پاک بھارت دوستی کا سفر جاری رہے گا
سونیا اور راہول گاندھی نے پاک بھارت دوستی سے نہ ہٹنے کا ارادہ ظاہر کرکے بھارت کی امن دشمن قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا۔
بھارتی وزیر داخلہ نے بی جے پی اورشیوسینا کی جانب سے ہندو انتہا پسندووں کو عسکری تربیت دینے کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپ موجود ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سمجھوتہ ایکسپریس مکہ مسجد بم دھماکہ اور مالی گاؤں دھماکہ شیوسینا اور بی جے پی کا کارنامہ ہے۔ ''ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کارناموں کے بعد پاکستان پر الزام لگا دیا جاتا ہے۔''
بھارتی وزیر داخلہ نے کہا کہ ان حملوں کے بعد بھارتی میڈیا کو بھی منہ کی کھانا پڑی ہے کیونکہ بھارتی میڈیا نے ان حملوں کے بعد پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔ اپوزیشن جماعتیں ہندو دہشت گردی کے کیمپ چلا رہی ہیں جو دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے الزام پاکستان اور بھارتی مسلمانوں پر لگا دیتی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جے پور میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ پاکستان ایک غیر مستحکم اور خطرناک ملک ہے لیکن ہمیں اس کے خلاف ''جارحانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں'' بلکہ ہمیں ایک اچھے اور نیک پڑوسی ہونے کا مظاہرہ کرنا ہوگا'' جب کہ اسلام آباد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے پڑوسی ملک کا احترام کرے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ دوستی چاہتا ہے۔
پاکستان کو بھی بھارت کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ یہ صرف اکیلے ہماری کوشش سے ممکن نہیں ہے جب تک اس عمل میں پاکستان بھی شامل نہ ہو۔ کشیدگی سے باہمی تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ دوستی کے لیے ہماری کوششوں کی گواہی آنے والا وقت دے گا۔ بھارت کے کونے کونے سے آئے کانگریس پارٹی کے رہنمائوں، پارٹی کی صدر سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے منموہن سنگھ کے بیان کوسراہا۔ راہول گاندھی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بھارتی فیصلہ جذبات پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے طرز عمل میں جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید بھی اجلاس میں شریک تھے۔
انھوں نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے متوازن طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ سرحدی کشیدگی اور خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ امن عمل کودوبارہ ٹریک پر لانے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ماحول بھی سازگار بنایا جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارتی میڈیا پر سرحدی کشیدگی اور فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے کچھ متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں۔ میڈیا کو غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان مذاکرات مثبت اشارہ تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان امن عمل اچھے طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ امید ہے کہ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بحال ہوجائے گا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس پراسیس میں کتنا وقت لگے گا۔
ان تمام باتوں کے باوجود کہ پاکستان اور بھارت میں دہشت گرد قوتیں بہت طاقتور ہیں، پاکستان اور بھارت میں ان لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاک بھارت تنازعات مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ بھارت کے اعلیٰ پالیسی میکرز میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے راستے میں ڈھال ہے اگر خدانخواستہ یہ دیوار گرجاتی ہے تو بھارت کو براہ راست ان دہشت گردوں کا سامنا کرنا ہوگا جن سے پاکستان اپنے ملک میں لڑرہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑرہا ہے وہ صرف اس کی اپنی جنگ نہیں ہے بلکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر چین، روس، بھارت، سینٹرل ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی جنگ لڑرہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان پر دہشت گردوں کا قبضہ ہوتا ہے تو پورا خطہ دہشت گردوں کی لپیٹ میں آجائے گا اور بھارت یہ سمجھتا ہے کہ کمزور پاکستان جس پر مذہبی انتہا پسندوں کا قبضہ ہونے کا خطرہ ہے، بھارت کے مفاد میں نہیں، اس صورت میں بھارت بھی اس خطرے کی لپیٹ میں آجائے گا... آخری نتیجے میں بھارتی فوج بھارت پر قبضہ کرلے گی اور ہندو مذہبی جنونی قوتیں بھارت سے سیکولرازم اور لبرل ازم کا خاتمہ کرکے پورے خطے کو جنگ کے شعلوں میں دھکیل دیں گی۔ تاریخ میں جب بھی سیاسی مقاصد کا حصول مذہب کے ذریعے کیا گیا ہولناک سانحات وجود میں آئے جس نے لاکھوں کروڑوں بے گناہ انسانوں کا خون پیا۔ یہ بات ہم پاکستانیوں کے سمجھنے کی ہے کہ اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان میں سیاسی مقاصد کا حصول مذہب کے نام پر کیا جارہا ہے جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، کروڑوں تباہ و برباد ہوئے اور خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔
یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ سرحدی جھڑپوں کے باوجود اعلیٰ بھارتی قیادت بھارتی میڈیا کے جارحانہ پروپیگنڈے کے دبائو میں نہیں آئی اور اس نے امن دشمنوں پر واضح کردیا کہ وہ پاک بھارت دوستی کی راہ سے نہیں ہٹیں گے۔ دوسری طرف پاکستان کی امن دشمن قوتیں مکمل جنگ اور ایٹمی جنگ کا تصور کرکے خوشی سے جھوم اٹھیں جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان ویزے کی نرمی تجارت کی بحالی جیسے دوستانہ اقدامات پر ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ پاکستانی قوم کو بھی سوچنا چاہیے کہ آخر جب بھی پاک بھارت تعلقات بہتر ہونے لگتے ہیں کبھی کارگل ہوجاتا ہے تو کبھی ممبئی دہشت گردی اور اب جب کہ بڑی مشکل سے امن کا عمل دونوں ملکوں کے درمیان دوبارہ شروع ہوا ہے تو پھر سرحدوں پر تخریب کاری ہو گئی ہے۔ آخر اس میں کیا راز ہے؟ راز اس میں یہ ہے کہ دونوں جانب کی عوام دشمن قوتوںکی بقا ہی پاک بھارت دشمنی میں ہے۔ پاک بھارت دوستی نہ صرف ان کے وجود کا خاتمہ کردے گی بلکہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں کمی آنے کے ساتھ دہشت گردی کی بھی کمر ٹوٹ جائے گی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس دن پاک بھارت دوستی کا عمل مکمل طور پر بحال ہوا۔ اس دوستی کا سیلاب دونوں طرف کی امن دشمن قوتوں کو بہت ہی مختصر عرصے میں غرق کردے گا۔
بھارتی وزیر داخلہ نے 20 جنوری کو بی جے پی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کی سرپرستی میں چلنے والے دہشت گردی کے اڈوں کو بے نقاب کیا اور اسی تاریخ کو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ وزیر خارجہ سلمان خورشید اور اعلیٰ کانگریسی مرکزی قیادت سونیا اور راہول گاندھی نے کانگریس کے اجلاس میں پاک بھارت دوستی سے نہ ہٹنے کا مصمم ارادہ ظاہر کرکے بھارت کی امن دشمن قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان کا یہ ردعمل امن دشمن قوتوں کے منہ پر ایک زور دار مکا ہے۔ 2 جنوری کو پاک فوج نے ڈاکٹرائن میں تبدیلی کرتے ہوئے اندرون ملک دہشت گردی' طالبان کی کاروائیوں اور شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملوں کو قومی سلامتی کے لیے حقیقی اور سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔
یہ ایک تاریخ ساز اور تاریخی تبدیلی ہے جس نے پاکستانی امن دشمن قوتوں میں صف ماتم بچھادی ۔2 جنوری کو یہ اعلان ہوتا ہے کہ اس کے چند دن بعد پاک بھارت دوستی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرحدوں پر تخریب کاری ہوجاتی ہے...ہے نا کمال کی بات۔ امن دشمن قوتوں کے ہاتھوں پاک بھارت دوستی کا عمل سانپ سیڑھی کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ اگر پاکستانی عوام حقیقی آزادی چاہتے ہیں تو ان امن دشمن قوتوں کے دھوکے فریب سے نکل کر اس تاریخی لمحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان کریں۔ امن دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنا پاکستان اور پاکستانی قوم سے دشمنی ہے۔
