شہر میں آنے کے بعد
میرے جیسے شہروں کے رہنے والے لوگ گرم سرد موسم کا حساب رکھتے ہیں وہ اپنا حساب بدلتے رہتے ہیں
ہم دیہات کے رہنے والے جب روزی روزگار کے لیے کسی شہر میں منتقل ہو جاتے ہیں تو سچ بات یہ ہے کہ نہ گھر کے رہتے ہیں اور نہ گھاٹ کے، نہ دیہاتی رہتے ہیں نہ شہری بن پاتے ہیں۔یہ محاورہ کچھ اچھا نہیں لگتا لیکن کبھی حالات کے عین مطابق بھی ہو جاتا ہے یعنی جب نہ آپ کو گاؤں میں سکون ملتا ہو نہ شہر میں تو پھر اسے کیا کہیں ۔ گاؤں کے مقابلے میں شہر میں نہ گاؤں والی گرمی اور نہ شہر والی خنکی۔ ایک نیم سرد علاقے میں جہاں ہر طرف سر سبز اور شاداب پہاڑ لیکن جن کی ہوا ضروری نہیں ان پہاڑوں کی طرح شاداب اور خنک بھی ہو۔
میرے جیسے شہروں کے رہنے والے لوگ گرم سرد موسم کا حساب رکھتے ہیں وہ اپنا حساب بدلتے رہتے ہیں کبھی تو وہ سرد علاقے کے رہنے والوں پر رشک کرتے ہیں اور ان کو میسر ٹھنڈی اور خنک ہواؤں کے بارے میں گرم گرم آہیں بھرتے ہیں لیکن ان کی قسمت میں شہروں کی گرم یا نیم گرم ہوا ہی آتی ہے۔ بہر کیف وہ اسی گرم یا نیم گرم ہوا میں ہی دن رات بسر کرتے ہیں اور اسی حساب سے صبح سے شام کرتے ہیں اور اسی گرم و سرد موسم کے محتاج رہتے ہیں ۔ موسم کی یہی رنگینی جسے ہمارے موسم کی کیفیت کا حساب کتاب رکھنے والے جو بھی سمجھیں یہ ہماری شہری اور دیہات کی زندگی کا فرق جو ہے۔ اس کی قیمت کوئی سی بھی ہو یہی قدرت کی طرف سے عنایت ہوتی ہے اور یہ پسند ہو یا نہ ہو اسی پر صبر کرنا پڑتا ہے اور اسی کے اندر گزر بسر کرنی ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں انسان پسند یا نا پسند کے موسم کی قیمت ادا کرتا ہے اور اگر وہ یہ ادا نہیں کرتا تو موسم تو وہی ہو گا جو ہے لیکن انسان کو اس موسم کا مقابلہ کرنے کی آسانیاں حاصل نہیں ہو سکیں گی۔
موسم کو اگر خریدا جا سکتا تو ہمارے صاحب حیثیت لوگ ہمیشہ معتدل موسم میں زندگی بسر کرتے اور گرمی ان کے قریب بھی نہ پھٹکتی اور دور ہی رہتی۔ ویسے اب بھی حالات کچھ اس سے ملتے جلتے ہیں جب سرد مغربی دنیا کے رہنے والے لوگ ہمارے ہاں کسی ملازمت یا روزگار کے لیے آتے ہیں یا انھیںآنا پڑتا ہے تو وہ اپنی پسند کا موسم ساتھ لے آتے ہیں یعنی گرمی کے موسم میں ائر کنڈیشنر اور سردی کے موسم میں ہیٹر ۔ ان دونوں نے وقتی طور پر ہمارا موسم بدل دیا ہے اور ہم ان مشینوں کی بدولت ہی سرد و گرم موسم کا لطف اٹھاتے ہیں ۔
اب تک دونوں موسم ہمارے قبضے میں رہے جی چاہا تو سردیوں میں گرم ہو گئے اور گرمیوں میں ائر کنڈیشنڈ کی مدد سے سرد لیکن اس کی قیمت ادا کر کے جو ان دنوں بجلی کی صورت میں ادا ہوتی ہے اس ضمن میں کچھ عرض کرنے کی گنجائش نہیں کہ جس چیز کی قیمت بجلی کی قیمت کے مطابق ہو وہ کتنی ہو گی اور وہ آپ کی توفیق سے باہر ہی ہو گی۔
