چابہار بامقابلہ گوادر بندرگاہ
بھارتی منصوبے کی حیرت انگیز کہانی۔
SAN FRANCISCO:
بحیرہ عرب میں واقع وطن عزیز کی گوادر بندرگاہ سے جانب مغرب چلیں، تو صرف 72 کلو میٹر بعد ایرانی بندرگاہ، چابہار نظر آنے لگتی ہے۔ جب چین اور پاکستان گوادر بندرگاہ کو ترقی دینے لگے، تو بھارت نے ان کے مقابلے میں چابہار کو ڈویلپ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
مقصد یہ تھا کہ گوادر بندرگاہ کی اہمیت کم کردی جائے۔ پچھلے سال ماہ مئی میں بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی نے چابہار کی ڈویلپمنٹ کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اسے ''تاریخ ساز لمحہ'' قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ چابھار بندرگاہ کی تعمیر سے بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے مابین تجارت بے پناہ بڑھ جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقے کو ''چین فوبیا'' ہوچکا۔ وہ اب ہر شعبہ ہائے زندگی میں چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تاکہ چینیوں کو نیچا دکھاسکے۔ پھر گوادر بندرگاہ کی ترقی کے منصوبے میں تو پاکستان بھی شامل ہے جسے بھارتی حکمران طبقہ ''اکھنڈ بھارت'' کا حصّہ سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ ہر قیمت پر گوادر بندرگاہ کو ترقی کرتا اور پھلتا پھولتا دیکھنے کا خواہش مند نہیں...چاہے اسے اربوں روپے برباد کرنا پڑجائیں۔
جی ہاں، حقائق اور اعداو شمار سے عیاں ہے، چابہار بندرگاہ کا ڈویلپمنٹ منصوبہ بھارت کے لیے تجارتی و معاشی طور پر سودمند نہیں، یہ صرف اس لیے تخلیق کیا گیا تاکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ گوادر بندرگاہ منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکیں۔ یہ انداز فکر و عمل چانکیائی سیاست پر عمل کرنے اور بغل میں چھری منہ پر رام رام کہنے والے بھارتی حکمران طبقے سے مخصوص ہے۔
بھارت میں کروڑوں لوگ غربت، بیماری اور بیروزگاری کا شکار ہیں۔ وہاں قانون کی عملداری بھی کمزور پڑرہی ہے۔ کبھی ہندوؤں کا بے قابو ہجوم معمولی بات پر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو وحشیانہ طریقے سے مار ڈالتا ہے، تو کبھی خواتین وحشی مردوں کا نشانہ بن جاتی ہیں۔بھارتی حکمران طبقے کو ان سنگین مسائل کی کوئی پروا نہیں، وہ بس گوادر بندرگاہ پروجیکٹ کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی، اسی لیے چابہار منصوبے پر اربوں روپے خرچنے کو تیار ہے۔
منصوبے کی تفصیل کے مطابق بھارتی سرکاری ادارہ، انڈیا پورٹس گلوبل پرائیویٹ لمیٹڈ چابہار بندرگاہ کو وسعت دے گا، نیز نئی برتھیں تعمیر کرے گا تاکہ وہاں سالانہ سوا کروڑ ٹن سامان اتارنے، لادنے کی گنجائش پیدا ہوسکے۔ مزید براں دوسرا بھارتی ادارہ، ارکون انٹرنیشنل چابہار سے زاہدان تک 1.6 ارب ڈالر لاگت سے پانچ سو کلو میٹر طویل ریلوے لائن تعمیر کرے گا۔ زاہدان سے پھر بذریعہ ریل و سڑک بھارتی سامان وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان پہنچ سکے گا۔
سوال یہ ہے کہ اربوں روپے سے تیار ہونے والی چابہار بندرگاہ کیا واقعی بھارت کو معاشی و تجارتی فوائد پہنچائے گی؟ حقائق کی روشنی میں اس سوال کا جواب نفی ہی میں ملتا ہے۔
2001ء میں چین نے وسطی ایشیا (افغانستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان) کو 500 ملین ڈالر کا سامان بھجوایا تھا جبکہ اس سال خطے کو بھارت کی برآمدات 100 ملین ڈالر تھیں۔ 2015ء تک چین خطے کو 18 ارب ڈالر کا مال بھجوانے لگا جبکہ بھارتی برآمدات کی مالیت صرف 950 ملین تک ہی پہنچ سکی۔ آج بھی دنیا بھر میں بھارت کے 25 بڑے تجارتی ساتھی ممالک میں وسطی ایشیا کا ایک بھی ملک شامل نہیں۔
درج بالا اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے مابین باہمی تجارت اربوں ڈالر پر محیط نہیں کہ اسے بڑھاوا دینے کی خاطر بندرگاہ، ریلوے لائنیں اور شاہراہیں تعمیر کرلی جائیں۔ بھارتی حکمران طبقے نے اتنا وسیع انفراسٹکچر کھڑا کرنے کا ڈراما اسی لیے رچایا تاکہ چابہار بندرگاہ کو گوادر بندرگاہ کے متبادل کی صورت پیش کیا جاسکے۔ بھارتی حکمران خوب جانتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اسی بات پر ہے کہ گوادر بندرگاہ فعال ہوجائے۔
مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چابہار بندرگاہ کی تعمیر سے بھارت کو وسطی ایشیا پہنچنے کا موقع ملے گا۔ یوں بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کی باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ یہ ممالک سستی چینی اشیا کے مقابلے میں مہنگی بھارتی اشیا کو کیوں ترجیح دیں گے؟ مزید براں بھارت دنیا کے جن خطّوں میں براہ راست رسائی رکھتا ہے، وہاں بھی وہ چین کو پچھاڑ نہیں سکا۔ مثال کے طور پر 2001ء میں چین نے مشرقی افریقی ممالک (جنوبی افریقہ، تنزانیہ، کینیا، ایتھوپیا) کو ایک ارب ڈالر کا سامان بھجوایا تھا جبکہ اسی سال خطے کو بھارتی برآمدات کی مالیت 500 ملین ڈالر تھی۔
آج چین مشرقی افریقی ممالک کو تقریباً تیس ارب ڈالر کا سامان بھجواتا ہے جبکہ بھارتی صرف سات ارب ڈالر کا مال بھجوا رہے ہیں۔ مئی 2016ء میں بسلسلہ چابہار پروجیکٹ ایران وافغانستان سے سہ فریقی معاہدہ کرتے وقت بھارتی وزیراعظم، مودی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا: ''اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد بھارت سمندری راستے کی نسبت پانچ گنا کم قیمت میں اپنا سامان یورپ بھجوا سکے گا۔'' یہ ایک اور جھوٹا دعویٰ تھا جو بھارتی وزیراعظم نے بلند آہنگ انداز میں دنیا والوں کے سامنے کیا۔
نریندر مودی یہ فراموش کر بیٹھے کہ جہاز رانی کا خرچ ریل سے سامان بھجوانے کے مقابلے میں ''50 تا 60 فیصد'' کم ہے۔ مثلاً شنگھائی سے ایک 40 فٹ لمبا چوڑا کنٹینر یورپ بھجوایا جائے تو بحری جہاز اسے 1500 ڈالر خرچ پر لے جاتا ہے ۔جبکہ بذریعہ ریل سے پہنچانے پر 2500 ڈالر کے اخراجات اٹھ جاتے ہیں۔ گویا سمندری راستہ برّی راستے کی نسبت خاصا سستا ہے۔
