انٹرنیٹ اورکیبل کلچر کا غلط استعمال نوجوانوں کے ذہنی اور اخلاقی انحطاط کا باعث ہے
عام طور پر نو عمر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کا مقصد کسی لڑکی یا لڑکے سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔
آج انٹرنیٹ اور کیبل کنکشن ہر گھر کا لازمی جزو بن چکا ہے۔
خاص طور پر متمول گھرانوں میں تو یہ اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں ہمارے معاشرے نے زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات کو اس طرح اپنایا ہے کہ ہماری اقدار بالکل ہی بدل کر رہ گئی ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی کی غیر متناسب اور ناہموار افزائش' ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایک مخصوص نوعیت کے کلچر نے معاشرے کی فطری سمت اور راہ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
یہ ایسی تبدیلی ہے جس کے بدترین نتائج نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کلچر کا نتیجہ یہ ہے کہ گناہ کو گناہ تصور ہی نہیں کیا جا رہا' جرائم روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں' اب مذہبی سکالرز اور سماجی بہبود کے کارکن تک اس ضرورت کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ معاشرے کو واپس اس کی فطری بنیادوں پر استوار کیے بغیر، اس معاشرے کے پنپنے کے کوئی مثبت امکانات نہیں ہیں۔
بالعموم ٹیلی ویژن کو معلومات کا ایک بہت اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور بے راہ رو کرنے والے دوسرے ذرائع کے مقابلے میں اسے سب پر فوقیت دی جاتی ہے، تاہم اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ میں ہونے والی پیشترفت کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ یہ ذرائع تعلیم سے زیادہ تفریحی ذرائع بن کر رہ گئے ہیں لیکن ایسی صورت میں کہ ایک مثالی مسلم معاشرہ قائم ہو جائے تو کیا ان ذرائع کا بہترین استعمال نہیں ہو سکتا ہے اور کیا ایسی صورت میں یہ ذرائع تعلیم اور ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟ ان سوالات کے واضح جوابات کی ضرورت ہے۔
آج کے مسلم معاشروں میں پیدا کیا جانے والا مخصوص کلچر مغربی اقوام کی دین ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ مغربی کلچر پوری دنیا پر محیط ہو اور یوں آج کی دنیا بے مقصد رنگ رلیوں میں مبتلا ہو جائے۔ چند عشروں قبل تک کی نوجوان نسل اس مغربی کلچر کی چکا چوند سے کم ہی متاثر ہوئی تھی اور اس دور کے نوجوان ایسے مناظر دیکھ کر اور ایسی باتیں سن کر پریشان و خوفزدہ ہو جایا کرتے تھے، جبکہ آج کا نوجوان ایسی چیزوں کا دلدادہ ہے اور اسے اساتذہ کی جانب سے گھر کے لیے دیا جانے والا کام کرنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی اور ان کی ساری توجہ ایسے مکالمے اور مناظر پر رہتی ہے' جس کے نتیجے میں ان کی نوجوانی بے مقصد تشدد' ہنگامے' فحش کلامی اور فحش کاموں کا شکار ہو جاتی ہے۔
آج بین الاقوامی میوزک چینلزپرنو عمری سے ہی بچے پاپ میوزک سنتے اور فلمیں دیکھتے ہیں۔ اس نو عمری میں اتنی طویل مدت تک میوزک سننے اور فحش حرکت و سکنات کو دیکھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کو بھی نہ صرف ایسے فحش کلام اور فحش حرکتوں کی لت پڑ جاتی ہے بلکہ اس کا بعض اوقات نتیجہ تشدد' بغاوت' منشیات' غیر فطری اور آزادانہ میل ملاپ کی صورت میں نکلتا ہے۔ کمرشل ٹیلی ویژن پر جو مناظر دکھائے جاتے ہیں وہ تو وہیں رہتے ہیں لیکن ان مناظر کے نتیجے میں نو عمر بچوں اور نوجوانوںکے ذہنی سانچے جس طرح ڈھلتے ہیں، اس کے سنگین نوعیت کے نتائج اور اثرات ان کی زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ان چینلز تک رسائی عالمگیر ہے بلکہ اب تو ہر ملک کا اپنا میوزک چینل ہے، جبکہ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد اس سے دو گنا ہے۔
