لائن آف کنٹرول
مذہب کی بنیادیں محبتوں کے بجائے نفرتوں پر رکھی گئیں اسی وجہ نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
KARACHI:
بھارت اور پاکستان کے درمیان ''اعلیٰ سطح'' مذاکرات کا سلسلہ عشروں سے جاری ہے، ان مذاکرات میں عموماً اس بات پر غور زیادہ ہوتا ہے کہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو شامل کیا جانا چاہیے یا نہیں، اگر شامل کیا جائے تو ان مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کیا ہو گی، اور آخر کار ہر مذاکراتی دور ''اعتماد کی بحالی'' کی کوششیں جاری رکھنے کی خواہش پر ختم ہو جاتا ہے۔
دنیا کے اس منفرد اور عجیب و غریب مذاکرات کا سلسلہ بعض اوقات اس طرح ٹوٹ جاتا ہے کہ اسے جوڑنے میں برسوں لگ جاتے ہیں، ممبئی حملہ کیس کے بعد دنیا کے اس عجیب و غریب مذاکرات کا سلسلہ برسوں تک ٹوٹا رہا، جب اسے جوڑا گیا تو اس کا ایک ہی نتیجہ سامنے آیا کہ ''اعتماد کی بحالی'' کی کوششیں جاری رکھی جانی چاہئیں، مذاکرات کی طوالت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی عمر ہندوستان اور پاکستان کی عمر کے مساوی ہے۔ یہ سلسلہ اس لیے اتنا طویل ہو گیا ہے کہ اس کے دو فریقوں میں ایک فریق اتنا طاقتور ہے کہ وہ مذاکرات کے دوران ہر معقول تجویز کو محض طاقت کی برتری کی وجہ سے مسترد کر دیتا ہے اور دوسرا فریق ہر نامعقول بات کو محض اس لیے تسلیم کر لیتا ہے کہ وہ کمزور ہے۔
6 جنوری 2013ء کو لائن آف کنٹرول پر ایک افسوسناک واقعہ ہوا، جس میں ایک فوجی کا سر کاٹا گیا۔ ہندوستان کی فوج کے سربراہ اور ہندوستانی ایئر فورس کے سربراہوں سمیت ہندوستان کے شریف النفس وزیراعظم منموہن سنگھ اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اس سانحے کے حوالے سے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ سونیا گاندھی کا ارشاد ہے کہ پاکستان کو شائستگی اور اعلیٰ تہذیبی قدروں کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یعنی کسی سپاہی کو گولی مارنی چاہیے، گردن نہیں کاٹنی چاہیے، جو ناشائستہ حرکت اور غیر مہذبانہ حرکت ہے۔ سردار جی بڑے فراخدل اور شائستہ مزاج انسان ہیں اس لیے ان کا کہنا ہے کہ چلیے ہم گردن کاٹنے کے جرم کے باوجود پاکستان سے دوستی کے خواہشمند ہیں اس کے جواب میں پاکستان کو دوستی کرنا ہو گی۔ شائستگی کی زبان ہوتی تو یہ کہا جاتا کہ ہم پاکستان سے دوستی کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کو بھی ہماری دوستی کا جواب دوستی سے دینا چاہیے۔ دوستی کرنا ہو گی اور دوستی کرنا چاہتے ہیں میں جو فرق ہے وہی طاقت کی برتری اور طاقت کی کمتری کو اجاگر کرتا ہے۔ یہی مسئلہ کشمیر کا اصل مسئلہ ہے۔
کشمیر کی اس جنگ میں جو 65 سال سے جاری ہے، اب تک لاکھوں کشمیریجاں بحق ہو چکے ہیں اور بھارتی فوج کے جوان بھی مارے گئے ہیں، اس بدترین قتل عام کو ہم اس لیے غیر شائستہ اور غیر مہذب نہیں کہتے کہ شاید اس قتل عام میں کسی فوجی کا سر نہیں کاٹا گیا بلکہ یہ قتل عام گولیوں اور گولوں کے ذریعے کیا گیا۔ ہماری دنیا اب اتنی شائستہ اور مہذب ہو گئی ہے کہ قتل کے مجرموں کو جرم ثابت ہونے کے بعد بھی سزائے موت دینے کو غیر شائستہ اور غیر مہذب فعل قرار دے رہی ہے اور سزائے موت کو عمر قید میں بدل رہی ہے۔ یہ عمل ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں ہو رہا ہے۔ یہ ایک شائستہ اور مہذب رویہ ہے لیکن اس شائستہ اور مہذب کلچر کی چھتری کے نیچے ہر روز گولیوں اور گولوں سے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف لوگ مارے جا رہے ہیں، اسے ہم کس شائستگی کا نام دیں کس مہذب کلچر کا مظاہرہ کہیں؟
بھارت کی سوئی اب تک ممبئی حملوں پر اٹکی ہوئی ہے، اس کا مطالبہ ہے کہ ممبئی حملوں میں ملوث پاکستانی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کے بغیر دونوں ملکوں میں بامقصد مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ بھارت کے سیاستدان، بھارت کے حکمران، بھارت کی فوجی جنتا اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ پاکستان میں ہر روز ہی ممبئی حملوں سے زیادہ سنگین حملے ہو رہے ہیں اور ان حملوں میں ممبئی حملوں سے زیادہ بے گناہ مارے جا رہے ہیں، بھارتی حکمران اس تلخ اور بدترین حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کے سر کاٹ رہے ہیں، سیکڑوں بے گناہ انسانوں کو قتل کر رہے ہیں۔
