کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔۔۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کے لیے 17 ارب روپے درکار تھے، جس کی وجہ سے عدالتی حکم پر عمل درآمد میں تاخیر ہوتی رہی۔
ہمارے ملک کے نظر انداز شعبوں میں صحت کا شعبہ سر فہرست ہے اور جب خواتین کی صحت کی بات کی جائے تو صورت حال اور بھی خراب ہو جاتی ہے۔
خواتین اور بچوں کی صحت کے حوالے سے ہمارے ہاں لیڈی ہیلتھ ورکر کا کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے، خصوصاً ملک کے پس ماندہ علاقوں میں خواتین کی صحت کی بہتری میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری ثقافتی روایات کے باعث بہت سے علاقوں میں خواتین کی شرح اموات اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ وہاں کوئی خاتون معالج میسر نہیں!
یوں ایسے علاقوں میں ناکافی طبی سہولیات اور بھی سکڑ جاتی ہیں، جب کہ خواتین کی صحت کے بہت سے معاملات میں کسی طبی ماہر کی موجودگی نہایت ضروری ہوتی ہے ، اسی لیے خواتین کی صحت کے حوالے سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی اہمیت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں میں مختلف امراض کے حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے کے باعث آج پھر بہت سے مہلک امراض سر اٹھا رہے ہیں۔ پولیو کے بعد اب خسرہ اور نمونیے نے بھی چھوٹے بچوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جس کی وجہ ناکافی سہولیات اور لوگوں میں صحت کے حوالے سے آگاہی اور شعور کا نہ ہونا ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز جہاں خواتین کی صحت کے لیے متحرک رہتی ہیں، وہیں ننھے بچوں کی صحت کے حوالے سے بھی اپنا فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صحت کی بنیادی سہولیات گھر کی دہلیز پر پہنچانے والی ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی بہبود پر بھی خاطر خواہ توجہ دی جاتی تاکہ ملک کے دیہی علاقوں میں خواتین کو خاطر خواہ طبی سہولیات میسر ہوں، بالخصوص نومولود بچوں اور مائوں کی شرح اموات میں کمی آئے اور ان کی صحت بہتر ہو تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا تحفظ اور ان کی بہتر پرورش ہو سکے، لیکن ایسا نہ ہوا۔
الٹا جب صحت کی اس اہم ذمہ داری پر مامور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے تن خواہوں کی بروقت ادائیگی اور مستقلی کے مطالبات کیے تو انہیں پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بالآخر مارچ 2012ء میں سپریم کورٹ نے کنٹریکٹ پر رکھی جانے والی ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جانب سے مستقل کیے جانے کے مطالبے کا از خود نوٹس لیا اور جون 2012ء میں ان کی مستقلی کا حکم دے دیا گیا۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کیے جانے کے لیے 17 ارب روپے درکار تھے، جس کی وجہ سے عدالتی حکم پر عمل درآمد میں تاخیر ہوتی رہی۔ ساتھ ہی کچھ آئینی موشگافیوں کے باعث بھی یہ معاملہ التوا کا شکار رہا، کیوں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کی سطح پر صحت کا محکمہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب یہ مکمل طور پر صوبوں کا اختیار ہے لہٰذا لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کیے جانے کے اخراجات اب ہر صوبے نے اپنے طور پر برداشت کرنے تھے، جب کہ صوبوں کی جانب سے سرمائے کی کمی کا عذر سامنے آ رہا تھا۔
آخر کار وفاق نے اس ضمن میں تمام اخراجات خود برداشت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ صحت عامہ کا یہ مسئلہ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو، کیوں کہ امورِ صحت کی مرکزیت کے خاتمے کے باوجود لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تن خواہیں وفاق کی جانب سے ہی ادا کی جا رہی تھیں۔ تاہم اب توقع ہے کہ مستقبل قریب میں صوبے وفاق کے ساتھ مل کر اس اہم پروگرام کے معاملے پر کوئی بہتر طریقہ کار وضع کر لیں گے۔
