قومی میزانیہ اور عوام
اس قسم کے میزانیے عوام کو مزید مہنگائی کے چنگل میں جکڑنے کے سوا کچھ نہیں دیتے
RAWALPINDI:
جمعہ (26مئی ) کو وفاقی بجٹ پیش کیا گیا، جو بیشتر اہداف کی عدم تکمیل اور بھاری قرضوں کے حصول کا عکاس ہے۔ قومی میزانیہ میں اگر عام آدمی کی ٹھوس اور دیرپا ترقی اور فلاح کے لیے رقم مختص نہیں، تو یہ محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہی کہلائے گا۔ یہ بھی طے ہے کہ جس ملک کی پوری معیشت کا انحصار بیرونی اور اندرونی قرضوں پر ہو، اس پر مرزا غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ:
قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس قسم کے میزانیے عوام کو مزید مہنگائی کے چنگل میں جکڑنے کے سوا کچھ نہیں دیتے۔ نہ ان کی حالت زار بدلتی ہے اور نہ ان کی زندگیوں میں امید کی کوئی کرن روشن ہوتی ہے۔ حالیہ بجٹ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان سروں پر منڈلا رہا ہے۔ جس سے وہ طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، جو پہلے ہی سماجی اور معاشی طور پر زد پذیر ہیں۔ حالیہ بجٹ میں صدر مملکت کی ماہانہ تنخواہ میں 6 لاکھ روپے اور ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کے اخراجات میں 17 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جب کہ محنت کشوں کے لیے کم سے کم اجرت میں صرف ایک ہزار روپے ماہانہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ان اقدامات سے حکمران اشرافیہ کے Mindsetکو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
جس روز قومی میزانیہ کا اعلان ہوا، اسی شب، ایک نجی چینل سے یہ خبر نشر ہوئی کہ ایک نابینا بوڑھی عورت ، جس کی بیٹی کو کینسر کا مرض لاحق ہے، گھر کے باہر چھوٹی موٹی اشیا بیچ کر بیٹی کا علاج معالجہ اور نواسا ، نواسی کا پیٹ بھرنے کی مقدور بھر کوشش کررہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ پنجاب حکومت یا کوئی صاحب ثروت اس کی بیٹی کا علاج کروادے۔ ایسی خبریں اکثر و بیشتر نشر اور شایع ہوتی رہتی ہیں۔ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اکثر صوبائی اور وفاقی حکومتیں حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر ایسے کسی نادار کی مدد کا اعلان کردیتی ہیں یا کوئی صاحب ثروت رضائے الٰہی کی خاطر بیمار کے علاج کی ذمے داری اٹھا لیتا ہے۔ نجی طور پر جس امداد کا اعلان کیا جاتا ہے، وہ تو ضرورت مندوں تک پہنچ جاتی ہے، مگر حکومتی اعلانات محض اعلانات ہی رہتے ہیں، کیونکہ نوکرشاہی کا سرخ فیتہ آڑے آجاتا ہے۔
اس سلسلے میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اول، کیا سرکاری یا نجی شعبے کی جانب سے کسی مفلس ونادار کی انفرادی طور پر امداد اس مسئلے کا حل ہے؟ دوئم، کیا اس مسئلے کے حل کے لیے کسی ٹھوس، وسیع البنیاد اور پائیدار پالیسی کی ضرورت نہیں ہے؟ سوئم، کیا اس مسئلے کے حل کے لیے قومی میزانیہ میں رقم کا مختص کیا جانا ناممکنات میں سے ہے؟ اگر ملک کے شہریوں کی سماجی اور اقتصادی حالت کی بنیاد پر درجہ بندی کی جائے، تو صرف10فیصد آبادی کو زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔ 35 فیصد آبادی محدود آمدنی کے ساتھ تین درجات (اوپری متوسط، متوسط اورنچلے متوسط) میں منقسم ہے۔ یہ طبقہ اپنی زندگی کو جیسے تیسے گذار رہا ہے۔ یعنی کچھ خوشگوار، کچھ ہنستے گاتے اور کچھ روتے رلاتے۔ لیکن ملک کی 55فیصد آبادی غربت و افلاس کی چکی میں پس رہی ہے۔ ان کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی تو دور کی بات، دو وقت کی پیٹ بھر روٹی کا حصول بھی مشکل ہے۔ یہی طبقہ حقیقی معنی میں زد پذیر(Vulnerable)ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ حقوق انسانی کے عالمگیر اعلان نامہ(Universal Declaration of Human Rights)کی شق 22کے مطابق ،'' معاشرے کے رکن کی حیثیت سے ہر فرد کو سماجی تحفظ کا حق حاصل ہے جس کا حصول قومی کوششوں اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر ریاست کو اپنے وسائل کا استعمال اور تنظیم کرنا ہوگی۔ اس شخص کی معاونت کرتے وقت یہ خیال رکھنا ہوگا کہ کسی فرد کے معاشی، سماجی اور ثقافتی اقدار کا تحفظ اس کے وقار اور شخصیت کی آزادانہ نمو کے لیے ناگزیر ہے'' لہٰذا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے ضعیف العمر، اپاہج اور بے روزگار افراد کے لیے سماجی تحفظ کا مربوط ملک گیر نظام قائم کررکھا ہے۔
