فضائل رمضان

مسلمان عقل یعنی چراغ راہ سے آگے نکل جاتے ہیں اور جانب منزل عشق بڑھتے چلے جاتے ہیں۔


[email protected]

توحید اور رسالت کا زبان سے اقرارکرنے کے بعد جس طرح ہر مسلمان پر نماز فرض قرار دی گئی ہے، اسی طرح رمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان (مرد وعورت) عاقل اور بالغ پر فرض ہیں۔

تفسیر قانون میں ہے کہ نماز معراج کی شب فرض ہوئی جب کہ روزے 10 شوال المکرم 2 ہجری کو فرض ہوئے۔

رمضان، رَمْضَائٌ سے مشتق ہے۔ رَمْضَاء، موسم خریف کی بارش کوکہتے ہیں جس سے زمین دھل جاتی ہے اور ربیع کی فصل خوب ہوتی ہے چونکہ یہ مہینہ بھی دل کے گردوغبار دھو دیتا ہے اور اس سے اعمال کی کھیتی ہری بھری رہتی ہے ۔ اس لیے اسے رمضان کہتے ہیں یا یہ رَمْضٌ سے بنا جس کے معنی ہیں گرمی یا جلنا چونکہ اس میں مسلمان بھوک اورپیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں یا یہ گناہوں کو جلا ڈالتا ہے اس لیے رمضان کہا جاتا ہے۔

مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں آدمی کے ہر جز پر روزہ فرض کیا گیا ہے پس زبان کا روزہ جھوٹ اور غیبت وغیرہ سے بچنا ہے اورکان کا روزہ ناجائز چیزوں کے سننے اور سنانے سے بچنا ہے آنکھ کا روزہ لہو و لعب کی چیزوں سے بچنا ہے اور ایسے ہی باقی اعضا حتیٰ کہ نفس کا روزہ شہوت سے بچنا ہے۔ دل کا روزہ حب دنیا سے بچنا ہے اور سر کا روزہ غیر اللہ کے سامنے جھکنے سے بچنا ہے۔

حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں ''روزے کی حقیقت رکنا ہے اور رکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں، مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکنا، آنکھ کو شہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو بے ہودہ اور لغو باتیں کرنے اور جسم کو حکم الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا روزہ ہے جب بندہ ان تمام شرائط کی پیروی کرے گا تب وہ حقیقت میں روزہ دار ہوگا۔''

ہر چیزکی زکوٰۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ رمضان میں پانچ حرف ہیں ر، م، ض، ا، ن۔ ر سے مراد ہے رحمت الٰہی، میم سے مراد ہے محبت الٰہی، ض سے ضمان الٰہی، الف سے امان الٰہی، ن سے نور الٰہی اور رمضان میں پانچ عبادات خصوصی ہوتی ہیں روزہ، تراویح، تلاوت قرآن، اعتکاف، شب قدر میں عبادت۔ تو جوکوئی صدق دل سے یہ پانچ عبادات کرے وہ ان پانچ انعامات کا مستحق ہے۔

رمضان ایک بھٹی کی مانند ہے جیسے کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف اور صاف لوہے کو مشین کا پرزہ بناکر قیمتی بنادیتی ہے اور سونے کو زیور بناکر استعمال کے قابل بنادیتی ہے ایسے ہی ماہ رمضان گنہگاروں کو پاک کردیتا ہے اور نیک لوگوں کے درجات بڑھا دیتا ہے۔

بقول شاعر:

الفاظ کے سر پر ہوتے نہیں معنی

الفاظ کے سینے میں اترکر دیکھو

رحمت دو جہاں، بصیرت بیکراں رسول کریمؐ کا یہ قول مبارکہ ''اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کی شان کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو۔''

اللہ نے جنھیں دل خبیرو بصیر عطا کیا ہے وہ جب قرآن میں غوطہ زن ہوکر دیکھتے ہیں تو لفظ رمضان کے اندر روحانیت اور نورانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا ہے۔ رمضان کی ہر گھڑی، رحمت ہی رحمت، برکت ہی برکت، مغفرت ہی مغفرت، نور ہی نور، خیر ہی خیر سے بھری اور ہر آن میں خدا کی شان نظر آتی ہے۔

فیضان رمضان، نزول قرآن کی یادگار ہے۔ روح الامین ہر سال رمضان میں تمام قرآن مبین، رسول امینؐ کو سناتے تھے اور رسول امینؐ سے سنتے تھے۔ کیا روح پرور سماں ہوتا ہوگا جب دو مقدس و اقدس روحیں ایک دوسرے سے قرآن سن رہی اور سنا رہی ہوتی ہوں گی۔ جگر کا شعر ترمیم کے ساتھ:

