پوسٹ آفس ہر چند کہیں ہے نہیں ہے

ہم کیسی بدنصیب قوم ہیں جو اپنے ہی اداروں کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کر کے خوش ہوتے ہیں۔

ماضی کی بات ہو گئی جب سرخ رنگ کے لیٹر بکس جگہ جگہ نظر آتے تھے۔ خط پوسٹ کرنے کے لیے کہیں دور نہیں جانا پڑتا تھا۔ ہر علاقے اور ہر محلے میں یہ سہولت موجود تھی۔ بہت ہی کم پیسوں میں عام ڈاک کے ذریعے بھیجا جانے والا خط اندرون ملک اور بیرون ملک نہایت حفاظت سے اور بر وقت پہنچ جایا کرتا تھا۔ ایک پوسٹ کارڈ بھی ہوا کرتا تھا جس کی قیمت دس پیسے سے شروع ہوتی تھی اور اپنی موت سے پہلے تک اس کی قیمت صرف 50 پیسے تھی۔ عام پوسٹ کارڈ کے علاوہ جوابی پوسٹ کارڈ بھی ہوا کرتا تھا جو دو حصوں پر مشتمل ہوتا تھا۔

دوسرا حصہ مکتوب الیہ کے لیے ہوتا تھا تا کہ وہ فوراً جواب دے سکے۔ اس پوسٹ کارڈ پر ٹکٹ لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہلکے پیلے موٹے کاغذ کا پوسٹ کارڈ بھی منزل مقصود پر مقررہ وقت پر پہنچ جاتا تھا۔ رجسٹرڈ خطوط اور دستاویزات انتہائی برق رفتاری سے مطلوبہ جگہ پہنچا دی جاتی تھیں۔ ایک ایروگرام بھی ہوا کرتا تھا جو بیرون ملک کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ نہایت ہلکے اور مضبوط نیلے کاغذ پر خط لکھ کر اسے موڑ کر لفافے کی شکل دے دی جاتی تھی تا کہ کم قیمت میں جلد از جلد خط پہنچ جائے۔

یہ تمام سہولتیں پاکستان میں دستیاب تھیں۔ 10 پیسے کے لفافے میں خط بھیجا جا سکتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ مہنگائی کی مار پڑی اور پوسٹ کارڈ اور ایروگرام تو سرے سے غائب ہو گیا، البتہ رجسٹری اور عام ڈاک کے علاوہ ایک سروس U.M.S بھی متعارف کرائی گئی۔ جب کہ 70 کی دہائی تک ایک ''ایکسپریس ڈلیوری'' بھی ہوا کرتی تھی۔ جو فوری طور پر اسی دن چند گھنٹے کے اندر مقررہ جگہ پہنچ جاتی تھی۔ پوسٹ مین اپنی سائیکل پر یہ ڈاک نہایت برق رفتاری سے اور ایمانداری سے پہنچادیا کرتا تھا۔

ریڈیو پاکستان سے اکثر یہ خطوط بزم طلبہ میں فوری شرکت کے لیے نامور براڈ کاسٹر جناب یاور مہدی کی طرف سے بھیجے جاتے تھے۔ کیونکہ ٹیلی فون عام نہیں تھا۔ فٹ پاتھ پر لگے لیٹر بکس پر لوگ اندھا اعتماد کرتے تھے۔ مکتوب نگار کو یقین ہوتا تھا کہ اس کا عام ڈاک سے بھیجا جانے والا خط ہر قیمت پر اپنی منزل پر پہنچے گا۔ کیونکہ مکتوب الیہ کے گھر تبدیل کر لینے یا کسی اور وجہ سے خط وصول نہ کرنے کی صورت میں وہ مکتوب نگار کو واپس مل جاتا تھا۔ ہے نا تعجب کی بات؟ لیکن یہ سچ ہے کہ ایک زمانے میں پاکستان پوسٹ ایک نہایت ذمے دار اور ایماندار ادارہ تھا۔

لیکن آج یہ سب گزری ہوئی داستان بن چکا ہے۔ کرپشن نے جہاں ملک کے دوسرے سرکاری اداروں میں دیمک لگائی، وہیں پوسٹ آفس بھی اس سے محفوط نہ رہ سکے۔ منی آرڈر کی رقوم خورد برد ہونے لگیں اور بعض پوسٹ آفس زبردست اسکینڈلز کی زد میں آئے۔ خصوصاً وہ جہاں تاجر برادری کے اکاؤنٹ تھے یا جو بڑے بڑے تجارتی مراکز سے قریب تھے۔ کیونکہ پوسٹ آفس میں بھی سیونگ اکاؤنٹ ہوتا تھا اور یہ رقم کبھی خورد برد نہیں ہو سکتی تھی، پوسٹ آفس اسکینڈل یوں تو بہت ہوئے، لیکن ایک اسکینڈل ایسا بھی تھا جس میں ایک نہایت ایماندار، جفاکش اور سادہ دل انسان کو کئی سال کی قید اس لیے بھگتنی پڑی کہ اس نے ایک بہت بڑا اسکینڈل بے نقاب کیا تھا۔ لیکن اس سادہ دل انسان کو پتہ نہیں تھا کہ وہ کن لوگوں کی نشاندہی کر رہا ہے، سب کے سب بکے ہوئے تھے اور ان کے بہت لمبے ہاتھ تھے۔


