نوحہ کتاب کا

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ کتاب سب سے اچھی دوست ہے

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ کتاب سب سے اچھی دوست ہے۔ ایسی دوست کہ جس سے کبھی بھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچتی اور علم کی ترسیل ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کتب بینی کی عادت شاید ختم ہوچکی ہے۔ لیکن ترقی یافتہ مغربی ممالک میں آج بھی الیکٹرانک میڈیا اور کمیونیکیشن کی جدید سہولتوں کی عام افراد تک باآسانی رسائی کے باوجود بھی کتب بینی ایک عام عادت ہے۔ مثال کے طور پر سوئیڈن میں ہر سال فروری کے آخری دنوں میں کتابوں کی ایک بہت بڑی سیل لگتی ہے، جس کا لوگ سال بھر انتظار کرتے ہیں۔ اس سیل میں بہت اہم اور اچھی کتب مناسب اور بعض اوقات نہایت سستی قیمت پر مل جاتی ہیں۔ تمام لوگ پہلے سے اپنی پسندیدہ کتب کی فہرست بنا لیتے ہیں۔

پہلے دن بے تحاشا ہجوم ہوتا ہے اور اکثر مقبول مصنفین کی کتابیں پہلے روز ہی فروخت ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح موسم خزاں میں ایک دن ایسا منایا جاتا ہے، جب لوگ آپس میں کتابیں تبدیل کرتے ہیں۔ اس دن کو ''کتابیں آپس میں'' کہا جاتا ہے، اس روز لوگ ایسی کتابیں خود پڑھ چکے ہوتے ہیں کسی قیمت کے بغیر دوسرے احباب سے بدل لیتے ہیں اور اسی طرح سب کو مختلف موضوعات کی کتابیں پڑھنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ کیا ہمارے ملک میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا کہ لوگوں کو خاص طور پر نوجوانوں کو مطالعے کی عادت ڈالی جاسکے۔

کتابوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ بعض کتابیں گزرنے اور سونگھنے کے لائق ہوتی ہیں کہ آپ انھیں لفظ بہ لفظ پڑھنے کے بجائے ان سے تیزی سے گزر جاتے ہیں اور وہ کتابیں کہیں بھی آپ کو رکنے، سوچنے اور غور کرنے پر مجبور نہیں کرتیں۔ میں ہمیشہ ایسی کتابوں کے مصنفین کو ''دعا'' دیتی ہوں کہ فارغ ہوئے شتابی سے، نہ کہیں ذہن پر زور ڈالنا پڑا، نہ کسی فقرے کو انڈرلائن کرنا پڑا اور جس طرح کے جاہل تھے، اسی طرح کے جاہل رہے۔ صرف آنکھیں استعمال ہوئیں اور آنکھیں ایسی نعمت ہیں جنھیں بہرحال استعمال ہونا ہی ہوتا ہے۔ آپ ان سے کتاب پڑھ لیں یا خالی فضا میں گھورنے کا کام لے لیں یا اچانک کسی شے پر نظر پڑ جائے تو چند لمحوں کے لیے لطف اندوز ہولیں۔

دوسری قسم ان کتابوں کی ہوتی ہے جنھیں پڑھنے اور سمجھنے کے لیے زور لگانا پڑتا ہے۔ میں اگرچہ فلسفے میں دلچسپی رکھتی ہوں۔ لیکن اس کے باوجود علامہ اقبال کے لیکچرز ''دی کنسٹرکشن'' تیس چالیس فیصد سے زیادہ سمجھ میں نہیں آتے۔

ایک مرتبہ میں نے اس کتاب کو اردو تراجم کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی، محاورے کی زبان میں نانی یاد آگئیں کیونکہ تراجم اصلی کتاب سے بھی زیادہ مشکل تھے۔ تب مجھ پر یہ راز کھلا کہ ترجمہ کرنے والے حضرات بھی میری ہی طرح کے تھے اور بلا سمجھے ڈکشنری سامنے رکھ کر تراجم کو پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ علامہ اقبال کی روح ان تراجم کی وجہ سے قبر میں تڑپتی ہوگی، کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو خود اپنی کتاب کا مفہوم ان تراجم سے نہ سمجھ سکتے۔

تیسری قسم ان کتابوں کی ہوتی ہے جن کا تعلق آپ کے نہایت پسندیدہ موضوع سے ہوتا ہے۔ ایسی کتاب اگر معیاری ہو تو قاری پڑھنے میں لطف محسوس کرتا ہے اور اگر فکر انگیز پرمغز اور معلومات کا خزانہ ہو تو اس کے مطالعے سے فکر کو جلا اور ذہن کو روشنی ملتی ہے۔ ایسی کتابیں قارئین میں غور و فکر کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں اور غور و فکر سے انسان میں تحمل و بردباری اور ظرف پیدا ہوتا ہے۔

آج کل ایسی کتابوں کے مطالعے کا قحط پڑ چکا ہے، کسی حد تک تو مطالعہ کو ٹی وی کی نظر لگ گئی ہے، لوگ پڑھنے پر دیکھنے کو ترجیح دینے لگے ہیں، کیونکہ اس میں آسانی بہت ہے۔ دوسرا ''حادثہ'' یہ ہوا کہ اخبارات میں مضامین اور کالموں کی بھرمار کے سبب پڑھنے کے لیے کافی مواد مل جاتا ہے، چنانچہ لوگ اخبار پڑھ کر ہی عالم و فاضل بننا پسند کرتے ہیں اور ان کے پاس علمی کتابیں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔


اس صورتحال کے سبب لوگوں کی ملکی و عالمی سیاست دلچسپی بہت بڑھ گئی ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی ذات میں تجزیہ نگار بن گیا ہے۔ چنانچہ عام لوگوں کا علم سے رشتہ منقطع ہوگیا ہے۔ ہمارے بچپن میں ٹی وی نہیں تھا، نہ بھاری بھرکم اخبارات، تو لوگ کتابیں پڑھتے اور خوب پڑھتے تھے۔ اس دور میں ناول، افسانہ، شاعری، طنز و مزاح اور تاریخی کہانیاں ہاتھوں ہاتھ بکتی تھیں اور طلبا و طالبات جیب خرچ سے پیسے بچا کر کتابیں خریدا کرتے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کالج کی کینٹین سے لے کر کلاس روموں تک کتابوں کا ذکر ہوتا تھا اور طلبا ایک دوسرے پر رعب جمانے کے لیے پوچھا کرتے تھے تم نے فلاں کتاب پڑھی ہے؟ تم نے فلاں مصنف پڑھا ہے؟ آج کل طلبا کا محبوب مشغلہ ٹی وی پروگراموں پر تبادلہ خیال اور صرف درسی کتابیں پڑھنا ہے، درسی کتابیں پڑھے بغیر امتحان پاس نہیں ہوتا، اس لیے یہ ایک طرح کی ناگزیر مصیبت Necessary Evil ہے اور ٹی وی پروگرام دیکھنا گپ شپ اور سوشل ہونے کے لیے ضروری ہے۔

آج سے کوئی تیس برس قبل نامور ناولسٹ نسیم حجازی نے ایک جگہ کہا تھا کہ وہ اپنے ناولوں کے ہر صفحے کی رائلٹی ہزاروں روپوں میں وصول کرچکے ہیں، انھوں نے اپنے قلم کی آمدنی سے قیمتی جائیداد بنانے کے ساتھ ساتھ نام بھی کمایا اور دام بھی کمایا، اگر وہ آج کے زمانے میں ناول نگاری کرتے تو فاقہ کشی کا شکار ہوکر لکھنے سے تائب ہوجاتے۔ آج کا دور پبلسٹی کا دور ہے، کتاب بیچنے کے لیے بھی اسی طرح پبلسٹی کا سہارا لینا پڑتا ہے جس طرح ٹوتھ پیسٹ اور رنگ گورا کرنے والی کریم کو فروخت کرنے کے لیے ''اشتہار بازی'' کرنی پڑتی ہے، ویسے پبلسٹی بڑا طاقتور ہتھیار اور اثرانگیز حربہ ہے۔

کتاب کا نوحہ بلکہ مرثیہ لکھتے لکھتے میں قدرے دور نکل گئی ہوں۔ ہم نے ٹی وی سے لے کر بہت سی چیزیں اور عادتیں ترقی یافتہ ممالک سے لی ہیں، فرق یہ ہے کہ ہم نے ''چربہ سازی'' اور نقل مارنے کے دوران اصل چھوڑ دی ہے جب کہ انھوں نے اصل کو اس طرح سینے سے لگا رکھا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس بات کو اس طرح لکھا جاسکتا ہے کہ ہم نے نئی ایجادات کے جادو میں گم ہوکر کتاب سے رشتہ توڑ لیا ہے جب کہ ترقی یافتہ قوموں نے یہ سانحہ نہیں ہونے دیا۔

اپنے ملک کا موازنہ اگر باہر کے ممالک سے کریں ہر شخص کے ہاتھ میں کتاب نظر آئے گی یا رسالہ اور وہ چند لمحے بھی ضایع کیے بغیر مطالعہ کرتا ہوا نظر آئے گا۔ پاکستان میں بسوں میں سفر کریں یا ٹرینوں میں لوگ گپ شپ کرتے سیاستدانوں کا رونا روتے یا تھوڑی یا تھوڑی ہاتھا پائی کرتے پائے جائیں گے۔

جاپانی قوم تو اس میدان میں حیرت انگیز ترقی کرچکی ہے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے طلبا و طالبات کے ہاتھوں میں بھی کتابیں ہوتی ہیں اور انھیں جہاں بھی سرخ بتی پر چند منٹ رکنا پڑتا ہے وہ کتاب کھول لیتے ہیں، گویا وہ زندگی کا ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کرتے، جب کہ ہم نصف عمر سونے، لڑنے، جھگڑنے، کڑھنے اور گپیں مارنے میں صرف کردیتے ہیں اور بقیہ روزی کمانے میں۔ یہ دور تحقیق اور ریسرچ کا ہے اور ریسرچ کا تعلق مطالعے اور غور و فکر سے ہے۔ قومیں ریسرچ کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہیں اس وقت امریکا میں ہر سال سب سے زیادہ تحقیقی مضامین لکھے جاتے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق چین اور ہندوستان اس میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور توقع ہے کہ آیندہ چند برسوں میں چین جاپان کو پیچھے چھوڑ جائے گا، جب کہ پاکستان نے بڑی محنت سے ابھی تک سرقے اور دوسروں کی ریسرچ مقالوں سے چوری میں نام پیدا کیا ہے۔ ذرا سوچیے اور غور کیجیے کہ کیا یہی انداز ہیں آگے بڑھنے کے اور ترقی کرنے کے؟ کیا یہی طریقے ہیں دنیا میں نام اور دام کمانے کے؟
Load Next Story