عوام کی عدالت
سیاسی مقدمات کا فیصلہ سیاسی میدان میں ہی ہوتا ہے
سیاسی مقدمات کا فیصلہ سیاسی میدان میں ہی ہوتا ہے۔ پاکستان میں تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سیاسی معاملات کا فیصلہ سیاسی میدان میں ہی ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت نے تو پھانسی دے دی لیکن عوام کی عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔ اور بھٹو کی سیاست پھانسی کی اس سزا کے بعد زیادہ اوپر چلی گئی۔ جس کا بھٹو کے بچوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اور آج جب عوام کی عدالت نے پیپلزپارٹی کی سیاست کو سزا دی ہے تو جناب آصف زرداری اور بلاول مل کر بھی بحال نہیں کر پا رہے۔ اس لیے سیاسی فیصلے عوام کی عدالت میں ہی ہوتے ہیں۔
اگر سیاستدان کوئی مقدمہ قانون کی عدالت میں ہار بھی جائے اور عوام کی عدالت سے بری ہوجائے تو اس کی سیاست بچ جاتی ہے لیکن اگر سیاستدان عوام کی عدالت میں مقدمہ ہار جائے تو قانون کی عدالت سے بچ جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو تا۔ اسی لیے سیاستدان کے لیے سب سے بڑی عدالت عوام کی عدالت ہے۔ وہیں سے اس کے مقدمہ کا حقیقی فیصلہ ہوتا ہے۔
اسی طرح پرویز مشرف بھی ایک لمبی اور کامیاب حکومت کرنے کے بعد بھی اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں ہار گئے ہیں۔ اسی لیے میدان سیاست میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے ہیں اور انھیں اپنا بوریا بستر گول کرکے واپس جانا پڑا۔ ورنہ انھیں عوام میں پذیر ائی موجود ہوتی تو کوئی ان کا راستہ نہیں روک سکتا تھا۔ ق لیگ بھی عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ ہاری ہے۔
اگر یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے نااہل قرارد ے بھی دیا تھا تب بھی اگر ملتان کے عوام ان کو مسترد نہ کرتے تو ان کی سیاست کو اس قدر نقصان نہ ہوتا۔ مسئلہ تو تب ہوا جب ان کی اولاد بھی ان کے آبائی حلقہ سے ہار گئی۔ جناب آصف زرداری اس فلسفہ کی ایک خوبصورت مثال ہیں۔ انھیںکسی بھی مقدمہ میںقانون کی کسی بھی عدالت سے کوئی سزا نہیں ہو ئی، لیکن عوام کی عدالت کچھ اور کہتی ہے۔ اسی لیے پانامہ کیس کا فیصلہ اتنا اہم نہیں ہے۔ جتنا یہ اہم ہے کہ عوام کی عدالت سے پانامہ کے فریقین کو کیا فیصلہ ملتا ہے۔
اگر حسین نواز جے آ ئی ٹی پر شدید اعتراضات کے باوجود بھی اس کے سامنے پیش ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک ہی بنیادی وجہ ہے کہ شریف فیملی کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ انھیں مقدمہ صرف قانون کی عدالت میں ہی نہیں بلکہ عوام کی عدالت سے بھی جیتنا ہے۔ میاں نواز شریف دس برس ملک کی سیاست سے باہر رہے لیکن عوام کی عدالت نے انھیں پھر وزیراعظم بنا دیا۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کوبھی ملک سے باہر رہیں لیکن ان کی سیاست زندہ رہی۔
دوسری طرف عمران خان کے لیے بھی شاید پانامہ کا عدالتی فیصلہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا اہم عوام کی عدالت کا فیصلہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جے آئی ٹی کے فیصلہ اور عدالت کے فیصلہ کی قانونی اور آئینی اہمیت مسلمہ ہے لیکن عوام سیاسی انداز میں فیصلہ کرتی ہے۔ ورنہ حسین نواز کے لیے جے آئی ٹی کو مسترد کرنا اور اس کے سامنے پیش ہونے سے انکار کرنا ایک آسان راستہ تھا۔ شاید عوام کی عدالت میں اس کا کیا رد عمل ہو گا۔ اسی نے انھیں شدید تحفظات کے باوجود جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کیا ہے۔شاید اسی لیے عمران خان بھی زیادہ زور قانون کی عدالت میں لگانے کے بجائے عوام کی عدالت میں لگا رہے ہیں۔ جلسہ ریلیاں اسی لیے ہیں تا کہ عوام کی عدالت کو قائل کیا جا سکے۔
جہاں تک حسین نواز کے اعتراضات کا تعلق ہے۔ تو انھیں کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فیصلہ تو عدالت ہی کر سکتی ہے کہ حسین نواز کا اعتراض کس حد تک جائز ہے۔ معاملہ سادہ ہے لیکن چونکہ سیاسی ہے اس لیے سادہ نہیں ہے۔
حسین نوازسے دو گھنٹے سوال جواب ہوئے ہیں۔ یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے۔ کیا کسی ڈکٹیٹر یا اس کی اولاد سے اس قسم کی تفتیش کا تصور کیا جا سکتا ہے۔جو لوگ جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ اس موازنہ میں اس منظر نامہ کو بھی سامنے رکھیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ جمہو ر یت کے فوائد کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سیاسی لڑائی کو سیاسی میدان میں ہی لڑیں۔ ورنہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔
شیریف فیملی کو اس کے مخالفین پاکستان کا شاہی خاندان بھی کہتے ہیں۔ یہ کتنا بے بس شاہی خاندان ہے۔ جو ایک تفتیشی کو تبدیل نہیں کرا سکتا۔ ایک جے آئی ٹی کے آگے سرنگوں ہے۔ چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر حاضر ہے۔مخالفین کی سخت زبان کا بھی جواب نہیں دے سکتا۔ سر خم تسلیم ہے۔ لیکن شاہی خاندان بھی ہے۔
حسین نواز نے بہت کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست سے دور رہیں۔ لیکن وہ پاکستان کی سیاست کا حصہ ہیں۔ وہ چاہتے ہوئے بھی خود کو الگ نہیں رکھ سکتے۔ یہی پاکستان کا کلچر ہے۔ یہاں آپ اپنی اولاد اور فیملی کو الگ نہیں رکھ سکتے۔ ایسے میں میں حیران ہوں کہ جے آئی ٹی پر اعتراض کا کیا ہوگا۔