چنانچہ یہ طے ہے کہ موسم خریدا نہیں جا سکتا ، غضب یہ کہ بکتا ہے اور اس کو بکتے ہوئے آپ گھروں کی بیرونی دیواروں سے دیکھ سکتے ہیں کہ جب ائر کنڈیشنر چلتا ہے تو گھر کے اندر موجود لوگوں کے لیے موسم کی سختی کو نرمی میں بدل دیتا ہے لیکن آج کل کے دور میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے آپ اور ہم ہر ماہ اسی بھاری قیمت کے بوجھ تلے دبتے ہیں اور نکلتے ہیں اور ہر ماہ ان ٹھنڈی مشینوں کے استعمال کا خراج آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے اور آپ ہر ماہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ یا تو یہ ٹھنڈی مشین لگائی نہ ہوتی کہ اب ہر صورت میںماہ بہ ماہ اس کا بل ادا کرنے کا سامان کرنا پڑتا ہے ۔ایئر کنڈیشنر اور بجلی کے بل کی ادائیگی ان دونوں میں سے کون سا معاملہ آسان ہے اس کا فیصلہ حالات پر چھوڑ دیں اور اس مبار ک مہینے میں روزی کی کشادگی کی دعا مانگ لیں یا پھر کہیں سے طویل المیعاد قرض کا بندوبست کر لیں لیکن یہ دونوں طریقے بظاہر آسان نہیں ہیں ۔
موسم کو حالات کے تابع کرنا عام انسانوں کا کام نہیں بلکہ اس کے لیے بھی اشرافیہ ہی مختص ہوئی ہے کہ اشرافیہ ہی وہ وسائل رکھتی ہے جو کہ موسم کو اس کی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ورنہ آج کل کے گرم موسم میں تو عام آدمی کو اگر پنکھے کی ہوا ہی میسر آجائے تو غنیمت ہے کیونکہ یہ ہوا بھی بجلی کے مرہون منت ہے اور یہ بجلی ہماری اشرافیہ کے جو کہ اس کی پیداوار کے ذمے دار بھی ہیں اور اس کو عوام تک پہنچانے کا بندوبست بھی انھی کے ذمے ہے لیکن یہاں پر بھی اشرافیہ عوام کو ڈنڈی مار جاتی ہے اور شہروں کے مخصوص علاقوں میں جہاں پر اشرافیہ رہتی ہے وہاں پر تو یہ بجلی زیادہ دیر کے لیے اپنا جلوہ دکھاتی ہے لیکن اسی شہر میں جہاں پر اشرافیہ کی نظر میں کم حیثیت والے لوگ بستے ہیں ان کو بجلی کی فراہمی میں بھی کنجوسی کی حد تک کمی کی جاتی ہے دوسرے لفظوں میں ان کو زیادہ لوڈشیڈنگ کا عذاب سہنا پڑتا ہے اور اشرافیہ اپنے آرام کے لیے ایئر کنڈیشنر کے ذریعے ٹھنڈی ہواؤں کے ہلکورے لینے کے لیے بجلی کا استعمال زیادہ کرتی ہے کیونکہ اس کے بس میں بجلی کا بل ادا کرنے کی طاقت بھی ہوتی ہے۔
آج کل کے شدید گرم موسمی حالات کے ساتھ ماہ رمضان بھی ہے جس میں ہر مسلمان پر روزے فرض اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اﷲکی رضا کے لیے روزے رکھے کیونکہ اﷲپاک فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجر دوں گا ۔ اس فرض کی ادائیگی میں آسانیاں فراہم کرنے کی ہر انسان کی خواہش بھی ہوتی ہے اور برکتوں والے اس مہینے میں نیکیاں سمیٹنے کی کوشش بھی لیکن ایک تو موسم روزہ داروں کا ناقابل برداشت حد تک امتحان لے رہا ہے اور دوسرے طرف بجلی کی فراہمی میں ناکامی کی صورت میں حکومت روزہ داروں کی بد دعائیں سمیٹ رہی ہے۔
