سندھ میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی

سندھ میں جماعت اسلامی کا وجود صرف شہروں تک ہے جب کہ جے یو آئی اندرون سندھ دیہاتوں میں بھی اپنا موثر وجود رکھتی ہے

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے حال ہی میں ایکسپریس نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں میں تو کامیاب ہوگی ہی مگر اس بار پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کراچی سے بھی تقریباً بیس صوبائی نشستیں حاصل کرلے گی اور سندھ میں آیندہ حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہی ہوگی اور دیگر صوبوں میں بھی پیپلز پارٹی نمایاں کامیابی حاصل کرے گی۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پیپلز پارٹی نے 2008 کے انتخابات میں کراچی سے سات نشستیں حاصل کی تھیں مگر 2013 میں کراچی میں پیپلز پارٹی کی نشستیں کم ہوگئی تھیں۔ وزیراعلیٰ نے اس کمی کی وجہ تو نہیں بتائی جب کہ اس وقت صرف سندھ ہی نہیں بلکہ وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی مضبوط حکومت تھی جس کے صدر بھی آصف علی زرداری تھے جن کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کی دو حکومتوں نے اپنے 5 سال مکمل کیے تھے اور سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے بھی اپنی 5 سالہ مدت مکمل کی تھی۔ اس حکومت میں کافی عرصے تک متحدہ بھی سندھ حکومت کا حصہ تھی جو آخر میں اپوزیشن میں بیٹھ گئی تھی تاکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سندھ کی نگراں حکومت قائم کرا سکے۔

پی پی اور متحدہ نے باہمی رضامندی سے سندھ کا نگراں وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر مقررکیے تھے اور دونوں کی نگراں حکومت پر اپوزیشن نے بداعتمادی کا اظہار کیا تھا جو متنازعہ قرار پائی تھی۔ وفاق میں اپنا صدر اور صوبہ سندھ میں مرضی کی نگراں حکومت، پسندیدہ افسروں کی موجودگی کی خوشگوار صورتحال کے باوجود کراچی میں پیپلزپارٹی اپنی حاصل کردہ سات نشستوں کا دفاع بھی نہیں کرسکی تھی اورکراچی میں پی ٹی آئی نے پہلی بار قومی اسمبلی کی ایک اور سندھ اسمبلی کی تین نشستیں حاصل کی تھیں اور مسلم لیگ (ن) بھی کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی کسی اور پارٹی کوکراچی میں متحدہ جیسی کامیابی تو نہیں ملی تھی مگر جماعت اسلامی، جے یو آئی اور اے این پی بھی ناکام رہی تھیں۔ 2013 میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کراچی میں متحدہ کے بعد عمران خان کی توجہ نہ ہونے کے باوجود پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ ووٹ لے کر ملک کو حیران کردیا تھا اور متحدہ کی نشستیں بھی کم ہوئی تھیں۔

اپنے خوشگوار صورتحال اور مرضی کی نگراں حکومت کے باوجود پیپلز پارٹی کی کراچی میں ناکامی کی وجہ ممکن ہے ملک بھر میں پی پی کی حکومتوں کی مبینہ کرپشن، لوڈ شیڈنگ اورگڈ گورننس کا نہ ہونا ہو۔ قائم علی شاہ کہنے کو تو 5 سال وزیر اعلیٰ تھے مگر مرحوم پیرپگاڑا کہتے تھے کہ سندھ میں اصلی چار وزیر اعلیٰ عملی طور پر کام کر رہے ہیں اور ان چاروں مبینہ وزرائے اعلیٰ میں بھی کراچی سے بھی کسی کا تعلق نہیں تھا۔ پی پی کی گزشتہ حکومت نے اپنے پانچ سالوں میں کراچی پر کوئی توجہ دی تھی نہ کراچی کو وفاق سے کوئی خصوصی ترقیاتی پیکیج دیا گیا تھا البتہ پی پی کے مضبوط علاقے لیاری کو وفاق اور سندھ کی حکومتوں نے خصوصی طور پر نوازا تھا مگر پھر بھی پی ٹی آئی نے لیاری سے نمایاں ووٹ لیے تھے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی ترقیاتی کارکردگی تو سندھ بھر توکیا لاڑکانہ، نوابشاہ جیسے اہم شہروں میں بھی نظر نہیں آتی البتہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے سیاسی طور پر واقعی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اندرون سندھ اپنی سیاسی پوزیشن انتہائی مضبوط بنالی ہے جس کی اہم وجہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے سربراہوں کی اندرون سندھ سے عدم دلچسپی ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کا مضبوط اقتدار بھی اہم سبب ہے۔ اندرون سندھ منقسم قوم پرست جماعتیں ماضی میں پیپلز پارٹی کے لیے اہمیت کی حامل رہی ہیں نہ کبھی انتظامی مسئلہ بن سکی ہیں۔


