بجٹ اور عوام
وفاقی بجٹ پر تبصرے بہت ہو چکے، پارلیمنٹ سے منظوری تک مزید بھی ہوتے رہیں گے
وفاقی بجٹ پر تبصرے بہت ہو چکے، پارلیمنٹ سے منظوری تک مزید بھی ہوتے رہیں گے، حکومت نواز اقتصادی ماہرین اس کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہیں گے اور ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ زیر بحث بجٹ سے ملک میں دودھ کی نہریں بس اب بہنے ہی والی ہیں، دوسری طرف حکومت کے مخالفین اسے غریب عوام کی کمر توڑ دینے والا بجٹ قرار دیں گے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی بجٹ پر دھواں دھار تقاریر ہوں گی مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا، عوام پر ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کے نتیجے میں جو بوجھ پڑنا تھا وہ پڑ چکا ہے اور اس میں کمی کا کوئی امکان نہیں، وزیر خزانہ اسحق ڈار زبانی کلامی لچک تو دکھائیں گے مگر اپنے مالیاتی اقدامات واپس نہیں لیں گے اور بنیادی معاملات (ٹیکسوں میں اضافے) پر کوئی لین دین نہیں کریں گے۔
اپوزیشن کی جماعتیں شور شرابا کرتی رہیں گی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلے گا اور گلشن کا کاروبار پھر پہلے کی طرح چلنے لگے گا، ڈار صاحب کو سب کے لیے قابل قبول بجٹ بنانا ہوتا تو وہ بجٹ کے اعلان سے قبل ہی اپوزیشن کی جماعتوں سے صلاح مشورہ کرتے اور اپنے ''میثاق معیشت'' کے فلسفے کو آگے بڑھاتے مگر انھوں نے بجٹ سے پہلے اپوزیشن کو کوئی اہمیت نہیں دی، بجٹ کے بعد کی پریس کانفرنس میں بھی انھوں نے اپنے سخت مالیاتی اقدامات (ٹیکسوں کی شرح میں اضافے) پر لچک دکھانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا بلکہ ببانگ دہل کہا کہ بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا، اسحق ڈار صاحب کا فلسفہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عہد کر لینا چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کے مفادات پر کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کریں گی اور معیشت کو آگے بڑھانے کے حکومتی اقدامات کا ساتھ دیں گی تاکہ 2030 تک ہم ترقی یافتہ ممالک کے جی 20 گروپ میں شامل ہو سکیں، یہ اچھی تجویز ہے بشرطیکہ فریقین میں ''خلوص'' ہو جس کا دور دور تک کوئی سراغ نہیں ملتا۔
وفاقی بجٹ اعداد و شمار کا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جو عام آدمی کو نہ کبھی سمجھ آیا ہے اور نہ ہی کبھی سمجھ میں آنے کا امکان ہے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی، یہ وہ مسائل اور مشکلات ہیں جو ہمیں ورثے میں ملے ہیں، قیام پاکستان سے لے کر اب تک انھی مسائل نے ہمیں گھیر رکھا ہے، پوری قوم کو ''بجٹیریا'' کے لاعلاج مرض میں مبتلا کیا گیا ہے حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک ان مسائل پر قابو پا چکے ہیں مگر ہمارے ہاں عام آدمی کی زندگی اس قدر مشکلات اور پریشانیوں سے بھر چکی ہے کہ اب وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں کی زندگیاں بھی ختم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
اصل میں ہماری سیاسی قیادت کبھی بھی غریبوں اور عام آدمی کے دکھوں کو سمجھ نہیں سکی، برسوں سے عوام کے ساتھ مرکز اور صوبوں میں سرکاری بجٹ کی صورت میں سنگین مذاق کیا جا رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان بجٹوں سے غریب و متوسط طبقے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ ان کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بجٹ میں وسائل کا رخ اگر اشرافیہ سے ہٹا کر متوسط طبقے اور غریب عوام کی طرف موڑا جاتا تو لازمی بہتری آ سکتی تھی ، مگر ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھیے کہ مزدور کی تنخواہ میں ماہانہ ایک ہزار روپے اور صدر مملکت کی تنخواہ میں ماہانہ 6 لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
