لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کی تباہی آخری حصہ
میری بیٹی نے مجھے کہا کہ وہ ریلوے اسٹیشن دیکھنا چاہتی ہیں کیونکہ اس نے ٹرین میں کبھی سفر نہیں کیا تھا
میری بیٹی نے مجھے کہا کہ وہ ریلوے اسٹیشن دیکھنا چاہتی ہیں کیونکہ اس نے ٹرین میں کبھی سفر نہیں کیا تھا۔ جب اس نے ریلوے اسٹیشن پر جا کر دیکھا تو اداسی اورخاموشی چھائی ہوئی تھی توکہنے لگی یہاں تو لگتا ہے کہ کوئی آتا جاتا نہیں۔ ریلوے اسٹیشن کے باہر جو لان تھا وہاں پر ہیروئن کے عادی افراد نے اپنا مستقل ڈیرہ بنایا ہوا تھا، دوسرے حصے میں ریسٹورنٹ چل رہا تھا، ریسٹ ہاؤس کے ایک حصے کو شادی ہال بنا دیا گیا ہے اوراس کے پیچھے ویگن اسٹاپ ہے اور برابر میں دکانیں بنائی گئی ہیں جو اب مکمل ہونے والی ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ریلوے انتظامیہ نے یہ سب کچھ تین سال کی لیز پر دی ہیں۔ لان کے ساتھ ایک جگہ تھی جو بے نظیر بھٹو نے ٹیکسی ڈرائیورزکو دلوائی تھی،کچھ کہتے ہیں کہ سرکاری لکھت پڑھت نہیں ہے اس لیے اس پرکورٹ میں کیس چل رہا ہے۔
شروع میں ٹرین میں کالا انجن لگتا تھا جس میں پانی بھرا جاتا تھا اور پھر ٹرین کے ڈبوں میں بھی پانی کا استعمال ہوتا ہے جس کے لیے پانی کی بڑی لوہے کی ٹنکیاں اور نل ہوتے تھے جس کی حالت دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ اس ٹنکی سے ریلوے کالونی کو بھی پانی فراہم کیا جاتا تھا اور اب تو ان کی ایسی بری حالت ہے کہ انھیں زنگ لگ گیا ہے اور اگر اس سے پانی کوارٹروں میں دیا جائے گا تو وہ Polluted ہوگا جس سے پیٹ کے علاوہ اور کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ وہاں پر درختوں کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے ان پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی ہے۔ جیسے جیسے ہم چلتے گئے تو دیکھا کہ کوارٹرز کے آگے اور پیچھے کی طرف گندا پانی کھڑا ہوا تھا جو رہنے والوں کے گھروں میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں تو حیران تھا کہ رہنے والے کیسے گھر میں آتے اور جاتے ہیں۔ اس پانی کی جھیل بنی ہوئی ہے جسے ایک کونے پر لگی ہوئی موٹر سے باہر نکالا جا رہا ہے مگر کوئی نالہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ پھر جھیل نما پانی میں واپسی ہو رہا تھا۔
اسٹیشن ماسٹر کا بنگلہ، ریلوے کے پرانے دفاتر جس میں اب بھی دفتری کام چل رہا ہے، خستہ حال میں تھے جو کبھی بھی خود مسمار ہوجائیں گے جس سے انسانی جانوں کے نقصان کا اندیشہ ہے، لیکن معلوم ہوا کہ کوارٹر میں رہنے والے ملازمین نے اپنے کوارٹرز کرائے پر چڑھائے ہوئے ہیں۔ رحمت پورکا کچھ حصہ بالکل ریلوے کوارٹرزکے برابر ہے جو ریلوے کی حدود میں ہے وہاں پر ایک اوور ہیڈ برج بنا ہوا ہے جس کے نیچے لوگوں نے بھینسیں باندھی ہوئی ہیں اور ان کے گوبر سے اٹھتی ہوئی بدبو وہاں پر موجود چائے کے ہوٹل میں بیٹھے ہوئے افراد کے ناک اور گلے میں گھس رہی تھی اور وہاں سے اٹھتی ہوئی مکھیاں چائے اور بسکٹ پر بیٹھتی نظر آئیں۔ اس کے علاوہ جھیل نما ریلوے کوارٹرز کے گندے پانی پر پلنے والے مچھر وہاں پر رہنے والوں کے اوپر یلغار کر رہے تھے۔
