حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو…
آج سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جمہوری نظام کو کمزور کرکے اس سے مایوسی پھیلانے کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔
انسان نے صدیوں کے تہذیبی، سماجی اور معاشرتی ارتقا کے نتیجے میں اپنے تجربات و مشاہدات سے ریاستی امور کی انجام دہی کے لیے جو سب سے بہتر نظام وضع کیا وہ جمہوریت ہے اور یہی وہ نظام حکومت ہے جو ریاست کے تمام باشندوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اس نظام میں کسی بھی شہری کو جنس، ذات، نسل، مذہب اور عقیدے کے بنیاد پر اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس نظام کے تحت ہر فرد کو یکساں طور پر سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی آزادی آئین کے تحت حاصل ہوتی ہے، جسے کسی طور پر سلب نہیں کیا جاسکتا۔
جمہوریت معاشرے میں غیر طبقاتی سماج کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب عوام کی کثرت رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے اور چونکہ معاشرے کے تمام افراد اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں لہٰذا اس نظام کے تحت اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرے میں موجود تمام طبقات منتخب ہوکر پارلیمنٹ کا حصہ بنیںگے اور پھر وہی لوگ حکومت سازی اور قانون سازی کے ذریعے اپنے اپنے طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا بھرپور کردار بھی ادا کریں گے۔
نظریاتی ریاست میں چونکہ ریاستی امور پر ایک مخصوص نظریاتی جماعت یا گروہ کی بالادستی ہوتی ہے، لہٰذا اس نظام کے تحت کام کرنے والی ریاست صرف اس نظریات کے حامل افراد کے مفادات کو تو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے لیکن مذکورہ ریاست میں رہنے والے دیگر نظریات کے افراد کو عملاً دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے یعنی ہر شہری کے تمام مفادات کو مساوی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جمہوریت چونکہ کثیر الجماعتی نظام کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آتی ہے لہٰذا اس نظام کے نفاذ کے بعد ہر حکمران کی یہی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں اپنے دور اقتدار کے دوران عددی برتری حاصل رہے۔ ہر حکمران جماعت کی یہی کوشش رہتی ہے کہ تمام ارکان کو مطمئن رکھنے کے لیے قانون سازی کے عمل میں ان کی بھی رائے کو شامل رکھے۔ اس طرح پارلیمانی نظام کے تحت یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نظام کے تحت معاشرے کے تمام طبقات کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کی زیادہ موثر کوشش کی جاتی ہے۔
آج دنیا میں پارلیمانی نظام، صدارتی نظام اور متناسب نمایندگی کے نظام کے تحت جمہوریت رائج ہے۔ پاکستان میں 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہوا جو آج تک جاری ہے۔ ماضی میں دو مرتبہ فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کی 8 ویں آئینی ترمیم اور جنرل پرویز مشرف کی 17 ویں آئینی ترمیم نے اس نظام کو پارلیمانی اور صدارتی نظام کا ملغوبہ بنا کر پارلیمانی نظام میں رہنے والے صدر کے علامتی منصب کو پارلیمنٹ پر بالادست بنادیا۔ تاہم، بعد کی جمہوری حکومتوں نے 1997 میں 13 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جب کہ 2009 میں 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر کو دیے گئے اختیارات ان سے واپس لے کر عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو لوٹا دیے۔ اس طرح آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق پارلیمانی بنادیا گیا ہے۔ جس میں ریاستی امور سے متعلق اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض کردیے گئے۔ اس نظام کے تحت عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ ہی حکمران ادارہ ہے جس کے انتخاب کا تمام تر اختیار صرف عوام کو حاصل ہے۔
16 جنوری 2013 کا دن ہماری قومی سیاسی تاریخ میں ''یوم دفاع جمہوریت'' کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس وقت کہ جب ایک مخصوص حلقے کی جانب سے اپنے غیر آئینی مطالبات کو منوانے کے لیے لانگ مارچ اور دھرنا دیا گیا اور حکومت وقت کو بلیک میل کرکے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی کوشش کی جارہی تھی تو اس موقع پر میاں نواز شریف کی پیش قدمی پر ملک کی تقریباً تمام اہم اور قابل ذکر اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں غیر آئینی طرز عمل کو مسترد کرتے ہوئے آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور آئین کے مطابق انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرکے جمہوریت کو لاحق سنگین خطرات کو فیصلہ کن حد تک ختم کردیا۔ اس سیاسی عمل کے نتیجے میں گزشتہ چند ہفتوں سے جمہوری نظام کے خلاف کی جانے والی تمام سازشیں دم توڑ گئیں اور تذبذب کا شکار پوری قوم نے سکھ کا سانس لیا۔
