انتخابات انتخابات اور صرف انتخابات
رات کی تنہائیوں میں خفیہ ملاقاتیں کرنے والے سیاستدان بھی اب ہر صورت میں جمہوری عمل کو جاری دیکھنا چاہتے ہیں۔
عام انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں؟ نگراں وزیراعظم کون ہوگا؟ اسمبلیاں کب تک تحلیل ہوں گی؟ نگراں حکومت کتنی مدت کے لیے تشکیل دی جائے گی؟ انتخابات 60 دن میں ہوں گے یا 90 روز میں؟ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ایک ہی دن ہوں گے یا الگ الگ تاریخیں مقرر کی جائیں گی؟ کیا نئے سیاسی اتحاد وجود میں آئیں گے؟ اپوزیشن منقسم رہے گی یا حکمران اتحاد کا مقابلہ ایک پلیٹ فارم سے کرے گی؟ اور کیا الیکشن کمیشن کو انتخابات سے قبل بھارتی الیکشن کمیشن کی طرز پر اختیارات حاصل ہوسکیں گے؟
ان اہم سوالوں کے جواب شہر اقتدار سے کوسوں دور خون آشام کراچی کی گھٹن زدہ فضا میں بیٹھ کر دینا کوئی آسان کام نہیں، بالخصوص تب جب کہ صوبائی الیکشن کمیشن کے باہر دھرنا دیے بیٹھی اپوزیشن جماعتیں یہ الزام عائد کرر ہی ہوں کہ شہر میں انتخابی فہرستوں کی تیاری کا عمل ایک بار پھر ہائی جیک ہوچکا ہے، فہرستوں کی تیاری کا عمل فوج کے بجائے ایک سیاسی جماعت کی نگرانی میں ہو رہا ہے اور اگر اغلاط سے پُر فہرستوں پر ہی انتخابات ہونے ہیں تو پھرکروڑوں روپے خرچ کرکے انتخابات کرانے کی ضرورت ہی کیا ہے، الیکشن سے قبل ہی نتائج کا اعلان کردیا جائے۔
پیپلزپارٹی اس بات کا کریڈٹ تو پوری طرح لینا چاہتی ہے کہ یہ ملکی تاریخ کا پہلا موقع ہے جب کوئی منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرتے ہوئے آیندہ انتخابات میں منتخب ہونے والے نمایندوں کو اقتدار منتقل کرے گی مگر یہ جواب دینے سے تاحال قاصر ہے کہ اب جب کہ عام انتخابات میں زیادہ سے زیادہ 3 یا 4 ماہ کا عرصہ باقی ہے توعلامہ طاہرالقادری کی اسلام آباد سے رخصتی کے باوجود انتخابات کے التوا کا خطرہ بدستور کیوں منڈلا رہا ہے؟ کیوں بنگلہ دیش ماڈل یا 2 سال کے عرصے کے لیے نگران سیٹ اپ کی تشکیل کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی ہے؟ کیوں سیاسی قیادت عوام و خواص میں پائے جانے والے احساسِ بے چینی کو ختم کرنے میںناکام ہے؟
شاید پی پی پی قیادت عوام میں پائی جانے والی اس تشویش کو دور کرنے کی صلاحیت اس لیے بھی نہیں رکھتی کہ مسئلے کی جڑ خود اس کی 5 سالہ حکومتی کارکردگی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جو جماعتیں برسر اقتدار آنے کے بعد عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب رہتی ہیں وہ نہ صرف پورے اعتماد کے ساتھ انتخابی عمل میں شریک ہوتی ہیں بلکہ بعض صورتوں میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان بھی کردیتی ہیں۔ زمانہ حال میں اس کی ایک مثال ترکی کی حکمران انصاف و ترقی پارٹی ہے، جو کم از کم 2 مرتبہ قبل از وقت انتخابات کراکے پہلے سے زیادہ ووٹوں سے کامیاب ہوئی جب کہ دوسری مثال خود بھٹو کی ہے جنہوں نے 77 میں انتخابات کا اعلان اس خیال سے چند ماہ قبل کردیا تھا کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے زیادہ آسانی سے جیت سکیں گے ۔
مگر آج جب کہ پی پی پی حکومت اپنی مدت کے 5 سال پورے کرچکی ہے تو المیہ یہ ہے کہ ایک بار پھر جمہوریت کے سر پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔ اور بلامبالغہ ان خطرات کا خواہ کم، زیادہ یا تمام تر کریڈٹ بھی پیپلزپارٹی کو اس لیے جاتا ہے کہ عوام آج 5 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد پوچھ رہے ہیں کہ جمہوریت نے ہمیں کیا دیا؟ کچھ دیا بھی یا وہ بھی چھین لیا جو پہلے ہمارے پاس موجود تھا۔بہرحال اس نازک صورتحال میںایک مثبت پہلو یہ ہے کہ بار بار کی فوجی مداخلت سے ڈسے عوام ابھی جمہوری عمل سے پوری طرح مایوس نہیں ہیں اور وہ جمہوریت کوکم از کم ایک موقع مزید فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرف دور میں کیے گئے بعض فیصلوں کے منفی اثرات آج بھی عوام اپنی زندگیوں میں دیکھ رہے ہیں۔
