بجٹ معیشت وینٹی لیٹر سے ہٹالی گئی
ہماری صورتحال یہ ہے کہ حکومت غریب اور ملک حکومت کے مقابلے میں نسبتاً ’’امیر‘‘ ہے
اسلام آباد میں ہم پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے مہمان تھے، بلاوے کا مقصد یہ تھا کہ ہم پارلیمنٹ ہاؤس جائیں اور وہاں پریس گیلری میں بیٹھیں، بجٹ سیشن میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی تقریر سنیں اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی اراکین کی کار گزاریاں دیکھیں۔ تین بجے ہم کوسٹرز میں بیٹھ کر پارلیمنٹ ہاؤس کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم جب پریس گیلری میں پہنچے تو پارلیمنٹ ہاؤس کی نشستیں آنے والوں کی راہ دیکھ رہی تھیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے پریس گیلری میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی۔ جب کہ پارلیمنٹ ہاؤس کی نشستوں پر اپنی جگہ سنبھالنے والوں کی رفتار بہت سست رہی اور کچھ تو ایسے تھے جو آخر وقت تک نہ آئے، نہ آنے والوں میں سب سے نمایاں عمران خان تھے۔ انھیں جمہوریت کا درد بہت ہے لیکن پارلیمنٹ جو کہ جمہوریت کی بنیاد ہے، اس میں آنے سے انھیں بہت گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اس روز خورشید شاہ کی سرکردگی میں پی ٹی آئی کی شیریں مزاری، شاہ محمود قریشی اور چند دوسرے اراکین نے بجٹ سیشن کا علامتی بائیکاٹ کیا۔ اس بائیکاٹ سے پہلے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی تقریر شروع ہوتے ہی نعرے لگائے گئے۔ بجٹ تقریر کی کاپیاں پھاڑی گئیں اور ہوا میں اڑادی گئیں۔ اس شوروغل اور علامتی بائیکاٹ کے بعد خورشید شاہ واپس آگئے اور ان کے پیچھے پی ٹی آئی کے اراکین تھے۔
اسی شوروغل کے دوران وزیر خزانہ نے 2017-2018 کی بجٹ تقریر شروع کردی۔ موجودہ حکومت کا یہ پانچواں بجٹ ہے۔ اگلا بجٹ کون پیش کرے گا، یہ ابھی تک واضح نہیں۔ جون 2018 میں نگراں حکومت وجود میں آئی تو غالباً اس سے پہلے اسی حکومت کو 2018-2019 کا بجٹ تیار کرنا پڑے گا تاکہ معاشی نظام کا تسلسل برقرار رہے اور ابہام یا کوئی غیر یقینی صورتحال پیدا نہ ہو۔ جہاں تک حالیہ بجٹ کا تعلق ہے تو اس پر روزانہ درجنوں کالم، مضامین، تبصرے، بیانات چھپ رہے ہیں اور بحث و مباحثہ ہورہا ہے۔ اس لیے میرے پاس آپ کی معلومات میں اضافے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ چند معروضات البتہ ضرور بیان کرنا چاہوں گی۔
ہمارے یہاں لوگ بجٹ اور ملکی معیشت میں فرق بالکل ملحوظ نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ یوں سمجھیے کہ پاکستان کی دستاویزی یعنی قانونی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر ہے، جب کہ لگ بھگ اس کے مساوی بلیک یا متوازی معیشت بھی موجود ہے۔ دونوں کو جمع کرلیا جائے تو ہماری معیشت کا حجم 600 ارب ڈالر بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بجٹ کو آپ حکومت کی معیشت کہہ سکتے ہیں۔ اس سال کا بجٹ تقریباً 47 ارب ڈالر پر مشتمل ہے۔ قانونی اور غیر قانونی معیشت 600 ارب ڈالر یعنی 600 کھرب روپے جب کہ حکومتی میزانیہ 47 ارب ڈالر یعنی 47 کھرب روپے ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بجٹ اور معیشت کو ایک سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔
ہماری صورتحال یہ ہے کہ حکومت غریب اور ملک حکومت کے مقابلے میں نسبتاً ''امیر'' ہے۔ 300 ارب ڈالر کی دستاویزی معیشت میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ سب لوگ پیسہ کمانا چاہتے ہیں لیکن اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں ہر حکومت کے پاس مالی وسائل کی کمیابی ہوتی ہے اور وہ اگر بہتر بجٹ بنانا بھی چاہے تو اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس نکتے پر زیادہ وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے کہ بجٹ بہتر ہے یا خراب، بلکہ توجہ اس بات پر دینی چاہیے کہ معیشت درست سمت میں گامزن ہے یا نہیں؟ اگر اشاریے بہتری کی جانب اشارہ کرتے ہیں تو مشورہ یہ دینا چاہیے کہ اس میں مزید بہتری کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے اور اگر اشاریے منفی ہیں تو اس کے ازالے اور خاتمے کی تجاویز دینا سودمند ہوگا۔
بجٹ کے حوالے سے ہمارے یہاں تین طرح کے تجزیہ نگار پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ حکومت کا مکمل حامی ہوتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اس سے بہترین بجٹ پیش کیا ہی نہیں جاسکتا تھا بلکہ یہ پاکستان کی تاریخ کا اعلیٰ ترین میزانیہ ہے۔
ان کا دعویٰ ہوتا ہے جس وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کیا ہے اس سے بہترین وزیر خزانہ آج تک پاکستان کو نہیں ملا۔ دوسرا گروہ حکومت مخالف تجزیہ نگاروں کا ہے جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ بجٹ تاریخ کا بدترین بجٹ ہے۔ اس میں عوام کو کچھ نہیں دیا گیا، بلکہ ان سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی گئی ہے۔ حکومت اچھا بجٹ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے اور اس کے وزیر خزانہ کی کارکردگی صفر ہے، اس لیے انھیں فی الفور مستعفیٰ ہوجانا چاہیے۔ تجزیہ نگاروں کا تیسرا گروہ خود کو ''غیر جانبدار'' قرار دیتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ غیر جانبدار حضرات بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ ایک غیر جانبدار گروہ درپردہ حکومت مخالف ہے۔ وہ غیر جانبداری کے لبادے میں ایسے نتائج پیش کرتا ہے جو سراسر حکومت وقت کے خلاف ہوتے ہیں۔ غیر جانبدار کہلانے والے تجزیہ نگاروں کا ایک حلقہ حکومت نواز ہے جو بظاہر بڑی غیر جانبداری سے تجزیے کی مہارت اس طرح استعمال کرتا ہے کہ تمام نتائج بالآخر حکومت کے حق میں نکل آتے ہیں۔ میرے خیال میں غیر جانبداری کوئی شے نہیں۔ اصل بات معروضی ہونے کی ہے۔ اگر تجزیہ نگاری کے عمل سے معروضیت کا عنصر نکال دیا جائے تو تجزیہ نگار سیاست دان بن جاتا ہے۔ جیسا کہ آج کل ہمیں صبح شام نظر آتا ہے۔
اب آئیے بجٹ کے حوالے سے سیاستدانوں کے رویوں کا جائزہ لیا جائے۔ اس وقت پاکستان کی تقریباً تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں قومی یا صوبائی حکومتوں میں شامل ہیں۔ معدودے چند سیاسی گروہ حکومت سے باہر ہیں لیکن وہ بھی کسی نہ کسی طور پر قومی اور صوبائی حکومتوں سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں بیک وقت حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس طرح کی منفرد اور حیران کن صورتحال شاید ہی کسی اور ملک میں نظر آئے۔