آج کل حکومت کا پانچواں بجٹ عوامی اور کاروباری حلقوں میں زیر بحث ہے، ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کے موجودہ نظام میں ایسے ہی بجٹ بن سکتے ہیں جو برسوں سے بن رہے ہیں، جہاں سال کے بارہ مہینے لگاتار بجٹ آتے ہوں وہاں سالانہ بجٹ کی کیا حیثیت ہے، حکومت ہر سال عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں لانے کے وعدے کرتی ہے مگر نہ جانے وہ کون سے عوام ہیں جن کی زندگیوں میں آسانیاں آتی ہیں، وہ ملک جہاں معیشت زرعی ہے، زمین سونا اگلتی ہے، وہاں غریب محنت کش دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے، مہنگائی سے متاثرہ طبقات میں نچلا تنخواہ دار طبقہ سرفہرست ہوتا ہے، بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ تو کیا گیا ہے مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اضافی تنخواہ ماہ اگست میں ملازمین کے ہاتھ میں آئے گی جب کہ مہنگائی کا ڈریکولا 2 ماہ تک تنخواہ دار طبقے کا خون چوستا رہے گا۔
پاکستان میں مسلمانوں نے رمضان کی آمد پر پہلے ہی قیمتوں کو بڑھا دیا اور کوئی پوچھنے والا نہیں، پوچھے بھی کون؟ خود حکومت نے بھی ہر شے پر ٹیکس لگا دیا ہے، دنیا بھر میں لوگ ٹیکس بڑی خوشی سے ادا کرتے ہیں کیونکہ حکومتیں اس کے بدلے میں عوام کو بے پناہ سہولتیں فراہم کرتی ہیں جب کہ پاکستان میں ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا بیرونی قرضہ جات پر انحصار بہت بڑھ چکا ہے، 70 سال کے ریکارڈ خسارے کو کم دکھانے کے لیے 70 سال میں سب سے مہنگے کمرشل قرضے لیے گئے، آنے والے برسوں میںملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میںمزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا کیونکہ ماضی میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔
اس کے ساتھ اندرونی قرضے بھی بڑھیں گے کیونکہ حکومت ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے اور اخراجات میں کمی لانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، اعلیٰ افسران پر ہونے والے اخراجات میں کمی سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن عام ملازم کی سہولتوں میں کمی سے ان کی زندگی پہلے سے زیادہ دشوار ہو جائے گی، ان تمام معاملات سے بیگانہ حکومت مزید قرضے لے کر اپنا کام چلانے کی کوشش میں مصروف ہے، ان قرضوں سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئے گی لیکن اشرافیہ کے مزے ہو جائیں گے، ستم یہ ہے کہ یہ قرضے عوام نے واپس کرنے ہوتے ہیں، حکومت اخراجات اور محصولات کی وصولی میں حائل فرق کو کم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، ہماری آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں، اس لیے ہم اس وقت تک خسارے پر قابو نہیں پا سکتے جب تک غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔
ملک چلانے کے لیے ہم نے قرض لیااور بے دھڑک لیتے رہے، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اب اس کا بوجھ برداشت سے باہر ہو چکا ہے، چادر سے باہر پاؤں پھیلانے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے، مگر اپنا ہاتھ روکنے کے بجائے ہماری زمام اختیار سنبھالنے والے معاشی بقراط زیادہ سے زیادہ قرض لینے کی پالیسی پر گامزن ہیں، یہ طرز عمل ہمیں کس انجام سے دوچار کرے گا ، اس کے لیے ہمیں یونان کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے، یونان نے اپنی پہنچ سے بڑھ کر قرض لیا، اب اس کی فضول خرچی کا خمیازہ اس کی موٹی گردن والی اشرافیہ نہیں بھگت رہی بلکہ مزدور پیشہ، کم آمدنی والے غریب طبقات بھگت رہے ہیں، اگر ہم غیر ملکی قرضے لے کر اپنی صنعتی صلاحیت کو بہتر بناتے، برآمدات کو بڑھاتے تو آج کہانی مختلف ہوتی،اس صورت میں ہم قرض لے کر اپنی ادائیگی کی صلاحیت بڑھاتے، جو یقینا بہترین معاشی حکمت عملی ہوتی، تاہم ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا، ہماری صنعتی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔
برآمدات کا حجم سکڑ رہا ہے، درآمدات بڑھ رہی ہیںجو کسی اچھی معیشت کے لیے صحت مندانہ علامت نہیں، دوسری طرف ہم اندرونی و بیرونی ذرایع سے زیادہ سے زیادہ قرضے لے رہے ہیں، قرض لے کر وسائل سے بڑھ کر خرچ کرنے کی پالیسی ملک کی معیشت کو مزید کمزور کر دے گی۔پاکستان کا اصل مسئلہ طاقتور افسر شاہی ہے جو نہ صرف نااہل بلکہ غیر موثر ہے، اس کا طریقہ کار گھسا پٹا اور متروک ہے، یہ زمانے کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے، دنیا کے کسی ملک کا دفتری نظام ہمارے جیسا نہیں، ستم یہ ہے کہ ان افسران کی سفارشات پر عوامی نمایندے بجٹ پیش کرتے ہیں، یہ بجٹ عام طور پر انھی دونوں طبقوں کی مراعات اور منافع کے لیے ہوتے ہیں، بجٹ پر خساروں اور قرضوں کا وائرس تو حکمرانوں کی کرپشن و نااہلی سے حملہ آور ہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ، بین الاقوامی مسابقت کا دباؤ، بجٹ کے وراثتی اثاثوں اور مصارف و قرضہ جات کا دباؤ، ثقافتی پسماندگی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دوری کا دباؤ، جب تک ان وائرسوں کا تدارک نہیں ہو گا تب تک عوام غربت کی دلدل میں پھنسے رہیں گے اور حکمران دولت باہر جمع کرتے رہیں گے۔