یہ سارا کیس ایک زمانے میں جسے بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا اخبارات میں تفصیل سے آ چکا ہے۔ وہ ایماندار شخص اپنے ضمیر کی عدالت میں اور اپنے خدا کے حضور سرخرو تھا کہ اس نے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والے ایک گینگ کو بے نقاب کیا تھا۔ لیکن اس کا صلہ اسے یہ ملا کہ سارا ملبہ اس پر ڈال دیا گیا۔ بعد میں وہ باعزت بری ہوا، لیکن نیکی اور ایمانداری پر سے یقیناً اس کا اعتماد یوں اٹھ گیا ہو گا کہ اس نے اپنی آیندہ نسلوں کو ضرور یہ نصیحت کی ہو گی کہ ''سرکاری اداروں میں کرپشن ہوتی ہوئی دیکھو تو آنکھیں بند کرلو''۔ اور پھر پوسٹ آفس کا ایسا زوال شروع ہوا کہ اب شاید ڈھونڈے سے کہیں لیٹر بکس نظر نہیں آتا۔ آتا بھی ہے تو رو رو کر کہہ رہا ہو گا، دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔

آہستہ آہستہ اس ادارے کو گھن لگنا شروع ہو گیا۔ اب خطوط رجسٹری ہوں یا U.M.S، کبھی وقت پر نہیں پہنچتے، عام خطوط کا تو سوچنا ہی حماقت ہے۔ رفتہ رفتہ کرپشن، بد دیانتی اور بے ایمانی نے پہلے لیٹر بکس غائب کیے اور پھر پوسٹ آفسوں کی تعداد مسلسل گھٹنے لگی۔ اس صورت حال سے نجی کوریئر سروسز نے فائدہ اٹھایا اور چوگنے داموں سے بھی زیادہ معاوضہ لے کر انھوں نے لوگوں کو اس لیے متوجہ کر لیا کہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ جو کاغذات، خطوط یا کوئی اور شے آج بھیجی گئی ہے وہ کل ہر صورت میں مقررہ جگہ پہنچ جائے گی۔ اسی صلاحیت کی بنا پر کوریئر والے آئے دن سروس میں من مانا اضافہ کر دیتے ہیں۔ آج کل کم سے کم اندرون شہر 70 روپے لیے جا رہے ہیں، جوں جوں وزن میں اضافہ ہو گا رقم بھی بڑھتی جائے گی۔ شہر سے باہر بھیجے جانے پر یہ رقم کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

پوسٹ آفس والوں نے کوریئر سروس کی نقل میں یہ تو کیا کہ عام ڈاک کا جو لفافہ چار روپے کا ملتا تھا اس کی قیمت یہ کہہ کر دگنی کر دی کہ جب لوگ کوریئر کے پیسے دے سکتے ہیں تو پوسٹ آفس کو کیوں نہیں؟ لیکن قیمت بڑھانے کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا خیال نہیں آیا۔ لیکن پوسٹ آفس کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی۔ لیکن افسوس کہ کرپشن کی وجہ سے ان کی تعداد بہت گھٹ گئی ہے۔ پھر بھی اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ کیونکہ پاکستان میں جہاں دیہاتوں اور گاؤں کی تعداد زیادہ ہے وہاں خط و کتابت کے لیے پوسٹ آفس ہی بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن افسوس کہ اس کی رجسٹری اور U.M.S بھی چیونٹی کی چال چلتی ہیں۔

پوسٹ آفس کے افسران اور محکمے کے بڑے لوگ شاید چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ مکمل طور پر تباہ ہو کر بند ہو جائے اور کوریئر سروس والوں کو من مانی کرنے کا موقع ملے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس بد انتظامی اور افراتفری کی وجہ سے جہاں ایک اہم اور بڑے ادارے کا وقار مجروح ہوا ہے وہیں اگر یہ بند ہو گیا تو کتنے لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ کارکردگی اگر یہی رہی تو یہاں بھی گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے ہزاروں کو فارغ کر دیا جائے گا۔ پوسٹ آفس کے ملازمین اور افسران کو چاہیے کہ ادارے کے وقار کو بحال کرنے کی کوشش کریں۔ خطوط، دستاویزات اور دیگر اشیاء وقت پر پہنچائی جائیں اور عملے کو لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تربیت دی جائے جو کہ آہستہ آہستہ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔

ہم کیسی بدنصیب قوم ہیں جو اپنے ہی اداروں کو اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کر کے خوش ہوتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کو دیکھ لیجیے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، لیکن جن اداروں سے براہ راست عوام متاثر ہوتے ہیں ان کی تباہی سب کی تباہی ہے۔ پوسٹ آفس بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو عوام کی خدمت کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن افسوس کہ بڑے بڑے مگرمچھوں نے دارالحکومت میں بیٹھے اپنے بھائی بندوں کی مدد سے اس ادارے میں جو لوٹ مار کی ہے، جو کرپشن کی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ڈاک خانوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ ذرا سوچیے! اگر یہی رویہ رہا تو عوام کا کام تو کوریئر سے بھی چل جائے گا لیکن پوسٹ آفس کے ہزاروں ملازمین کا کیا ہو گا؟ خدارا! اس اہم ادارے کو بچائیے۔ ایک ایک کر کے سارے ادارے دم توڑتے جا رہے ہیں، مستقبل میں پاکستان کی صورت کیا ہو گی؟ سوچو تو ہول آتا ہے۔
Load Next Story