عوام کی طرح رات کی تنہائیوں میں مقتدر حلقوں سے خفیہ ملاقاتیں اور راز و نیاز کرنے والے سیاستدان بھی اب ہر صورت میں جمہوری عمل کو جاری دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ تو عین اس وقت دیکھنے میں آیا جب اسلام آباد میں طاہرالقادری اپنے تئیں حکومت تحلیل کرچکے تھے اور الیکشن کمیشن تحلیل کرنے کا مطالبہ کررہے تھے تو رائے ونڈ میں میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، سید منور حسن اور محمود خان اچکزئی یہ اعلان کررہے تھے کہ سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کے درمیان واضح لکیر کھینچی جاچکی ہے اور انتخابات کا التوا کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عمران خان نے بھی حالات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرکے اپنا ووٹ جمہوری قوتوں کے حق میں ڈالا، یوں انتخابات کے التوا کا قادری منصوبہ فوری طور پر تو بظاہر ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔
شکوک و شبہات کی اس فضا میں اپوزیشن جماعتیں نگراں حکومت کی تشکیل کے لیے اپنا ہوم ورک مکمل کرتی دکھائی دے رہی ہیں، مسلم لیگ ن نگراں وزیر اعظم کیلیے 6 نام تجویز کرچکی ہے اور اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بعد قائد حزب اختلاف 2 نام وزیر اعظم کو پیش کریں گے۔ بظاہر اپوزیشن جماعتیں پختونخوا عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے نام پر متفق ہوتی دکھائی دے رہی ہیں، اس نام پر اصولی طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی شاید اس لیے اعتراض نہ ہوکہ اے پی ڈی ایم کی جانب سے 2008 میں انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے پر جو چند شخصیات یا جماعتیں قائم رہیں تھیں ان میں ایک محمود خان اچکزئی بھی تھے۔
نگراں حکومت کی تشکیل اور انتخابی تعاون کے لیے مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے درمیان پہلے ہی اعلیٰ سطح کا رابطہ ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں چوہدری نثار علی خان اور مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے منصورہ میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت سے ملاقات کی، دونوں جماعتیں بیشتر امور پر متفق دکھائی دیں، یہ ملاقات اس جانب بھی اشارہ ہے کہ مستقبل قریب میں مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کم ازکم پنجاب کی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون کرسکتی ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے چاروں صوبائی گورنرز کو سیاسی قرار دیتے ہوئے ان کی برطرفی کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں، جسے اس کی انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔
عام انتخابات سے قبل سیاسی پرندوں نے بھی پرواز کا آغاز کردیا ہے اور وفاداریاں بدلنے کا سلسلہ شروع ہوچکاہے۔ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ذوالفقار کھوسہ کے صاحبزادے اور رکن قومی اسمبلی سیف الدین کھوسہ پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں تو سندھ میں مسلم لیگ ق کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب صوبائی صدر غوث بخش مہر 47 ساتھیوں سمیت فنکشنل لیگ میں شامل ہوگئے۔ پیر صاحب پگارا سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے نہایت متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور بارہا کہہ چکے ہیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لیے تمام سیاسی، دینی اور قوم پرست جماعتوں کو متحد ہوجانا چاہیے۔
اس پس منظر میں ایک پیش رفت الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے مسودے کی منظوری ہے۔ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی اسکروٹنی کے لیے 30 روز مدت کی منظوری دے دی ہے، یہی مطالبہ طاہرالقادری کا بھی تھا۔ الیکشن کمیشن نے بھارتی الیکشن کمیشن کی طرز پر اختیارات کے حصول کا مطالبہ بھی کردیا ہے جس کا فی الفور پورا ہونا تو ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ کمیشن کے لیے سب سے بڑا چیلنج کراچی میں شفاف انتخابی فہرستوں کی تیاری ہے، اپوزیشن جماعتیں اس عمل پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار کررہی ہیں۔ کیا فخرالدین جی ابراہیم اپوزیشن جماعتوں کو مطمئن کرپائیں گے؟ اس کا جواب آیندہ چند دنوں میں مل جائے گا۔ تمام مسائل کا حل صرف اور صرف بروقت عام انتخابات میں ہے۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں بروقت انتخابات کے انعقاد کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد رہیں توکوئی وجہ نہیں کہ غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع مل سکے۔