طرابلس کے بعد تہران پر نظر
جغرافیائی اور سیاسی طور سے ملک کی ترقی کے لیے لیڈران بالکل سنجیدہ نہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ معمر قذافی نے لیبیا کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کر دیا تھا جہاں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ حقیقت بن گیا تھا۔ آسودگی، روزگار، رہائش سب کچھ وہاں کے عوام کو میسر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں کے جھنڈے کی مماثلت سے بنا جھنڈا پیپلز پارٹی کا تشکیل دیا، مگر بحرانوں نے ان کو موقع نہ دیا کہ اپنے خواب کی تعبیر کرتے۔ خیر پاکستان کے احوال تو لوگوں کے سامنے ہیں۔
فی الوقت تو عالمی معاملات زیرغور ہیں وہ یہ کہ لیبیا کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔ وہ شہر جو سکون کے ساتھ سانس لے رہا تھا اور اب اس پُر امن انصاف پسند خطے میں، جسے طرابلس کہتے ہیں، آئے دن گلی گلی خون بہہ رہا ہے اور وہاں کے حاکم ایک دوسرے کو خون میں نہلا رہے ہیں۔ اس ملک میں مرکزی حکومت نامی کوئی نظام نہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک حکومت نافذ ہے بقیہ اس ملک پر دو حکومتوں کا اور کنٹرول ہے مگر دارالسلطنت طرابلس پر دو حکومتوں کا کنٹرول ہے اور تیسری حکومت جو شہر طرابلس سے خاصے فاصلے پر ہے اس کے گن مین مصرکی حکومت کے زیر اثر ہیں اور یہ تبروک کے علاقے پر قابض ہیں اور ان کو سعودی حمایت بھی حاصل ہے۔
بہرحال جو لوگ بھی تبروک میں اپنا سیاسی عمل دخل رکھتے ہیں یہ معزول اور معروف صدر مرسی کے مخالف ہیں، مگر فی الحال جو دوگروپ طرابلس شہر پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں ان میں ایک گروپ تو وہ ہے جس نے مرحوم صدر قذافی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور وہ اس انقلاب کے ہیرو کہلاتے ہیں اس کا نام National Salvation ''فوج برائے قومی سلامتی'' ہے ان کی ملیشیا کے صدر مسٹر صالح ہیں۔ یہی ایک قسم کے صدر نما ہیں جو لیبیا کے سرکردہ ہیں۔ مصرکے صدر السیسی بھی ان کے حامی ہیں۔
گزشتہ منگل کو صدرالسیسی کے کہنے پر لیبیا کے بعض علاقوں پر بمباری کی گئی۔ خصوصاً ڈرنا نامی لیبیائی شہر پر۔ واضح رہے کہ مصر اب تک سابق صدر مرسی کے نظریاتی اثر میں ہے، مگر امریکی حکومت نے مرسی کو صدارتی نتائج سے محروم کر دیا اور سعودی حکومت صدر مرسی کے خلاف تھی۔ گویا کہنا یہ ہے کہ لیبیا کے صدر قذافی کو جو سبزکتاب کے تخلیق کار تھے ان کو ہٹا کر لیبیا کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اب ملک کی کوئی پہچان نہ رہی کہ کون سی کابینہ لیبیا کی حکمران ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی سی آئی اے نے یہی اہداف دیے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدر بش کے صدام کے زمانے سے ری پبلکن پارٹی شام، شمالی کوریا اور ایران پر الزام لگاتی رہی ہے۔ حالانکہ 9/11 میں دنیا کو معلوم ہے کہ وہ کہاں کے باشندگان تھے اور ایک موقعے پر دوران انتخاب صدر ٹرمپ سعودی عرب سے ہرجانے کے طالب تھے۔ بہرحال اس وقت امریکا کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ ایران کو لیبیا کے سانچے میں ڈھال دیں مگر معروضی حالات مسٹر ٹرمپ کے خلاف جا رہے ہیں۔
انھوں نے پہلا کام تو سعودی عرب آنے کے بعد فرقہ واریت کا آغاز کروا دیا۔ جو صرف سعودی عرب نہیں بلکہ بحرین تک یہ دائرہ پھیل گیا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ملک کی بنیادیں لرز اٹھتی ہیں اور اندر ہی اندر یہ زہر نسلوں میں سرائیت کرجاتا ہے۔ دوسرا کام جو سعودی حکومت کے فرمانروا شاہ سلیمان نے کیا وہ ٹرمپ کو اسلامی تاریخی اثاثے جو صرف اربوں ڈالر مالیت کے نہ تھے بلکہ شناخت تھی وہ ٹرمپ کو تحائف کی نذرہوگئے۔ اور ایک نہایت بڑا سوالیہ نشان جو غور طلب ہے وہ شاہ سلیمان کا وہ فرمان ہے جس میں انھوں نے ٹرمپ کی اسرائیل روانگی سے قبل یہ فرمایا کہ ریاض کی ایک سڑک کا نام ٹرمپ کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔
ظاہر ہے شاہ سلمان کے ذریعے مسٹر ٹرمپ کی اس قدر پذیرائی نے لوگوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ بعض لوگوں کی سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتی ہیں، مگر شہنشاہی میں مشورہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا غلطیوں کے امکانات وسیع تر ہوجاتے ہیں۔ قطر کے شیخ تمیم نے ٹرمپ کی آمد کے بعد سعودی فرمانروا کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا ہے اور واضح تنقید کی ہے۔
درحقیقت ٹرمپ صاحب نے ایک اعلیٰ سیلز مین کے جوہر دکھائے اور سعودی عرب کو خوف میں مبتلا کرکے ایک بہت بڑی اسلحے کی ڈیل کرلی جس نے امریکی خزانے کو بغیر جنگ کے مالا مال کردیا اور ایسا سیاسی ماحول پیدا کردیا جس میں ایران اور سعودی عرب میں الفاظ کی شدید ترین جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اور اب پاکستانی سیاسی حلقے دونوں کے مابین اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ اسلامی فوج جس کو کہا جا رہا ہے وہ دونوں ملکوں کے مابین کسی دوستانہ ڈیل کی اہل نہ رہی کیونکہ پاکستان اب خود سعودی پارٹی میں شراکت دار ہوگیا ہے۔
حالانکہ سعودی عرب کشمیر کے معاملے پر بھارت کو ایک لفظ کہنے پر تیار نہیں ہے۔ جب کہ ایران کے پریس ٹی وی سے کشمیری مجاہدین پر خبریں اور بھارتی ظلم پر تنقید جاری ہے، جب کہ سعودی عرب نے مودی کو اپنا سب سے بڑا سول اعزاز عطا کیا ہے پھر بھی پاکستان کی سیاسی مفاہمت اور پذیرائی کی سماجی سیاسی اور اخلاقی حمایت کیوں جاری ہے۔ جب کہ پاکستان سی پیک میں شامل بھی ہے جو امریکا مخالف ایک معاشی معاہدہ ہے۔ حالانکہ اس کے کوئی ظاہری طور پر اور عملی طور پر صرف یہ ایک معاشی عمل ہے اور بھارت کی جانب سے بلوچستان پر شدید سیاسی تنقید اور مخالفت جاری ہے۔ اگر ہم سیاسی طور پر غور کریں تو سیاست کے یہ تضادات سمجھ سے بالاتر ہیں۔
اس موضوع پر نہ ملک کے حکمرانوں کو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی سیاست دانوں کو۔ تھوڑا بہت عمران خان سیاسی موضوعات خصوصاً شرق اوسط پر گفتگو فرماتے ہیں وہ بھی کاغذکا پیٹ بھرنے کے لیے کہ کوئی حصہ خالی نہ چلا جائے۔ لوگوں کو شاید یہ علم نہیں کہ پاکستان کے تعلقات ایران سے کس قدر سرد ہوگئے کیونکہ ایران نے بجلی اور گیس کی مد میں تعاون کا بیان دیا تھا مگر لگا کہ یہ آواز ان تک نہ آئی جب کہ بجلی کا ملک میں شدید بحران ہے۔
کراچی کے غریب علاقوں میں جس میں سرجانی ٹاؤن اور خدا کی بستی ہے دو دو دن تک کوئی پوچھنے والا نہیں، جب کہ ملکی ترقی کے لیے بجلی اس دور کی ضرورت ہے اور نوجوان نسل کے لیے تعلیم و ترقی زرکثیر سے کم نہیں مگر لیڈروں نے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کر رکھی ہے، مثبت ترقی کے ذرایع بند ہوچکے ہیں۔
جغرافیائی اور سیاسی طور سے ملک کی ترقی کے لیے لیڈران بالکل سنجیدہ نہیں، صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ رہ گیا ایران کو علاقے سے الگ تھلگ کرنے کا معاملہ تو وہ اس دورے سے حل نہ ہوا ایران کے جو ساتھی تھے سو وہ اب بھی ان کے ساتھ ہیں۔ علاقے میں عراق نے بھی کھل کر ایران کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جب کہ عراق داعش سے موصل کو خالی کرانے کے آخری مرحلے میں ہے اور لبنان کے سیاسی اور عسکری رہنما حسن نصراللہ ہنوز ایران کے ساتھی ہیں اور کویت کے شیخ تمیم نے کھلم کھلا ایران کے موقف کی حمایت کردی ہے اور فلسطین کے موقف کے لیے حماس کو فلسطین کا اصل نمایندہ قرار دیا ہے۔ جو ٹرمپ کے موقف کے خلاف ہیں اور مسلسل ایران کی حمایت کر رہے ہیں لہٰذا محض یہ کہنا کہ ٹرمپ کو شرق اوسط میں سیاسی مقاصد حاصل ہوگئے یہ سرا سر بعید ازقیاس ہے۔