بجٹ 201718 کا گو رکھ دھندا
ریاست کا جب وجود نہ تھا تو منافعے کی بڑھوتی کے لیے ذخیرہ اندوزی بھی نہیں ہوتی تھی
ریاست کا جب وجود نہ تھا تو منافعے کی بڑھوتی کے لیے ذخیرہ اندوزی بھی نہیں ہوتی تھی۔ چونکہ نجی ملکیت کا تصور نہیں تھا اور لوگ اپنی ضروریات زندگی جنگل کے پھلوں، سبزیوں، جانوروں، پرندوں اورآبی وسائل سے خورونوش حاصل کرتے تھے۔ سارے وسائل سارے لو گوں کے تھے، مگرآج کا بحران زائد پیداوار کا بحران ہے۔ گوداموں میں گندم، چاول، مکئی اور دالیں اٹے پڑے ہیں لیکن انھی گوداموں کے گرد لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کے مر رہے ہیں۔ دوسری جا نب منافع خوری اور وسائل پر نجی ملکیت کا قبضہ ہونے سے ننانوے فیصد لوگ ضروریات زندگی سے محروم ہو چکے ہیں۔
ادویات کے اسٹورکے سامنے مریض لاعلاجی کے باعث جان سے جا رہے ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس دوا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ آج کا بجٹ، حساب کتاب کا ناقابل فہم گورکھ دھندا ہے۔ اخراجات اتنے فضول اور بے معنی ہو چکے ہیں کہ سارے پیسے عیاشیوں اور شاہی اخراجات پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ریاست کے وجود سے قبل ریاستی سرحدیں نہیں تھیں، جو جہاں چاہے جا سکتا تھا، رہ سکتا تھا اورکھا سکتا تھا، مگر اب ریاستوں کے سرحدوں پر پہرہ دارہیں، ان پر اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ صرف امریکا کے 68 بحری بیڑے دنیا بھر کے سمندروں میں لنگر انداز ہیں، جب کہ اسی دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ لاکھ انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ پاکستان کے حالیہ بجٹ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ مالی سال 2017-18ء کا 53 کھرب10 ارب رو پے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔
اس کے دفاعی بجٹ میں 79 ارب رو پے اضافہ کیا گیا ہے، فوج کی تنخواہوں میں 10 فیصد رد الفساد الاؤنس کا اعلان کیا گیا ہے، عسکری تنخواہوں میں اضافہ 20 فیصد ہو گیا ہے۔ ایف سی کی تنخواہوں میں فکس 8000 روپے بڑھانے کی تجویز، بحریہ کے الاؤنس میں اضافہ، دفاعی بجٹ 841 رو پے سے بڑھا کر 920 ارب رو پے ہو گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے قومی بچت کی نئی اسکیم متعارف کروائی جائے گی۔ وزارت دفاعی پیداوار اور منصوبوں کے لیے 4 ارب 46 کروڑ 8 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
چینی شہریوں کے خصوصی تحفظات کے لیے سوا دس ارب رو پے مختص ہوئے ہیں۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ صوبوں کے سپرد کر کے لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ صحت کا بجٹ 49 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 37 ارب روپے، پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے 38 ارب روپے جب کہ پانی کی صفائی کے لیے 12.5 ارب رو پے مختص کیے گئے ہیں۔ گز شتہ برس سات ارب ڈالر کا قرض لیا گیا تھا اور اس سال بھی سات ارب ڈالرکا قرض لیا گیا اور آیندہ سال تیرہ ارب ڈالرکا قرض لیا جائے گا۔ یہ سارے قرض ملا کر 76 ارب ڈالرکے ہم مقروض ہو جائیں گے۔ ادھر آلو، انڈے، گھی، تیل، دودھ، دہی، مرغی اور دالیں مہنگی ہو گئی ہیں۔ بجلی اور گیس پر نئے ٹیکس لگیں گے۔ کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، بیروزگاری اور مہنگائی کی روک تھام کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں ( جو ملک کی اکثریت ہیں ) کے لیے کوئی مراعات پیش نہیں کی گئیں۔