سندھ میں جماعت اسلامی کا وجود صرف شہروں تک ہے جب کہ جے یو آئی اندرون سندھ دیہاتوں میں بھی اپنا موثر وجود رکھتی ہے۔ اندرون سندھ مسلم لیگ فنکشنل کا وجود صرف دو اضلاع خیرپور اور سانگھڑ میں زیادہ تھا جو اب نہیں رہا جس کی ذمے دار موجودہ قیادت ہے جو اندرون سندھ بھی اب موثر سیاسی قوت نہیں رہی ہے کیونکہ وہ اپنیپیشرو کی طرح ملکی سیاست میں نمایاں نہیں نہ اسے سیاست سے زیادہ دلچسپی نظر آتی ہے جب کہ مرحوم پیرپگاڑا کے دور میں مسلم لیگ (ف) ملک بھر میں نمایاں تھی جس کے سربراہ ملک کے اہم قومی رہنما شمار ہوتے تھے۔ موجودہ قیادت سیاسی طور پر فعال ہے نہ سندھ میں اس کی سیاسی شخصیت اہم رہی ہے جس کی وجہ سے اس کے دو ارکان اسمبلی (ف) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر اپنی نشستیں دوبارہ جیت چکے ہیں اور مسلم لیگ (ف) کے صوبائی جنرل سیکریٹری بھی اب (ف) لیگ سے اپنی 27 سالہ رفاقت ختم کرکے پی ایس پی میں شامل ہوگئے ہیں اور اندرون سندھ پگاڑا لیگ کی اب سیاسی اہمیت نہیں رہی ہے۔

میاں نواز شریف اور عمران خان تو اپنی پارٹی کے صوبائی سربراہوں تک کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکے اور وہ نظرانداز کیے جانے پر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں مگر دونوں کو سندھ میں اپنی پارٹی کی فکر نہیں اور دونوں نے اندرون سندھ پی پی کو کھلا میدان فراہم کر رکھا ہے۔ سابق صدر زرداری کے بقول وہ اپنی پارٹی میں آنے والوں کو عزت اور پیار دیتے ہیں جس کی وجہ سے پی پی میں آنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

اب صوبائی حکومتوں کو اہم اختیارات ملے ہوئے ہیں اور اندرون سندھ کے وڈیروں کو وفاق سے زیادہ سندھ حکومت اپنے مفاد اور کاموں کے لیے ضرورت بن چکی ہے جن کے کام پولیس اور محکمہ ریونیو میں زیادہ پڑتے ہیں اور کمشنری نظام بحال ہونے کے بعد اب انھیں ارکان اسمبلی سے زیادہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سے تعلقات رکھنے میں فائدہ ہے جو صوبائی حکومت کے احکامات پر چلتے ہیں اور سندھ حکومت کے سیاسی مفادات کے بھی نگراں ہیں اور ملک بھر میں کمشنری نظام اسی وجہ سے بحال کیا گیا ہے۔

اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی حکومت کی نو سالہ کارکردگی میں ہر جگہ کرپشن کے چرچے سرفہرست ہیں اور تعمیروترقی کے حکومتی دعوؤں کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ عوامی خدمت کا نام صرف سیاست کے لیے استعمال ہوتا آرہا ہے۔ اندرون سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کے لوگ ارکان اسمبلی، پی پی کے عہدیداروں اور عوام دشمن وڈیروں، سرداروں، پیروں، بڑے سیاستدانوں اور زمینداروں کے رحم وکرم پر ہیں جنھوں نے ذاتی مفادات کے لیے 9 سال سے برسراقتدار پیپلزپارٹی میں پناہ لے رکھی ہے۔ عوام خصوصاً دیہی لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور پولیس گردی عروج پر ہے۔

ترقیاتی کاموں پر اربوں کھربوں روپے کہاں اورکیسے خرچ ہوئے وہ مخصوص علاقوں میں تھوڑے بہت ہی نظر آتے ہیں عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں جس کی ایک بڑی مثال عدالت عالیہ میں زیر سماعت لاڑکانہ میں خرچ ہونے والی بہت بڑی رقم کا کیس ہے۔ حقیقی ترقی عوام کو نہیں معلوم کہاں ہوئی اور ہو رہی ہے۔
Load Next Story