مستقل کی جانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار سے زاید ہے۔ وزیراعظم راجا پرویز اشرف کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے میں ریٹائرڈ ہو جانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پنشن دینے کی بھی منظوری دی گئی ہے، جب کہ چاروں صوبوں، فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کے معاون عملے کو بھی مستقل کیا گیا ہے۔ مستقلی کا اطلاق یکم جولائی 2012ء سے کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے واجبات کی ادائیگی سمیت اس اقدام سے پڑنے والے مالی اثرات کے حوالے سے وفاقی حکومت کے صوبوں سے معاہدے کی بھی منظوری دی ہے۔
نیشنل پروگرام فار فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کئیر سندھ کے کو آرڈینیٹر ڈاکٹر سیف اللہ قائم خانی کے مطابق اس وقت صوبے میں 22 ہزار 576 لیڈی ہیلتھ ورکرز، 770 لیڈیز ہیلتھ سپروائزر اور 668 ڈرائیورز اوردیگر عملہ ہے اور یہ تمام عملہ نیشنل پروگرام فارفیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کئیر کے ماتحت کام کر رہا ہے۔
ملک بھر میںلیڈی ہیلتھ ورکرز 20 سال سے نیشنل پروگرام فار فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کئیر کے تحت کنٹریکٹ پر کام کر رہی تھیں جنہیں ماہانہ اعزازیہ صرف 7 ہزار روپے دیا جا رہا تھا، اس سے قبل انہیں صرف 32 سو روپے ملتے تھے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مستقلی کے بعد لیڈی ہیلتھ ورکرز کو گریڈ 5 جب کہ لیڈیز ہیلتھ سپروائزروں کو گریڈ 7 میں تقرری کی جائے گی، جہاں ان کی ماہانہ تن خواہیں 12 ہزار سے 14 ہزار روپے تک ہوں گی۔
ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور انتہاپسندی کی لہر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔پرسکون انداز میں کام کرنے کے لیے اس وقت انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو جو ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں، وہ اس طرح کے عارضی ملازمین کے سونپے جانا بہتر نہ تھا۔ یہ نامساعد حالات میں نہایت بنیادی سطح پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔
اگرچہ ان کے فرائض کے درمیان خطرات تو موجود ہیں، تاہم بعض اوقات انہیں نہایت سنگین نوعیت کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے والی ان خواتین کارکنوں کو حکومت کم ازکم اچھا مالی پیکیج اور ملازمت کا تحفظ تو فراہم کر ہی سکتی ہے اور انہیں مستقل کرنا بلاشبہ اس جانب ایک اہم قدم قرار دیا جاسکتا ہے، اس سے نہ صرف لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مسائل حل ہوں گے بلکہ صحت کے خراب ہوتے معاملات کی بھی بہتر ہونے کی امید ہے۔
خواتین اور بچوں کی صحت کے حوالے سے ہمارے ہاں لیڈی ہیلتھ ورکر کا کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے، خصوصاً ملک کے پس ماندہ علاقوں میں خواتین کی صحت کی بہتری میں ان کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری ثقافتی روایات کے باعث بہت سے علاقوں میں خواتین کی شرح اموات اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ وہاں کوئی خاتون معالج میسر نہیں!
یوں ایسے علاقوں میں ناکافی طبی سہولیات اور بھی سکڑ جاتی ہیں، جب کہ خواتین کی صحت کے بہت سے معاملات میں کسی طبی ماہر کی موجودگی نہایت ضروری ہوتی ہے ، اسی لیے خواتین کی صحت کے حوالے سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی اہمیت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بچوں میں مختلف امراض کے حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے کے باعث آج پھر بہت سے مہلک امراض سر اٹھا رہے ہیں۔ پولیو کے بعد اب خسرہ اور نمونیے نے بھی چھوٹے بچوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جس کی وجہ ناکافی سہولیات اور لوگوں میں صحت کے حوالے سے آگاہی اور شعور کا نہ ہونا ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز جہاں خواتین کی صحت کے لیے متحرک رہتی ہیں، وہیں ننھے بچوں کی صحت کے حوالے سے بھی اپنا فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صحت کی بنیادی سہولیات گھر کی دہلیز پر پہنچانے والی ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی بہبود پر بھی خاطر خواہ توجہ دی جاتی تاکہ ملک کے دیہی علاقوں میں خواتین کو خاطر خواہ طبی سہولیات میسر ہوں، بالخصوص نومولود بچوں اور مائوں کی شرح اموات میں کمی آئے اور ان کی صحت بہتر ہو تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا تحفظ اور ان کی بہتر پرورش ہو سکے، لیکن ایسا نہ ہوا۔