برطانوی قانون کے مطابق،''بے روزگار اور نامناسب آمدنی والے افراد/خاندانوں کو ریاست مالی تعاون فراہم کرے گی۔'' امریکا کا آئین اس سلسلے میں کہتا ہے کہ ''ضعیف العمر، اپاہج اور بے روزگار افراد کے لیے وفاقی حکومت انشورنس مہیا کرنے کی پابند ہے'' پاکستان میں سماجی تحفظ کا پروگرام انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO)کے تعاون سے سوشل سیکیورٹی آرڈیننس X-(1965) کے تحت یکم مارچ 1967میں متعارف ہوا۔ 1973کے آئین کی شق38میں 7ذیلی شقوں کی مدد سے سماجی تحفظ کے اہداف کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اگر پاکستان میں سماجی تحفظ کا مربوط نظام قائم ہوتا تو متذکرہ بالا خاتون کو اس طرح محنت نہ کرنا پڑتی۔ پاکستان میں 1967میں سماجی تحفظ کا نظام قائم کیا گیا۔ جسے 1973کے آئین کی شق 38کی 7ذیلی شقوں کے ذریعے تحفظ دیا گیا ہے، مگر اس کا دائرہ کار آج بھی انتہائی محدود ہے۔ کیونکہ اس میں صرف وہ محنت کش شامل ہیں، جو کسی صنعتی ادارے میں مستقل ملازم ہوں۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت بھرتی کیے گئے مزدور اور غیر رسمی محنت کش اس اسکیم میں شامل نہیں ہیں۔ اسی طرح دکاندار اور دکانوں اور بازاروں میں محنت مزدوری کرنے والے افراد بھی اس اسکیم کا حصہ نہیں بن سکتے۔
نجی شعبے کے محنت کشوں کے لیے سماجی تحفظ اور بڑھاپے کی پنشن کے لیےEOBI (ایمپلائزاولڈایج انسٹیٹوشن) قائم کیا گیا ہے۔ EOBIکے لیے رجسٹرڈ محنت کش اپنی تنخواہ کا5فیصد جب کہ اتنا ہی حصہ آجر ڈالتا ہے۔ یہ رقم سرکار میں جمع ہوتی ہے، جس کا منافع ادارے کے اکاؤنٹ میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ یوں رجسٹرڈ محنت کشوں کو ریٹائرمنٹ پر معمولی سی رقم بطور پنشن ملتی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تقریبا ً5کروڑسے زائد محنت کشوں میں سے صرف21لاکھ EOBI میں رجسٹرڈ ہیں۔ اگر سماجی تحفظ کا دائرہ کار بڑھا کر تمام شہریوں تک پھیلا دیا جائے اور ہر شخص اپنی ماہانہ آمدنی کا 5فیصد سوشل سیکیورٹی کی مد میںجمع کرانے کا پابند ہو، تو بڑھاپے، معذوری اور بے روزگاری کی صورت میں گذر بسر الاؤنس ہر شہری کو مل سکتا ہے۔
مفلس اور نادار افراد کی مالی امداد کا دوسرا ذریعہ زکوٰۃ اور عشر کی بینکوں سے جبری کٹوتی ہے۔ یہ نظام بھی عجلت میں بغیر کسی تحقیق کے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر نافذ کیا گیا، جس کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔ پہلے حکومت فقہ جعفریہ کے ماننے والوں کو استثنیٰ دینے پر مجبور ہوئی۔ پھر سپریم کورٹ کی ہدایت پر فقہ حنفیہ کے ماننے والوں کو بھی استثنیٰ دیدیا گیا۔ اب صرف سیونگ اکاؤنٹ رکھنے والے ان افراد کی جمع شدہ رقم سے کٹوتی ہوتی ہے، جنہوں نے Affidavitجمع نہیں کرایا ہوتا، جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ پہلے ہی مستثنیٰ ہے۔ عوام ایک تو اپنی زکوۃ، خیرات اور عطیات خود ادا کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ حکومت پر اعتبار بھی نہیں کرتے۔اس لیے حکومت کو اس مد میں انتہائی معمولی رقم حاصل ہوتی ہے۔ اس مد میں حاصل ہونے والی رقم سے حاجت مند افراد کو فی کس 4 سو روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں، جو آج کے دور میں سوائے مذاق کے اورکچھ نہیں۔
اب جہاں تک بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا تعلق ہے، تواس مد میں غریب شہریوں کی مالی مدد و اعانت کے لیے ہر سال بجٹ میں کروڑوں روپے مختص کیے جاتے ہیں، مگرجو رقم دی جاتی ہے، وہ بھی اس قدر قلیل ہوتی ہے کہ ایک خاندان کا گذر بسر ممکن نہیں ہوتا، اگر اس رقم سے چھوٹے قصبات اور دیہاتوں میں کاٹیج انڈسٹری لگا دی جائے، تو اس طرح ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں زد پذیر خاندان برسرروزگار ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا عرض ہے کہ اگر سماجی تحفظ کا دائرہ کار وسیع کردیا جائے۔ ہر شہر، قصبے اور دیہات میں سوشل سیکیورٹی اسپتال قائم کردیے جائیں، جہاں تمام جدید طبی سہولیات مہیا ہوں، توضعیف العمر، معذور، اپاہج اور بے روزگار افراد کو بے روزگاری الاؤنس کے علاوہ علاج معالجے کی سہولیات مہیا ہوسکتی ہیں۔ اس نظام کی مانیٹرنگ کی ذمے داری مقامی حکومتوں کو سونپ دینے سے ان کی فعالیت میں اضافہ اورکرپشن میں کمی ممکن ہے، لیکن صدرکی تنخواہ میں بیٹھے بٹھائے 6لاکھ روپے کا اضافہ کرنے والی حکومت سے ایسے عوام دوست اقدامات کی توقع عبث ہے۔