پگڑی سسٹم فوری توجہ طلب مسئلہ…
پگڑی کے مکانوں کو قانونی تحفظ کی ضرورت ہے۔ معزز عدالت عالیہ ازخود نوٹس لے کر پگڑی سسٹم سے قانونی تحفظ فراہم کرے۔
''گھر'' ایک تین حرفی لفظ ہے جو ہر جان دار کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ آج کے دور میں اپنا گھر ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ قیام پاکستان سے بھی پہلے کراچی شہر میں بہت بڑی آبادی ذاتی گھروں کے ساتھ ساتھ کرائے کے گھروں میں بھی آباد تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کرائے کے مکانوں کی ایک قسم ''پگڑی'' سسٹم بھی ہے۔ کراچی کے قدیم علاقوں میں زیادہ تر ''پگڑی سسٹم'' مکانات موجود ہیں جن میں رہائش پذیر افراد مالک مکان کی زیادتیوں کا اکثر شکار رہتے ہیں۔
''پگڑی'' یا ''گُڈ وِل'' (Good Will) کی جائیداد کی وجہ سے لاکھوں کرایہ دار مالک مکان کو بھاری رقم دے کر بھی پوری زندگی پریشانی کے عالم میں گزارتے ہیں اور مالک مکان اس پریشانی سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ رقم دے کر مکان کرائے پر لے لیا جاتا ہے۔ حقیقتاً اچھی خاصی رقم ''پگڑی'' کی شکل میں دینے کے باوجود مکان کی شکل میں جائیداد صرف کرایہ پر دیے جانے کی قانونی حیثیت ہوتی ہے۔ جائیداد یا مکان لینے والا کرایہ دار اور پگڑی وصول کرنے والا مالک مکان یا ''لینڈ لارڈ'' کہلاتا ہے۔ چونکہ جائیداد یا مکان پگڑی کی شکل میں خاصی رقم دے کر حاصل کیا جاتا ہے اس لیے کرایہ کی رقم معمولی ہوتی ہے۔ کرائے داری کی دوسری شکل ''ایڈوانس'' رقم کی ہوتی ہے جس میں کرایہ دار ایڈوانس رقم دے کر مکان حاصل کرتے ہیں۔
یہ رقم کل جائیداد کا چار یا پانچ فیصد ہوتی ہے۔ ایسے معاملات میں کرایہ زیادہ ہوتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پگڑی کا نہ دیا جانا ہے۔ اگر مالک مکان خالی کرنے کا تقاضا کرے تو کرایہ دار اپنا ایڈوانس واپس لے کر دوسری جگہ پر ایڈوانس دے کر کرائے پر جگہ حاصل کرلیتا ہے۔ اصل مسئلہ تو وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں کرایہ دار نے اچھی خاصی رقم پگڑی کی شکل میں دی ہوتی ہے۔ کیونکہ بہت سے معاملات میں مالک مکان بلاجواز یا غیرقانونی طور پر کرائے میں اضافہ کردیتے ہیں اور اگر کرائے دار اس غیر قانونی اضافے کو ماننے سے انکاری ہو تو کرائے دار کو بے دخلی کا نوٹس دے دیتے ہیں۔
15 جون 2012 کو ایک مقامی موقر روزنامے میں شایع ہونے والے کالم میں کالم نگارہ نے مذکورہ بالا مسئلے کے بارے میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''دفعہ 7 قانون کرایہ داری'' (Sindh Rented Permises Ordinance) میں بیان کیا گیا ہے کہ کوئی مالک مکان اس کرایہ سے زیادہ کرایہ، کرایہ دار سے طلب نہیں کرے گا جو باہمی رضا مندی سے طے پایا ہو یا جو رینٹ کنٹرولر فیئر رینٹ مقرر کیا ہو، قانون کرایہ داری کی دفعہ 8 کے تحت کوئی مالک مکان کرایہ میں اضافے کے لیے دفعہ 8 کے تحت متعلقہ رینٹ کنٹرولر کی عدالت میں درخواست دائر کرسکتا ہے۔
دفعہ 7 اور دفعہ 8 میں کرائے دار اور مالک مکان دونوں کے حقوق کی وضاحت کردی گئی کہ مالک مکان بلاجواز کرایہ بڑھا نہیں سکتا اور مالک مکان کن صورتوں میں کرایہ میں اضافہ کرسکتا ہے، اس کی وضاحت دفعہ 8 میں کردی گئی۔ دفعہ 8 میں وضاحت کی گئی ہے کہ رینٹ کنٹرولر مالک مکان کی دائر کردہ درخواست پر فیئر رینٹ معقول کرایہ مقرر کرسکتا ہے جب کہ مندرجہ ذیل حقائق درپیش ہوں جن کو وہ زیر غور رکھے گا۔ (a)۔ متعلقہ علاقے کی یکساں عمارات و یکساں حالات جوکہ اسی علاقے میں ہوں جہاں وہ عمارات موجود ہوں جس کے کرایہ میں اضافہ مانگا جائے۔ (b)۔ تعمیر و مرمت کے اخراجات کا بڑھنا/ اضافہ ہونا۔ (c)۔ کرایہ داری شروع ہونے کے بعد نئے ٹیکسز کا لگنا یا ٹیکسز میں اضافہ ہونا وغیرہ۔
یعنی جس عمارت میں کرائے کا اضافہ مانگا جائے اس سے ملحقہ کرایے کی عمارات کا کرایہ اس عمارت سے کہیں زیادہ ہو یا ٹیکسز وغیرہ میں اضافہ ہوگیا ہو یا اس عمارت کی تعمیر و مرمت میں اخراجات کی مد میں اضافہ ہوگیا ہے، اس ضمن میں مالک مکان کو اپنی درخواست کے ساتھ کچھ تحریری ثبوت بھی پیش کرنے ہوں گے۔ جن سے ظاہر ہو کہ ملحقہ عمارتوں کا کرایہ مہنگائی ہوجانے کے سبب یا کسی اور سبب کی وجہ سے زیادہ ہوگیا ہے، اگر وہ یہ ثبوت نہ پیش کرسکے یا پیش کرنے سے قاصر ہو تب بھی متعلقہ عدالت حالات و واقعات اور مہنگائی کا جائزہ لے کر کرایہ میں اضافہ کرتے ہوئے معقول کرایہ مقرر کرسکتی ہے۔ جب کہ کرایہ دار کو اس میں دفاع کا حق یہ حاصل ہوگا کہ وہ عدالت کے سامنے گواہی پیش کرے کہ ملحقہ عمارات میں کرایہ وہی ہے جو وہ ادا کر رہا ہے یا اسی کے مطابق ہے اور ٹیکسز وغیرہ میں اضافہ کرایہ داری شروع ہونے سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔
اسی طرح قانون کرایہ داری کی دفعہ 9 میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ فیئر رینٹ معقول کرائے کی حد یا Limit کیا ہے، دفعہ 9 وضاحت کرتی ہے کہ جب کسی عمارت کا فیئر رینٹ مقرر ہوجائے تو تین سال کا عرصہ گزر جانے سے قبل اس میں اضافہ نہیں ہوسکتا، اس تاریخ سے تین سال شمار ہوں گے جب کہ فیئر رینٹ مقرر ہوا تھا اور دفعہ 9 کی ذیلی دفعہ (2) میں وضاحت ہے کہ کسی بھی عمارت کے کرایہ میں اضافہ کسی صورت 10% سالانہ سے زیادہ نہ ہوگا اور یہ 10% اس کرائے کا دس فیصد ہے جوکہ کرائے دار کرایہ ادا کر رہا ہے۔ اب یہاں کچھ غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ کرایہ میں اضافہ لازمی دس فیصد ہوگا ایسا نہیں ہے بلکہ قانون میں حد لگائی گئی ہے کہ دس فیصد سے زیادہ نہ ہوگا۔ اب باہمی رضامندی پر فریقین سے کرایہ 10% سے کم بھی ہوسکتا ہے مگر 10% سے زیادہ نہ ہوگا۔ قانون کرایہ داری میں تمام باتیں بڑی وضاحت سے بیان کردی گئی ہیں۔
مالک مکان اور کرایہ دار کو چاہیے کہ ان قوانین کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں اس طرح وہ باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے حقوق پورے کرسکیں گے اور آپس کی رنجشوں سے بھی بچیں گے کیونکہ اگر مالک مکان کرائے دار کے حقوق سے انحراف کرے گا تو کرائے دار کو عدالت سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اگر کرایہ دار مارکیٹ ویلیو کے مطابق اور موجودہ قوانین کے مطابق کرائے میں اضافہ نہیں کرے گا تو مالک مکان متعلقہ عدالت سے رجوع کرکے کرایہ میں اضافے کا حق محفوظ رکھتا ہے بلکہ اس بات کو بنیاد بناکر بے دخلی کا مقدمہ بھی کرسکتا ہے جب کہ متعلقہ کرائے دار کو بھی دوسری عمارات میں اضافہ شدہ کرائے کے ساتھ ہی مل سکیں گی تو لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ قانون کے مطابق کرائے میں اضافہ کرے اور اگر مالک مکان قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرائے میں اضافہ کرے تو وہ ایسے اضافے سے انکار کرسکتا ہے۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کرائے میں ایسے اضافے سے انکار کرتے ہوئے کرایہ دار ڈیفالٹر ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ پگڑی کے مکانوں کو قانونی تحفظ کی ضرورت ہے۔ معزز عدالت عالیہ ازخود نوٹس لے کر پگڑی سسٹم سے قانونی تحفظ فراہم کرے۔ اس سے بے شمار لوگوں کا بھلا ہوگا جو غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں اور پگڑی کے مکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اس ضمن میں وکلاء حضرات بھی ہماری قانونی مدد کرسکتے ہیں کہ نئے مالک مکان نے بلاجواز کرائے کی رقم دگنی کردی ہے تو کرایہ دار کیا کریں؟