میوزک ویڈیوز جنس' آبروریزی' قتل اور اس نوعیت کے دوسرے مناظر سے بھرپور ہوتی ہیں اور بچوں' بچیوں اور مرد خواتین سب ان کے یکساں طور پر اثرات قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ٹیلی ویژن پروگراموں کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ سب کچھ حق اور سچ نہیں ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کے مناظر کسی کو تشدد' فحش گوئی یا فحش حرکات کی جانب راغب نہیں کرتے اور نہ ہی مصائب' اذیتوں اور آلام سے انہیں بے حس بناتے ہیں، مگر ان کے ایسے دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کے مناظر دیکھنے والوں کے رویے اور برتائو پر غیر محسوس طور پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہی ٹیلی ویژن کے اسپانسرز کا مقصد ہے جو وہ بالواسطہ طور پر پورا کرتے ہیں۔
منفی عادات کو پروان چڑھانے والی ایک بڑی لعنت انٹرنیٹ بھی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ نو عمر نوجوان اس پر اپنا خاصا وقت برباد کرتے ہیں۔ پہلے وقت کا ضیاع کرنے کا کام صرف ٹی وی کرتا تھا اب انٹرنیٹ نے اس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے نوجوان گھنٹوں اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ اس کاکیا فائدہ ہوا؟ تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر وقت ایک ویب سائٹ سے دوسری ویب سائٹ اور دوسری سے تیسری ویب سائٹ پر تلاش و جستجو میں گزرتا ہے، یقینا اس تلاش وجستجو سے فائدے بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب ان کے سامنے کوئی واضح مقصد ہو۔
عام طور پر نو عمر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں اور ایک سے دوسری ویب سائٹ کا وزٹ کرنے والوں کا مقصد کسی لڑکی یا لڑکے سے رابطہ کرنا ہوتا ہے جس کے بعد گھنٹوں فحش کلامی اور ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لیے غلط سلط معلومات کے تبادلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ایک بار میں نے ایک بچے کے والد سے پوچھا کہ ان کا بیٹا رات کو 2' 2 بجے تک کیوں جاگتا رہتا ہے تو ان صاحب نے جواب دیا کہ دراصل ان کا بیٹا کمپیوٹر پر گھر کے لیے دیا جانے والا کام کرتا رہتا ہے، حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پہلے ایسے کاموں کے لیے دارالمطالعہ یا لائبریری کا استعمال عام تھا اور گھر کے لیے دیئے جانے والے کام بالعموم لائبریری میں بیٹھ کر کئے جاتے تھے، لیکن اب اپنے کمروں میں بند ہو کر لڑکے اور لڑکیاں رات رات بھر کمپیوٹر پر گھر پر دئیے جانے والے کاموں کے بہانے نہ جانے کیا کیا کرتے رہتے ہیں، جبکہ ان کے والدین گہری نیند سوئے رہتے ہیں۔ آٰج ایسا دور ہے کہ ہر قسم کی برائی اب آپ کی انگلیوں کی معمولی ضرب سے آپ کو دستیاب ہو جاتی ہے۔
آپ کو اپنی انگلیوں سے بس چند الفاظ ٹائپ کرنا ہوں گے اور آپ کے سامنے برائی سے بھرپور ایک سے بڑھ کرایک ویب سائیٹ آ جائے گی، جس سے آپ کی آنکھ پہلے کبھی شناسا نہیں رہی ہو گی۔ یوں دل بتدریج برائی کی جانب مائل ہوتے رہتے ہیں جبکہ اس سے پہلے ایسا تصور بھی محال تھا۔
جاننے اور تجسس کے جذبے کے تحت نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جب پہلی بار ایسی تصویروں اور ایسے فحش کلام کو دیکھتے اور سنتے ہیں تو انہیں کچھ نہ کچھ گھبراہٹ ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن جب وہ مسلسل ایسا کام کرتے ہیں تو بالآخر انہیں ایسی تصاویر اور فحش کلامی میں کوئی خرابی محسوس نہیں ہوتی پھر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ خود ایسے کام کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ یوں یہ نوجوان بتدریج اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ عبادت اور بھلائی کے کام کرنا تو کجا ان کے دل اس برائی سے اتنے آلودہ ہو جاتے ہیں کہ انہیں گناہوں ہی میں لذت ملتی ہے۔