یہ امر انتہائی خوش آیند ہے کہ آج ہماری بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتیں بالغ نظری کا مظاہرہ کررہی ہیں، اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات سے بہت آگے بڑھ کر قومی مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں۔ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی خواہش کا عملی مظاہرہ بھی کررہی ہیں۔ 2006 میں جب ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے میثاق جمہوریت کے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے تھے تو اس وقت بھی جمہوریت پسندوں کو بہت طعنے سننے کو ملے۔ موجودہ دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کو مسلسل پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی سننے کو ملا۔ لیکن ان سیاسی رہنمائوں کی بالغ نظری کو داد دی جانی چاہیے جنہوں نے یہ الزامات برداشت کیے لیکن کسی بھی مرحلے پر مشتعل ہوکر نظام کو کمزور کرنے کی سازش کا حصہ نہیں بنے۔ بجا طور پر اگر آج جمہوری نظام مستحکم بنیادوں پر استوار ہوتا نظر آرہا ہے تو یہ جمہوریت پسند قوتوں کی طویل اور صبر آزما جدوجہد ہی کا ثمر ہے۔
حقیقی جمہوریت کا جو بھی تصور ہمارے ذہنوں میں موجود ہے اس کی تعبیر اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم جمہوری نظام کو اس کی تمام تر کمزوریوں اور خامیوںکے باوجود جاری رکھیں اور اس میں اصلاح کی ہر ممکن کوشش بھی کریں۔ کیونکہ تسلسل کے نتیجے میں ہی ہم اپنی خواہشات کے مطابق جمہوری نظام کو اپنے ملک میںنافذ کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اگر جمہوری نظام سے ہم فوری اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرپاتے اور مایوسی و جھنجھلاہٹ کی وجہ سے خود ہی اس نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم کبھی جمہوریت کے حقیقی ثمرات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ آج سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جمہوری نظام کو کمزور کرکے اس سے مایوسی پھیلانے کی سازشوں کو ناکام بنائیں اور جمہوری نظام کو تحفظ فراہم کریں۔ اگر کسی بھی وجہ سے موجودہ جمہوری نظام کو کوئی نقصان پہنچا تو معاشرے میں موجود امید کی روشنی کی معمولی سی رمق بھی ماند پڑجائے گی اور خدا جانے پھر تاریکی کا بسیرا کتنا طویل ہوگا۔ آج کی صورتحال میں فیض احمد فیض کا یہ شعر کیا خوب صادق آتا ہے ؎
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے، ہر چند کہ کم ہے
جمہوریت معاشرے میں غیر طبقاتی سماج کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب عوام کی کثرت رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے اور چونکہ معاشرے کے تمام افراد اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں لہٰذا اس نظام کے تحت اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرے میں موجود تمام طبقات منتخب ہوکر پارلیمنٹ کا حصہ بنیںگے اور پھر وہی لوگ حکومت سازی اور قانون سازی کے ذریعے اپنے اپنے طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا بھرپور کردار بھی ادا کریں گے۔
نظریاتی ریاست میں چونکہ ریاستی امور پر ایک مخصوص نظریاتی جماعت یا گروہ کی بالادستی ہوتی ہے، لہٰذا اس نظام کے تحت کام کرنے والی ریاست صرف اس نظریات کے حامل افراد کے مفادات کو تو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے لیکن مذکورہ ریاست میں رہنے والے دیگر نظریات کے افراد کو عملاً دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے یعنی ہر شہری کے تمام مفادات کو مساوی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جمہوریت چونکہ کثیر الجماعتی نظام کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آتی ہے لہٰذا اس نظام کے نفاذ کے بعد ہر حکمران کی یہی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں اپنے دور اقتدار کے دوران عددی برتری حاصل رہے۔ ہر حکمران جماعت کی یہی کوشش رہتی ہے کہ تمام ارکان کو مطمئن رکھنے کے لیے قانون سازی کے عمل میں ان کی بھی رائے کو شامل رکھے۔ اس طرح پارلیمانی نظام کے تحت یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نظام کے تحت معاشرے کے تمام طبقات کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کی زیادہ موثر کوشش کی جاتی ہے۔