قرأت وہی ہے' قرأت کے جس کو

روح سنے' اور روح سنائے

اسی وجہ سے تلاوت قرآن پاک کی کثرت اس مہینے میں مقول ہے اور اہل ایمان کا معمول ہے۔ جب کوئی خوش الحان قاری لحن داؤدی میں آیات قرآنی کی قرأت کرتا ہے تو قرآن سننے والوں کے کانوں سے گزر کر دل میں اترکر دل کو نور ہی نور سے بھر دیتا ہے۔ دوران تراویح ایسی تراوت محسوس ہوتی ہے کہ جسمانی تھکاوٹ کا احساس بھی نہیں رہتا۔ دل کی کثافت دھلتی چلی جاتی ہے اور طہارت سے پیالہ دل بھر جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے نیکی کی چاہت اور ہر عبادت کی طرف رغبت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ مسلمان، ماہ رمضان میں نیکی کی طرف ایسا لپکتا ہے جیسے جانب شمع کوئی پروانہ۔

رمضان میں شمع الٰہی کے ارد گرد پروانوں کا ہجوم جو شمع عقل ونفس سے ٹوٹ ٹوٹ کر جمع ہوجاتے ہیں اس قدرہوتا ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں رہتی راتوں کو تلاوت قرآنی کی جو نورانی محافل سجتی ہیں تو پوری فضا میں نور ہی نور بکھر جاتا ہے۔ روزہ مخفی اور عشقی عبادت ہے۔ ماہ رمضان میں دل میں دبی ہوئی عشق الٰہی کی چنگاری شعلہ بن کر ایسی بھڑکتی ہے کہ عقل کی مکاری اور شیطان کی عیاری کے فریب جال میں گرفتار تمام شکار سوز عشق کی ایک ہی ضرب کاری سے جال سے باہر نکل آتے ہیں۔ عقل ونفس حیرت استعجاب کی تصویر بنے کھڑے دیکھتے رہتے ہیں۔ ٹک ٹک دیدم دم کشیدم کا سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ رمضان عقل کی شکست اور عشق کی فتح کا روحانی سماں ہے۔

مسلمان عقل یعنی چراغ راہ سے آگے نکل جاتے ہیں اور جانب منزل عشق بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ عقل کی افسردگی اور دل کی شگفتگی دیدنی ہوتی ہے۔ شیطان کا کاروبار جوگیارہ مہینوں تک دن دونا اور رات چوگنا ہوتا تھا۔ ماہ رمضان میں ٹھیک ہوجاتا ہے کیونکہ خدائے ذوالجلال و الاکرام اپنے بندوں کو جمال وکمال اور روحانی انعام و اکرام سے نوازنے کے لیے شیطان لعین ورجیم کو قیدکردیتا ہے۔ تاکہ ''انا اجزی بہ یا اُجزیٰ بہ'' تک پہنچنے کے لیے مسلمان کا کام آسان ہوجائے۔ یہ اللہ رحمن ورحیم کا اپنے بندوں پر بصورت رمضان بہت بڑا احسان ہے۔ ؎

اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر

تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا

ماہ رمضان کے فضال سے کتب احادیث مالا مال ہیں۔ حضرت عمر فاروق اعظمؓ، حضور اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ ''رمضان المبارک میں اللہ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے اور اللہ سے مانگنے والا نامراد نہیں ہوتا۔''

اللہ تعالیٰ کا ماہ رمضان کا بھیجنا اپنے حبیبؐ کی امت کی بخشش کا بہانہ ہے۔ حضرت علی مرتضیٰؓ فرماتے ہیں۔ ''اگر اللہ کو امت محمدیؐ پر عذاب کرنا مقصود ہوتا تو ان کو رمضان اور سورہ اخلاص ہرگز عنایت نہ فرماتا۔''

ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا، اب ہوگی یا روزِ جزا

دی ان کی رحمت نے صدا' یہ بھی نہیں' وہ بھی نہیں

ماہ صیام، اپنے حبیبؐ کی امت کے نام عفوو رحمت، بخشش ومغفرت کی اللہ کی طرف سے دعوت عام ہے لہٰذا رمضان اللہ کی رحمتوں، برکتوں، مغفرتوں کو لوٹ لینے، اللہ کی یاد اور تصور میں کھوجانے اور اس کا قرب یا خود اس کو پا لینے کا مہینہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں