رمضان المبارک کا تقدس
’’پچاس روپے پاؤ باجی!‘‘… ’’اچھا ایک پاؤ دے دو۔‘‘
''فالسے کیسے دے رہے ہو؟'' ... ''پچاس روپے پاؤ باجی!''... ''اچھا ایک پاؤ دے دو۔'' ٹھیلے والے نے پلاسٹک کے لفافے میں فالسے ڈالے اور ترازو پر دھرے کچھ کم تھے اس نے سفید پلاسٹک کے چمچے سے ذرا سے فالسے لیے اور لفافے میں ڈالے۔ کمی اب بھی تھی، اس نے کچھ جھجکتے فالسے لیے اور شاپر میں ڈالتے ہی لفافہ اٹھالیا، گویا اسے شک تھا کہ اب مزید فالسے ڈالے تو نقصان ہوگا۔
''بابا وزن تو پورا ہونے دیتے۔''
''وہ وزن پورا ہوگیا، پورے ہیں۔''
''ذرا دیر تو رکتے، دیکھتے تو کہ پلڑہ برابر ہے کہ نہیں۔ ایسا ہونے دیا کرو بابا! اس سے تمہیں کمی نہیں ہوگی برکت ہی ہوگی، پر دل سے بھی ایسا ہی سوچا کرو کہ تول پورا ہونا چاہیے۔ اللہ تمہیں نیک ہدایت دے۔''
انھوں نے پچاس کا نوٹ اس بزرگ ٹھیلے والے کو تھمایا، فالسے کا لفافہ اٹھایا اور آگے چل دیں۔ وہ بزرگ سوچتا ہوا انھیں جاتا دیکھتا رہا۔
رمضان المبارک کی ابتدا ہے، ہم سب اس مبارک مہینے کا استقبال تو بڑی شان سے کرتے ہیں لیکن جو اس مہینے کا تقاضا ہے اسے پورا نہیں کرتے، مثلاً رمضان سے کچھ عرصہ پہلے ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اس سے ایک عام انسان کے ذہن میں مہینے بھر کے لیے الجھن سی ابھرتی ہے۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں، شاید اس لیے کہ ہمارے اندر کا نفس ہمیں اس بات پر اکساتا ہے کہ یہی تو کمائی کا مہینہ ہے۔ گویا اس مہینے کے بعد اور پہلے تو جیسے سب کھاتے پیتے ہی نہیں۔
اس مہنگائی کے بڑھتے رجحان سے لوگوں میں اپنے خاندان کے لیے اچھا رمضان گزارنے کے پیکیج کے حوالے سے اوپر کی آمدنی کا خیال یوں کودتا ہے کہ جیسے اس کے بغیر زندگی بے رنگ و بے کیف گزرے گی۔ سڑک پر ہی دیکھ لیں کھلے عام کرپشن کی داستان نظر آتی ہے اور اس پر وطیرہ یہ کہ رمضان تو اچھا گزر جائے۔
رمضان کے حوالے سے خوش اخلاقی کے پہلو پر ذرا غور فرمائیے، ویسے تو گرمیوں کے موسم میں یوں بھی انسان بے حال ہوجاتا ہے لیکن پچھلے دو برسوں میں جس شدت کی گرمی پڑی اس نے بہت سی انسانی جانوں کو نگل لیا، ایسے میں جن حضرات نے روزہ رکھا اس میں رب العزت کی جانب سے ان پر خاص رحمت تھی اور ایسے میں نیت کا خلوص بھی غالب رہتا ہے۔ لیکن گرمیاں ہوں یا سردیاں روزوں کی نقاہت جسم سے زیادہ ذہن پر کچھ اس طرح سوار رہتی ہے کہ گویا پستول کی نوک پر زبردستی روزہ رکھوایا گیا ہو۔
