وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے
سب کچھ چھوڑ کر صرف فضا میں پاکستان کا قومی جہاز اڑانے کا خواب سوتے جاگتے دیکھنا جس کا مقصد زندگی رہ گیا تھا۔
ISLAMABAD:
پاکستان کا وقار، روشن ستارہ، بین الاقوامی شہرت یافتہ، دنیائے ہوا بازی کا معتبر نام اور ملک خداداد کی پہلی خاتون ہوا باز کا اعزاز حاصل کرنے والی ہستی، جی ہاں میں شکریہ خانم ہی کا ذکر کررہی ہوں، جن کے انتقال کی اطلاع مجھے گزشتہ اظہاریہ روانہ کرچکنے کے بعد ملی۔ بے حد افسوس ہوا کہ کاش یہ اطلاع مجھے پہلے مل جاتی تو میں قوم کی اس بیٹی جس نے اپنے اعزاز (پہلی ہوا باز خاتون) کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی نجی زندگی، اپنے خواب، ارمانوں اور ایک عورت کے ہر جذبے کو قربان کردیا، مگر پھر بھی وہ، وہ کچھ حاصل نہ کرسکی جو اس کا خواب تھا، جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اس نے باقی تمام خواب دیکھنے چھوڑ دیے، دل میں امڈتے ارمانوں کے ریلے پر بند باندھ دیا۔ سب کچھ چھوڑ کر صرف فضا میں پاکستان کا قومی جہاز اڑانے کا خواب سوتے جاگتے دیکھنا جس کا مقصد زندگی رہ گیا تھا۔
شکریہ خانم کے انتقال کی خبر مجھے اب سے بتیس چونتیس برس پیچھے لے گئی، جب ہم نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز دوران تعلیم ہی کیا تھا۔ کراچی کے ایک روزنامے کے میگزین سیکشن میں ہم پر خواتین کا صفحہ ترتیب دینے کی ذمے داری ڈالی گئی تھی، ہم یونیورسٹی سے کلاسز ختم کرتے ہی دفتر وارد ہوجاتے تھے۔ ایک طرح سے یہ ہمارے شعبے کی طرف سے ہماری عملی ٹریننگ بھی تھی۔ بہرحال ہم نے اپنے صفحہ خواتین پر ہر ہفتے ملک کی نامور، اپنے اپنے شعبے کی ماہرین، ادبی شہرت رکھنے والی یا ایسی خواتین جو اپنی مدد آپ کے ذریعے آج کئی دوسری خواتین کا سہارا بنی ہوئی ہیں، جن کو بطور مثال پیش کرکے مزید خواتین کے لیے راہیں پیدا کی جاسکتی ہیں، کے انٹرویوز کا سلسلہ بھی شروع کیا، ہر ہفتے کے لیے ہم ایسی خواتین کی تلاش کرکے انٹرویوزکرتے۔
ایک بار خیال آیا کہ اس ہفتے شکریہ خانم پر لکھا جائے۔ یوں تو انھیں سب ہی جانتے ہیں مگر ان کے نجی حالات، شوق، دلچسپیاں، خاندانی پس منظر وغیرہ سے بہت سے لوگ واقف ہونا پسند کریں گے۔ ہم نے فیصلہ کرنے کے بعد جب ان سے رابطہ کیا تو وہ فوراً ہمیں وقت دینے پر تیار ہوگئیں، ہم نے وقت اور جگہ کے بارے میں جب دریافت کیا تو وہ بے تکلفی سے کہنے لگیں کہ آپ زحمت نہ کرو میں خود آپ کے دفتر آجاؤں گی۔
ہم بڑے حیران ہوئے کہ اکثر خواتین ایک ہفتے کے بجائے دو تین ہفتوں بعد کا وقت وہ بھی دفتری اوقات کے بجائے یا توصبح یا پھر رات کا دینے کو تیار ہوتی، مگر شکریہ خانم نے تو ہماری تمام مشکلات ہی آسان کردیں، وہ دفتر ہی آکر بات چیت کریں گی اور فوٹو گرافر بھی وہیں تصاویر بنا لے گا۔ ہمارا میگزین سیکشن عمارات کی مختصر سی جگہ پر تھا، جس میں بمشکل تین میزیں، ایک انچارج کی، ایک ہماری اور ایک صفحہ طلبا کی نگراں کنیز فاطمہ کی تھی۔
اس سیکشن میں ایک رپورٹر بچل لغاری بھی ہوتے تھے، مگر وہ نیوز روم یا اور کہیں بیٹھ کر اپنا کام کرتے ، اس لیے ان کی کوئی میز مخصوص نہ تھی۔ جب شکریہ خانم نے یہ تجویز دی تو فوری طور پر تو ہم بہت خوش ہوئے کہ آنے جانے کے جھنجھٹ سے بچ گئے مگر کچھ دیر بعد خیال آیا کہ ہم ان کو بٹھائیں گے کہاں؟ انچارج صاحب سے اس مسئلے کا حل پوچھا، وہ ہر مسئلے کا حل یوں پیش کرتے جیسے کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ فرمانے لگے کہ آپ کی میز کے سامنے ایک کرسی کہیں سے منگوا کر رکھ دیں گے۔ لیجیے یہ بھی طے ہوگیا۔
دوسرے یا تیسرے دن ہم سر جھکائے کچھ لکھنے میں مصروف تھے، لکھتے لکھتے جو نظر اٹھائی تو ایک نسبتاً دراز قد دبلی سی بے حد سادہ لباس ترچھی مانگ کے ساتھ بال سر پر بالکل جما کر چوٹی باندھے ہوئے خاتون کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ ہم نے بے ساختہ پوچھا ''فرمائیے کس سے ملنا ہے؟'' ایک قدم دروازے سے بڑھاتے ہوئے فرمایا، جی میں نجمہ عالم سے ملنے آئی ہوں ۔ قبل اس کے ہم کچھ ایسا سوچتے انھوں نے اپنا تعارف خود کرایا، جی میں شکریہ خانم ہوں۔ ہم ایک دم کھڑے ہوگئے، آئیے آئیے اندر تشریف لائیے۔ ہم نے فوراً میگزین انچارج کی طرف دیکھا کیونکہ ان کی مجوزہ کرسی تو ابھی تک آئی نہ تھی۔ خدا کا شکر کہ کنیز فاطمہ اپنے کسی اسائنمنٹ پر گئی ہوئی تھیں ہم نے ان کی کرسی پیش کی اور وہ شکریہ کہتی ہوئی بیٹھ گئیں۔
ان سے گفتگو کی جو باتیں یاد رہیں وہ لکھ رہی ہوں ۔ہوائی جہاز اڑانا ان کا شوق نہیں بلکہ جنون ہے، انھوں نے بے حد مہارت کے ساتھ اپنے شوق کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ان کامیاب پروازوں کے بعد بھی انھیں بطور پائلٹ جہاز دینے میں تامل سے کام لیا جاتا رہا اور آخر کار ان پر یہ واضح کردیا گیا کہ عورت کو کسی طرح ملکی یا غیر ملکی پرواز پر جہاز نہیں دیا جاسکتا۔ انھیں پی آئی اے میں گراؤنڈ پر ہی بطور انسٹرکٹر رکھا گیا۔ انھوں نے یہ کام بھی اس قدر عمدگی سے کیا کہ یو اے ای نے جب اپنی ہوائی سروس شروع کرنے کا سوچا تو ان کے تمام ہوا بازوں کو شکریہ خانم نے ہی تربیت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی یورپی ممالک کے ہوا بازوں نے مجھ سے تربیت حاصل کی اور بہترین ہوا باز ثابت ہوئے۔