اپوزیشن کی جماعتیں شور شرابا کرتی رہیں گی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلے گا اور گلشن کا کاروبار پھر پہلے کی طرح چلنے لگے گا، ڈار صاحب کو سب کے لیے قابل قبول بجٹ بنانا ہوتا تو وہ بجٹ کے اعلان سے قبل ہی اپوزیشن کی جماعتوں سے صلاح مشورہ کرتے اور اپنے ''میثاق معیشت'' کے فلسفے کو آگے بڑھاتے مگر انھوں نے بجٹ سے پہلے اپوزیشن کو کوئی اہمیت نہیں دی، بجٹ کے بعد کی پریس کانفرنس میں بھی انھوں نے اپنے سخت مالیاتی اقدامات (ٹیکسوں کی شرح میں اضافے) پر لچک دکھانے کا کوئی اشارہ نہیں دیا بلکہ ببانگ دہل کہا کہ بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا، اسحق ڈار صاحب کا فلسفہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو عہد کر لینا چاہیے کہ وہ ملکی معیشت کے مفادات پر کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کریں گی اور معیشت کو آگے بڑھانے کے حکومتی اقدامات کا ساتھ دیں گی تاکہ 2030 تک ہم ترقی یافتہ ممالک کے جی 20 گروپ میں شامل ہو سکیں، یہ اچھی تجویز ہے بشرطیکہ فریقین میں ''خلوص'' ہو جس کا دور دور تک کوئی سراغ نہیں ملتا۔
وفاقی بجٹ اعداد و شمار کا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جو عام آدمی کو نہ کبھی سمجھ آیا ہے اور نہ ہی کبھی سمجھ میں آنے کا امکان ہے۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی، یہ وہ مسائل اور مشکلات ہیں جو ہمیں ورثے میں ملے ہیں، قیام پاکستان سے لے کر اب تک انھی مسائل نے ہمیں گھیر رکھا ہے، پوری قوم کو ''بجٹیریا'' کے لاعلاج مرض میں مبتلا کیا گیا ہے حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک ان مسائل پر قابو پا چکے ہیں مگر ہمارے ہاں عام آدمی کی زندگی اس قدر مشکلات اور پریشانیوں سے بھر چکی ہے کہ اب وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں کی زندگیاں بھی ختم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
اصل میں ہماری سیاسی قیادت کبھی بھی غریبوں اور عام آدمی کے دکھوں کو سمجھ نہیں سکی، برسوں سے عوام کے ساتھ مرکز اور صوبوں میں سرکاری بجٹ کی صورت میں سنگین مذاق کیا جا رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ان بجٹوں سے غریب و متوسط طبقے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ ان کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بجٹ میں وسائل کا رخ اگر اشرافیہ سے ہٹا کر متوسط طبقے اور غریب عوام کی طرف موڑا جاتا تو لازمی بہتری آ سکتی تھی ، مگر ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھیے کہ مزدور کی تنخواہ میں ماہانہ ایک ہزار روپے اور صدر مملکت کی تنخواہ میں ماہانہ 6 لاکھ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
آج کل حکومت کا پانچواں بجٹ عوامی اور کاروباری حلقوں میں زیر بحث ہے، ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کے موجودہ نظام میں ایسے ہی بجٹ بن سکتے ہیں جو برسوں سے بن رہے ہیں، جہاں سال کے بارہ مہینے لگاتار بجٹ آتے ہوں وہاں سالانہ بجٹ کی کیا حیثیت ہے، حکومت ہر سال عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں لانے کے وعدے کرتی ہے مگر نہ جانے وہ کون سے عوام ہیں جن کی زندگیوں میں آسانیاں آتی ہیں، وہ ملک جہاں معیشت زرعی ہے، زمین سونا اگلتی ہے، وہاں غریب محنت کش دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے، مہنگائی سے متاثرہ طبقات میں نچلا تنخواہ دار طبقہ سرفہرست ہوتا ہے، بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ تو کیا گیا ہے مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اضافی تنخواہ ماہ اگست میں ملازمین کے ہاتھ میں آئے گی جب کہ مہنگائی کا ڈریکولا 2 ماہ تک تنخواہ دار طبقے کا خون چوستا رہے گا۔