...طاہر القادری لانگ مارچ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، اس کا پتہ 29-28 تا 31 جنوری کی تاریخوں میں چلے گا۔
...جنرل مشرف کی واپسی کا امکان فروری کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں ہے۔
...وینزویلا کے صدر ہیوگوشاویز کی صحت کے بارے میں صحیح صورتحال کا پتہ فروری کے دوسرے ہفتے میں چلے گا۔
بھارتی وزیر داخلہ نے کہا کہ ان حملوں کے بعد بھارتی میڈیا کو بھی منہ کی کھانا پڑی ہے کیونکہ بھارتی میڈیا نے ان حملوں کے بعد پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔ اپوزیشن جماعتیں ہندو دہشت گردی کے کیمپ چلا رہی ہیں جو دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے الزام پاکستان اور بھارتی مسلمانوں پر لگا دیتی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جے پور میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ پاکستان ایک غیر مستحکم اور خطرناک ملک ہے لیکن ہمیں اس کے خلاف ''جارحانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں'' بلکہ ہمیں ایک اچھے اور نیک پڑوسی ہونے کا مظاہرہ کرنا ہوگا'' جب کہ اسلام آباد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے پڑوسی ملک کا احترام کرے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ دوستی چاہتا ہے۔
پاکستان کو بھی بھارت کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ یہ صرف اکیلے ہماری کوشش سے ممکن نہیں ہے جب تک اس عمل میں پاکستان بھی شامل نہ ہو۔ کشیدگی سے باہمی تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ دوستی کے لیے ہماری کوششوں کی گواہی آنے والا وقت دے گا۔ بھارت کے کونے کونے سے آئے کانگریس پارٹی کے رہنمائوں، پارٹی کی صدر سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے منموہن سنگھ کے بیان کوسراہا۔ راہول گاندھی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے بھارتی فیصلہ جذبات پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے طرز عمل میں جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید بھی اجلاس میں شریک تھے۔
انھوں نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے متوازن طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ سرحدی کشیدگی اور خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ امن عمل کودوبارہ ٹریک پر لانے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ماحول بھی سازگار بنایا جائے۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارتی میڈیا پر سرحدی کشیدگی اور فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے کچھ متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں۔ میڈیا کو غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان مذاکرات مثبت اشارہ تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان امن عمل اچھے طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ امید ہے کہ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بحال ہوجائے گا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس پراسیس میں کتنا وقت لگے گا۔
ان تمام باتوں کے باوجود کہ پاکستان اور بھارت میں دہشت گرد قوتیں بہت طاقتور ہیں، پاکستان اور بھارت میں ان لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاک بھارت تنازعات مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ بھارت کے اعلیٰ پالیسی میکرز میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے راستے میں ڈھال ہے اگر خدانخواستہ یہ دیوار گرجاتی ہے تو بھارت کو براہ راست ان دہشت گردوں کا سامنا کرنا ہوگا جن سے پاکستان اپنے ملک میں لڑرہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑرہا ہے وہ صرف اس کی اپنی جنگ نہیں ہے بلکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر چین، روس، بھارت، سینٹرل ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی جنگ لڑرہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان پر دہشت گردوں کا قبضہ ہوتا ہے تو پورا خطہ دہشت گردوں کی لپیٹ میں آجائے گا اور بھارت یہ سمجھتا ہے کہ کمزور پاکستان جس پر مذہبی انتہا پسندوں کا قبضہ ہونے کا خطرہ ہے، بھارت کے مفاد میں نہیں، اس صورت میں بھارت بھی اس خطرے کی لپیٹ میں آجائے گا... آخری نتیجے میں بھارتی فوج بھارت پر قبضہ کرلے گی اور ہندو مذہبی جنونی قوتیں بھارت سے سیکولرازم اور لبرل ازم کا خاتمہ کرکے پورے خطے کو جنگ کے شعلوں میں دھکیل دیں گی۔ تاریخ میں جب بھی سیاسی مقاصد کا حصول مذہب کے ذریعے کیا گیا ہولناک سانحات وجود میں آئے جس نے لاکھوں کروڑوں بے گناہ انسانوں کا خون پیا۔ یہ بات ہم پاکستانیوں کے سمجھنے کی ہے کہ اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان میں سیاسی مقاصد کا حصول مذہب کے نام پر کیا جارہا ہے جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں، کروڑوں تباہ و برباد ہوئے اور خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔
یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ سرحدی جھڑپوں کے باوجود اعلیٰ بھارتی قیادت بھارتی میڈیا کے جارحانہ پروپیگنڈے کے دبائو میں نہیں آئی اور اس نے امن دشمنوں پر واضح کردیا کہ وہ پاک بھارت دوستی کی راہ سے نہیں ہٹیں گے۔ دوسری طرف پاکستان کی امن دشمن قوتیں مکمل جنگ اور ایٹمی جنگ کا تصور کرکے خوشی سے جھوم اٹھیں جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان ویزے کی نرمی تجارت کی بحالی جیسے دوستانہ اقدامات پر ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ پاکستانی قوم کو بھی سوچنا چاہیے کہ آخر جب بھی پاک بھارت تعلقات بہتر ہونے لگتے ہیں کبھی کارگل ہوجاتا ہے تو کبھی ممبئی دہشت گردی اور اب جب کہ بڑی مشکل سے امن کا عمل دونوں ملکوں کے درمیان دوبارہ شروع ہوا ہے تو پھر سرحدوں پر تخریب کاری ہو گئی ہے۔ آخر اس میں کیا راز ہے؟ راز اس میں یہ ہے کہ دونوں جانب کی عوام دشمن قوتوںکی بقا ہی پاک بھارت دشمنی میں ہے۔ پاک بھارت دوستی نہ صرف ان کے وجود کا خاتمہ کردے گی بلکہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں کمی آنے کے ساتھ دہشت گردی کی بھی کمر ٹوٹ جائے گی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس دن پاک بھارت دوستی کا عمل مکمل طور پر بحال ہوا۔ اس دوستی کا سیلاب دونوں طرف کی امن دشمن قوتوں کو بہت ہی مختصر عرصے میں غرق کردے گا۔
بھارتی وزیر داخلہ نے 20 جنوری کو بی جے پی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کی سرپرستی میں چلنے والے دہشت گردی کے اڈوں کو بے نقاب کیا اور اسی تاریخ کو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ وزیر خارجہ سلمان خورشید اور اعلیٰ کانگریسی مرکزی قیادت سونیا اور راہول گاندھی نے کانگریس کے اجلاس میں پاک بھارت دوستی سے نہ ہٹنے کا مصمم ارادہ ظاہر کرکے بھارت کی امن دشمن قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان کا یہ ردعمل امن دشمن قوتوں کے منہ پر ایک زور دار مکا ہے۔ 2 جنوری کو پاک فوج نے ڈاکٹرائن میں تبدیلی کرتے ہوئے اندرون ملک دہشت گردی' طالبان کی کاروائیوں اور شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملوں کو قومی سلامتی کے لیے حقیقی اور سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔
یہ ایک تاریخ ساز اور تاریخی تبدیلی ہے جس نے پاکستانی امن دشمن قوتوں میں صف ماتم بچھادی ۔2 جنوری کو یہ اعلان ہوتا ہے کہ اس کے چند دن بعد پاک بھارت دوستی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرحدوں پر تخریب کاری ہوجاتی ہے...ہے نا کمال کی بات۔ امن دشمن قوتوں کے ہاتھوں پاک بھارت دوستی کا عمل سانپ سیڑھی کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ اگر پاکستانی عوام حقیقی آزادی چاہتے ہیں تو ان امن دشمن قوتوں کے دھوکے فریب سے نکل کر اس تاریخی لمحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان کریں۔ امن دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنا پاکستان اور پاکستانی قوم سے دشمنی ہے۔
...طاہر القادری لانگ مارچ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، اس کا پتہ 29-28 تا 31 جنوری کی تاریخوں میں چلے گا۔
...جنرل مشرف کی واپسی کا امکان فروری کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں ہے۔
...وینزویلا کے صدر ہیوگوشاویز کی صحت کے بارے میں صحیح صورتحال کا پتہ فروری کے دوسرے ہفتے میں چلے گا۔