اس وقت شکریہ خانم جوان تھیں، جذبہ جوان تھا اور اپنی قومی ہوائی کمپنی کے جہاز اڑانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسی دوران ان کے کان میں کہیں سے یہ آواز پڑی کہ شادی شدہ خواتین کو جہاز دینا تو بہت بڑا رسک ہے کہ ان کا دھیان گھر، شوہر اور بچوں میں لگا رہتا ہے۔ شکریہ خانم نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ میں شادی نہیں کروں گی کہ کہیں یہی بہانہ ان کو جہاز نہ دینے کا ذریعہ بن جائے۔ (جس وقت ہم ان سے گفتگو کر رہے تھے ان کی عمر 45 سال یا اس سے کچھ اوپر تو ہوگی) غرض انھوں نے اپنے شوق کی خاطر اپنے تمام جذبات اور ارمانوں کو دل سے کھرچ دیا، مگر جس کی خاطر انھوں نے تمام عمر کے لیے خود کو تنہا کرلیا وہ شوق کبھی پورا نہ ہوسکا۔ ہر عورت اپنے گھر اپنے بچوں کا خواب دیکھتی ہے (ہوسکتا ہے انھوں نے اس کے بعد شادی کی ہو مگر مجھے اس کا علم نہیں) کیونکہ عورت کا اپنا یا تو اس کا شریک حیات یا پھر اولاد ہی ہوتی ہے۔
شکریہ کے بارے میں محترمہ زاہدہ حنا نے مزید تفصیلات اپنے کالم میں دی ہیں، میں تو صرف وہی کچھ پیش کر رہی ہوں جو اب سے تقریباً 34 سال قبل کی میرے پاس ہیں، ان میں بھی ہر بات تو ذہن میں نہیں رہی، اتنا کچھ بھی جو لکھا اس سے ہم یہ تو سمجھ ہی سکتے ہیں کہ عورت کا استحصال کیسے کیسے ہوا۔ اس کے ارمانوں کا خون کرنے والوں میں کون کون شامل ہے۔ ہاں یاد آیا شکریہ اس لمحے بہت اداس ہوگئیں جب انھوں نے بتایا کہ اب تو نہ صرف شادی شدہ بلکہ کئی کئی بچوں کی ماؤں کو لمبے سفر پر جہاز اڑانے کو دیے جا رہے ہیں ۔ ذرا سوچیے کہ ایسے میں شکریہ خانم کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ مگر یہ ہوا باز خواتین کیا شکریہ سے ''پاکستان کی پہلی ہوا باز خاتون'' کا اعزاز کبھی چھین سکتی ہیں؟
پاکستان کا وقار، روشن ستارہ، بین الاقوامی شہرت یافتہ، دنیائے ہوا بازی کا معتبر نام اور ملک خداداد کی پہلی خاتون ہوا باز کا اعزاز حاصل کرنے والی ہستی، جی ہاں میں شکریہ خانم ہی کا ذکر کررہی ہوں، جن کے انتقال کی اطلاع مجھے گزشتہ اظہاریہ روانہ کرچکنے کے بعد ملی۔ بے حد افسوس ہوا کہ کاش یہ اطلاع مجھے پہلے مل جاتی تو میں قوم کی اس بیٹی جس نے اپنے اعزاز (پہلی ہوا باز خاتون) کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی نجی زندگی، اپنے خواب، ارمانوں اور ایک عورت کے ہر جذبے کو قربان کردیا، مگر پھر بھی وہ، وہ کچھ حاصل نہ کرسکی جو اس کا خواب تھا، جس کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اس نے باقی تمام خواب دیکھنے چھوڑ دیے، دل میں امڈتے ارمانوں کے ریلے پر بند باندھ دیا۔ سب کچھ چھوڑ کر صرف فضا میں پاکستان کا قومی جہاز اڑانے کا خواب سوتے جاگتے دیکھنا جس کا مقصد زندگی رہ گیا تھا۔
