سپریم کورٹ کا ٹارگٹ کلنگ اغواء میں ملوث افراد سے نمٹنے کا حکم
نہیں چاہتے کہ اغوا کے الزام میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ایم آئی...
KARACHI:
سپریم کورٹ نے بلوچستان امن و امان کیس میں ایف سی کی پیش کردہ تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کردیا اور عبوری حکم نامے میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا میں ملوث افراد سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیاہے جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا جائے جس کے لیے دو ماہ سے زائد کا وقت نہیں دیا جاسکتا۔
بلوچستان کے معاملے پر ایف سی پر انحصار کررہے ہیں،صوبے میں آرٹیکل 9 کی مکمل خلاف ورزی ہورہی ہے،عدالت نہیں چاہتی کہ لوگوں کے اغوا کے الزام میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے خلاف مقدمہ درج ہوجائے ۔منگل کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے کی ذمے داری صوبائی حکومت پر ڈالتے ہوئے تمام ممکنہ اقدامات کرنے اورصوبائی حکومت کو اس حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کی جبکہ وفاقی سیکریٹری داخلہ اور چیف سیکریٹری بلوچستان نے آئین کے نفاذ اور جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کا بیان جمع کرادیا۔
آئی جی ایف سی عدالت میں پیش ہوئے اور 8لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی نیت پر شک نہ کیا جائے ،وہ اپنی پوری کوشش کررہے ہیں، خواہش ہے کہ یہ لوگ کل ہی بازیاب ہوجائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہیں تو حالات میں 50فیصد بہتری آسکتی ہے ۔سماعت کے دوران بلوچستان کے حوالے سے ایف سی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی جسے عدالت نے مسترد کر تے ہوئے کہاکہ آئی جی ایف سی اس پر دستخط کردیں اور پھر سپریم کورٹ میں جمع کرادیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر تمام ذرائع بروئے کار لائے جاتے تو لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا، بنیادی انسانی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا،اس کیس میںڈی جی ایم آئی اور آئی ایس آئی کے خلاف مقدمے کے اندراج سے بچنا چاہتے ہیں ، بلوچستان کے حالات 1971سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، صوبے میں آرٹیکل 9کا نفاذ کیا جائے۔ایف سی کے وکیل راجہ ارشاد نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کے خلاف بات کرکے ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو فروغ دیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کو ایسے بیانات سے گریز کرنے کی ہدایت کی۔ انھوں نے کہا کہ جب شہریوں کے ساتھ ایسا سلو ک ہو گا تو پھر اس طرح کی باتیں بھی ہوں گی،ایف سی چاہے تو سات دن میں مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت سے دو ماہ کی مہلت مانگی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے بچے لا دو،ہمیں بتادینا دو ماہ دے دیں گے۔جسٹس جواد نے کہا کہ جب مسائل حل ہوں گے تو سارا تنائو خود ہی ختم ہوجائے گا۔
عدالت نے قرار دیا کہ شہریوں کے جان ومال کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے، عدالت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا نقطہ نظر سن کر مقدمے کو نمٹانا چاہتی تھی لیکن متعلقہ حکومتوں کو کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وفاقی اور صوبائی حکومتیں آئین کا نفاذ کرنے کی پوزیشن میں ہیں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود ملزموں کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی، اس ناکامی کے پیچھے سیاسی اوردیگرمحرکات بھی شامل ہیں،حالات معمول پر لانے کے لیے قانون کے تحت تمام اقدامات کیے جاسکتے ہیں، دفعہ 144کے تحت کرفیو لگاکر سرچ آپریشن بھی کیا جاسکتا ہے،عدالت نے ڈیرہ بگٹی میں ترجیحی بنیاد پر حالات معمول پر لانے کی ہدایت کی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بلوچستان کے حالات اگست 2006کو خراب ہوئے، ایک شخص حالات خراب کرکے چلا گیا اور پوری قوم ابھی تک بھگت رہی ہے،ذاتی انا کی تسکین کے لیے اتنے گہرے زخم لگائے گئے اور قومی مفاد کو دیکھا تک نہیں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت3 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ آئندہ سماعت کوئٹہ میں ہوگی۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان امن و امان کیس میں ایف سی کی پیش کردہ تحقیقاتی رپورٹ کو مسترد کردیا اور عبوری حکم نامے میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا میں ملوث افراد سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیاہے جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا جائے جس کے لیے دو ماہ سے زائد کا وقت نہیں دیا جاسکتا۔