رحمت پور کے اس علاقے سے جو راستہ ریلوے کوارٹر، بنگلوز اور دفاتر کی طرف جا رہا تھا وہ بھی آگے چل کر گندے پانی سے بھرا ہوا تھا لہٰذا ہم نے نالے کے کنارے سے چل کر راستہ پارکیا۔ وہاں پر میدان پر بھی یہ پانی موجود تھا اور باقی سوکھے حصے پر بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ راستے میں چلتے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی جنھوں نے بتایا کہ ریلوے پارک میں بنائے ہوئے شادی ہال اور ریسٹورنٹ کی وجہ سے جانے والے راستے میں گاڑیاں کھڑی ہوجاتی ہیں اور لوگ پیدل بھی وہاں سے نہیں گزر سکتے۔ اس کے علاوہ رات کے وقت شادی والے پٹاخے اورکلاشن چلانے کی آواز سے وہ سو نہیں پاتے، بچے ڈر جاتے ہیں ۔ کوئی زمانہ تھا کہ پلیٹ فارم ٹکٹ ایک آنے کی ہوتی تھی جو اب دس روپے ہے مگر وہ کیوں خریدیں اس لیے کہ اب وہاں پر گاڑی کی آمد پر بھی کوئی رونق نہیں ہوتی اور نہ اب وہاں تفریح کا عالم ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پر Luggage اٹھانے والوں کی تعداد 12 سے 15 تھی جو اب صرف دو تک رہ گئی ہے اور مسافروں کو ٹرین میں پانی پلانے والے واٹرمین بھی شاید نہیں رہے۔
ریلوے لائن کا کانٹا بدلنے والی جگہ تو موجود ہے مگر ریلوے کراسنگ پر گاڑی کے آنے کی صورت میں وہ رومانٹک آواز نہیں ہے جو پھاٹک بند ہونے سے پیدا ہوتی تھی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ٹکٹ ریزرو کرنے والا نظام آن لائن نہیں ہے۔ کمپیوٹرسسٹم بھی نہیں ہے، ریلوے کو کما کر دینے والی گڈز ٹرین بند ہوچکی ہے۔ اس مقصد کے لیے بنائے گئے ڈرائی پورٹ بند ہوکر ختم ہوگیا ہے جس کی اینٹیں تک لوگ لے گئے ہیں اور سیاستدان، چیمبر آف کامرس بھی اسے بحال کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ اسٹیشن پر جہاں 250 ملازم ہوتے تھے اب 50 رہ گئے ہیں اور صفائی کرنے والے عملے میں صرف تین سوئیپر ہیں گھنٹی پھاٹک سے رحمت پور جانے والے روڈ پر بھی ریلوے کے پلاٹوں پر قبضے ہوگئے ہیں اور خاص طور پر سوئیپر کالونی کے سامنے پلاٹ پر گندا پانی کھڑا ہے جس کی وجہ سے سیم اور تھور نظر آرہی ہے۔
ڈرائی پورٹ، ریلوے اسٹیشن کے باہر کے حصے کو لوگوں نے پیشاب کرنے کی جگہ بنادی ہے اور اس کے علاوہ رات کے وقت ہیروئنچی اور فقیر وہاں پر پوٹی کرنے آتے ہیں۔ دیواریں گرچکی ہیں اور ہر طرف مٹی اور گندا پانی نظر آتا ہے۔ جیساکہ گاڑی صبح سویرے آتی ہے اور پھر رات کو دیر سے اس لیے فارغ لوگ ریلوے لائن کے بیچ تاش کھیلتے اور بچے کرکٹ کھیلتے نظر آئے جب کہ باہر کے حصوں میں لوگوں نے اسے بھینسوں کا باڑہ بنالیا ہے۔ جہاں بھی ریلوے ملازمین رہ رہے ہیں وہاں پر ان کے پاس گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہے اس لیے یہ پانی روڈ پر کھڑا ہوجاتا ہے اور عام آدمی کا گزرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مجھے تو یہ نظر آیا کہ ریلوے کی ملکیت کو لوگوں نے لاوارث سمجھ کر قبضہ کرنا شروع کردیا ہے۔ کہیں لکڑیوں کا ٹال بنا ہوا ہے، کہیں عمارت تعمیر کرنے کا میٹریل بیچا جا رہا ہے، کہیں پر جھگیاں بنی ہوئی ہیں۔