پاکستان میں مسلمانوں نے رمضان کی آمد پر پہلے ہی قیمتوں کو بڑھا دیا اور کوئی پوچھنے والا نہیں، پوچھے بھی کون؟ خود حکومت نے بھی ہر شے پر ٹیکس لگا دیا ہے، دنیا بھر میں لوگ ٹیکس بڑی خوشی سے ادا کرتے ہیں کیونکہ حکومتیں اس کے بدلے میں عوام کو بے پناہ سہولتیں فراہم کرتی ہیں جب کہ پاکستان میں ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا بیرونی قرضہ جات پر انحصار بہت بڑھ چکا ہے، 70 سال کے ریکارڈ خسارے کو کم دکھانے کے لیے 70 سال میں سب سے مہنگے کمرشل قرضے لیے گئے، آنے والے برسوں میںملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میںمزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا کیونکہ ماضی میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔
اس کے ساتھ اندرونی قرضے بھی بڑھیں گے کیونکہ حکومت ٹیکس کے دائرے کو بڑھانے اور اخراجات میں کمی لانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے، اعلیٰ افسران پر ہونے والے اخراجات میں کمی سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن عام ملازم کی سہولتوں میں کمی سے ان کی زندگی پہلے سے زیادہ دشوار ہو جائے گی، ان تمام معاملات سے بیگانہ حکومت مزید قرضے لے کر اپنا کام چلانے کی کوشش میں مصروف ہے، ان قرضوں سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئے گی لیکن اشرافیہ کے مزے ہو جائیں گے، ستم یہ ہے کہ یہ قرضے عوام نے واپس کرنے ہوتے ہیں، حکومت اخراجات اور محصولات کی وصولی میں حائل فرق کو کم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، ہماری آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ ہیں، اس لیے ہم اس وقت تک خسارے پر قابو نہیں پا سکتے جب تک غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔
ملک چلانے کے لیے ہم نے قرض لیااور بے دھڑک لیتے رہے، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اب اس کا بوجھ برداشت سے باہر ہو چکا ہے، چادر سے باہر پاؤں پھیلانے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے، مگر اپنا ہاتھ روکنے کے بجائے ہماری زمام اختیار سنبھالنے والے معاشی بقراط زیادہ سے زیادہ قرض لینے کی پالیسی پر گامزن ہیں، یہ طرز عمل ہمیں کس انجام سے دوچار کرے گا ، اس کے لیے ہمیں یونان کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے، یونان نے اپنی پہنچ سے بڑھ کر قرض لیا، اب اس کی فضول خرچی کا خمیازہ اس کی موٹی گردن والی اشرافیہ نہیں بھگت رہی بلکہ مزدور پیشہ، کم آمدنی والے غریب طبقات بھگت رہے ہیں، اگر ہم غیر ملکی قرضے لے کر اپنی صنعتی صلاحیت کو بہتر بناتے، برآمدات کو بڑھاتے تو آج کہانی مختلف ہوتی،اس صورت میں ہم قرض لے کر اپنی ادائیگی کی صلاحیت بڑھاتے، جو یقینا بہترین معاشی حکمت عملی ہوتی، تاہم ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا، ہماری صنعتی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔
برآمدات کا حجم سکڑ رہا ہے، درآمدات بڑھ رہی ہیںجو کسی اچھی معیشت کے لیے صحت مندانہ علامت نہیں، دوسری طرف ہم اندرونی و بیرونی ذرایع سے زیادہ سے زیادہ قرضے لے رہے ہیں، قرض لے کر وسائل سے بڑھ کر خرچ کرنے کی پالیسی ملک کی معیشت کو مزید کمزور کر دے گی۔پاکستان کا اصل مسئلہ طاقتور افسر شاہی ہے جو نہ صرف نااہل بلکہ غیر موثر ہے، اس کا طریقہ کار گھسا پٹا اور متروک ہے، یہ زمانے کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے، دنیا کے کسی ملک کا دفتری نظام ہمارے جیسا نہیں، ستم یہ ہے کہ ان افسران کی سفارشات پر عوامی نمایندے بجٹ پیش کرتے ہیں، یہ بجٹ عام طور پر انھی دونوں طبقوں کی مراعات اور منافع کے لیے ہوتے ہیں، بجٹ پر خساروں اور قرضوں کا وائرس تو حکمرانوں کی کرپشن و نااہلی سے حملہ آور ہے لیکن عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ، بین الاقوامی مسابقت کا دباؤ، بجٹ کے وراثتی اثاثوں اور مصارف و قرضہ جات کا دباؤ، ثقافتی پسماندگی اور سائنس و ٹیکنالوجی سے دوری کا دباؤ، جب تک ان وائرسوں کا تدارک نہیں ہو گا تب تک عوام غربت کی دلدل میں پھنسے رہیں گے اور حکمران دولت باہر جمع کرتے رہیں گے۔