اس زمانے میں اس قسم کے جملے بھی آپ کو خوب سننے کو ملتے ہیں مثلاً روزے میں دماغ نہ خراب کرو۔ روزہ ہے ورنہ اتنی اچھی طرح بتاتا کہ۔۔۔۔ روزے میں زیادہ بکواس نہ کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ جیسے روزہ رکھ کر پوری انسانیت پر احسان فرمایا جا رہا ہو۔ اور اگر روزہ نہ ہوتا تو۔۔۔۔ گویا روزے میں یہ حالت ہے کہ چہرے کا رنگ متغیر، مغلظات ہیں کہ اندر ہی اندر پھوٹ رہی ہیں، جس کی کیفیت آنکھوں سے عیاں ہو رہی ہے۔ روزہ کھلنے سے آدھ ایک گھنٹہ پہلے ہی صورتحال پر ذرا نظر ڈالیے۔ چاہے بازار ہو یا سڑک ایک طوفان بدتمیزی نظر آتی ہے۔ صاحبو! خدا کو مانو، یہ مہینہ تو برکتوں کا ہے، لوٹ لو جتنا چاہے، پر کسی کی جیب نہیں، اعتبار نہیں، خلوص نہیں۔ اپنی زبان کو بدکلامی سے محفوظ رکھیے کہ اس میں ہی آپ کی اور معاشرے کی بھلائی ہے۔
مسند ابن حنبل میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے پوچھا:
''یا رسول اللہؐ! سب سے زیادہ ڈر کس کا ہونا چاہیے؟''
حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
''اس کا۔''
اور پھر فرمایا ''خوش کلامی جنت کی اور بدکلامی دوزخ کی نشان دہی کرتی ہے۔''
خوش کلامی درحقیقت خوش اخلاقی ہے اور خوش اخلاقی قطعی طور پر ایمان ہے۔ ایمان اور اخلاق دونوں ہم معنی و ہم مفہوم ہیں۔ اگر انسان کے اخلاق بلند ہیں تو لازماً وہ خوش کلام بھی ہوگا۔ دراصل خوش کلامی اور خوش گفتاری یعنی آپس میں احترام و اکرام اور اخلاق سے بات کرنا اخلاق کی بلندی کا مظہر ہے۔
قران مجید کی سورۃ الاسراء میں ارشاد باری ہے۔
''اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ جو بات کہیں خوش کلامی کے ساتھ ہو۔''(سورۃ اسراء۔ 53)
یاد رہے کہ ہمارے پروردگار نہایت رحم کرنے والے ہیں رب العزت کی صفات کیا بیان کریں کہ کتاب در کتاب سلسلہ ہے جو رکنے والا نہیں لیکن وہ اپنے بندوں میں بھی ایسی صفات دیکھنا پسند کرتے ہیں لیکن ہم انتہائی سخت دور سے گزر رہے ہیں اور یہ ہمارے اپنے اخلاق کی گراوٹ کے باعث ہے۔
کسی دانش ور نے بہت خوب کہا۔
خوش کلامی زبان کا صدقہ ہے، خوش کلامی صراط مستقیم کی جانب لے جاتی ہے، خوش کلامی ایسی طاقت ہے کہ جو صداقت کو الفاظ کا جامہ پہناتی ہے، خوش کلامی سے ہزاروں بار قیام امن کا پلہ جھک گیا، خوش کلامی اور صداقت انسان کو بے خوف بنادیتی ہے۔
ہمارے پیارے رسولؐ نے ہمیشہ خوش کلامی سے کام لیا، نرم گفتگو فرمائی، محبت سے بات کی، آپؐ نے بڑے بڑے مسائل کو خوش اسلوبی اور خوش اخلاقی سے حل کرلیا۔
آئیے اس رمضان میں رب العزت نے ہمیں پھر سے موقع دیا ہے کہ ہم بسم اللہ کریں اور خوش کلامی کو اختیار کریں اور یقین کرلیں کہ اگر ہم سب خوش کلامی اور اچھے اخلاق کو اپنا لیں گے تو نہ صرف ہمارے بلکہ ہمارے ملک کے حالات بھی سدھر جائیں گے کیونکہ ایمان اخلاق اور خوش اخلاقی معاشرے کی ہر خرابی کو دور کرسکتے ہیں، بدکلامی، بد خوئی، بے ایمانی، نحوست، غربت و افلاس اور مسائل کو جنم دیتی ہے فیصلہ کرلیں کہ جو رب العزت نے ہمارے لیے منتخب کیا ہے اس میں ہی ہماری بھلائی ہے۔