خارجہ پالیسی کا مسئلہ

سی پیک کا منصوبہ ہو یا دہشتگردی کے خلاف جنگ یا علاقائی سیاست میں ہماری حیثیت کا سوال ہر سطح پر یہاں جذباتیت کا غلبہ ہے


سلمان عابد May 29, 2017
[email protected]

پاکستان میں ایک بنیادی مغالطہ یہ پایا جاتا ہے یا اس کو ایک خاص حکمت کے تحت حکمران طبقہ پھیلاتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی مضبوط خارجہ پالیسی ہے۔ دلیل یہ کہ ہم دنیا میں خارجہ پالیسی کے تناظر میں دوسرے ملکوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں اور کوئی ہم کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔

سی پیک کا منصوبہ ہو یا دہشتگردی کے خلاف جنگ یا علاقائی سیاست میں ہماری حیثیت کا سوال ہر سطح پر یہاں جذباتیت کا غلبہ ہے۔ اول یا تو ہم واقعی بہت خوش فہم لوگ ہیں اوراس میں زمینی حقایق کو نظر انداز کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ دوئم ہم حقایق جانتے ہیں لیکن لوگوں میں خارجہ پالیسی کے بارے میں گمراہی پھیلاتے ہیں۔

اس وقت ہماری مشکل علاقائی سیاست میں تنازعات سے بھری سیاست ہے۔ بھارت، افغانستان اور ایران ایک ہی وقت میں پاکستان کے حوالے سے سنگین نوعیت کے تحفظات رکھتے ہیں۔ علاقائی سیاست میں اگر تین ممالک آپ کے دوست کم اور دشمنی یا شکوک وشبہات کا ایجنڈا رکھتے ہیں تو یہ ہماری علاقائی سیاست کے حوالے سے کوئی اچھی شکل نہیں۔اس سے قطع نظر کہ ان تین ممالک کا موقف کس حد تک درست ہے، لیکن اگر وہ اپنے تحفظات کو بنیاد بنا کر پاکستان مخالف مہم کا حصہ ہیں تو یہ ہمارے لیے تشویش کا پہلو ہونا چاہیے۔

دلیل یہ دی جاتی ہے کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کی خرابی میں مرکزی کردار بھارت کا ہے۔ لیکن ہم تمام تر سفارتی کوششوں اور بھارت کے بارے میں اچھی رائے اور دوستی رکھنے والے وزیر اعظم نواز شریف کے باوجود اپنے تعلقات کی بہتری میں بھارت کو راضی نہیں کرسکے۔

جب یہ کہاجاتا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا ایک سنگین مسئلہ سفارتکاری کے محاذ پر کمزوری ہے اور ہم آج کی جدید دنیا کے مسائل کو سامنے رکھ کر سفارتکاری کے محاذ پر نہ تو زیادہ سرمایہ کاری کرسکے اور نہ ہی اپنا موقف زیادہ طاقت سے عالمی دنیا میں پیش کرسکے۔حال ہی میں عرب اسلامی کانفرنس اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب میں وزیر اعظم کی موجودگی میں ہمیں جس برے انداز سے سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑا، وہ مایوس کن پہلو ہے۔

اول امریکی صدر ٹرمپ کے خطاب میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے والے پاکستان کی کسی کاوش کا ذکر نہ کیا جانا ہماری سفارتکاری کے محاذ پر ناکامی ہے۔ دنیا میں جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے فرنٹ لائن کے طور پر جنگ لڑی ہے۔ دوئم امریکی صدر کا بڑی شدت کے ساتھ بھارت اور افغانستان میں جاری دہشتگردی کا ذکر کرنا اور پاکستان کو نظر انداز کرنا جو خود دہشتگردی کا شکار ہے توجہ طلب مسئلہ ہے۔

ایک سطح پر امریکی صدر نے پاکستان پر ہی الزام لگایا ہے کہ وہ ہمسائے ممالک میں دہشتگردی کا ذمے دار ہے۔حالانکہ ہم سفارتی محاذ پر تواترسے یہ مقدمہ پیش کر رہے ہیں کہ یہ دونوں ممالک بھارت اور افغانستان کی ایجنسیوں کا گٹھ جوڑ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور دہشتگردی کرنے میں ملوث ہیں۔ا س کے شواہد بھی عالمی دنیا کو پیش کیے گئے ہیں، لیکن امریکی صدر نے اس پر بات نہ کرکے اپنا جھکاؤ بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

اسی طرح سے وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب میں ہماری سفارتی تنہائی بھی دیکھنے کو ملی۔ وزیر اعظم کو تیاری کے باوجود بات چیت کا موقع نہ ملنا، امریکی صدر سے مختصر ملاقات کا نہ ہونا، ہمارے مقابلے میں افغانستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں کی امریکی صدر کی جانب سے زیادہ پزیرائی ظاہر کرتی ہے کہ اس میں ہمارا ہوم ورک کم اور خوش فہمی کے پہلو زیادہ تھے۔

ایک مسئلہ تو یہاں مستقل بنیادوں پر وزیر خارجہ کی عدم موجودگی کا ہے۔ اگرچہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز ہیں، لیکن مشیر خارجہ اور ایک مستقل وزیر میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اس وقت جس انداز سے ہم خارجہ پالیسی کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں وزیر اعظم کا مسلسل وزیر خارجہ لگانے سے انکار سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح اس سارے ہوم ورک میں وزارت خارجہ کے مسائل بھی دیکھنے کو ملے۔