آج دنیا میں پارلیمانی نظام، صدارتی نظام اور متناسب نمایندگی کے نظام کے تحت جمہوریت رائج ہے۔ پاکستان میں 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہوا جو آج تک جاری ہے۔ ماضی میں دو مرتبہ فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کی 8 ویں آئینی ترمیم اور جنرل پرویز مشرف کی 17 ویں آئینی ترمیم نے اس نظام کو پارلیمانی اور صدارتی نظام کا ملغوبہ بنا کر پارلیمانی نظام میں رہنے والے صدر کے علامتی منصب کو پارلیمنٹ پر بالادست بنادیا۔ تاہم، بعد کی جمہوری حکومتوں نے 1997 میں 13 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جب کہ 2009 میں 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صدر کو دیے گئے اختیارات ان سے واپس لے کر عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو لوٹا دیے۔ اس طرح آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق پارلیمانی بنادیا گیا ہے۔ جس میں ریاستی امور سے متعلق اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض کردیے گئے۔ اس نظام کے تحت عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ ہی حکمران ادارہ ہے جس کے انتخاب کا تمام تر اختیار صرف عوام کو حاصل ہے۔
16 جنوری 2013 کا دن ہماری قومی سیاسی تاریخ میں ''یوم دفاع جمہوریت'' کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس وقت کہ جب ایک مخصوص حلقے کی جانب سے اپنے غیر آئینی مطالبات کو منوانے کے لیے لانگ مارچ اور دھرنا دیا گیا اور حکومت وقت کو بلیک میل کرکے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی کوشش کی جارہی تھی تو اس موقع پر میاں نواز شریف کی پیش قدمی پر ملک کی تقریباً تمام اہم اور قابل ذکر اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں غیر آئینی طرز عمل کو مسترد کرتے ہوئے آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور آئین کے مطابق انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرکے جمہوریت کو لاحق سنگین خطرات کو فیصلہ کن حد تک ختم کردیا۔ اس سیاسی عمل کے نتیجے میں گزشتہ چند ہفتوں سے جمہوری نظام کے خلاف کی جانے والی تمام سازشیں دم توڑ گئیں اور تذبذب کا شکار پوری قوم نے سکھ کا سانس لیا۔
یہ امر انتہائی خوش آیند ہے کہ آج ہماری بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتیں بالغ نظری کا مظاہرہ کررہی ہیں، اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات سے بہت آگے بڑھ کر قومی مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں۔ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی خواہش کا عملی مظاہرہ بھی کررہی ہیں۔ 2006 میں جب ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے میثاق جمہوریت کے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے تھے تو اس وقت بھی جمہوریت پسندوں کو بہت طعنے سننے کو ملے۔ موجودہ دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کو مسلسل پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی سننے کو ملا۔ لیکن ان سیاسی رہنمائوں کی بالغ نظری کو داد دی جانی چاہیے جنہوں نے یہ الزامات برداشت کیے لیکن کسی بھی مرحلے پر مشتعل ہوکر نظام کو کمزور کرنے کی سازش کا حصہ نہیں بنے۔ بجا طور پر اگر آج جمہوری نظام مستحکم بنیادوں پر استوار ہوتا نظر آرہا ہے تو یہ جمہوریت پسند قوتوں کی طویل اور صبر آزما جدوجہد ہی کا ثمر ہے۔
حقیقی جمہوریت کا جو بھی تصور ہمارے ذہنوں میں موجود ہے اس کی تعبیر اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم جمہوری نظام کو اس کی تمام تر کمزوریوں اور خامیوںکے باوجود جاری رکھیں اور اس میں اصلاح کی ہر ممکن کوشش بھی کریں۔ کیونکہ تسلسل کے نتیجے میں ہی ہم اپنی خواہشات کے مطابق جمہوری نظام کو اپنے ملک میںنافذ کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ اگر جمہوری نظام سے ہم فوری اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرپاتے اور مایوسی و جھنجھلاہٹ کی وجہ سے خود ہی اس نظام کو تہہ و بالا کردیتے ہیں تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم کبھی جمہوریت کے حقیقی ثمرات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ آج سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جمہوری نظام کو کمزور کرکے اس سے مایوسی پھیلانے کی سازشوں کو ناکام بنائیں اور جمہوری نظام کو تحفظ فراہم کریں۔ اگر کسی بھی وجہ سے موجودہ جمہوری نظام کو کوئی نقصان پہنچا تو معاشرے میں موجود امید کی روشنی کی معمولی سی رمق بھی ماند پڑجائے گی اور خدا جانے پھر تاریکی کا بسیرا کتنا طویل ہوگا۔ آج کی صورتحال میں فیض احمد فیض کا یہ شعر کیا خوب صادق آتا ہے ؎
حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے، ہر چند کہ کم ہے