وفاقی حکومت، پی ایم ایل این اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور اس کے اتحادی برسر اقتدار ہیں، سندھ میں پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں تو خدا کے فضل سے تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ اس منظرنامے میں وفاق میں حزب اختلاف کی جماعتیں بجٹ کے خلاف دھواں دار تقریریں کرتی ہیں، وفاقی بجٹ کو ہر اعتبار سے ناکام ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیتی ہیں لیکن جب یہ جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں صوبائی بجٹ پیش کرتی ہیں تو وہ وفاقی بجٹ سے کسی طور بہتر نہیں ہوتا۔ بجٹ سازی کے دوران صوبائی وزرائے خزانہ کو وفاقی وزیر خزانہ کی طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ صوبائی بجٹ بھی عملاً وفاقی بجٹ کا مختصر ایڈیشن ہوتے ہیں۔
ہر صوبائی بجٹ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے۔ ترقیاتی اخراجات کے لیے کم رقم رکھی جاتی ہے۔ غیر ترقیاتی اور انتظامی اخراجات کے لیے بھاری رقوم مختص کی جاتی ہیں۔ صحت ، تعلیم اور غربت کے خاتمے کو اولین ترجیح نہیں دی جاتی۔ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح ٹیکس کی شرح بڑھا کر زیادہ آمدنی حاصل کی جائے۔ غریب طبقے کو ریلیف نہیں دیا جاتا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے جتنا وفاقی بجٹ میں وفاقی ملازمین کے لیے کیا جاتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران حزب اختلاف کی جماعتیں بجٹ کے خلاف وہی تقریریں کرتی ہیں جو قومی اسمبلی میں ہوتی ہیں۔ چونکہ سب جماعتیں مختلف صوبوں میں حکمرانی کرتی ہیں لہٰذا سب تقریباً یکساں نوعیت کے بجٹ پیش کرتی ہیں اور ایک ہی انداز میں اس کی حمایت اور مخالفت میں تقاریر کرتی ہیں۔ یہ واقعی ایک دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز صورتحال ہے۔
وہ فاضل تجزیہ نگار ہوں یا سیاستدان سب کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ بجٹ پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی خامیوں کو دور کرنے کا رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ ہر چیز پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ کم از کم معیشت کو سیاست کے اکھاڑے میں گھسیٹ کر اس کی درگت نہ بنائی جائے تو بہتر ہوگا۔ بڑی مشکل سے پاکستان عالمی سطح پر نادہند ہونے سے بچا ہے، بڑی قربانیوں کے بعد دہشت گردی کو کم کرنے میں کامیابی ملی ہے۔ طویل عرصے کے بعد مجموعی طور پر امن و امان کے حالات بہتر ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں فوجی آمروں نے ملک کو جس حال پر پہنچا دیا تھا اور اسے ورثے میں جو عالمی، علاقائی اور داخلی مسائل اور تضادات ملے تھے ان پر بتدریج قابو پایا جارہا ہے۔ ان تمام عوامل کے باعث دم توڑتی معیشت اب وینٹی لیٹر سے ہٹائی جاچکی ہے لیکن اب بھی اسے انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ بیماریوں سے بحال ہوتی اس کمزور معیشت کو زیادہ زدوکوب نہ کیا جائے۔ یہ ملک اور قوم پر ہم سب کا احسان ہوگا۔ یہاں یہ حقیقت بھی نہ فراموش کی جائے کہ پائیدار معاشی ترقی پائیدار جمہوری عمل سے مشروط ہے۔ یہ کلیہ تاریخی طور پر ثابت ہے۔ لہٰذا جوش و جذبات میں اتنا آگے نہ بڑھا جائے کہ جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو سکے۔
اسلام آباد میں دو دن کے قیام کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر بھی بہت متحرک نظر آئیں۔ انھوں نے سارے ملک سے آئے ہوئے صحافیوں کو مرگلہ کی پہاڑی پر بنے ہوئے ریستوران 'منال' میں عشائیہ دیا۔ نشیب میں اسلام آباد کی روشنیاں تھیں اور سب ہی اس بات کے آرزو مند تھے کہ یہ روشنیاں سلامت رہیں۔ جمہوریت کا نازک پودا پھلتا پھولتا رہے اور آخرکار تناور پیڑ بن جائے جس کے سائے میں ہماری آیندہ نسلیں آرام کرسکیں۔