زندگی جرم نہیں اعزاز ہے…

پاکستان میں ایک گھنٹے میں انفرادی اور آٹھ گھنٹوں میں اجتماعی جنسی تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

قدیم زمانے میں عورت اور زمین کو زرخیزی کی علامت سمجھا جاتا تھا، ڈیڑھ ہزار سال پرانی منو مہراج کی کتاب منو سمرتی میں یہ الفاظ درج ہیں کہ ''دیوتا ان گھروں پر خوش ہوتا ہے، جن میں عورت کی عزت کی جاتی ہے۔'' موئن جو دڑو کی کھدائی سے عورتوں کے بت اس بات کے گواہ ہیں کہ اس دور میں عورت کو دیوی کا درجہ حاصل تھا۔ عورت کی عزت، ایک ماں یا تخلیق کار کی حیثیت سے کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے کے انسان نے دھرتی کو ماں سے مشابہت دی ہے۔ کلاماتھ کے وحشی قبیلے کا کہنا ہے کہ ''دھرتی، ماں کی طرح ہے، پہاڑ اس کا سینہ ہیں اور ان پہاڑوں سے بہتے ندی و نالے اس کا دودھ ہیں۔'' سندھ میں آریا قبیلے کی آمد کے بعد عورت روایتی سوچ کا شکار ہونے لگی۔

عورت کے حوالے سے روایتی سوچ یونان کے مفکر ہوں یا دور جدید کے یورپی فلسفی یکساں دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف شوپنہار عورت کو کم عقل گردانتا ہے تو دوسری جانب ٹوائن بی کہتا ہے کہ ''لڑائی کے مختلف ادوار میں ساری تباہی عورت کی وجہ سے آئی ہے۔'' یونانی مفکر بھی عورت سے خاصے خائف نظر آتے ہیں۔ سقراط کا کہنا ہے ''دنیا میں عورت سے بڑھ کر کوئی اور فتنہ و فساد نہیں ہوسکتا۔'' بقول افلاطون ''ظالم مرد دوسرے جنم میں عورت کا روپ دھار لیتا ہے۔'' یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے روایتی سوچ نے عورت کو سطحی اور کمتر بنا کر پیش کیا ہے۔ اس لیے عورت ہر دور میں مرد کے ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار بنی ہے۔ سترہویں صدی کی بات ہے کہ سلطان ابراہیم کو اپنی ایک کنیز پر شک ہوگیا۔ بہت کوشش کے باوجود اس کنیز کا پتہ نہیں چلا۔

لہٰذا سلطان ابراہیم نے اپنی 280 کنیزوں کو بوری میں بند کرکے دریا میں بہادیا۔ عیسائیت کے مرکز روم میں معمولی غلطی کی وجہ سے عورتوں کو قتل کردیا جاتا تھا۔ ایلزبتھ اور جیمس اول کے دور میں ہزاروں عورتوں کو جلایا گیا۔ انگلینڈ بھی عورتوں پر مظالم ڈھانے میں پیش پیش رہا اور عورتوں پر ظلم ڈھانے کے لیے نئے قوانین کا اجرا کیا گیا۔ یورپ میں عیسائیوں نے تقریباً 90 لاکھ عورتوں کو زندہ جلایا۔ والٹیئر، روسو، ڈرٹیلا اور مونٹیسکو عورتوں کا استحصال کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ ڈیڈرو نے یہ تک کہہ دیا کہ ''عورتیں فقط جسمانی لذت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں'' اور غالباً یہی سوچ آج تک چلی آرہی ہے کہ عورت کو کموڈٹی یا شوپیس کے طور پر لیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ساؤتھ ایشیا میں عورتیں زیادہ تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ تشدد کی یہ شرح بنگلہ دیش میں 60 فیصد، سری لنکا میں 37 فیصد، افغانستان میں 50 فیصد جب کہ پاکستان میں 80 فیصد بتائی جاتی ہے۔ انڈیا کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں چند گھنٹوں کے دوران ایک عورت قتل کردی جاتی ہے یا وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں ایک گھنٹے میں انفرادی اور آٹھ گھنٹوں میں اجتماعی جنسی تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ایک نجی چینل سے پنجاب میں ایک ہی گھر کی پانچ معصوم لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی کی رپورٹ دکھائی گئی۔ لڑکیوں کے چہرے نقاب سے ڈھکے تھے مگر آنکھوں سے بہتے آنسو معاشرے کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔


مجرموں کی ایک ہی رٹ تھی کہ ان سے غلطی ہوگئی۔ یہ مجرم ہمیشہ کی طرح جیل سے رہا ہوجائیں گے یا قانون انھیں کیا سزا دیتا ہے، قطعہ نظر اس کے یہ لڑکیاں زندہ درگور ہوکے رہ جائیں گی۔ ذہنی و جسمانی پیچیدگیوں کا شکار ہوکے معاشرے پر بوجھ بنی رہیں گی۔ 16 دسمبر کو بھارت میں اجتماعی درندگی کا شکار ہونے والی طالبہ کی المناک موت اور مزاحمت کے بعد ان مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ بھارت میں اگر دیکھا جائے تو 2011 کے دوران عورتوں کی آبرو ریزی کے 24,206 واقعات پیش آچکے ہیں۔ صرف دلّی شہر میں 2012 کے دوران 600 المناک واقعات پیش آئے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسئلہ پوری دنیا میں سنگین نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال ڈھائی لاکھ عورتوں کے ساتھ ایسے انسانیت سوز واقعات پیش آتے ہیں۔ امریکا میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہر پینتالیس سیکنڈ میں عصمت دری کا ایک واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے جس میں 61 فیصد معاملات تھانے میں درج نہیں ہوپاتے۔ پاکستان میں 70 فیصد خواتین روزانہ ہراساں کی جاتی ہیں۔ عورتوں پر تیزاب پھینکنے، قتل کرنے اور اجتماعی آبرو ریزی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

عورتوں کے ساتھ ہونے والی ان لرزہ خیز داستانوں میں ایک منفرد آواز نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے۔ حبس زدہ ماحول میں یہ صدا ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ یہ آواز کئی سال پہلے اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی سہیلا عبداﷲ کی ہے۔ اس وقت سہیلا 17 سال کی تھی اور یہ واقعہ بمبئی میں پیش آیا جب وہ اپنے دوست رشید کے ساتھ پہاڑیوں کے درمیان گھوم رہی تھی کہ چند لوگوں نے انھیں یرغمال بنالیا۔ رشید کو الگ کرکے وہ سہیلا کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے۔ قید سے رہائی پانے کے بعد سہیلا نے حالات کی اس ستم ظریفی کو مثبت نقطہ نظر سے دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی ان تمام مسائل سے بلند تر ہے۔

ان ہی دنوں ایک اور عورت کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا اور اس نے خود کو جلاکر معاشرے کی جھوٹی انا کو آسودگی بخشی۔ مگر سہیلا نے کسی اور کے گناہ کو اپنے ضمیر کے لیے تازیانہ بنانے کے بجائے ایک جدید زندگی گزاری۔ ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی بتائی۔ ماں بنی اور اپنی تحریروں کے توسط سے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ ناول Year of the Tigerکی مصنفہ سہیلا کی زندگی غیر انسانی سلوک کا شکار ہونے والی عورتوں کے لیے ایک مثال بن چکی ہے۔
Load Next Story