مودی حکومت نے ایک قومی ادارے،ایف ایف ایف اے آئی (Federation of Freight Forwarders' Associations of India) کی تحقیقی رپورٹ کو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ اس ادارے نے 2014ء میں یہ تحقیق کرائی تھی کہ ممبئی سے براہ ایران وسطی ایشیا سامان بھجوانے پر کتنا خرچ اٹھتا ہے۔
دوران تحقیق بیس فٹ لمبے چوڑے کنٹینر دو تجرباتی راستوں پر بھجوائے گئے۔پہلا سفر ممبئی سے شروع ہوکر آذربائیجانی بندرگاہ، باکو پہنچ کر ختم ہوا۔ سفر 33 دن میں تمام ہوا جبکہ فی کنٹینر 3132 ڈالر کی لاگت آئی۔ دوسرا سفر ممبئی سے شروع ہوا اور ایران کے راستے سے ہوکر روس کی بندرگاہ، استراخان تک ختم ہوا۔ اس سفر میں 43 دن لگے جبکہ فی کنٹینر 3339 ڈالر کی لاگت اٹھی۔
ان دونوں اسفار نے بھارتی صنعت کاروں اور تاجروں کی آنکھیں کھول دیں اور ان پر افشا ہوا کہ ایران کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ مال بھجوانا گھاٹے کا سوا ہے۔ وجہ یہ کہ ممبئی سے ہالینڈ کی بندرگاہ، روتردم تک ایک بحری جہاز 26 دن میں پہنچ جاتا ہے۔ جبکہ اس بحری سفر پر لاگت بھی کم آتی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ دونوں تجرباتی بھارتی اسفار ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ، بندر عباس کے ذریعے انجام پائے۔ یہ بندرگاہ چابھار سے 300 میل دور جانب مغرب آبنائے ہرمز میں واقع ہے۔ وہاں سے ایک ریل سیدھی وسطی ایشیائی ممالک جاتی ہے۔ بالفرض چابھار بندرگاہ تعمیر بھی ہوجائے، تو وہاں سے وسطی ایشیا جانے والے بھارتی سامان کو مزید مغربی سمت لے جانا پڑے گا تاکہ وہ مرکزی ایرانی ریلوے لائن تک پہنچ سکے۔ گویا سفر کی لاگت و وقت مزید بڑھ جائے گا۔ اسی لیے بھارتی تاجروں و صنعت کاروں نے بذریعہ ایران وسطی ایشیا مال بھجوانے یا منگوانے کا فیصلہ کیا بھی، تو ان کی پہلی ترجیح چابہار نہیں ، بندر عباس بندرگاہ ہوگی۔البتہ مودی حکومت انھیں سبسڈی دے کر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ چابھار کے راستے اپنا مال وسطی ایشیا بھجوائیں۔ظاہر ہے،ناکام منصوبے کو دنیا والوں کے سامنے کامیاب دکھانے کی خاطر مودی کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ چابہار بندرگاہ کا بھارت کو واحد فائدہ یہ ہے کہ وہ اس کے راستے افغانستان آسانی سے پہنچ سکے گا۔ بھارت طویل عرصے سے کوششیں کررہا ہے کہ براہ پاکستان اپنا مال افغانستان بھیج سکے، مگر پاکستانی حکومت اسے اجازت نہیں دے رہی۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں قدم جما کر بھارتی حکمران طبقہ وطن عزیز کے خلاف سازشیں کرسکتا ہے۔ تاہم مودی حکومت کی بھر پور سعی ہے کہ افغانستان سے زیادہ سے زیادہ معاشی، سیاسی و معاشرتی تعلقات قائم کیے جائیں۔
یہ حکمت عملی بہرحال پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن بھارت کے لیے بذریعہ چابہار بندرگاہ بھی افغانستان مال بھجوانا خطرات سے خالی نہیں۔ سب سے بڑا خطرہ طالبان ہیں جو افغانستان میں بھارت کا اثرو رسوخ بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسی لیے کابل میں بیٹھی امریکیوں کی کٹھ پتلی افغان حکومت بھارت کو متنبہ کرچکی کہ طالبان بھارتی تجارتی قافلوں پر حملہ کرکے انہیں لوٹ سکتے ہیں۔ گویا تب بھارتی سامان کی صورت مال کمانے کا ایک ذریعہ طالبان کے ہاتھ لگ جائے گا۔