شکریہ خانم کے انتقال کی خبر مجھے اب سے بتیس چونتیس برس پیچھے لے گئی، جب ہم نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز دوران تعلیم ہی کیا تھا۔ کراچی کے ایک روزنامے کے میگزین سیکشن میں ہم پر خواتین کا صفحہ ترتیب دینے کی ذمے داری ڈالی گئی تھی، ہم یونیورسٹی سے کلاسز ختم کرتے ہی دفتر وارد ہوجاتے تھے۔ ایک طرح سے یہ ہمارے شعبے کی طرف سے ہماری عملی ٹریننگ بھی تھی۔ بہرحال ہم نے اپنے صفحہ خواتین پر ہر ہفتے ملک کی نامور، اپنے اپنے شعبے کی ماہرین، ادبی شہرت رکھنے والی یا ایسی خواتین جو اپنی مدد آپ کے ذریعے آج کئی دوسری خواتین کا سہارا بنی ہوئی ہیں، جن کو بطور مثال پیش کرکے مزید خواتین کے لیے راہیں پیدا کی جاسکتی ہیں، کے انٹرویوز کا سلسلہ بھی شروع کیا، ہر ہفتے کے لیے ہم ایسی خواتین کی تلاش کرکے انٹرویوزکرتے۔
ایک بار خیال آیا کہ اس ہفتے شکریہ خانم پر لکھا جائے۔ یوں تو انھیں سب ہی جانتے ہیں مگر ان کے نجی حالات، شوق، دلچسپیاں، خاندانی پس منظر وغیرہ سے بہت سے لوگ واقف ہونا پسند کریں گے۔ ہم نے فیصلہ کرنے کے بعد جب ان سے رابطہ کیا تو وہ فوراً ہمیں وقت دینے پر تیار ہوگئیں، ہم نے وقت اور جگہ کے بارے میں جب دریافت کیا تو وہ بے تکلفی سے کہنے لگیں کہ آپ زحمت نہ کرو میں خود آپ کے دفتر آجاؤں گی۔
ہم بڑے حیران ہوئے کہ اکثر خواتین ایک ہفتے کے بجائے دو تین ہفتوں بعد کا وقت وہ بھی دفتری اوقات کے بجائے یا توصبح یا پھر رات کا دینے کو تیار ہوتی، مگر شکریہ خانم نے تو ہماری تمام مشکلات ہی آسان کردیں، وہ دفتر ہی آکر بات چیت کریں گی اور فوٹو گرافر بھی وہیں تصاویر بنا لے گا۔ ہمارا میگزین سیکشن عمارات کی مختصر سی جگہ پر تھا، جس میں بمشکل تین میزیں، ایک انچارج کی، ایک ہماری اور ایک صفحہ طلبا کی نگراں کنیز فاطمہ کی تھی۔
اس سیکشن میں ایک رپورٹر بچل لغاری بھی ہوتے تھے، مگر وہ نیوز روم یا اور کہیں بیٹھ کر اپنا کام کرتے ، اس لیے ان کی کوئی میز مخصوص نہ تھی۔ جب شکریہ خانم نے یہ تجویز دی تو فوری طور پر تو ہم بہت خوش ہوئے کہ آنے جانے کے جھنجھٹ سے بچ گئے مگر کچھ دیر بعد خیال آیا کہ ہم ان کو بٹھائیں گے کہاں؟ انچارج صاحب سے اس مسئلے کا حل پوچھا، وہ ہر مسئلے کا حل یوں پیش کرتے جیسے کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ فرمانے لگے کہ آپ کی میز کے سامنے ایک کرسی کہیں سے منگوا کر رکھ دیں گے۔ لیجیے یہ بھی طے ہوگیا۔
دوسرے یا تیسرے دن ہم سر جھکائے کچھ لکھنے میں مصروف تھے، لکھتے لکھتے جو نظر اٹھائی تو ایک نسبتاً دراز قد دبلی سی بے حد سادہ لباس ترچھی مانگ کے ساتھ بال سر پر بالکل جما کر چوٹی باندھے ہوئے خاتون کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ ہم نے بے ساختہ پوچھا ''فرمائیے کس سے ملنا ہے؟'' ایک قدم دروازے سے بڑھاتے ہوئے فرمایا، جی میں نجمہ عالم سے ملنے آئی ہوں ۔ قبل اس کے ہم کچھ ایسا سوچتے انھوں نے اپنا تعارف خود کرایا، جی میں شکریہ خانم ہوں۔ ہم ایک دم کھڑے ہوگئے، آئیے آئیے اندر تشریف لائیے۔ ہم نے فوراً میگزین انچارج کی طرف دیکھا کیونکہ ان کی مجوزہ کرسی تو ابھی تک آئی نہ تھی۔ خدا کا شکر کہ کنیز فاطمہ اپنے کسی اسائنمنٹ پر گئی ہوئی تھیں ہم نے ان کی کرسی پیش کی اور وہ شکریہ کہتی ہوئی بیٹھ گئیں۔