الٹا جب صحت کی اس اہم ذمہ داری پر مامور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے تن خواہوں کی بروقت ادائیگی اور مستقلی کے مطالبات کیے تو انہیں پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بالآخر مارچ 2012ء میں سپریم کورٹ نے کنٹریکٹ پر رکھی جانے والی ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جانب سے مستقل کیے جانے کے مطالبے کا از خود نوٹس لیا اور جون 2012ء میں ان کی مستقلی کا حکم دے دیا گیا۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کیے جانے کے لیے 17 ارب روپے درکار تھے، جس کی وجہ سے عدالتی حکم پر عمل درآمد میں تاخیر ہوتی رہی۔ ساتھ ہی کچھ آئینی موشگافیوں کے باعث بھی یہ معاملہ التوا کا شکار رہا، کیوں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کی سطح پر صحت کا محکمہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اب یہ مکمل طور پر صوبوں کا اختیار ہے لہٰذا لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کیے جانے کے اخراجات اب ہر صوبے نے اپنے طور پر برداشت کرنے تھے، جب کہ صوبوں کی جانب سے سرمائے کی کمی کا عذر سامنے آ رہا تھا۔
آخر کار وفاق نے اس ضمن میں تمام اخراجات خود برداشت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ صحت عامہ کا یہ مسئلہ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو، کیوں کہ امورِ صحت کی مرکزیت کے خاتمے کے باوجود لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تن خواہیں وفاق کی جانب سے ہی ادا کی جا رہی تھیں۔ تاہم اب توقع ہے کہ مستقبل قریب میں صوبے وفاق کے ساتھ مل کر اس اہم پروگرام کے معاملے پر کوئی بہتر طریقہ کار وضع کر لیں گے۔
مستقل کی جانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار سے زاید ہے۔ وزیراعظم راجا پرویز اشرف کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے میں ریٹائرڈ ہو جانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پنشن دینے کی بھی منظوری دی گئی ہے، جب کہ چاروں صوبوں، فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کے معاون عملے کو بھی مستقل کیا گیا ہے۔ مستقلی کا اطلاق یکم جولائی 2012ء سے کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے واجبات کی ادائیگی سمیت اس اقدام سے پڑنے والے مالی اثرات کے حوالے سے وفاقی حکومت کے صوبوں سے معاہدے کی بھی منظوری دی ہے۔
نیشنل پروگرام فار فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کئیر سندھ کے کو آرڈینیٹر ڈاکٹر سیف اللہ قائم خانی کے مطابق اس وقت صوبے میں 22 ہزار 576 لیڈی ہیلتھ ورکرز، 770 لیڈیز ہیلتھ سپروائزر اور 668 ڈرائیورز اوردیگر عملہ ہے اور یہ تمام عملہ نیشنل پروگرام فارفیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کئیر کے ماتحت کام کر رہا ہے۔
ملک بھر میںلیڈی ہیلتھ ورکرز 20 سال سے نیشنل پروگرام فار فیملی پلاننگ اینڈ پرائمری ہیلتھ کئیر کے تحت کنٹریکٹ پر کام کر رہی تھیں جنہیں ماہانہ اعزازیہ صرف 7 ہزار روپے دیا جا رہا تھا، اس سے قبل انہیں صرف 32 سو روپے ملتے تھے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مستقلی کے بعد لیڈی ہیلتھ ورکرز کو گریڈ 5 جب کہ لیڈیز ہیلتھ سپروائزروں کو گریڈ 7 میں تقرری کی جائے گی، جہاں ان کی ماہانہ تن خواہیں 12 ہزار سے 14 ہزار روپے تک ہوں گی۔
ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور انتہاپسندی کی لہر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔پرسکون انداز میں کام کرنے کے لیے اس وقت انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو جو ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں، وہ اس طرح کے عارضی ملازمین کے سونپے جانا بہتر نہ تھا۔ یہ نامساعد حالات میں نہایت بنیادی سطح پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔
اگرچہ ان کے فرائض کے درمیان خطرات تو موجود ہیں، تاہم بعض اوقات انہیں نہایت سنگین نوعیت کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے والی ان خواتین کارکنوں کو حکومت کم ازکم اچھا مالی پیکیج اور ملازمت کا تحفظ تو فراہم کر ہی سکتی ہے اور انہیں مستقل کرنا بلاشبہ اس جانب ایک اہم قدم قرار دیا جاسکتا ہے، اس سے نہ صرف لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مسائل حل ہوں گے بلکہ صحت کے خراب ہوتے معاملات کی بھی بہتر ہونے کی امید ہے۔