سماج کا ارتقا
شکار کا کھانا کسی ایک شخص کے ذریعے بانٹا جاتا تھا مگر وہ بھی اتنا ہی لیتا تھا جتنا اوروں کو دیتا تھا
معلوم تاریخ میں سماج کا ارتقا چار مراحل میں ہوا۔ یوں کہہ لیں کہ اس سے قبل اگر کوئی مراحل تھے بھی تو تاریخ میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ چین کے ژنگ جیاباؤ کی تھیوری ہو، مارگن کی تھیوری ہو یا امریکا لیوہوبر کی ''مینز ورلڈلی گوڈز'' نامی کتاب کی تھیوری ہو، یا روس میں زمین کی مشترکہ ملکیت کی دریافت۔ ان سب سے اب تک یہ پتہ چلا ہے کہ معلوم تاریخ کے چار ادوار امداد باہمی کا آزاد معاشرہ یا قدیم کمیونسٹ نظام، غلامانہ نظام، جاگیردارانہ نظام، سرمایہ دارانہ نظام اور پھر پلٹ کے دور جدید کے تقاضے کے مطابق امداد باہمی کا آزاد معاشرہ۔ ان تمام ادوار میں آلات پیداوار کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سماج بھی تبدیل ہوتا گیا اور وہ کیسے، کن مراحل سے اور کن مقاصد کی تکمیل کے لیے، اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
جب معاشرہ اشتمالی تھا، یعنی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوتے تھے۔ نجی ملکیت اور ذاتی جائیداد کا تصور نہیں تھا، اس وقت آلات پیداوار پتھر، ڈنڈے اور ہاتھ پاؤں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ سب لوگ مل کر جنگل سے شکار کرتے تھے، درختوں سے پھل توڑتے تھے اور پانی سے مچھلی۔ انھیں سب آپس میں ضرورت کے اعتبار سے بانٹ لیتے تھے۔ کوئی کسی کا قرض دار تھا اور نہ احسان مند۔ ذرایع پیداوار جنگلات اور آبی وسائل تھے۔ چونکہ پیداواری رشتے اجتماعی تھے، اس لیے طبقات کا وجود نہیں تھا اور نہ طبقاتی تضاد۔ کبھی کبھار اگر آپس میں لڑائی ہوجاتی تو مل بیٹھ کر صلح کرلیتے تھے۔
شکار کا کھانا کسی ایک شخص کے ذریعے بانٹا جاتا تھا مگر وہ بھی اتنا ہی لیتا تھا جتنا اوروں کو دیتا تھا۔ خاندان پورے قبیلے کا ایک ہی ہوتا تھا۔ بعد میں جب ہل دریافت ہوا تو غلہ بانی اور قابل کاشت زمین دریافت ہوئیں۔ اس سے قبل کسی قبیلے کے ذرایع پیداوار ختم ہوجاتے تو وہ کسی اور خطے پر ہلہ بول کر سب کو مار دیتے اور اس خطے پر قبضہ کرلیتے تھے۔ مگر ہل کی دریافت سے جب غلہ بانی اور کاشت کاری شروع ہوئی تو اب مفتوح قبیلے کے نوجوانوں کو فاتح پکڑ لاتے اور ان سے غلہ بانی اور کاشت کاری کرواتے۔ یعنی آلات پیداوار کی تبدیلی کے بعد ذرایع پیداوار تبدیل ہوگئے، پیداواری رشتے بدل گئے اور سماج بھی بدل گیا۔
پہلے پیداواری رشتے اجتماعی تھے اور اب طبقاتی ہوگیا۔ اس لیے طبقات کی تشکیل کے بعد صاحب جائیداد طبقات نے اپنے مال غنیمت کے تحفظ کے لیے ریاست کی تشکیل کی۔ اب جو فاتح قبیلہ مفتوح قبیلے کے لوگوں کو پکڑ کر لاتے تھے، ان سے غلہ بانی اور کاشت کاری کروانے لگے۔ یہ غلام ٹھہرے اور ان سے کام کروانے والے آقا۔ بعد میں یہ بھی طے پایا کہ غلاموں کو بیچا جاسکتا ہے، قتل کیا جاسکتا ہے اور ان کی خواتین سے جنسی تعلقات قائم کیے جاسکتے ہیں، مگر ان سے پیدا ہونے والے بچے آقاؤں کی ملکیت کے مالک نہیں ہوسکتے تھے۔
آقا بغیر پہیے کے تخت پر بیٹھ کر سفر کرتا تھا اور غلام اسے رسی سے باندھ کر گھسیٹتا تھا، اس سے غلاموں پر شدید جسمانی تشدد ہوتا تھا۔ بعد ازاں گول پتھر تخت کے نیچے رکھ کر اس تخت کو سرکایا جاتا تھا اور پھر اس میں سوراخ کرکے رسی سے باندھ دیا جاتا تھا، اس کے نتیجے میں تخت جسے ہندوستان میں رتھ بھی کہتے تھے، کو گھسیٹنے میں آسانی پیدا ہوئی، بعد میں یہی سوراخ والا گول پتھر لکڑی کے پہیے میں تبدیل ہوگیا۔ یعنی پہیے کی ایجاد نے جاگیردارانہ نظام کو جنم دیا، یعنی نقل و حمل کی وجہ سے پیداوار کا تبادلہ ہونے لگا۔
آلات پیداوار پہیہ کی ایجاد سے غلامانہ نظام، جاگیرداری میں تبدیل ہوگیا، یا یوں کہہ لیں کہ آقا خود جاگیردار بن گیا۔ اب چونکہ آلات پیداوار تبدیل ہوگیا تو ذرایع پیداوار یعنی تبادلے کے لیے سامان میں اضافہ ہوا تو پیداواری رشتے غلام اور آقا کی جگہ جاگیردار اور کسانوں کے رشتے میں تبدیل ہوگئے۔ اب زمین کا مالک جاگیردار اور زمین پر کام کرنے والا کسان ٹھہرا۔ جب سماجی رشتہ تبدیل ہوا تو پورا سماج یعنی غلامانہ سے جاگیردارانہ سماج میں تبدیل ہوگیا۔
اب اس سماج میں زرعی غلام اور کسان کو قتل نہیں کیا جاسکتا تھا اور نہ فروخت کیا جاسکتا تھا، مگر کسان زمین کے ساتھ ہی بندھا رہتا تھا۔ اسے صرف جینے کے لیے اتنا اناج دیا جاتا تھا کہ زندہ رہے اور زمین پر کاشت کرسکے۔ ٹرانسپورٹیشن یعنی اجناس کے تبادلے کے عمل کی وجہ سے جاگیردارانہ نظام میں مختلف ہنرمند طبقات یعنی سنار، لوہار، کمہار، بڑھئی، ترکھان وغیرہ پیدا ہوئے۔ اس لیے بھی کہ تبادلہ اجناس کی وجہ سے ان چیزوں کو کارآمد بنانے کے لیے ان ہنرمند طبقات کا ابھرنا ایک فطری عمل تھا۔
یقیناً تجارت کے لیے سوداگروں اور ہنرمندوں کی ضرورت پڑی۔ پھر ہنرمند اور تاجروں نے آگے چل کر سمندروں اور دریاؤں کے ساحلوں پر شہر بسائے۔ انھوں نے وہاں چھوٹے چھوٹے کارخانے یعنی زیورات، لکڑی کے پہیے، لوہے کا کدال، پھاؤڑا، مٹی کے برتن اور دھاگوں سے کپڑے بنانے کے لیے ورکشاپس بنائیں، جہاں بے زمین کسان جاکر کام کرنے لگے۔
یہ عمل تب مزید کارآمد ہوگیا جب بھاپ کا ایجاد ہوا، یعنی اسٹیم انجن۔ بھاپ کے انجن نے صنعتی انقلاب برپا کردیا، یعنی کھڈی سے اگر ایک مزدور سارے دن میں ایک ساڑھی بناتا تھا تو اسٹیم انجن کی مدد سے بیس ساڑھی بنالیتا تھا۔ ہنرمند مزدور اور تاجر ہی بعد میں سرمایہ دار کہلائے اور بے زمین کسان جو ان کارخانوں میں کام کرنے لگے وہ مزدور کہلائے۔ اب ذرایع پیداوار میں مزید صنعت کا اضافہ ہوگیا اور آلات پیداوار میں اسٹیم انجن کا اضافہ ہوا۔ اب پیداواری رشتہ سرمایہ دار اور مزدوروں کا ٹھہرا، یعنی جو سرمایہ لگا کر مزدوروں کا قدر زائد ہڑپ کرے گا وہ سرمایہ دار کہلائے گا اور قوت و محنت بیچنے والا مزدور۔
اس کے نتیجے میں اب پورا سماج بدل گیا، یعنی اب سماج جاگیردارانہ کے بجائے سرمایہ دارانہ کہلانے لگا۔ پھر بڑے سرمایہ دار چھوٹے کو ہڑپ کرنے لگے اور جدید آلات پیداوار کی دریافتوں سے کم وقت میں زیادہ پیداوار ہونے لگی اور پیداوار میں کم مزدور کے ذریعے سرمایہ دار زیادہ پیداوار حاصل کرنے لگا اور مزدور بے روزگار ہونے لگے۔ پھر یہ سرمایہ داری، اجارہ داری میں تبدیل ہوگئی اور اب ملٹی نیشنل کمپنیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ کمپیوٹر اور روبوٹ کے دریافت نے مزید مزدوروں کو بے روزگار کردیا۔
اس وقت دنیا میں تین ارب لوگ بے روزگار ہیں اور پانچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف آٹھ افراد ہیں۔ بھوک سے ہر روز پچہتر ہزار انسان مر رہے ہیں۔ اب دنیا بھر کے محنت کش، شہری اور پیداواری قوتیں دنیا کی ساری دولت پر قبضہ کے لیے انقلاب برپا کریں گے۔ پھر وہی امداد باہمی کا آزاد معاشرہ یا قدیم کمیونسٹ نظام کو جدید میں بدل دیں گے۔ ساری دنیا کے وسائل کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ کوئی بھوکا مرے گا اور نہ کوئی ارب پتی ہوگا۔