بلوچستان کے معاملے پر ایف سی پر انحصار کررہے ہیں،صوبے میں آرٹیکل 9 کی مکمل خلاف ورزی ہورہی ہے،عدالت نہیں چاہتی کہ لوگوں کے اغوا کے الزام میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ایم آئی کے خلاف مقدمہ درج ہوجائے ۔منگل کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے کی ذمے داری صوبائی حکومت پر ڈالتے ہوئے تمام ممکنہ اقدامات کرنے اورصوبائی حکومت کو اس حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کی جبکہ وفاقی سیکریٹری داخلہ اور چیف سیکریٹری بلوچستان نے آئین کے نفاذ اور جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کا بیان جمع کرادیا۔
آئی جی ایف سی عدالت میں پیش ہوئے اور 8لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی نیت پر شک نہ کیا جائے ،وہ اپنی پوری کوشش کررہے ہیں، خواہش ہے کہ یہ لوگ کل ہی بازیاب ہوجائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہیں تو حالات میں 50فیصد بہتری آسکتی ہے ۔سماعت کے دوران بلوچستان کے حوالے سے ایف سی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی جسے عدالت نے مسترد کر تے ہوئے کہاکہ آئی جی ایف سی اس پر دستخط کردیں اور پھر سپریم کورٹ میں جمع کرادیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر تمام ذرائع بروئے کار لائے جاتے تو لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا، بنیادی انسانی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا،اس کیس میںڈی جی ایم آئی اور آئی ایس آئی کے خلاف مقدمے کے اندراج سے بچنا چاہتے ہیں ، بلوچستان کے حالات 1971سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، صوبے میں آرٹیکل 9کا نفاذ کیا جائے۔ایف سی کے وکیل راجہ ارشاد نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کے خلاف بات کرکے ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو فروغ دیا جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کو ایسے بیانات سے گریز کرنے کی ہدایت کی۔ انھوں نے کہا کہ جب شہریوں کے ساتھ ایسا سلو ک ہو گا تو پھر اس طرح کی باتیں بھی ہوں گی،ایف سی چاہے تو سات دن میں مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت سے دو ماہ کی مہلت مانگی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے بچے لا دو،ہمیں بتادینا دو ماہ دے دیں گے۔جسٹس جواد نے کہا کہ جب مسائل حل ہوں گے تو سارا تنائو خود ہی ختم ہوجائے گا۔
عدالت نے قرار دیا کہ شہریوں کے جان ومال کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے، عدالت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا نقطہ نظر سن کر مقدمے کو نمٹانا چاہتی تھی لیکن متعلقہ حکومتوں کو کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وفاقی اور صوبائی حکومتیں آئین کا نفاذ کرنے کی پوزیشن میں ہیں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود ملزموں کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی، اس ناکامی کے پیچھے سیاسی اوردیگرمحرکات بھی شامل ہیں،حالات معمول پر لانے کے لیے قانون کے تحت تمام اقدامات کیے جاسکتے ہیں، دفعہ 144کے تحت کرفیو لگاکر سرچ آپریشن بھی کیا جاسکتا ہے،عدالت نے ڈیرہ بگٹی میں ترجیحی بنیاد پر حالات معمول پر لانے کی ہدایت کی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بلوچستان کے حالات اگست 2006کو خراب ہوئے، ایک شخص حالات خراب کرکے چلا گیا اور پوری قوم ابھی تک بھگت رہی ہے،ذاتی انا کی تسکین کے لیے اتنے گہرے زخم لگائے گئے اور قومی مفاد کو دیکھا تک نہیں۔ بعد ازاں کیس کی سماعت3 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ آئندہ سماعت کوئٹہ میں ہوگی۔