لائن آف کنٹرول پر ایک سپاہی کی گردن کاٹنا خواہ وہ سپاہی ہندوستان کا ہو یا پاکستان کا ایک وحشیانہ فعل ہے اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے درجنوں جوانوں کے سر کاٹنا بھی ایک بدترین حیوانیت ہے۔ لائن آف کنٹرول کے سر کٹے فوجی کا مسئلہ ابھی متنازعہ ہے کہ آیا وہ ہندوستان کا فوجی ہے یا پاکستان کا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں جن سپاہیوں کے سر کاٹے جا رہے ہیں وہ غیر متنازعہ اور پاکستانی سپاہی ہیں اور ان کے سر کاٹنے والے بھی پاکستانی ہیں۔ یہ غیر شائستگی، غیر مہذبانہ حرکت نہیں؟ کیا اس حیوانیت کے خلاف کبھی ہندوستان کے حکمرانوں اور فوجی سورماؤں نے افسوس کا اظہار کیا؟
ہندوستان کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے بہت سارے کیمپ ہیں جہاں دہشت گردوں کو تربیت دی جاتی ہے، انھیں ختم کرنا حکومت پاکستان کی ذمے داری ہے اور حکومت پاکستان یہ ذمے داری پوری نہیں کر رہی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے انکشاف فرمایا ہے کہ ''ہندوستان میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے دہشت گردی کے کیمپ موجود ہیں جہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے اور ہندوستان میں ہندو دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ سشیل کمار کے اس انکشاف پر ہندوستان کی ہندو انتہا پسند تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے اور بے چارے سشیل کمار کی جان عذاب میں ہے اور وہ مارے خوف کے اپنے بیان سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ ادھر پاکستان کے انتہا پسند خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں کہ انھیں سشیل کمار کے انکشاف سے اپنی دہشت گردی کا جواز مل گیا ہے۔ یعنی اگر تمھارے پاس دہشت گردی کے کیمپ ہیں تو پھر تمہیں ہمارے دہشت گردی کے کیمپوں پر اعتراض کیوں ہے؟
بھارت ایک سیکولر ملک ہے، پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے، سیکولرزم ذات پات دین دھرم سے برتر ایک ایسا نظریہ ہے جو انسانیت کو سب کا سب سے بڑا رشتہ سب سے محترم رشتہ قرار دیتا ہے۔ لیکن سیکولر بھارت میں پاکستانی کھلاڑیوں پاکستانی فنکاروں کو داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے، پاکستان میں بھارتی کھلاڑیوں، بھارتی فنکاروں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے، ان کی عزت کی جاتی ہے، ان سے پیار کیا جاتا ہے، پھر بتاؤ سیکولر معاشرہ پاکستانی ہے یا ہندوستانی؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں انتہا پسند گروہ انتہا پسند جماعتیں موجود ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیادیں محبتوں کے بجائے نفرتوں پر رکھی گئیں اسی وجہ نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، اسی وجہ سے تقسیم کے دوران لاکھوں انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ دیا گیا، اسی وجہ سے ہزاروں عورتوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر اپنی عصمتیں بچائیں۔
ان نفرتوں، ان وحشتوں، ان دہشت گردی کے کیمپوں کی دوسری وجہ مسئلہ کشمیر ہے، تم ہندو اور مسلمان بن کر، پاکستانی اور ہندوستانی بن کر 65 سال سے اس مسئلے کو حل نہ کر سکے، اسی مسئلے نے دونوں ملکوں میں بی جے پی، آر ایس ایس، طالبان اور ہندو مسلم دہشت گردوں کو جنم دیا۔ اگر تم اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہو تو مذہب کو نفرت کے بجائے محبت کا ذریعہ بنانا ہو گا، اگر اس مسئلے کو حل کرنا ہو تو اپنی پیدائشی مجبوریوں کو سمجھنا ہو گا، اگر تم نے لائن آف کنٹرول پر سپاہیوں کو کٹنے سے بچانا ہے تو تمہیں لائن آف انسانیت پر آنا ہو گا، ورنہ 65 سال تو کیا 65 صدیوں میں بھی تم نہ مسئلہ کشمیر حل کر سکو گے نہ دہشت گردی ختم کر سکو گے۔