سحر بھی لیکن قریب تر ہے

غریب سے لے کر حکمرانوں تک سب کے ہاتھوں میں کشکول ہے

2017 کا بجٹ نہایت فخر کے ساتھ وزیر خزانہ نے پھر پیش کردیا۔ یہی فخریہ بجٹ عرصہ ہوا ہر سال پیش کیا جاتا ہے۔ اسمبلی میں ''وہ'' خوب شور مچاتے ہیں، بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑاتے ہیں، یہ ''وہ'' ہی ہوتے ہیں جو اپنے دور حکمرانی میں یہی بجٹ، بالکل ایسا ہی بجٹ، بالکل اسی طرح فخریہ پیش کیا کرتے تھے اور آج بجٹ میں ہزار کیڑے نکال رہے ہیں۔

غریب سے لے کر حکمرانوں تک سب کے ہاتھوں میں کشکول ہے، سب بھیک مانگ رہے ہیں۔ حکمراں اور ان کے حواری ''بھیک'' سے اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں اور ہر طرح کا عیش و آرام خرید لیتے ہیں اور بے چارہ غریب رل کھل کر رہ جاتا ہے۔

کل کے عوام دشمن آج کے عوام دوست بنے ہوئے ہیں اور عوام سوچ رہے ہیں کہ یہ کیا تماشا ہے۔

بجٹ کا یہ تماشا کل سے لے کر آج تک ہر سال دکھایا جاتا ہے۔ ممبران اسمبلی تماشا رچاتے ہیں۔ چھتریاں بدلنے والے کامیاب اسٹیج شو پیش کرتے ہیں، اللہ اللہ خیر صلہ۔ رات گئی بات گئی۔

کنٹینر کے کنٹینر کھا جانے والے، ہڑپ کر جانے والے، دندناتے پھرتے ہیں۔ وہ جن کا نام و نشان مٹ جانا چاہیے، جنھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے، جنھیں نشان عبرت ہونا چاہیے وہ سارے کردار ادھر ہوں یا ادھر، عیش و آرام سے ہیں۔

بجٹ آیا اور مزید تباہی لایا۔ ایک ہاتھ میں سو روپے دیے۔ اور دوسرے ہاتھ سے دو سو روپے چھین لیے۔ نتیجہ! غریب سے بجٹ نے مزید سو روپے چھین لیے اور یہ بھی خبر آئی ہے کہ وہ جس کا اپنا ذاتی بہت بڑا اسپتال ہے، دنیا بھر کی طبی سہولتوں سے آراستہ اسپتال، ان کی جان شدید خطرے میں ہے، کہا جا رہا ہے کہ اگر ''وہ'' بیرون ملک علاج کے لیے نہیں گیا تو مرجائے گا۔

اور یہ کیسے سخت جان، غریب ہیں کہ اپنے ملک کے اسپتالوں میں ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں۔ یہ کیسے ''امیر'' ہیں کہ یہاں اپنے ملک میں لب مرگ ہوتے ہیں اور باہر جاتے ہی ڈانس کرنے لگتے ہیں۔


او بھائی! او بھائی! ایسا کب تک چلے گا؟ مگر یہ ''بھائی لوگ'' کب مانیں گے؟ ان کا تو سدھرنے کا وقت بھی گزر چکا، یہ جو سڑکوں پر چھینا جھپٹی ہو رہی ہے، یہ کیا ہے؟ یہ جو دوبدو لڑائی ہو رہی ہے، یہ کیا ہے؟

بہت ہوچکا، بہت زیادہ ہوچکا ''ظلم کی ہوگئی ہے حد'' اچھا ہوا اور کچھ دیر اور کچھ ظلم، لوٹ مار کرلو۔ ''اور کچھ دیر کہ ٹوٹا در زنداں یارو''۔

کل کے اندھیرے، آج کے سویرے بن رہے ہیں اور آج کے اندھیرے تو ہیں ہی اندھیرے۔ عجب تماشا ہے جو 70 سال سے جاری ہے۔ مگر اب اور ہی عالم نظر آرہا ہے، طوفان کے آثار نمودار ہو رہے ہیں، یہ سیاسی چھتریاں اور ان پر آتے جاتے کبوتر اور ایسے میں جو صدائیں بلند ہورہی ہیں ''لگتا ہے سارے نقش کہن'' جیسے مٹ جائیں گے۔ یہ جنوں میں بک بک نہیں، وقت آگیا ہے۔ امتحان، کڑے امتحان کا وقت۔ وہ جس کے انتظار میں لوگ چلے گئے، پیچھے رہ جانے والوں کو پیغام دیتے ہوئے کہ ''ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔'' یہ بجٹ وجٹ کے ڈرامے، یہ ڈرامے بازیاں، یہ ظلم، یہ ظلم کی داستانیں، سب کا یوم حساب قریب تر ہے۔ جالب کہہ کر گیا ہے، وہ چلا گیا، اس کا کہا اس کی موجودگی کا احساس لیے ہوئے ہے:

ہنسیں گی سہمی ہوئی نگاہیں
چمک اٹھیں گی' وفا کی راہیں

ہزار ظالم سہی اندھیرا
سحر بھی لیکن قریب تر ہے

قریب تر ہے
قریب تر ہے
Load Next Story