ان سے گفتگو کی جو باتیں یاد رہیں وہ لکھ رہی ہوں ۔ہوائی جہاز اڑانا ان کا شوق نہیں بلکہ جنون ہے، انھوں نے بے حد مہارت کے ساتھ اپنے شوق کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ان کامیاب پروازوں کے بعد بھی انھیں بطور پائلٹ جہاز دینے میں تامل سے کام لیا جاتا رہا اور آخر کار ان پر یہ واضح کردیا گیا کہ عورت کو کسی طرح ملکی یا غیر ملکی پرواز پر جہاز نہیں دیا جاسکتا۔ انھیں پی آئی اے میں گراؤنڈ پر ہی بطور انسٹرکٹر رکھا گیا۔ انھوں نے یہ کام بھی اس قدر عمدگی سے کیا کہ یو اے ای نے جب اپنی ہوائی سروس شروع کرنے کا سوچا تو ان کے تمام ہوا بازوں کو شکریہ خانم نے ہی تربیت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی یورپی ممالک کے ہوا بازوں نے مجھ سے تربیت حاصل کی اور بہترین ہوا باز ثابت ہوئے۔
اس وقت شکریہ خانم جوان تھیں، جذبہ جوان تھا اور اپنی قومی ہوائی کمپنی کے جہاز اڑانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسی دوران ان کے کان میں کہیں سے یہ آواز پڑی کہ شادی شدہ خواتین کو جہاز دینا تو بہت بڑا رسک ہے کہ ان کا دھیان گھر، شوہر اور بچوں میں لگا رہتا ہے۔ شکریہ خانم نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ میں شادی نہیں کروں گی کہ کہیں یہی بہانہ ان کو جہاز نہ دینے کا ذریعہ بن جائے۔ (جس وقت ہم ان سے گفتگو کر رہے تھے ان کی عمر 45 سال یا اس سے کچھ اوپر تو ہوگی) غرض انھوں نے اپنے شوق کی خاطر اپنے تمام جذبات اور ارمانوں کو دل سے کھرچ دیا، مگر جس کی خاطر انھوں نے تمام عمر کے لیے خود کو تنہا کرلیا وہ شوق کبھی پورا نہ ہوسکا۔ ہر عورت اپنے گھر اپنے بچوں کا خواب دیکھتی ہے (ہوسکتا ہے انھوں نے اس کے بعد شادی کی ہو مگر مجھے اس کا علم نہیں) کیونکہ عورت کا اپنا یا تو اس کا شریک حیات یا پھر اولاد ہی ہوتی ہے۔
شکریہ کے بارے میں محترمہ زاہدہ حنا نے مزید تفصیلات اپنے کالم میں دی ہیں، میں تو صرف وہی کچھ پیش کر رہی ہوں جو اب سے تقریباً 34 سال قبل کی میرے پاس ہیں، ان میں بھی ہر بات تو ذہن میں نہیں رہی، اتنا کچھ بھی جو لکھا اس سے ہم یہ تو سمجھ ہی سکتے ہیں کہ عورت کا استحصال کیسے کیسے ہوا۔ اس کے ارمانوں کا خون کرنے والوں میں کون کون شامل ہے۔ ہاں یاد آیا شکریہ اس لمحے بہت اداس ہوگئیں جب انھوں نے بتایا کہ اب تو نہ صرف شادی شدہ بلکہ کئی کئی بچوں کی ماؤں کو لمبے سفر پر جہاز اڑانے کو دیے جا رہے ہیں ۔ ذرا سوچیے کہ ایسے میں شکریہ خانم کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ مگر یہ ہوا باز خواتین کیا شکریہ سے ''پاکستان کی پہلی ہوا باز خاتون'' کا اعزاز کبھی چھین سکتی ہیں؟