آیے اس بجٹ کا جا ئزہ لیتے ہیں۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے سب سے ضروری چیزیں پانی، رہائش، دال، چاول، آٹا، دودھ، گوشت، انڈے، تیل اور روزگار ہے۔ بیس کروڑ عوام کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے 38 ارب روپے اور اس کی شفافی کے لیے 12.5 ارب روپے عوام کے ایک سا تھ مذاق کے مترادف ہے۔ پھر گیس اور بجلی پر نئے ٹیکس لگا نے کا مطلب ان کے نرخوں میں اضافہ ہے جس کا براہ راست بوجھ عوام پر ہی پڑے گا۔ دودھ، مرغی، انڈے، آلو، گھی، تیل اور دہی کی قیمتوں میں اضافہ ہو نے سے عوام پر ہی براہ راست بوجھ پڑا ہے۔
جہاں تک کم از کم پندرہ ہزار روپے تنخواہوں کا اعلان ہے، یہ بھی ایک مذاق ہے۔ گزشتہ برس بارہ ہزارکا اعلان ہوا تھا لیکن اب تک نوے فیصد لوگوں کو آٹھ تا دس ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ نہیں ملی۔ جب بارہ ہزار نہیں ملے تو پندرہ ہزارکہاں سے ملیں گے۔ بیروزگاری پر توآج تک کسی حکومت نے خصوصی بجٹ پیش نہیں کیا۔ جہاں تک کسانوں کا مسئلہ ہے تو ہندوستان میں کسانوں کو بلاسود قرضے دیے جا تے ہیں، بجلی کا تقریباً ایک چوتھائی ادا کرنا پڑتا ہے۔کھاد میں خاصی رعایت دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود مزید سہولت کے لیے گزشتہ سال مشرقی پنجاب (ہندوستانی پنجاب) میں کسانوں نے پانچ روز کی ایسی ہڑتال کی کہ پنجاب میں ٹرین کی آمد و رفت بند رہی۔ وزیراعلیٰ بادل سنگھ ہاؤس کے باہر کسانوں نے دھرنا دیا جس میں لا کھوں افراد نے شرکت کی، جب کہ پاکستان میں بجٹ پیش کرنے کے دوران اسلام آباد میں کسانوں کے مظاہرے پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن کا بدترین استعمال کیا گیا، زرعی معیشت کے فاقہ مست ستونوں پر ایسا بہیمانہ لاٹھی چارج، کیا قیامت ہے۔
سیکڑوں کسانوں کو گرفتار کیا گیا اور مطالبات بھی ماضی کی طرح ماننے کے وعدے کر کے کسانوں کی چھٹی کر دی۔ جس دنیا میں اربوں انسان غربت کی زندگی گزار رہے ہوں اور چند لوگ ان کے خون چوس کر پل رہے ہوں وہاں عوام کے لیے کیونکر مثبت بجٹ پیش ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی ہر چیزاگر عوام کی ہے تو سارا بجٹ دفاع، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک،اسمبلی، وزراء، نوکرشاہی، سرمایہ دار اور جاگیردارکیوں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اس طبقاتی نظام میں یہی ہونا ہے۔
اس کا واحد حل ایک غیر طبقاتی نظام یعنی کمیونسٹ نظام کے قیام میں مضمر ہے، جہاں سارے وسائل سارے لو گوں کے ہوں َسب مل کر پیداوارکریں اور مل کر بانٹ لیں۔کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا۔
ادویات کے اسٹورکے سامنے مریض لاعلاجی کے باعث جان سے جا رہے ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس دوا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ آج کا بجٹ، حساب کتاب کا ناقابل فہم گورکھ دھندا ہے۔ اخراجات اتنے فضول اور بے معنی ہو چکے ہیں کہ سارے پیسے عیاشیوں اور شاہی اخراجات پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ریاست کے وجود سے قبل ریاستی سرحدیں نہیں تھیں، جو جہاں چاہے جا سکتا تھا، رہ سکتا تھا اورکھا سکتا تھا، مگر اب ریاستوں کے سرحدوں پر پہرہ دارہیں، ان پر اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ صرف امریکا کے 68 بحری بیڑے دنیا بھر کے سمندروں میں لنگر انداز ہیں، جب کہ اسی دنیا میں ہر ماہ ڈیڑھ لاکھ انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ پاکستان کے حالیہ بجٹ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ مالی سال 2017-18ء کا 53 کھرب10 ارب رو پے کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔
اس کے دفاعی بجٹ میں 79 ارب رو پے اضافہ کیا گیا ہے، فوج کی تنخواہوں میں 10 فیصد رد الفساد الاؤنس کا اعلان کیا گیا ہے، عسکری تنخواہوں میں اضافہ 20 فیصد ہو گیا ہے۔ ایف سی کی تنخواہوں میں فکس 8000 روپے بڑھانے کی تجویز، بحریہ کے الاؤنس میں اضافہ، دفاعی بجٹ 841 رو پے سے بڑھا کر 920 ارب رو پے ہو گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے قومی بچت کی نئی اسکیم متعارف کروائی جائے گی۔ وزارت دفاعی پیداوار اور منصوبوں کے لیے 4 ارب 46 کروڑ 8 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
