ذخیرہ اقبال
حیات انسانی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اقبال کے موضوع فکر میں شامل نہ ہو
LONDON:
علامہ اقبال کی شاعری، فکر اور فلسفہ پر سرگودھا کے ممتاز ادیب ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی چھ کتابیں ابھی شایع ہوئی ہیں۔ ان میں اقبال پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے خاص طور پر بڑا مواد ہے۔ ''ذخیرہ اقبال'' ان ہی میں سے ایک کتاب ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید اس کے تعارف میں لکھتے ہیں'' اقبال کے فکر و فلسفہ پر یوں تو لا تعداد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن ان کے نثری اور شعری متون پر کوئی مربوط کام نہیں ہوا ہے۔ محققین کے لیے ایسی کتاب کا ہونا ضروری ہے جس میں اقبال کے شعری اور نثری ذخیرہ کو یکجا کیا گیا ہو۔ ''ذخیرہ اقبال'' ایک ایسی کتاب ہے جس میں علامہ کے کل سرمایہ کو محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ شاعری اور نثر کے علاوہ مکالمات، خطبات اور نجی محفلوں کے واقعات کو بھی کتاب کی زینت بنایا گیا ہے، اقبال کی تمام کتابوں کا تجزیاتی مطالعہ، فہرست، ابواب، متن کا خصوصی احاطہ اور مشاہیر کے تبصرے بھی کتاب کی زینت ہیں۔''
ڈاکٹر ہارون الرشید کی مرتب کردہ دوسری کتاب ''موضوعاتی کلام اقبال'' ہے یہ موضوعات کے اعتبار سے علامہ اقبال کے اشعار کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید حرف آغاز میں لکھتے ہیں : ''حقیقت شناس اقبال کے کلام میں سوزوگداز، عمیق فکر، ولولہ تازہ اورجوشِ بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے کلام میں مقصدیت ایک روح کی حیثیت رکھتی ہے۔
حیات انسانی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اقبال کے موضوع فکر میں شامل نہ ہو۔ زندگی کا دستور، زندگی کا منشور، زندگی کا نور، زندگی کا سرور اور زندگی کا عرفان قرآن مجید سے کشید کرکے اقبال نے تعمیرانسانیت کا راستہ ہموارکیا۔ سراغِ زندگی، من کی دنیا، تن کی دنیا، سوزومستی، جذب وشوق، آئین جوان مردی، حق گوئی، بیباکی، آہ سحر، نور بصیرت، سوزجگر، کلم سربکف، حقیقت آشنائی، ذوق نظر، اہل نظر، چشمہ آفتاب، مرغِ چمن،لالۂ دل سوز، سرِِخاک شہید جیسے حسنِ معنی سے لبریز لفظوں اور تراکیب سے اقبال نے موضوعاتی جہاں آباد کیا ہے۔ دنیا بھر میں شاعری کے جتنے رویے مروج رہے اقبال ان سب کا محور و مرکز ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید کی تیسری کتاب ''بہار اقبال'' ہے یہ علامہ اقبال کے فکر و فن پر لکھی گئی پچاس کتابوں کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ ہے۔ یہ کتابیں اقبال پر ملک کے ممتاز اسکالروں کی لکھی ہوئی ہیں اور علامہ کی شخصیت ان کی شاعری، ان کے افکار اور تصورات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ڈاکٹر ہارون الرشید نے ہر کتاب کے موضوعات کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف کا تعارف کرایا ہے اور ان کی تحریر پر تبصرہ کیا ہے۔کتاب سے اقتباسات بھی شامل کیے ہیں۔ اقبال پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ بڑی مفید کتاب ہے۔ علامہ اقبال پر کتابوں کے اس تازہ سلسلے کی ایک کتاب ''کائنات اقبال'' کے عنوان سے ہے۔ اس میں علامہ کی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات، اہم مکتوبات اور فرمودات کی روشنی میں ان کے سفر حیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''اقبال نے اپنی عمر کا ایک حصہ یورپ میں گزارا۔ وہ کیمبرج میں بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے رہے ، انھوں نے وہاں ایک استاد کی حیثیت سے فلسفے کا درس بھی دیا۔ علم کی پیاس انھیں ہائڈل برگ بھی لے گئی اور وہاں انھوں نے علمی مشاغل کو جاری رکھا۔ وہ مغرب کے فکر و فلسفہ پر پوری طرح حاوی ہوگئے۔ انھوں نے تقریباً تمام اہم مغربی ممالک کی سیاحت بھی کی اور طرحِ آئینی مغرب اور مغرب کی تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا لیکن مغرب سے اس قدر قربت کے باوجود وہ اس سے کوئی ذہنی مطابقت پیدا نہ کرسکے۔ بلکہ یہ کہنا شاید درست ہوگا کہ اس قربت نے ان پر الٹا اثر ڈالا اور وہ جیسے جیسے مغرب کے قریب ہوتے گئے اس کی مخالفت کا ایک طوفان ان کی شخصیت میں موجزن ہونے لگا۔ اس صورت حال کا یہ اثر ہے کہ اقبال کے ہاں جا بجا مغربی تہذیب و معاشرت سے بیزاری کا ایک باقاعدہ اور مستقل رجحان ملتا ہے اور اس رجحان میں شدت نظر آتی ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں دونوں اس رجحان کی آئینہ دار ہیں۔''
''کائنات اقبال'' میں قائد اعظم کے نام علامہ کے پندرہ خطوط شامل ہیں۔ یہ خطوط جو جون 1932ء اور نومبر 1937ء کے درمیان لکھے گئے برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل سے اہم تعلق رکھتے ہیں۔
کتاب ''نویرۂ اقبال'' علامہ اقبال کے فکروفن پر ڈاکٹر ہارون الرشیدکے اڑتیس مضامین کا مجموعہ ہے۔ ''اقبال کا تصور عشق'' کے عنوان سے وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں۔ ''عشق علامہ محمد اقبال کی شاعری کا محور ہے۔ان کی شاعری کے تمام تانے بانے عشق کے گرد گھومتے ہیں۔ فلسفہ خودی بھی عشق کے زیر نگیں ہے۔ عشق نہ ہو تو خودی کی تکمیل نہیں ہوتی۔ عشق زندگی کا سائبان ہے، مجازی ہو تو صحرا نوردی کرادیتا ہے، حقیقی ہو تو اﷲ تعالیٰ کے لیے اپنی ذات کی نفی کرالیتا ہے۔ تسخیر کائنات کے لیے عشق ہی سب سے بڑا حوس ہے۔
اقبال کے نزدیک خودی کی تفسیر عشق ہے۔ عشق کا یہ دستور رہا ہے کہ کسی کو پالینے کے لیے اپنی صلاحیتیں، آرزوئیں، جذبے قربان کردیتا ہے۔ عشق کائنات کی سچائی، حقیقت ، روح اور سلسلہ روز و شب ہے۔ اقبال کی نظم ''مسجد قرطبہ'' آغاز سے اختتام تک عشق میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اقبال کے ہاں عقل اور عشق کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ چونکہ اقبال کا فکر وفلسفہ خودی کے گرد گھومتا ہے اور خودی کی تخلیق شوق سے ہوتی ہے اور شوق ہی عشق کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اقبال عشق کو عقل پر فوقیت دیتے ہیں۔''
عشق دم جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ
عشقِ خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
''اقبال اور اسلامی ثقافت'' کے عنوان سے اپنے مضمون میں پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں۔ ''علامہ اقبال اس اسلامی ثقافت کے علمبردار تھے جس کے اجزائے ترکیبی دنیوی زندگی کا تصور، زندگی کا نصب العین، عقائد وافکار، ارکان اسلام اور اخلاق و آداب ہیں، وہ سچے مسلمان تھے۔ ان کی شاعری کا محور اسلام اور قرآن تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب ''تشکیل جدیدالہیات'' میں اسلامی ثقافت کے اس پس منظرکو پیش کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ثقافت دنیا میں منفرد ہے۔ ثقافت کے کچھ خارجی مظاہر ہوتے ہیں جسے رسم و رواج، ادب اور فنون اورکچھ داخلی مظاہر علامہ نے داخلی پہلوکو زیادہ اجاگرکرنے کی کوشش کی گئی۔ کلچرکا ایک محور اور مرکزی نقطہ ہوتا ہے۔
یہ محور دراصل کسی قسم کے عقائدوافکار ہوتے ہیں۔ قوم اور معاشرے کے افراد اپنے مخصوص فکر اور عقائد کی روشنی میں اپنے جملہ افعال واعمال انجام دیتے ہیں۔ یہ اعمال اس کثرت سے صادر ہوتے ہیں کہ ان کے مزاج اور طبیعت میں رچ بس جاتے ہیں۔اسی سے ان کی برت کی تشکیل وتکمیل ہوتی ہے، رجحانات اور میلانات کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے کلچر کی تخلیق ہوتی ہے۔ ہر قوم اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتی ہے جو اسے دوسری قوموں سے ممتازکرتا ہے۔''
پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید کی چھٹی کتاب ''بیت بازی کلام اقبال'' ہے جو حروف تہجی کے اعتبار سے علامہ کے اشعار کا مجموعہ ہے اس کتاب کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ اس میں ہر شعرکا ماخذ بھی درج ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری، فکر اور فلسفہ پر سرگودھا کے ممتاز ادیب ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی چھ کتابیں ابھی شایع ہوئی ہیں۔ ان میں اقبال پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے خاص طور پر بڑا مواد ہے۔ ''ذخیرہ اقبال'' ان ہی میں سے ایک کتاب ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید اس کے تعارف میں لکھتے ہیں'' اقبال کے فکر و فلسفہ پر یوں تو لا تعداد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن ان کے نثری اور شعری متون پر کوئی مربوط کام نہیں ہوا ہے۔ محققین کے لیے ایسی کتاب کا ہونا ضروری ہے جس میں اقبال کے شعری اور نثری ذخیرہ کو یکجا کیا گیا ہو۔ ''ذخیرہ اقبال'' ایک ایسی کتاب ہے جس میں علامہ کے کل سرمایہ کو محفوظ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ شاعری اور نثر کے علاوہ مکالمات، خطبات اور نجی محفلوں کے واقعات کو بھی کتاب کی زینت بنایا گیا ہے، اقبال کی تمام کتابوں کا تجزیاتی مطالعہ، فہرست، ابواب، متن کا خصوصی احاطہ اور مشاہیر کے تبصرے بھی کتاب کی زینت ہیں۔''
ڈاکٹر ہارون الرشید کی مرتب کردہ دوسری کتاب ''موضوعاتی کلام اقبال'' ہے یہ موضوعات کے اعتبار سے علامہ اقبال کے اشعار کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید حرف آغاز میں لکھتے ہیں : ''حقیقت شناس اقبال کے کلام میں سوزوگداز، عمیق فکر، ولولہ تازہ اورجوشِ بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے کلام میں مقصدیت ایک روح کی حیثیت رکھتی ہے۔
حیات انسانی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اقبال کے موضوع فکر میں شامل نہ ہو۔ زندگی کا دستور، زندگی کا منشور، زندگی کا نور، زندگی کا سرور اور زندگی کا عرفان قرآن مجید سے کشید کرکے اقبال نے تعمیرانسانیت کا راستہ ہموارکیا۔ سراغِ زندگی، من کی دنیا، تن کی دنیا، سوزومستی، جذب وشوق، آئین جوان مردی، حق گوئی، بیباکی، آہ سحر، نور بصیرت، سوزجگر، کلم سربکف، حقیقت آشنائی، ذوق نظر، اہل نظر، چشمہ آفتاب، مرغِ چمن،لالۂ دل سوز، سرِِخاک شہید جیسے حسنِ معنی سے لبریز لفظوں اور تراکیب سے اقبال نے موضوعاتی جہاں آباد کیا ہے۔ دنیا بھر میں شاعری کے جتنے رویے مروج رہے اقبال ان سب کا محور و مرکز ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید کی تیسری کتاب ''بہار اقبال'' ہے یہ علامہ اقبال کے فکر و فن پر لکھی گئی پچاس کتابوں کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ ہے۔ یہ کتابیں اقبال پر ملک کے ممتاز اسکالروں کی لکھی ہوئی ہیں اور علامہ کی شخصیت ان کی شاعری، ان کے افکار اور تصورات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ڈاکٹر ہارون الرشید نے ہر کتاب کے موضوعات کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف کا تعارف کرایا ہے اور ان کی تحریر پر تبصرہ کیا ہے۔کتاب سے اقتباسات بھی شامل کیے ہیں۔ اقبال پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ بڑی مفید کتاب ہے۔ علامہ اقبال پر کتابوں کے اس تازہ سلسلے کی ایک کتاب ''کائنات اقبال'' کے عنوان سے ہے۔ اس میں علامہ کی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات، اہم مکتوبات اور فرمودات کی روشنی میں ان کے سفر حیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں ''اقبال نے اپنی عمر کا ایک حصہ یورپ میں گزارا۔ وہ کیمبرج میں بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے رہے ، انھوں نے وہاں ایک استاد کی حیثیت سے فلسفے کا درس بھی دیا۔ علم کی پیاس انھیں ہائڈل برگ بھی لے گئی اور وہاں انھوں نے علمی مشاغل کو جاری رکھا۔ وہ مغرب کے فکر و فلسفہ پر پوری طرح حاوی ہوگئے۔ انھوں نے تقریباً تمام اہم مغربی ممالک کی سیاحت بھی کی اور طرحِ آئینی مغرب اور مغرب کی تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا لیکن مغرب سے اس قدر قربت کے باوجود وہ اس سے کوئی ذہنی مطابقت پیدا نہ کرسکے۔ بلکہ یہ کہنا شاید درست ہوگا کہ اس قربت نے ان پر الٹا اثر ڈالا اور وہ جیسے جیسے مغرب کے قریب ہوتے گئے اس کی مخالفت کا ایک طوفان ان کی شخصیت میں موجزن ہونے لگا۔ اس صورت حال کا یہ اثر ہے کہ اقبال کے ہاں جا بجا مغربی تہذیب و معاشرت سے بیزاری کا ایک باقاعدہ اور مستقل رجحان ملتا ہے اور اس رجحان میں شدت نظر آتی ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں دونوں اس رجحان کی آئینہ دار ہیں۔''
''کائنات اقبال'' میں قائد اعظم کے نام علامہ کے پندرہ خطوط شامل ہیں۔ یہ خطوط جو جون 1932ء اور نومبر 1937ء کے درمیان لکھے گئے برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل سے اہم تعلق رکھتے ہیں۔
کتاب ''نویرۂ اقبال'' علامہ اقبال کے فکروفن پر ڈاکٹر ہارون الرشیدکے اڑتیس مضامین کا مجموعہ ہے۔ ''اقبال کا تصور عشق'' کے عنوان سے وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں۔ ''عشق علامہ محمد اقبال کی شاعری کا محور ہے۔ان کی شاعری کے تمام تانے بانے عشق کے گرد گھومتے ہیں۔ فلسفہ خودی بھی عشق کے زیر نگیں ہے۔ عشق نہ ہو تو خودی کی تکمیل نہیں ہوتی۔ عشق زندگی کا سائبان ہے، مجازی ہو تو صحرا نوردی کرادیتا ہے، حقیقی ہو تو اﷲ تعالیٰ کے لیے اپنی ذات کی نفی کرالیتا ہے۔ تسخیر کائنات کے لیے عشق ہی سب سے بڑا حوس ہے۔
اقبال کے نزدیک خودی کی تفسیر عشق ہے۔ عشق کا یہ دستور رہا ہے کہ کسی کو پالینے کے لیے اپنی صلاحیتیں، آرزوئیں، جذبے قربان کردیتا ہے۔ عشق کائنات کی سچائی، حقیقت ، روح اور سلسلہ روز و شب ہے۔ اقبال کی نظم ''مسجد قرطبہ'' آغاز سے اختتام تک عشق میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اقبال کے ہاں عقل اور عشق کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ چونکہ اقبال کا فکر وفلسفہ خودی کے گرد گھومتا ہے اور خودی کی تخلیق شوق سے ہوتی ہے اور شوق ہی عشق کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اقبال عشق کو عقل پر فوقیت دیتے ہیں۔''
عشق دم جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ
عشقِ خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
''اقبال اور اسلامی ثقافت'' کے عنوان سے اپنے مضمون میں پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں۔ ''علامہ اقبال اس اسلامی ثقافت کے علمبردار تھے جس کے اجزائے ترکیبی دنیوی زندگی کا تصور، زندگی کا نصب العین، عقائد وافکار، ارکان اسلام اور اخلاق و آداب ہیں، وہ سچے مسلمان تھے۔ ان کی شاعری کا محور اسلام اور قرآن تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب ''تشکیل جدیدالہیات'' میں اسلامی ثقافت کے اس پس منظرکو پیش کیا ہے جس کی وجہ سے یہ ثقافت دنیا میں منفرد ہے۔ ثقافت کے کچھ خارجی مظاہر ہوتے ہیں جسے رسم و رواج، ادب اور فنون اورکچھ داخلی مظاہر علامہ نے داخلی پہلوکو زیادہ اجاگرکرنے کی کوشش کی گئی۔ کلچرکا ایک محور اور مرکزی نقطہ ہوتا ہے۔
یہ محور دراصل کسی قسم کے عقائدوافکار ہوتے ہیں۔ قوم اور معاشرے کے افراد اپنے مخصوص فکر اور عقائد کی روشنی میں اپنے جملہ افعال واعمال انجام دیتے ہیں۔ یہ اعمال اس کثرت سے صادر ہوتے ہیں کہ ان کے مزاج اور طبیعت میں رچ بس جاتے ہیں۔اسی سے ان کی برت کی تشکیل وتکمیل ہوتی ہے، رجحانات اور میلانات کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے کلچر کی تخلیق ہوتی ہے۔ ہر قوم اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتی ہے جو اسے دوسری قوموں سے ممتازکرتا ہے۔''
پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید کی چھٹی کتاب ''بیت بازی کلام اقبال'' ہے جو حروف تہجی کے اعتبار سے علامہ کے اشعار کا مجموعہ ہے اس کتاب کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ اس میں ہر شعرکا ماخذ بھی درج ہے۔