کبھی صبح کو ایک ریل کار سکھر کے لیے چلتی تھی وہ بند ہوگئی ہے، پشاورکے لیے، راولپنڈی کے لیے، کراچی کے لیے، روہڑی اورکوٹری کے لیے، جیکب آباد کے لیے کئی ایکسپریس، پسینجرز ٹرین 24 گھنٹے چلتی تھیں۔ جن میں کوئٹہ، پنڈی اور کراچی کے الگ ڈبے لاڑکانہ سے ہی اٹیچ کیے جاتے تھے۔
برتھ ریزرویشن بھی بڑے پیمانے پر ہوتی تھی اور بڑے پڑھے لکھے لوگ جس میں سیاستدان، سرکاری افسر اور بزنس کرنے والے اپنی فیملی کے ساتھ سفر کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے مگر اب شکایتیں تو سارے لوگ کرتے ہیں کہ انھیں ریلوے کے سفرکی سہولت نہیں ہے مگر ایوانوں میں کوئی آواز نہیں اٹھاتا، اس کی بحالی کے لیے کوئی بھی جلوس نہیں نکالتا، کوئی دھرنا نہیں ہوتا، کوئی احتجاج نہیں ہو رہا ہے۔ ہمارے وفاقی ریلوے کے وزیر سیاسی اکھاڑے میں تو بہت بولتے ہیں مگر انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ لاڑکانہ شہر یا کوئی بھی پاکستان کا علاقہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے یہ پاکستان کا حصہ ہے اور اس کا بھی حق ہے کہ وہ وفاق سے اپنے شہر کی ریلوے اسٹیشن کی بحالی اور ترقی کے لیے کچھ اقدام کریں، یہاں کا دورہ کریں لوگوں سے ملیں اور اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ نہ صرف یہ شہر بلکہ سندھ کے سبھی شہروں کی ریلوے اسٹیشنز کی بحالی اور ریلوے نظام کو بحال کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
ایک زمانے میں گاڑیوں کے بارے میں اطلاع دینے اور لینے کے لیے ٹیلی گراف نظام کے تحت جو سلسلہ چلتا تھا وہ بند ہوگیا ہے اور کئی جگہ پر مائیکرو سسٹم چل رہا ہے، لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پر بھی 1990 میں لایا گیا تھا جو کوریا کا تھا لیکن اس کے فیل ہوجانے سے اب یہاں پر موبائل کمپنی کے ذریعے نظام چل رہا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ریلوے اسٹیشنوں پر ایمرجنسی میڈیکل فیسلیٹی ہونی چاہیے جس میں مسافروں کو فرسٹ ایڈ دی جائے۔
شہریوں کی ریلوے حکام سے اپیل ہے کہ انھیں قمبر، شہداد کوٹ لائن دوبارہ بحال کی جائے جو شاید سنا ہے کہ CPEC کے پروگرام میں شامل ہوجائے، ریلوے کی زمین سے جس میں ریلوے پارک بھی شامل ہیں ختم کیے جائیں۔ گڈز ٹرین اور باقی 10 ٹرینیں دوبارہ چلائی جائیں، کوٹری سے شکارپور، حبیب کوٹ، دادو و سہون والی لائن کو ڈبل اور مضبوط کیا جائے اور لاڑکانہ ریلوے کے دفاتر، بنگلوز، ریسٹ ہاؤس، ڈاک بنگلو، ریلوے کوارٹرز اور جگہوں کی مرمت کروائی جائے۔ ریلوے کوارٹرز سے گندے پانی کی نکاسی کو اس نالے سے جوڑا جائے جس سے رحمت پور کے رہنے والے لوگوں کے لیے بنایا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی لے کر لوگوں کے دل جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی۔