آج کل کے والدین کو بچوں اور نوجوانوں کو اپنے دوستوںکو بتانا چاہئے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھنا اور اسے گناہوں اور برائیوں سے بچانا ہر مسلمان کا فرض ہے اور تنہائی میں بھی حرام کاموں سے بچنا بہت ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب شعوری طور پر ہر مسلمان اور خاص کر نوجوانوں میں یہ احساس بدرجہ اتم موجود ہو کہ اللہ اسے اس کی تنہائی کے باوجود دیکھ رہا ہے اور اس کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ آخرت کی جوابدہی کا احساس بھی اس کام میں بڑی مدد دیتا ہے۔
مسلمان مردوں کی نسبت' مسلمان خواتین کو بہترین ماں بننے کا کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ'' مائوں کے قدموں تلے جنت ہے۔'' ماں ہی اسلامی بنیادوں پر اپنے بچے کی پرورش کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اسے ایک مثالی ماں بننا چاہیے اور اپنے بچوں کی ابتداء ہی سے ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ ہر برائی سے دور رہیں اور ہر اچھائی کو اختیار کریں، خواہ برائی اختیار کرنے کے لیے کتنے ہی مواقع کیوں نہ میسر ہوں۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت بھی یہی اصول مدنظر رکھا جانا چاہیے۔
ہماری نوجوانوں سے بھی استدعا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو مثبت مقاصد کیلئے استعمال کریں اور اس بڑھتی ہوئی برائی کو ہر طریقہ سے روکنے کی کوشش کریںکی جو ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں زہر کی طرح سرایت کر رہی ہے اور معاشرتی و اخلاقی انحطاط کا باعث بن رہی ہے۔
خاص طور پر متمول گھرانوں میں تو یہ اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں ہمارے معاشرے نے زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات کو اس طرح اپنایا ہے کہ ہماری اقدار بالکل ہی بدل کر رہ گئی ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی کی غیر متناسب اور ناہموار افزائش' ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایک مخصوص نوعیت کے کلچر نے معاشرے کی فطری سمت اور راہ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
یہ ایسی تبدیلی ہے جس کے بدترین نتائج نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کلچر کا نتیجہ یہ ہے کہ گناہ کو گناہ تصور ہی نہیں کیا جا رہا' جرائم روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں' اب مذہبی سکالرز اور سماجی بہبود کے کارکن تک اس ضرورت کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ معاشرے کو واپس اس کی فطری بنیادوں پر استوار کیے بغیر، اس معاشرے کے پنپنے کے کوئی مثبت امکانات نہیں ہیں۔
بالعموم ٹیلی ویژن کو معلومات کا ایک بہت اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور بے راہ رو کرنے والے دوسرے ذرائع کے مقابلے میں اسے سب پر فوقیت دی جاتی ہے، تاہم اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ میں ہونے والی پیشترفت کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ یہ ذرائع تعلیم سے زیادہ تفریحی ذرائع بن کر رہ گئے ہیں لیکن ایسی صورت میں کہ ایک مثالی مسلم معاشرہ قائم ہو جائے تو کیا ان ذرائع کا بہترین استعمال نہیں ہو سکتا ہے اور کیا ایسی صورت میں یہ ذرائع تعلیم اور ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟ ان سوالات کے واضح جوابات کی ضرورت ہے۔
آج کے مسلم معاشروں میں پیدا کیا جانے والا مخصوص کلچر مغربی اقوام کی دین ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ مغربی کلچر پوری دنیا پر محیط ہو اور یوں آج کی دنیا بے مقصد رنگ رلیوں میں مبتلا ہو جائے۔ چند عشروں قبل تک کی نوجوان نسل اس مغربی کلچر کی چکا چوند سے کم ہی متاثر ہوئی تھی اور اس دور کے نوجوان ایسے مناظر دیکھ کر اور ایسی باتیں سن کر پریشان و خوفزدہ ہو جایا کرتے تھے، جبکہ آج کا نوجوان ایسی چیزوں کا دلدادہ ہے اور اسے اساتذہ کی جانب سے گھر کے لیے دیا جانے والا کام کرنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی اور ان کی ساری توجہ ایسے مکالمے اور مناظر پر رہتی ہے' جس کے نتیجے میں ان کی نوجوانی بے مقصد تشدد' ہنگامے' فحش کلامی اور فحش کاموں کا شکار ہو جاتی ہے۔
آج بین الاقوامی میوزک چینلزپرنو عمری سے ہی بچے پاپ میوزک سنتے اور فلمیں دیکھتے ہیں۔ اس نو عمری میں اتنی طویل مدت تک میوزک سننے اور فحش حرکت و سکنات کو دیکھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کو بھی نہ صرف ایسے فحش کلام اور فحش حرکتوں کی لت پڑ جاتی ہے بلکہ اس کا بعض اوقات نتیجہ تشدد' بغاوت' منشیات' غیر فطری اور آزادانہ میل ملاپ کی صورت میں نکلتا ہے۔ کمرشل ٹیلی ویژن پر جو مناظر دکھائے جاتے ہیں وہ تو وہیں رہتے ہیں لیکن ان مناظر کے نتیجے میں نو عمر بچوں اور نوجوانوںکے ذہنی سانچے جس طرح ڈھلتے ہیں، اس کے سنگین نوعیت کے نتائج اور اثرات ان کی زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ان چینلز تک رسائی عالمگیر ہے بلکہ اب تو ہر ملک کا اپنا میوزک چینل ہے، جبکہ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد اس سے دو گنا ہے۔
میوزک ویڈیوز جنس' آبروریزی' قتل اور اس نوعیت کے دوسرے مناظر سے بھرپور ہوتی ہیں اور بچوں' بچیوں اور مرد خواتین سب ان کے یکساں طور پر اثرات قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ٹیلی ویژن پروگراموں کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ سب کچھ حق اور سچ نہیں ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کے مناظر کسی کو تشدد' فحش گوئی یا فحش حرکات کی جانب راغب نہیں کرتے اور نہ ہی مصائب' اذیتوں اور آلام سے انہیں بے حس بناتے ہیں، مگر ان کے ایسے دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کے مناظر دیکھنے والوں کے رویے اور برتائو پر غیر محسوس طور پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہی ٹیلی ویژن کے اسپانسرز کا مقصد ہے جو وہ بالواسطہ طور پر پورا کرتے ہیں۔
منفی عادات کو پروان چڑھانے والی ایک بڑی لعنت انٹرنیٹ بھی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ نو عمر نوجوان اس پر اپنا خاصا وقت برباد کرتے ہیں۔ پہلے وقت کا ضیاع کرنے کا کام صرف ٹی وی کرتا تھا اب انٹرنیٹ نے اس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے نوجوان گھنٹوں اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ اس کاکیا فائدہ ہوا؟ تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر وقت ایک ویب سائٹ سے دوسری ویب سائٹ اور دوسری سے تیسری ویب سائٹ پر تلاش و جستجو میں گزرتا ہے، یقینا اس تلاش وجستجو سے فائدے بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب ان کے سامنے کوئی واضح مقصد ہو۔