ملک کے ہر شہر سے روز بجلی کے نہ ہونے کی صورت میں ہنگاموں کی خبریں دیکھی اور پڑھی جا رہی ہیں اور اب تو اس بجلی کی کمی کے بارے میں احتجاج کرتے ہوئے لوگ اپنی جان سے بھی جا رہے ہیں کہ حکومت اپنے وعدوں کے مطابق بجلی تو دے نہیں پا رہی لیکن لوگوں کو بندوقوں کی بے رحم گولیوں کا نشانہ بنا رہی ہے اب تو اﷲ کی ذات ہی ہے جو اپنے معصوم روزہ داروں کی سختیوں میں ابرِ کرم کی صورت میں کمی کا سامان کرے جو معصوم روزہ داروں کے لیے ٹھنڈی ہوا کاجھونکا ثابت ہو اور وہ بھی اشرافیہ کے ائر کنڈیشنر کی طرح اﷲ کی رحمت سے قدرتی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
میرے جیسے شہروں کے رہنے والے لوگ گرم سرد موسم کا حساب رکھتے ہیں وہ اپنا حساب بدلتے رہتے ہیں کبھی تو وہ سرد علاقے کے رہنے والوں پر رشک کرتے ہیں اور ان کو میسر ٹھنڈی اور خنک ہواؤں کے بارے میں گرم گرم آہیں بھرتے ہیں لیکن ان کی قسمت میں شہروں کی گرم یا نیم گرم ہوا ہی آتی ہے۔ بہر کیف وہ اسی گرم یا نیم گرم ہوا میں ہی دن رات بسر کرتے ہیں اور اسی حساب سے صبح سے شام کرتے ہیں اور اسی گرم و سرد موسم کے محتاج رہتے ہیں ۔ موسم کی یہی رنگینی جسے ہمارے موسم کی کیفیت کا حساب کتاب رکھنے والے جو بھی سمجھیں یہ ہماری شہری اور دیہات کی زندگی کا فرق جو ہے۔ اس کی قیمت کوئی سی بھی ہو یہی قدرت کی طرف سے عنایت ہوتی ہے اور یہ پسند ہو یا نہ ہو اسی پر صبر کرنا پڑتا ہے اور اسی کے اندر گزر بسر کرنی ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں انسان پسند یا نا پسند کے موسم کی قیمت ادا کرتا ہے اور اگر وہ یہ ادا نہیں کرتا تو موسم تو وہی ہو گا جو ہے لیکن انسان کو اس موسم کا مقابلہ کرنے کی آسانیاں حاصل نہیں ہو سکیں گی۔
موسم کو اگر خریدا جا سکتا تو ہمارے صاحب حیثیت لوگ ہمیشہ معتدل موسم میں زندگی بسر کرتے اور گرمی ان کے قریب بھی نہ پھٹکتی اور دور ہی رہتی۔ ویسے اب بھی حالات کچھ اس سے ملتے جلتے ہیں جب سرد مغربی دنیا کے رہنے والے لوگ ہمارے ہاں کسی ملازمت یا روزگار کے لیے آتے ہیں یا انھیںآنا پڑتا ہے تو وہ اپنی پسند کا موسم ساتھ لے آتے ہیں یعنی گرمی کے موسم میں ائر کنڈیشنر اور سردی کے موسم میں ہیٹر ۔ ان دونوں نے وقتی طور پر ہمارا موسم بدل دیا ہے اور ہم ان مشینوں کی بدولت ہی سرد و گرم موسم کا لطف اٹھاتے ہیں ۔
اب تک دونوں موسم ہمارے قبضے میں رہے جی چاہا تو سردیوں میں گرم ہو گئے اور گرمیوں میں ائر کنڈیشنڈ کی مدد سے سرد لیکن اس کی قیمت ادا کر کے جو ان دنوں بجلی کی صورت میں ادا ہوتی ہے اس ضمن میں کچھ عرض کرنے کی گنجائش نہیں کہ جس چیز کی قیمت بجلی کی قیمت کے مطابق ہو وہ کتنی ہو گی اور وہ آپ کی توفیق سے باہر ہی ہو گی۔
چنانچہ یہ طے ہے کہ موسم خریدا نہیں جا سکتا ، غضب یہ کہ بکتا ہے اور اس کو بکتے ہوئے آپ گھروں کی بیرونی دیواروں سے دیکھ سکتے ہیں کہ جب ائر کنڈیشنر چلتا ہے تو گھر کے اندر موجود لوگوں کے لیے موسم کی سختی کو نرمی میں بدل دیتا ہے لیکن آج کل کے دور میں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے آپ اور ہم ہر ماہ اسی بھاری قیمت کے بوجھ تلے دبتے ہیں اور نکلتے ہیں اور ہر ماہ ان ٹھنڈی مشینوں کے استعمال کا خراج آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے اور آپ ہر ماہ اسی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں کہ یا تو یہ ٹھنڈی مشین لگائی نہ ہوتی کہ اب ہر صورت میںماہ بہ ماہ اس کا بل ادا کرنے کا سامان کرنا پڑتا ہے ۔ایئر کنڈیشنر اور بجلی کے بل کی ادائیگی ان دونوں میں سے کون سا معاملہ آسان ہے اس کا فیصلہ حالات پر چھوڑ دیں اور اس مبار ک مہینے میں روزی کی کشادگی کی دعا مانگ لیں یا پھر کہیں سے طویل المیعاد قرض کا بندوبست کر لیں لیکن یہ دونوں طریقے بظاہر آسان نہیں ہیں ۔
موسم کو حالات کے تابع کرنا عام انسانوں کا کام نہیں بلکہ اس کے لیے بھی اشرافیہ ہی مختص ہوئی ہے کہ اشرافیہ ہی وہ وسائل رکھتی ہے جو کہ موسم کو اس کی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں ورنہ آج کل کے گرم موسم میں تو عام آدمی کو اگر پنکھے کی ہوا ہی میسر آجائے تو غنیمت ہے کیونکہ یہ ہوا بھی بجلی کے مرہون منت ہے اور یہ بجلی ہماری اشرافیہ کے جو کہ اس کی پیداوار کے ذمے دار بھی ہیں اور اس کو عوام تک پہنچانے کا بندوبست بھی انھی کے ذمے ہے لیکن یہاں پر بھی اشرافیہ عوام کو ڈنڈی مار جاتی ہے اور شہروں کے مخصوص علاقوں میں جہاں پر اشرافیہ رہتی ہے وہاں پر تو یہ بجلی زیادہ دیر کے لیے اپنا جلوہ دکھاتی ہے لیکن اسی شہر میں جہاں پر اشرافیہ کی نظر میں کم حیثیت والے لوگ بستے ہیں ان کو بجلی کی فراہمی میں بھی کنجوسی کی حد تک کمی کی جاتی ہے دوسرے لفظوں میں ان کو زیادہ لوڈشیڈنگ کا عذاب سہنا پڑتا ہے اور اشرافیہ اپنے آرام کے لیے ایئر کنڈیشنر کے ذریعے ٹھنڈی ہواؤں کے ہلکورے لینے کے لیے بجلی کا استعمال زیادہ کرتی ہے کیونکہ اس کے بس میں بجلی کا بل ادا کرنے کی طاقت بھی ہوتی ہے۔
آج کل کے شدید گرم موسمی حالات کے ساتھ ماہ رمضان بھی ہے جس میں ہر مسلمان پر روزے فرض اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اﷲکی رضا کے لیے روزے رکھے کیونکہ اﷲپاک فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجر دوں گا ۔ اس فرض کی ادائیگی میں آسانیاں فراہم کرنے کی ہر انسان کی خواہش بھی ہوتی ہے اور برکتوں والے اس مہینے میں نیکیاں سمیٹنے کی کوشش بھی لیکن ایک تو موسم روزہ داروں کا ناقابل برداشت حد تک امتحان لے رہا ہے اور دوسرے طرف بجلی کی فراہمی میں ناکامی کی صورت میں حکومت روزہ داروں کی بد دعائیں سمیٹ رہی ہے۔
ملک کے ہر شہر سے روز بجلی کے نہ ہونے کی صورت میں ہنگاموں کی خبریں دیکھی اور پڑھی جا رہی ہیں اور اب تو اس بجلی کی کمی کے بارے میں احتجاج کرتے ہوئے لوگ اپنی جان سے بھی جا رہے ہیں کہ حکومت اپنے وعدوں کے مطابق بجلی تو دے نہیں پا رہی لیکن لوگوں کو بندوقوں کی بے رحم گولیوں کا نشانہ بنا رہی ہے اب تو اﷲ کی ذات ہی ہے جو اپنے معصوم روزہ داروں کی سختیوں میں ابرِ کرم کی صورت میں کمی کا سامان کرے جو معصوم روزہ داروں کے لیے ٹھنڈی ہوا کاجھونکا ثابت ہو اور وہ بھی اشرافیہ کے ائر کنڈیشنر کی طرح اﷲ کی رحمت سے قدرتی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہو سکیں۔