ریاض سمٹ سے پاکستان کو ملنے والا پیغام

پاکستان کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم سے ملنے کے لیے امریکی صدر کے پاس چند منٹ کا وقت بھی نہ تھا

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلامی ملکوں کے سربراہوں سے بصیرت افروز خطاب کیا۔ مسلمان ملکوں کے اس اجتماع میں مصر کے فوجی حکمران جنرل سیسی بھی موجود تھے۔ دنیا میں جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مصر میں اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والے فوجی حکمران کے ساتھ بہت گرم جوشی سے ملے۔

پاکستان کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم سے ملنے کے لیے امریکی صدر کے پاس چند منٹ کا وقت بھی نہ تھا۔ سعودی حکمرانوں کی جانب سے امریکی صدرکے لیے دیدہ ودل فرش راہ کیے جانے اورامریکی صدر کے بے لاگ اظہار خیال سے کئی پرانے معاملات نئے انداز سے واضح ہوئے۔ امریکا کی معیشت جنگ پر اور ہتھیاروں کی فروخت پر انحصارکرتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عربوں کے ساتھ کئی سو ارب ڈالرکے معاہدوں کے بعد عجمی ریاست ایران کو خوب سنا ڈالیں، لیکن کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ایران نے امریکا سے کسی بڑے سودے کی خواہش کی ڈونلڈ ٹرمپ اپنی یہ ساری باتیں بھول کر ایران کی تعریف کرتے نظر آئیں گے۔

بادشاہوں، شیوخ، صدور، وزرائے اعظم کے اس اجتماع میں ہماری جس طرح پذیرائی ہوئی اس سے میزبان سعودی عرب اور مہمان خصوصی امریکا کی نظروں میں ہمیں اپنے مقام کو سمجھ لینا چاہیے۔ پاکستان اور سعودی عرب دونوں مسلم ممالک ہیں لیکن قوموں کے درمیان تعلقات مذہب، زبان، نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف باہمی مفادات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ مفادات کی یکسانیت دو مختلف الخیال ملکوں کو اکٹھا کردیتی ہے۔ مفادات نہ ہونے سے ایک مذہب اور ایک زبان والے دو ممالک بھی ایک دوسرے سے لاتعلق یا کبھی برسر پیکار بھی رہتے ہیں۔ عربی بولنے والے عراق اور کویت کے درمیان تنازعات اور اب عرب ممالک یمن اور شام کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔

ریاض میں ہونے والے کئی ملکی اجتماع میں پاکستان کو اتنی ہی اہمیت دی گئی جتنی کسی امیر کی دعوت میں ازراہ مروت بلائے گئے کسی مڈل کلاس آدمی کو دی جاتی ہے۔ ہمیں اس صورت حال پر ناراض یا دل گرفتہ ہونے کے بجائے اس اجتماع کو اہل پاکستان کے لیے حقیقت پسندی کے ایک سبق کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اس اجتماع نے ہمیں اپنا مقام بنانے کے لیے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے اور کاسہ گدائی پر انحصار نہ کرنے کا پیغام دیا ہے۔ یہ تو مسلمہ ہے کہ اصل اہمیت اور قدر اوپر والے ہاتھ کی ہوتی ہے۔ نیچے ہاتھ والے آدمی سے احسان مندی کے اظہار اور شکریے کے الفاظ کی ہی توقع کی جاتی ہے۔ جب انسانوں کی عام معاشرت میں معاملات کا یہ اصول ہے تو پھر ملکوں کی برادری میں اور ڈیموکریٹک معاملات میں تومالی امداد کے طالب کسی ملک کو امیر ملکوں سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔

اہل پاکستان کے لیے کبھی کسی مسلم ملک سے، کبھی دیگر ممالک سے مختلف انداز میں بار بار یہ پیغام آتا ہے کہ قوموں کے درمیان عزت پانے کی منزل خود داری اور معاشی خود کفالت سے حاصل ہوتی ہے۔ معاشی خود کفالت کے لیے قومی مناصب کو امانت سمجھنے کا احساس، قومی وسائل کو دیانت داری کے ساتھ برتنے کا چلن، سخت محنت اور درست داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ قوموں کے درمیان بہتر مقام بنانے کے لیے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کو مذہبی، مسلکی، نسلی یا لسانی جذبات نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کے تابع ہونا چاہیے۔

ایران، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان کئی گہرے اختلافات ہیں لیکن پاکستان کے مشرقی پڑوسی بھارت کے معاملے میں ان تینوں ملکوں کی پالیسی ایک ہی ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران تینوں ممالک بھارت سے تعلقات بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان تینوں کو بھارت سے تعلقات بڑھانے سے پہلے ہم سے مشورہ کرنا چاہیے تو یہ ہماری انتہائی درجے کی خوش فہمی ہے۔ ہماری توقع یہ ہو کہ ان مسلمان ملکوں کی حکومتوں کو مذہبی ناتے سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمایت کرنا چاہیے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔


پاکستان نے عربوں کے کہنے پر یا ان کی خوشنودی کی خاطر اسرائیل کی مخالفت کی لیکن پاکستانی عوام کے سامنے اس معاملے کو خارجہ پالیسی کے ایک نکتے کے طور پر نہیں بلکہ مذہبی حوالے سے نمایاں کیا گیا۔ عربوں کی خوشنودی کی خاطر اسرائیل کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان کو دنیا بھر میں انتہائی مضبوط اسرائیل نواز لابی کی مخالفتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن پاکستان اپنے عرب دوستوں کی خاطر یہ قیمت ادا کرتا رہا۔ پاکستان نے عربوں کے موقف کی حمایت کے عوض عربوں سے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک حمایت بھی حاصل نہیں کی۔ اچھی سفارت کاری کے ذریعے عرب بھارت تعلقات کو بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا تھا لیکن پاکستانی حکومتیں ایسا نہ کرسکیں۔

پاکستان کے مالیاتی منتظمین پاکستان میں صنعت و زراعت کو ترقی دے کر ملکی معیشت کو خود کفیل بنانے کے بجائے امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کے برسوں میں غیر ملکی امداد پر انحصار کرتے رہے۔ اس وقت بھی ملک کی معیشت کو ڈالر میں قرضے لے کر سنبھالا جارہا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں صنعتوں کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔

عرب ممالک میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بغرض روزگار مقیم ہے۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ اس وجہ سے بھی پاکستان کی حکومت کو عرب ممالک کے ساتھ کئی معاملات میں سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر کئی خلیجی ریاستوں میں لاکھوں بھارتی بھی کام کرتے ہیں۔ یہ بھارتی ہر سال اربوں ڈالر بھارت بھیجتے ہیں لیکن کئی عرب حکومتیں پھر بھی بھارتی سرکار کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی کی طالب نظر آرہی ہیں۔ ایک ہی عمل ایک ملک کی کمزوری بن رہا ہے لیکن دوسرے کو طاقت فراہم کر رہا ہے۔

بھارت بھی کوئی بہت زیادہ مضبوط معاشی طاقت نہیں ہے لیکن کئی عوامل اسے ایران اور عرب حکومتوں کے قریب لا رہے ہیں۔ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ بھی قریبی سفارتی اور دفاعی تعلقات ہیں۔ عرب ممالک اب اسرائیل کی مخالفت ترک کر رہے ہیں لیکن ایران اسرائیل کا سخت مخالف ہے۔ ایران اور عرب ممالک ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن اسرائیل کے بارے میں الگ الگ پالیسی کے باوجود ایران اور عرب ممالک بھارت کے ساتھ تعلقات کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ ممالک پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ آخر کیوں...؟

اس سرد مہری کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک تازہ ترین وجہ سی پیک اورگوادر ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر ہے۔ دراصل پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات اورپھر پارٹنر شپ کئی ملکوں کو پسند نہیں ہے۔ جب تک اقتصادی راہداری کی تعمیر مکمل نہیں ہوجاتی اورگوادر پورٹ مکمل طور پر آپریشنل نہیں ہوجاتا اس وقت تک مالی مشکلات اور توانائی کے بحران میں پھنسے ہوئے پاکستان کو کئی ملکوں کی بدلی ہوئی نظروں کا سامنا رہے گا۔

دنیا اب سرد جنگ کے خمار سے باہر آچکی ہے۔ امریکا کی معیشت ہمیشہ جنگوں پر اور ہتھیاروں کی فروخت پر انحصار کرتی آئی ہے۔ امریکا کو آج بھی مختلف ملکوں کو ہتھیار بیچ کر، اپنی معیشت کو استحکام دینا زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے، لیکن ایشیائی ملک چین کا نظریہ جنگ سے اجتناب کرتے ہوئے معاشی ترقی حاصل کرنا ہے۔ روس زار بادشاہ کے زمانے سے جنوبی ایشیا میں گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے سوویت یونین نے افغانستان پر غاصبانہ قبضہ بھی کیا اور آخر کار بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ لیکن آج روس کے پاس پرامن طریقے سے سی پیک سے استفادے کے امکانات موجود ہیں۔ چین، پاکستان، جنوبی ایشیائی ریاستوں اور روس کا اشتراک خطے میں استحکام اور اقتصادی خوش حالی کے نئے امکانات روشن کرے گا۔

پاکستان کو اپنی معاشی، داخلہ اور خارجہ پالیسی موجودہ اور آنے والے وقت کے تقاضوں کو ٹھیک طرح سمجھتے ہوئے بنانی چاہیے۔ پاکستان ایک مضبوط معیشت والا ملک بن گیا تو کوئی عرب ملک یا کسی بھی خطے کا کوئی اور ملک پاکستان کی نمایندگی کرنے والی کسی بھی شخصیت کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گا۔
Load Next Story