عام طور پر نو عمر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں اور ایک سے دوسری ویب سائٹ کا وزٹ کرنے والوں کا مقصد کسی لڑکی یا لڑکے سے رابطہ کرنا ہوتا ہے جس کے بعد گھنٹوں فحش کلامی اور ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لیے غلط سلط معلومات کے تبادلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ایک بار میں نے ایک بچے کے والد سے پوچھا کہ ان کا بیٹا رات کو 2' 2 بجے تک کیوں جاگتا رہتا ہے تو ان صاحب نے جواب دیا کہ دراصل ان کا بیٹا کمپیوٹر پر گھر کے لیے دیا جانے والا کام کرتا رہتا ہے، حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ پہلے ایسے کاموں کے لیے دارالمطالعہ یا لائبریری کا استعمال عام تھا اور گھر کے لیے دیئے جانے والے کام بالعموم لائبریری میں بیٹھ کر کئے جاتے تھے، لیکن اب اپنے کمروں میں بند ہو کر لڑکے اور لڑکیاں رات رات بھر کمپیوٹر پر گھر پر دئیے جانے والے کاموں کے بہانے نہ جانے کیا کیا کرتے رہتے ہیں، جبکہ ان کے والدین گہری نیند سوئے رہتے ہیں۔ آٰج ایسا دور ہے کہ ہر قسم کی برائی اب آپ کی انگلیوں کی معمولی ضرب سے آپ کو دستیاب ہو جاتی ہے۔
آپ کو اپنی انگلیوں سے بس چند الفاظ ٹائپ کرنا ہوں گے اور آپ کے سامنے برائی سے بھرپور ایک سے بڑھ کرایک ویب سائیٹ آ جائے گی، جس سے آپ کی آنکھ پہلے کبھی شناسا نہیں رہی ہو گی۔ یوں دل بتدریج برائی کی جانب مائل ہوتے رہتے ہیں جبکہ اس سے پہلے ایسا تصور بھی محال تھا۔
جاننے اور تجسس کے جذبے کے تحت نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جب پہلی بار ایسی تصویروں اور ایسے فحش کلام کو دیکھتے اور سنتے ہیں تو انہیں کچھ نہ کچھ گھبراہٹ ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن جب وہ مسلسل ایسا کام کرتے ہیں تو بالآخر انہیں ایسی تصاویر اور فحش کلامی میں کوئی خرابی محسوس نہیں ہوتی پھر ایک ایسا وقت آ جاتا ہے کہ وہ خود ایسے کام کرنے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ یوں یہ نوجوان بتدریج اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ عبادت اور بھلائی کے کام کرنا تو کجا ان کے دل اس برائی سے اتنے آلودہ ہو جاتے ہیں کہ انہیں گناہوں ہی میں لذت ملتی ہے۔
آج کل کے والدین کو بچوں اور نوجوانوں کو اپنے دوستوںکو بتانا چاہئے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھنا اور اسے گناہوں اور برائیوں سے بچانا ہر مسلمان کا فرض ہے اور تنہائی میں بھی حرام کاموں سے بچنا بہت ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب شعوری طور پر ہر مسلمان اور خاص کر نوجوانوں میں یہ احساس بدرجہ اتم موجود ہو کہ اللہ اسے اس کی تنہائی کے باوجود دیکھ رہا ہے اور اس کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ آخرت کی جوابدہی کا احساس بھی اس کام میں بڑی مدد دیتا ہے۔
مسلمان مردوں کی نسبت' مسلمان خواتین کو بہترین ماں بننے کا کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ'' مائوں کے قدموں تلے جنت ہے۔'' ماں ہی اسلامی بنیادوں پر اپنے بچے کی پرورش کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اسے ایک مثالی ماں بننا چاہیے اور اپنے بچوں کی ابتداء ہی سے ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ ہر برائی سے دور رہیں اور ہر اچھائی کو اختیار کریں، خواہ برائی اختیار کرنے کے لیے کتنے ہی مواقع کیوں نہ میسر ہوں۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت بھی یہی اصول مدنظر رکھا جانا چاہیے۔
ہماری نوجوانوں سے بھی استدعا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو مثبت مقاصد کیلئے استعمال کریں اور اس بڑھتی ہوئی برائی کو ہر طریقہ سے روکنے کی کوشش کریںکی جو ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں زہر کی طرح سرایت کر رہی ہے اور معاشرتی و اخلاقی انحطاط کا باعث بن رہی ہے۔