ایل این جی پالیسی2011 سی سی آئی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنیکا فیصلہ
صوبوں کی جانب سے ایل این جی پالیسی پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات بھی اجلاس میں زیر غور آئیں گے۔
وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل نے ایل این جی پالیسی 2011 کو مشترکہ مفادات کونسل کے اگلے اجلاس میں پیش کر نے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔
وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل نے ایل این جی پالیسی 2013کا مسودہ تیار کر لیاہے جس پر مزید مشاورت مشترکہ مفادات کونسل کے اگلے اجلاس میں کی جائے گی جبکہ صوبوں کی جانب سے ایل این جی پالیسی پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات بھی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں زیر غور آئیں گے۔
ذرائع کے مطابق سندھ کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ ایل این جی ری گیسیفائی ہونے کے بعد قدرتی گیس میں تبدیل ہوجاتی ہے اور آئین کی فیڈرل لیجسلیٹولسٹ کے حصہ دوئم میں آتی ہے اور آئین میں درآمدشدہ ایل این جی گیس اور مقامی سطح پرپیدا ہونے والی قدرتی گیس میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے آرٹیکل 154(1)کے تحت ایل این جی سے متعلق پالیسی سطح کے فیصلے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیے جانے چاہئیں۔
دوسری جانب وزیر اعلی سندھ کی جانب سے یہ بھی اعتراض اٹھایا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 158اور 172(3) پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا، گیس کی ایلوکیشن اور اس کے ٹیرف سے متعلق فیصلے مشترکہ مفادات کونسل کے بجائے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے کیے جاتے ہیں، اس نوعیت کے تمام فیصلے سی سی آئی میں زیر بحث آنے چاہئیں۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کی جانب کسی بھی نئی پالیسی کو پٹرولیم پالیسی 2012، ایل پی جی پالیسی 2016 کی طرح مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری کے لیے بھجوایا جائے تاہم کارپوریشنز کی روزانہ کی بنیاد کے امور کو سی سی آئی میں نہیں لے کے جانا چاہیے۔ گیس کی ایلوکیشن اور ڈسٹری بیوشن سے متعلق امور پر مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری ضروری نہیں خیبر پختوانخوا اور بلوچستان کا بھی موقف یہی تھاکہ ایل این جی پالیسی کو مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیا جائے۔
وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل نے ایل این جی پالیسی 2013کا مسودہ تیار کر لیاہے جس پر مزید مشاورت مشترکہ مفادات کونسل کے اگلے اجلاس میں کی جائے گی جبکہ صوبوں کی جانب سے ایل این جی پالیسی پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات بھی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں زیر غور آئیں گے۔
ذرائع کے مطابق سندھ کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ ایل این جی ری گیسیفائی ہونے کے بعد قدرتی گیس میں تبدیل ہوجاتی ہے اور آئین کی فیڈرل لیجسلیٹولسٹ کے حصہ دوئم میں آتی ہے اور آئین میں درآمدشدہ ایل این جی گیس اور مقامی سطح پرپیدا ہونے والی قدرتی گیس میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے آرٹیکل 154(1)کے تحت ایل این جی سے متعلق پالیسی سطح کے فیصلے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیے جانے چاہئیں۔
دوسری جانب وزیر اعلی سندھ کی جانب سے یہ بھی اعتراض اٹھایا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 158اور 172(3) پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا، گیس کی ایلوکیشن اور اس کے ٹیرف سے متعلق فیصلے مشترکہ مفادات کونسل کے بجائے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے کیے جاتے ہیں، اس نوعیت کے تمام فیصلے سی سی آئی میں زیر بحث آنے چاہئیں۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کی جانب کسی بھی نئی پالیسی کو پٹرولیم پالیسی 2012، ایل پی جی پالیسی 2016 کی طرح مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری کے لیے بھجوایا جائے تاہم کارپوریشنز کی روزانہ کی بنیاد کے امور کو سی سی آئی میں نہیں لے کے جانا چاہیے۔ گیس کی ایلوکیشن اور ڈسٹری بیوشن سے متعلق امور پر مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری ضروری نہیں خیبر پختوانخوا اور بلوچستان کا بھی موقف یہی تھاکہ ایل این جی پالیسی کو مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیا جائے۔