اصل میں خارجہ پالیسی کا مضبوط فہم ایک مضبوط اور مکمل مشاورت کے عمل سے جڑا ہوتا ہے۔ یعنی ریاستی، حکومتی سطح پر تمام اداروں میں مکمل مشاورت، ہم آہنگی اور مختلف ماہرین سے تبادلہ خیال کے ساتھ واضح پالیسی اختیار کرنا ہوتا ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو پارلیمنٹ کہیں کارکردگی دکھاتی ہوئی نظر آتی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کی ڈیفنس کمیٹی کی فعالیت دیکھنے کو ملتی ہے۔

وزرات خارجہ اور حکومت کے درمیان مختلف نوعیت کے مسائل، سول ملٹری کے درمیان باہمی مشاورت کا فقدان، قومی سلامتی کمیٹی کی فعالیت کا نہ ہونا اور سابق سفارت کاروں کی رائے کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کے بعد ہم اپنی خارجہ پالیسی میں کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ قومی سطح پر خارجہ پالیسی کے تناظر میں ایسے مربوط کوئی تھنک ٹینک موجود نہیں جو دنیا کی لابی فرمز اور سفارت کاری کے محاذ پر ہمارے مقدمے کے لیے کوئی اہم پیشرفت کر سکیں۔

خارجہ پالیسی کے تناظر میں یہاں حکومت اور حزب اختلاف بھی مختلف نوعیت کے ابہام پھیلا کر معاشرے میں ان حساس معاملات پر زیادہ تقسیم پیدا کرتے ہیں جب حکومتی سطح پر رویہ یہ ہوگا کہ ہر چیز کا فیصلہ مشاورت کے بجائے خود سے کرنا ہے تو اس طرح کی صورتحال میں کوئی بھی فیصلوں کو قبول نہیں کرتا، بلکہ ناکامی کی صورت میں ساری ذمے داری حکمرانوں پر ڈال دیتا ہے۔خود حکومتی اور اہل دانش کی سطح پر ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاسی حکومتوں کو خود سے فیصلہ کرنے کی آزادی نہیں دیتی۔

اس منطق کے تحت اس فکر کو آگے بڑھایا جاتا ہے کہ خارجہ پالیسی کی ناکامی میں سیاسی حکومتوں کا ہاتھ کم اور اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ ہے۔یہ کیفیت بلاوجہ سیاسی اور عسکری فریقین میں ٹکراو پیدا کرتی ہے جو سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی جیسے اہم معاملات پر مثبت عمل نہیں۔

ایک مسئلہ خارجہ پالیسی میں ردعمل کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی واقعات کی صورت میں ہم سرگرم ہوتے ہیں جب کہ مستقل بنیادوں پر ہم ٹھوس بنیادوں پر ہوم ورک کرنے کے قائل نہیں۔ایک بات سمجھنی ہوگی کہ خارجہ پالیسی یا پاکستان کو جو سیکیورٹی کے مسائل درپیش ہیں یہ محض فوج کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ معاملہ ریاستی سیکیورٹی اور قومی سلامتی کے مسائل سے جڑا ہوا ہے۔

مسئلہ سیاسی قیادت یا فوج میں مقابلہ بازی کا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ دنیا کی طرح ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ دو نوں فریقین کی باہمی مشاورت اورحتمی فیصلہ کا اختیار حکومت کے پاس ہی ہوتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، جو مسئلہ پیدا کرتا ہے۔

خارجہ پالیسی میں کامیابی کے لیے اول ہمیں خود کو داخلی محاذ پر مضبوط بننا ہوگا اور حکومت اور عوام میں بداعتمادی کو کم کرنا ہو گا، دوئم آپ کی معاشی پالیسی میں ملکی معیشت کا مستحکم ہونا اور غیر ممالک پر کم سے کم انحصار کرنا۔ سوئم خارجہ پالیسی کے فیصلوں میں تمام اداروں کی مشاورت کو یقینی بنانا اور حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی اسکور بازی کے رجحان کو ختم کرنا، چہارم خارجہ پالیسی کی سطح پر علاقائی ممالک سمیت دنیا کے ساتھ پہلے بہتر تعلقات، تنازعات کا خاتمہ اور دوستی کی طرف پیشرفت، پنجم قومی سطح پر حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر خارجہ امور سے متعلق ایسے تھنک ٹینک کے عمل کو فروغ دینا جو متبادل آپشن پیش کرسکے، ششم سفارتکاری کے محاذ پر ایک فعال کردار کی سرمایہ کاری کرنا شامل ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی، سفارتی، عسکری سمیت ہر فریق کی سطح پر ہمیں خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے اندر کے ابہام اور تضادات کو ختم کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت پاکستان داخلی اور خارجی محاذ پر ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے اوراس کے لیے ہمیں خود کو فرسودہ طریقوں سے نکالنا ہوگا۔ کیونکہ علاقائی یا عالمی تنہائی سے نکلنا ہماری اس وقت اہم ضرورت ہے اور اس کے بغیر ہم دنیا میں بھی اپنی ساکھ نہیں بنا سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں