمی میڈیا میں میزبان کے علاوہ ان سربراہان کو پذیرائی ملی، جنھیں ٹرمپ نے شرف ملاقات بخشا۔ ہمارے وزیراعظم واحد مسلم جوہری طاقت کے سربراہ ہونے کے باوجود بقول شخصے آخری صفوں میں بمشکل جگہ پاسکے۔
اس کانفرنس کے موقع پر میزبان شاہ سلیمان ہوں یا عالی مرتبت ڈونلڈ ٹرمپ، کسی کو وہ ہزاروں بے گناہ پاکستانی یاد نہ آئے، جو افغان جنگ اور پھر اس کے ردعمل میں بپھرے ہوئے جنگجوؤں کے خودکش حملوں کا نشانہ بنے۔ نہ کسی کو فوج کے وہ افسران اور سپاہی یاد آئے جنھوں نے وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ذکر ہوا تو بھارت کا کہ وہ دہشتگردی کا نشانہ ہے۔
ممبئی، پٹھانکوٹ اور اڑی تو ٹرمپ کو یاد رہے، مگر پشاور سے کراچی تک کئی کئی بار مقتل بننے والے پاکستانی شہر ان کے ذہن سے محو ہوگئے ۔نہ ہی انھیں کشمیر میں ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرنے کی توفیق ہوئی۔ حیرت ہے کہ ارون دھتی رائے سمیت ان گنت باضمیر بھارتی دانشوروں کی تحاریر بھی اس کانفرنس میں موجود حکمرانوں تک نہیں پہنچ سکیں۔
ذکر ہوا تو ایران کا، جسے بدی کی قوت قرار دیا گیا۔ ان فلسطینی اور لبنانی تنظیموں کو دہشتگرد قرار دیا گیا، جو آزادی فلسطین کے لیے کئی دہائیوں سے برسرپیکار ہیں۔ داعش چونکہ اب سعودی عرب کے لیے خطرہ بن گئی ہے، اس لیے اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ لیکن القاعدہ اور داعش کو فنڈنگ کرنے والے ممالک کا نام لینے سے گریز کیا گیا۔ حالانکہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ امریکا سمیت کئی یورپی ممالک شام کے بشار الاسد کا حلقہ تنگ کرنے کے لیے اس تنظیم کی درپردہ سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ گویا اس نئے اتحاد یا اسلامی نیٹو کے قیام کا اصل مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا، یمن میں حوثیوں کی کمر توڑنا اور شام سے بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔
مسلم معاشروں میں فکری انحطاط کوئی نئی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر 1258ء میں بغداد کی تاتاریوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد مسلم معاشرے سنبھل نہیں پائے۔ حالانکہ اس کے بعد ترکی اور ہندوستان میں عالیشان سلطنتیں قائم ہوئیں۔ مگر ذہنی نشوونما اور فکری بالیدگی کے لیے کہیں بھی کچھ نہ ہوسکا۔ نتیجتاً مسلمان عصری علوم سے بیگانہ ہوکر فکری اور تہذیبی نرگسیت کے جال میں ایسے پھنسے کہ دنیا کے بدلتے رجحانات سے بے نیاز ہوتے چلے گئے۔
انسانی سماج کے ارتقائی عمل میں حصہ نہ ہونے کے سبب بھی فکری عدم توازن پیدا ہوا۔ جس نے نفسیاتی الجھنوں میں اضافہ کیا۔ وہ معاشرے جنھیں پہلا سبق ''اقرا بسم ربک الذی'' پڑھایا گیا تھا، اس سبق کو بھول کر عسکریت پسندی کی راہ پر لگ گئے اور اسی کو اپنی بقا کا واحد ذریعہ سمجھنے لگے۔ جس کا خمیازہ آج پوری مسلم امہ بھگت رہی ہے۔
آج مسلم معاشروں کے بحران کا دوسرا سبب ان کی فقہی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر متشدد تقسیم ہے۔ اس تقسیم کو ریاستوں کی سرپرستی نے مزید خوفناک بنادیا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب میں وقتاً فوقتاً فکری ونظریاتی اختلافات کی بنیاد پر فرقے جنم لیتے ہیں۔ ان کے درمیان جنگ وجدل اور خون ریزی بھی ہوتی ہے۔ مگر دونوں جانب کے اہل دانش اور مدبرین مل بیٹھ کر بقائے باہمی کا ایسا کلیہ طے کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا معاشرہ مزید خون خرابے سے بچ جاتا ہے۔
جدید دنیا میں بقائے باہمی کی سب سے اہم مثال مسیحی مذہب کے دو فرقوں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی ہے۔ جن کے درمیان سولہویں صدی کے دوران خونریز تصادم ہوئے۔ مگر ان کے اہل دانش اور مدبرین نے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کردیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے دو کلیدی فرقوں کے درمیان 14 سو برس سے فقہی اور سیاسی اختلافات چلے آرہے ہیں۔ مگر ان اختلافات کو مختلف ادوار میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال تو کیا گیا، مگر نہ حکمران اشرافیہ نے اور نہ ہی علما اور اہل دانش نے اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً ایک دوسرے کی تکفیر اور قتل وغارت گری کا بازار ہر دور میں گرم رہا۔
آج مسلم دنیا سیاسی طور پر منقسم ہے، مگر اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گو کہ کرۂ ارض پر موجود کسی بھی مسلم ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار اپنی اصل شکل میں موجود نہیں۔ لیکن جو ممالک پشتینی بادشاہتوں، شخصی آمریتوں اور اشرافیائی اقتدار کے چنگل سے نکل کر جمہوریت کی راہ اختیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کے خلاف روایتی حکمران طبقات فقہی اختلاف کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچا جارہا کہ اس عمل کے نتیجے میں مسلم دنیا نئی سرد جنگ کی طرف جارہی ہے، جس کے فوائد مغرب کی استعماری قوتوں کو پہنچ رہے ہیں۔
کئی بار لکھا ہے اب پھر لکھ رہے ہیں کہ 1979ء مسلم معاشروں میں علم کی پسپائی اور عسکریت پسندی کے فروغ کے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس برس ایک طرف ایران میں مذہبی طبقہ اقتدار میں آیا، جس نے سیاسی تشدد کو نئی جہت دی۔ جب کہ دوسری طرف افغانستان میں امریکا کے ایما پر بعض مسلم ریاستوں کی جانب سے جنگجو جتھوں کو ہر قسم کی امداد فراہم کرکے جہاد کے تصور کو متنازع بنادیا گیا۔ مگر جنیوا معاہدے کے بعد یہ جنگجو جتھے پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے اور اپنے ہی لشکر کو روندنے لگے، یعنی جس ملک نے ان کی پرورش کی اور انھیں عسکری صلاحیت دی، اسی کے معصوم عوام پر چڑھ دوڑے۔ اس عمل کے پس پشت بھی استعماری قوتوں کے مفادات کارفرما تھے۔
آج کی دنیا جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشی استحکام کے حصول کے لیے سرگرداں ہے، مگر مسلم معاشروں کے بالادست طبقات اور اشرافیہ ان حقائق سے بے نیاز فرسودہ نظام حکمرانی کو بچانے کی کوششوں میں صدیوںسے جاری فقہی اختلافات کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ لازمی طور پر ان معاشروں میں فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات کی خلیج مزید گہری ہورہی ہے۔ جس کا ایک بار پھر فائدہ عالمی استعماری قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ شیعہ اور سنی علما، اہل دانش اور مدبرین ایک میز پر بیٹھیں۔ وہ بے شک فقہی معاملات کو زیر بحث نہ لائیں، لیکن پرامن بقائے باہمی کے لیے کوئی ٹھوس اور دیرپا لائحہ عمل تو بہرحال تیار کرسکتے ہیں۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دوسرے ممالک میں پراکسی جنگوں کا سلسلہ ختم کرنے کا بھی کوئی کلیہ اجتماعی طور پر طے کیا جانا ضروری ہوگیا ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ان گنت بے گناہ لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اب جہاں تک نظم حکمرانی کا تعلق ہے، تو یہ ہر ملک کے عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے کہ انھیں کون سا نظام درکار ہے۔
کیا بہتر ہوتا کہ ریاض میں ہونے والی کانفرنس میں ایران، شام، لبنان اور یمن بھی شریک ہوتے۔ جس میں مسلم ممالک کے وسائل کو امہ کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں پر بحث ہوتی۔ مسلم ترقیاتی بینک جیسے مالیاتی اداروں کی تشکیل کے فیصلے کیے جاتے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے دولت مند مسلم ممالک فنڈز مہیا کرتے اور تمام مسلم ممالک میں عالمی معیار کی تعلیم کے فروغ کے اہداف متعین کیے جاتے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور سائنسی تحقیق کے لیے فنڈ مختص کیا جاتا۔ مگر ہماری خواہشات تو دیوانے کا خواب ہیں، جن سے بے حس و بے ضمیر حکمرانوں کا کیا واسطہ۔
یہ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی سربراہ عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد NAFTA ممالک (کینیڈا یا میکسیکو) کے بجائے مشرق وسطیٰ سے اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز کرے۔ لیکن دیگر صدور اور ٹرمپ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ یہ اول وآخر تاجرانہ ذہن کی مالک شخصیت ہے، جو ہر معاملے کو تجارتی نکتہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔
اس کانفرنس میں شرکت کے لیے 50 سے زائد مسلم ممالک کے سربراہان موجود تھے۔ مگر عالمی میڈیا میں میزبان کے علاوہ ان سربراہان کو پذیرائی ملی، جنھیں ٹرمپ نے شرف ملاقات بخشا۔ ہمارے وزیراعظم واحد مسلم جوہری طاقت کے سربراہ ہونے کے باوجود بقول شخصے آخری صفوں میں بمشکل جگہ پاسکے۔
اس کانفرنس کے موقع پر میزبان شاہ سلیمان ہوں یا عالی مرتبت ڈونلڈ ٹرمپ، کسی کو وہ ہزاروں بے گناہ پاکستانی یاد نہ آئے، جو افغان جنگ اور پھر اس کے ردعمل میں بپھرے ہوئے جنگجوؤں کے خودکش حملوں کا نشانہ بنے۔ نہ کسی کو فوج کے وہ افسران اور سپاہی یاد آئے جنھوں نے وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ذکر ہوا تو بھارت کا کہ وہ دہشتگردی کا نشانہ ہے۔
ممبئی، پٹھانکوٹ اور اڑی تو ٹرمپ کو یاد رہے، مگر پشاور سے کراچی تک کئی کئی بار مقتل بننے والے پاکستانی شہر ان کے ذہن سے محو ہوگئے ۔نہ ہی انھیں کشمیر میں ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرنے کی توفیق ہوئی۔ حیرت ہے کہ ارون دھتی رائے سمیت ان گنت باضمیر بھارتی دانشوروں کی تحاریر بھی اس کانفرنس میں موجود حکمرانوں تک نہیں پہنچ سکیں۔
ذکر ہوا تو ایران کا، جسے بدی کی قوت قرار دیا گیا۔ ان فلسطینی اور لبنانی تنظیموں کو دہشتگرد قرار دیا گیا، جو آزادی فلسطین کے لیے کئی دہائیوں سے برسرپیکار ہیں۔ داعش چونکہ اب سعودی عرب کے لیے خطرہ بن گئی ہے، اس لیے اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ لیکن القاعدہ اور داعش کو فنڈنگ کرنے والے ممالک کا نام لینے سے گریز کیا گیا۔ حالانکہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ امریکا سمیت کئی یورپی ممالک شام کے بشار الاسد کا حلقہ تنگ کرنے کے لیے اس تنظیم کی درپردہ سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ گویا اس نئے اتحاد یا اسلامی نیٹو کے قیام کا اصل مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا، یمن میں حوثیوں کی کمر توڑنا اور شام سے بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔
مسلم معاشروں میں فکری انحطاط کوئی نئی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر 1258ء میں بغداد کی تاتاریوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد مسلم معاشرے سنبھل نہیں پائے۔ حالانکہ اس کے بعد ترکی اور ہندوستان میں عالیشان سلطنتیں قائم ہوئیں۔ مگر ذہنی نشوونما اور فکری بالیدگی کے لیے کہیں بھی کچھ نہ ہوسکا۔ نتیجتاً مسلمان عصری علوم سے بیگانہ ہوکر فکری اور تہذیبی نرگسیت کے جال میں ایسے پھنسے کہ دنیا کے بدلتے رجحانات سے بے نیاز ہوتے چلے گئے۔
انسانی سماج کے ارتقائی عمل میں حصہ نہ ہونے کے سبب بھی فکری عدم توازن پیدا ہوا۔ جس نے نفسیاتی الجھنوں میں اضافہ کیا۔ وہ معاشرے جنھیں پہلا سبق ''اقرا بسم ربک الذی'' پڑھایا گیا تھا، اس سبق کو بھول کر عسکریت پسندی کی راہ پر لگ گئے اور اسی کو اپنی بقا کا واحد ذریعہ سمجھنے لگے۔ جس کا خمیازہ آج پوری مسلم امہ بھگت رہی ہے۔
آج مسلم معاشروں کے بحران کا دوسرا سبب ان کی فقہی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر متشدد تقسیم ہے۔ اس تقسیم کو ریاستوں کی سرپرستی نے مزید خوفناک بنادیا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب میں وقتاً فوقتاً فکری ونظریاتی اختلافات کی بنیاد پر فرقے جنم لیتے ہیں۔ ان کے درمیان جنگ وجدل اور خون ریزی بھی ہوتی ہے۔ مگر دونوں جانب کے اہل دانش اور مدبرین مل بیٹھ کر بقائے باہمی کا ایسا کلیہ طے کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا معاشرہ مزید خون خرابے سے بچ جاتا ہے۔
جدید دنیا میں بقائے باہمی کی سب سے اہم مثال مسیحی مذہب کے دو فرقوں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کی ہے۔ جن کے درمیان سولہویں صدی کے دوران خونریز تصادم ہوئے۔ مگر ان کے اہل دانش اور مدبرین نے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کردیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے دو کلیدی فرقوں کے درمیان 14 سو برس سے فقہی اور سیاسی اختلافات چلے آرہے ہیں۔ مگر ان اختلافات کو مختلف ادوار میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال تو کیا گیا، مگر نہ حکمران اشرافیہ نے اور نہ ہی علما اور اہل دانش نے اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً ایک دوسرے کی تکفیر اور قتل وغارت گری کا بازار ہر دور میں گرم رہا۔
آج مسلم دنیا سیاسی طور پر منقسم ہے، مگر اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گو کہ کرۂ ارض پر موجود کسی بھی مسلم ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار اپنی اصل شکل میں موجود نہیں۔ لیکن جو ممالک پشتینی بادشاہتوں، شخصی آمریتوں اور اشرافیائی اقتدار کے چنگل سے نکل کر جمہوریت کی راہ اختیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کے خلاف روایتی حکمران طبقات فقہی اختلاف کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچا جارہا کہ اس عمل کے نتیجے میں مسلم دنیا نئی سرد جنگ کی طرف جارہی ہے، جس کے فوائد مغرب کی استعماری قوتوں کو پہنچ رہے ہیں۔
کئی بار لکھا ہے اب پھر لکھ رہے ہیں کہ 1979ء مسلم معاشروں میں علم کی پسپائی اور عسکریت پسندی کے فروغ کے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس برس ایک طرف ایران میں مذہبی طبقہ اقتدار میں آیا، جس نے سیاسی تشدد کو نئی جہت دی۔ جب کہ دوسری طرف افغانستان میں امریکا کے ایما پر بعض مسلم ریاستوں کی جانب سے جنگجو جتھوں کو ہر قسم کی امداد فراہم کرکے جہاد کے تصور کو متنازع بنادیا گیا۔ مگر جنیوا معاہدے کے بعد یہ جنگجو جتھے پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے اور اپنے ہی لشکر کو روندنے لگے، یعنی جس ملک نے ان کی پرورش کی اور انھیں عسکری صلاحیت دی، اسی کے معصوم عوام پر چڑھ دوڑے۔ اس عمل کے پس پشت بھی استعماری قوتوں کے مفادات کارفرما تھے۔
آج کی دنیا جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشی استحکام کے حصول کے لیے سرگرداں ہے، مگر مسلم معاشروں کے بالادست طبقات اور اشرافیہ ان حقائق سے بے نیاز فرسودہ نظام حکمرانی کو بچانے کی کوششوں میں صدیوںسے جاری فقہی اختلافات کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ لازمی طور پر ان معاشروں میں فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات کی خلیج مزید گہری ہورہی ہے۔ جس کا ایک بار پھر فائدہ عالمی استعماری قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ شیعہ اور سنی علما، اہل دانش اور مدبرین ایک میز پر بیٹھیں۔ وہ بے شک فقہی معاملات کو زیر بحث نہ لائیں، لیکن پرامن بقائے باہمی کے لیے کوئی ٹھوس اور دیرپا لائحہ عمل تو بہرحال تیار کرسکتے ہیں۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دوسرے ممالک میں پراکسی جنگوں کا سلسلہ ختم کرنے کا بھی کوئی کلیہ اجتماعی طور پر طے کیا جانا ضروری ہوگیا ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ان گنت بے گناہ لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اب جہاں تک نظم حکمرانی کا تعلق ہے، تو یہ ہر ملک کے عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے کہ انھیں کون سا نظام درکار ہے۔
کیا بہتر ہوتا کہ ریاض میں ہونے والی کانفرنس میں ایران، شام، لبنان اور یمن بھی شریک ہوتے۔ جس میں مسلم ممالک کے وسائل کو امہ کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں پر بحث ہوتی۔ مسلم ترقیاتی بینک جیسے مالیاتی اداروں کی تشکیل کے فیصلے کیے جاتے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے دولت مند مسلم ممالک فنڈز مہیا کرتے اور تمام مسلم ممالک میں عالمی معیار کی تعلیم کے فروغ کے اہداف متعین کیے جاتے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور سائنسی تحقیق کے لیے فنڈ مختص کیا جاتا۔ مگر ہماری خواہشات تو دیوانے کا خواب ہیں، جن سے بے حس و بے ضمیر حکمرانوں کا کیا واسطہ۔