بحیرہ عرب میں واقع وطن عزیز کی گوادر بندرگاہ سے جانب مغرب چلیں، تو صرف 72 کلو میٹر بعد ایرانی بندرگاہ، چابہار نظر آنے لگتی ہے۔ جب چین اور پاکستان گوادر بندرگاہ کو ترقی دینے لگے، تو بھارت نے ان کے مقابلے میں چابہار کو ڈویلپ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
مقصد یہ تھا کہ گوادر بندرگاہ کی اہمیت کم کردی جائے۔ پچھلے سال ماہ مئی میں بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی نے چابہار کی ڈویلپمنٹ کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اسے ''تاریخ ساز لمحہ'' قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ چابھار بندرگاہ کی تعمیر سے بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے مابین تجارت بے پناہ بڑھ جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقے کو ''چین فوبیا'' ہوچکا۔ وہ اب ہر شعبہ ہائے زندگی میں چین کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تاکہ چینیوں کو نیچا دکھاسکے۔ پھر گوادر بندرگاہ کی ترقی کے منصوبے میں تو پاکستان بھی شامل ہے جسے بھارتی حکمران طبقہ ''اکھنڈ بھارت'' کا حصّہ سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ ہر قیمت پر گوادر بندرگاہ کو ترقی کرتا اور پھلتا پھولتا دیکھنے کا خواہش مند نہیں...چاہے اسے اربوں روپے برباد کرنا پڑجائیں۔
جی ہاں، حقائق اور اعداو شمار سے عیاں ہے، چابہار بندرگاہ کا ڈویلپمنٹ منصوبہ بھارت کے لیے تجارتی و معاشی طور پر سودمند نہیں، یہ صرف اس لیے تخلیق کیا گیا تاکہ چین اور پاکستان کے مشترکہ گوادر بندرگاہ منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکیں۔ یہ انداز فکر و عمل چانکیائی سیاست پر عمل کرنے اور بغل میں چھری منہ پر رام رام کہنے والے بھارتی حکمران طبقے سے مخصوص ہے۔
بھارت میں کروڑوں لوگ غربت، بیماری اور بیروزگاری کا شکار ہیں۔ وہاں قانون کی عملداری بھی کمزور پڑرہی ہے۔ کبھی ہندوؤں کا بے قابو ہجوم معمولی بات پر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو وحشیانہ طریقے سے مار ڈالتا ہے، تو کبھی خواتین وحشی مردوں کا نشانہ بن جاتی ہیں۔بھارتی حکمران طبقے کو ان سنگین مسائل کی کوئی پروا نہیں، وہ بس گوادر بندرگاہ پروجیکٹ کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی، اسی لیے چابہار منصوبے پر اربوں روپے خرچنے کو تیار ہے۔
منصوبے کی تفصیل کے مطابق بھارتی سرکاری ادارہ، انڈیا پورٹس گلوبل پرائیویٹ لمیٹڈ چابہار بندرگاہ کو وسعت دے گا، نیز نئی برتھیں تعمیر کرے گا تاکہ وہاں سالانہ سوا کروڑ ٹن سامان اتارنے، لادنے کی گنجائش پیدا ہوسکے۔ مزید براں دوسرا بھارتی ادارہ، ارکون انٹرنیشنل چابہار سے زاہدان تک 1.6 ارب ڈالر لاگت سے پانچ سو کلو میٹر طویل ریلوے لائن تعمیر کرے گا۔ زاہدان سے پھر بذریعہ ریل و سڑک بھارتی سامان وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان پہنچ سکے گا۔
سوال یہ ہے کہ اربوں روپے سے تیار ہونے والی چابہار بندرگاہ کیا واقعی بھارت کو معاشی و تجارتی فوائد پہنچائے گی؟ حقائق کی روشنی میں اس سوال کا جواب نفی ہی میں ملتا ہے۔
2001ء میں چین نے وسطی ایشیا (افغانستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان) کو 500 ملین ڈالر کا سامان بھجوایا تھا جبکہ اس سال خطے کو بھارت کی برآمدات 100 ملین ڈالر تھیں۔ 2015ء تک چین خطے کو 18 ارب ڈالر کا مال بھجوانے لگا جبکہ بھارتی برآمدات کی مالیت صرف 950 ملین تک ہی پہنچ سکی۔ آج بھی دنیا بھر میں بھارت کے 25 بڑے تجارتی ساتھی ممالک میں وسطی ایشیا کا ایک بھی ملک شامل نہیں۔
درج بالا اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے مابین باہمی تجارت اربوں ڈالر پر محیط نہیں کہ اسے بڑھاوا دینے کی خاطر بندرگاہ، ریلوے لائنیں اور شاہراہیں تعمیر کرلی جائیں۔ بھارتی حکمران طبقے نے اتنا وسیع انفراسٹکچر کھڑا کرنے کا ڈراما اسی لیے رچایا تاکہ چابہار بندرگاہ کو گوادر بندرگاہ کے متبادل کی صورت پیش کیا جاسکے۔ بھارتی حکمران خوب جانتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اسی بات پر ہے کہ گوادر بندرگاہ فعال ہوجائے۔
مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چابہار بندرگاہ کی تعمیر سے بھارت کو وسطی ایشیا پہنچنے کا موقع ملے گا۔ یوں بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کی باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ یہ ممالک سستی چینی اشیا کے مقابلے میں مہنگی بھارتی اشیا کو کیوں ترجیح دیں گے؟ مزید براں بھارت دنیا کے جن خطّوں میں براہ راست رسائی رکھتا ہے، وہاں بھی وہ چین کو پچھاڑ نہیں سکا۔ مثال کے طور پر 2001ء میں چین نے مشرقی افریقی ممالک (جنوبی افریقہ، تنزانیہ، کینیا، ایتھوپیا) کو ایک ارب ڈالر کا سامان بھجوایا تھا جبکہ اسی سال خطے کو بھارتی برآمدات کی مالیت 500 ملین ڈالر تھی۔
آج چین مشرقی افریقی ممالک کو تقریباً تیس ارب ڈالر کا سامان بھجواتا ہے جبکہ بھارتی صرف سات ارب ڈالر کا مال بھجوا رہے ہیں۔ مئی 2016ء میں بسلسلہ چابہار پروجیکٹ ایران وافغانستان سے سہ فریقی معاہدہ کرتے وقت بھارتی وزیراعظم، مودی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا: ''اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد بھارت سمندری راستے کی نسبت پانچ گنا کم قیمت میں اپنا سامان یورپ بھجوا سکے گا۔'' یہ ایک اور جھوٹا دعویٰ تھا جو بھارتی وزیراعظم نے بلند آہنگ انداز میں دنیا والوں کے سامنے کیا۔
نریندر مودی یہ فراموش کر بیٹھے کہ جہاز رانی کا خرچ ریل سے سامان بھجوانے کے مقابلے میں ''50 تا 60 فیصد'' کم ہے۔ مثلاً شنگھائی سے ایک 40 فٹ لمبا چوڑا کنٹینر یورپ بھجوایا جائے تو بحری جہاز اسے 1500 ڈالر خرچ پر لے جاتا ہے ۔جبکہ بذریعہ ریل سے پہنچانے پر 2500 ڈالر کے اخراجات اٹھ جاتے ہیں۔ گویا سمندری راستہ برّی راستے کی نسبت خاصا سستا ہے۔
مودی حکومت نے ایک قومی ادارے،ایف ایف ایف اے آئی (Federation of Freight Forwarders' Associations of India) کی تحقیقی رپورٹ کو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ اس ادارے نے 2014ء میں یہ تحقیق کرائی تھی کہ ممبئی سے براہ ایران وسطی ایشیا سامان بھجوانے پر کتنا خرچ اٹھتا ہے۔
دوران تحقیق بیس فٹ لمبے چوڑے کنٹینر دو تجرباتی راستوں پر بھجوائے گئے۔پہلا سفر ممبئی سے شروع ہوکر آذربائیجانی بندرگاہ، باکو پہنچ کر ختم ہوا۔ سفر 33 دن میں تمام ہوا جبکہ فی کنٹینر 3132 ڈالر کی لاگت آئی۔ دوسرا سفر ممبئی سے شروع ہوا اور ایران کے راستے سے ہوکر روس کی بندرگاہ، استراخان تک ختم ہوا۔ اس سفر میں 43 دن لگے جبکہ فی کنٹینر 3339 ڈالر کی لاگت اٹھی۔
ان دونوں اسفار نے بھارتی صنعت کاروں اور تاجروں کی آنکھیں کھول دیں اور ان پر افشا ہوا کہ ایران کے راستے وسطی ایشیا اور یورپ مال بھجوانا گھاٹے کا سوا ہے۔ وجہ یہ کہ ممبئی سے ہالینڈ کی بندرگاہ، روتردم تک ایک بحری جہاز 26 دن میں پہنچ جاتا ہے۔ جبکہ اس بحری سفر پر لاگت بھی کم آتی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ دونوں تجرباتی بھارتی اسفار ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ، بندر عباس کے ذریعے انجام پائے۔ یہ بندرگاہ چابھار سے 300 میل دور جانب مغرب آبنائے ہرمز میں واقع ہے۔ وہاں سے ایک ریل سیدھی وسطی ایشیائی ممالک جاتی ہے۔ بالفرض چابھار بندرگاہ تعمیر بھی ہوجائے، تو وہاں سے وسطی ایشیا جانے والے بھارتی سامان کو مزید مغربی سمت لے جانا پڑے گا تاکہ وہ مرکزی ایرانی ریلوے لائن تک پہنچ سکے۔ گویا سفر کی لاگت و وقت مزید بڑھ جائے گا۔ اسی لیے بھارتی تاجروں و صنعت کاروں نے بذریعہ ایران وسطی ایشیا مال بھجوانے یا منگوانے کا فیصلہ کیا بھی، تو ان کی پہلی ترجیح چابہار نہیں ، بندر عباس بندرگاہ ہوگی۔البتہ مودی حکومت انھیں سبسڈی دے کر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ چابھار کے راستے اپنا مال وسطی ایشیا بھجوائیں۔ظاہر ہے،ناکام منصوبے کو دنیا والوں کے سامنے کامیاب دکھانے کی خاطر مودی کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ چابہار بندرگاہ کا بھارت کو واحد فائدہ یہ ہے کہ وہ اس کے راستے افغانستان آسانی سے پہنچ سکے گا۔ بھارت طویل عرصے سے کوششیں کررہا ہے کہ براہ پاکستان اپنا مال افغانستان بھیج سکے، مگر پاکستانی حکومت اسے اجازت نہیں دے رہی۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں قدم جما کر بھارتی حکمران طبقہ وطن عزیز کے خلاف سازشیں کرسکتا ہے۔ تاہم مودی حکومت کی بھر پور سعی ہے کہ افغانستان سے زیادہ سے زیادہ معاشی، سیاسی و معاشرتی تعلقات قائم کیے جائیں۔
یہ حکمت عملی بہرحال پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن بھارت کے لیے بذریعہ چابہار بندرگاہ بھی افغانستان مال بھجوانا خطرات سے خالی نہیں۔ سب سے بڑا خطرہ طالبان ہیں جو افغانستان میں بھارت کا اثرو رسوخ بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسی لیے کابل میں بیٹھی امریکیوں کی کٹھ پتلی افغان حکومت بھارت کو متنبہ کرچکی کہ طالبان بھارتی تجارتی قافلوں پر حملہ کرکے انہیں لوٹ سکتے ہیں۔ گویا تب بھارتی سامان کی صورت مال کمانے کا ایک ذریعہ طالبان کے ہاتھ لگ جائے گا۔