چینی شہریوں کے خصوصی تحفظات کے لیے سوا دس ارب رو پے مختص ہوئے ہیں۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ صوبوں کے سپرد کر کے لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ صحت کا بجٹ 49 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 37 ارب روپے، پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے 38 ارب روپے جب کہ پانی کی صفائی کے لیے 12.5 ارب رو پے مختص کیے گئے ہیں۔ گز شتہ برس سات ارب ڈالر کا قرض لیا گیا تھا اور اس سال بھی سات ارب ڈالرکا قرض لیا گیا اور آیندہ سال تیرہ ارب ڈالرکا قرض لیا جائے گا۔ یہ سارے قرض ملا کر 76 ارب ڈالرکے ہم مقروض ہو جائیں گے۔ ادھر آلو، انڈے، گھی، تیل، دودھ، دہی، مرغی اور دالیں مہنگی ہو گئی ہیں۔ بجلی اور گیس پر نئے ٹیکس لگیں گے۔ کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، بیروزگاری اور مہنگائی کی روک تھام کے لیے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں ( جو ملک کی اکثریت ہیں ) کے لیے کوئی مراعات پیش نہیں کی گئیں۔
آیے اس بجٹ کا جا ئزہ لیتے ہیں۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے سب سے ضروری چیزیں پانی، رہائش، دال، چاول، آٹا، دودھ، گوشت، انڈے، تیل اور روزگار ہے۔ بیس کروڑ عوام کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے 38 ارب روپے اور اس کی شفافی کے لیے 12.5 ارب روپے عوام کے ایک سا تھ مذاق کے مترادف ہے۔ پھر گیس اور بجلی پر نئے ٹیکس لگا نے کا مطلب ان کے نرخوں میں اضافہ ہے جس کا براہ راست بوجھ عوام پر ہی پڑے گا۔ دودھ، مرغی، انڈے، آلو، گھی، تیل اور دہی کی قیمتوں میں اضافہ ہو نے سے عوام پر ہی براہ راست بوجھ پڑا ہے۔
جہاں تک کم از کم پندرہ ہزار روپے تنخواہوں کا اعلان ہے، یہ بھی ایک مذاق ہے۔ گزشتہ برس بارہ ہزارکا اعلان ہوا تھا لیکن اب تک نوے فیصد لوگوں کو آٹھ تا دس ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ نہیں ملی۔ جب بارہ ہزار نہیں ملے تو پندرہ ہزارکہاں سے ملیں گے۔ بیروزگاری پر توآج تک کسی حکومت نے خصوصی بجٹ پیش نہیں کیا۔ جہاں تک کسانوں کا مسئلہ ہے تو ہندوستان میں کسانوں کو بلاسود قرضے دیے جا تے ہیں، بجلی کا تقریباً ایک چوتھائی ادا کرنا پڑتا ہے۔کھاد میں خاصی رعایت دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود مزید سہولت کے لیے گزشتہ سال مشرقی پنجاب (ہندوستانی پنجاب) میں کسانوں نے پانچ روز کی ایسی ہڑتال کی کہ پنجاب میں ٹرین کی آمد و رفت بند رہی۔ وزیراعلیٰ بادل سنگھ ہاؤس کے باہر کسانوں نے دھرنا دیا جس میں لا کھوں افراد نے شرکت کی، جب کہ پاکستان میں بجٹ پیش کرنے کے دوران اسلام آباد میں کسانوں کے مظاہرے پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن کا بدترین استعمال کیا گیا، زرعی معیشت کے فاقہ مست ستونوں پر ایسا بہیمانہ لاٹھی چارج، کیا قیامت ہے۔
سیکڑوں کسانوں کو گرفتار کیا گیا اور مطالبات بھی ماضی کی طرح ماننے کے وعدے کر کے کسانوں کی چھٹی کر دی۔ جس دنیا میں اربوں انسان غربت کی زندگی گزار رہے ہوں اور چند لوگ ان کے خون چوس کر پل رہے ہوں وہاں عوام کے لیے کیونکر مثبت بجٹ پیش ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی ہر چیزاگر عوام کی ہے تو سارا بجٹ دفاع، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک،اسمبلی، وزراء، نوکرشاہی، سرمایہ دار اور جاگیردارکیوں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اس طبقاتی نظام میں یہی ہونا ہے۔
اس کا واحد حل ایک غیر طبقاتی نظام یعنی کمیونسٹ نظام کے قیام میں مضمر ہے، جہاں سارے وسائل سارے لو گوں کے ہوں َسب مل کر پیداوارکریں اور مل کر بانٹ لیں۔کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا۔