رمضان المبارک ماہِ عبادت و ریاضت
اس مہینے میں اللہ رب العزت کی رحمتوں، عنایات اور کرم نوازیوں کی عجیب شان ہوتی ہے۔
PESHAWAR:
رمضان المبارک کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس مہینے میں اللہ رب العزت کی رحمتوں، عنایات اور کرم نوازیوں کی عجیب شان ہوتی ہے۔
انہی برکات کا یہ ثمرہ ہے کہ اس میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستّر فرائض کے برابر کردیا جاتا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کمر ِہمت کس لیتے اور اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں تو سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔
رمضان المبارک میں چوں کہ اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے جتنی بھی عبادات انسان کر سکتا ہو ضرور کرے۔ روزمرہ کی چند عبادات کو مستقل مزاجی اور اعتدال اور اطمینان سے کیا جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔
٭ تہجد کی فضیلت
نماز تہجد کو اپنی پوری زندگی کا معمول بنانا چاہیے، ورنہ کم از کم رمضان المبارک میں تو اسے ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیوں کہ ان دنوں میں ہمارے پاس اسے ادا کرنے کا کافی وقت ہوتا ہے اور انسان کے دل میں ہدایت و روحانیت کا نور پیدا ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان سے دنیا کی طرف نزول کر کے فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز درمیانی رات کی نماز تہجد ہے۔''
''اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں بندے سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اگر ہو سکے تو تم ان بندوں میں سے ہوجاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔''
٭ سحری کی فضیلت
یہ اللہ تعالی کا خاص کرم ہے کہ وہ ہمیں اپنی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے پر بھی اجر و ثواب عنایت فرماتے ہیں۔ سحری بھی ہماری ان جسمانی ضروریات میں سے ایک ہے جس پر اللہ تعالی انعام و اکرام اور برکت سے نوازتے ہیں۔ احادیث پاک میں ہے۔
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سحری کیا کرو، کیوں کہ سحری کرنے میں یقینا برکت ہے۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں فرمایا : ''سحری والی برکت جو اللہ نے تم لوگوں کو عطا کی ہے، اسے چھوڑو نہیں۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : '' سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو۔''
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' بے شک سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔''
٭ روزے کی فضیلت
روزہ رمضان المبارک کی بہت اہم عبادت ہے اس کے فضائل پر مشتمل چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: '' میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں۔ ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان کے لیے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔ جنت ہر روز ان کے لیے سجائی جاتی ہے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ عن قریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔ اس مہینے میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: کیا یہ شب قدر ہے؟ ارشاد فرمایا: نہیں، بل کہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم کرنے کے وقت دی جاتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: '' جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن رمضان کا روزہ چھوڑ دے اور پھر تمام عمر کے روزے بھی رکھے تو اس ایک روزے کا بدل نہیں ہو سکتا۔''
حضرت ابوعبیدہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' روزہ انسان کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔''
ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزے سے بھی اپنے دشمن یعنی شیطان سے حفاظت ہوتی ہے اور روزہ پھاڑ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ روزے کی حالت میں جھوٹ، غیبت اور اس قسم کے ناجائز کام کیے جائیں۔ لہذا روزے کے حقیقی فوائد اور ثمرات اس وقت حاصل ہوں گے جب انسان ان گناہ کی چیزوں اور لایعنی کاموں سے بچا رہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی جب وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم انسان کی جس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ (اے بندے) میں تیری ضرور مدد کروں گا، گو (کسی مصلحت کی وجہ سے) کچھ دیر ہو جائے۔
کعب بن عجرہؓ کہتے ہیں: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ۔ ہم لوگ قریب ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین۔ جب دوسرے زینے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا: آمین، جب تیسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین۔ جب آپؐ خطبے سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپؐ سے ایسی بات سنی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت جبرئیلؑ میرے پاس آئے تھے۔ جب میں نے پہلے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی، میں نے کہا: آمین۔ پھر جب میں دوسرے زینے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا: آمین۔ جب میں تیسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے ا س کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی حالت میں آئیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں، میں نے کہا: آمین۔''
حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: '' رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔''
حضرت زید بن خالدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''جس نے روزے دار کا روزہ افطار کرایا یا کسی غازی کو سامانِ جہاد دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔''
٭ فرض نمازوں کی پابندی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' جس نے نماز کی پابندی کی تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور، حجت اور نجات کا سبب بنے گی۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ پت جھڑ کے موسم میں باہر تشریف لے گئے اور ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑ کر ہلایا جس کی وجہ سے درخت سے پتے جھڑنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! ابوذرؓ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں، آپؐ نے فرمایا دیکھو جب کوئی مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس کے ذریعے اللہ کی خوش نودی اور رضا کا طالب بنتا ہے تو اس کے گناہ اسے طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' بتاؤ تو کسی کے دروازے پر نہر ہو وہ اس میں ہر روز پانچ بار غسل کرتا ہو کیا اس کے بدن پر میل کچیل رہ جائے گا ؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کے سبب خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ تعالیٰ کو بندے کا کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔
٭ تلاوت قرآن
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے بہت نسبت ہے۔ اسی مبارک مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں حضرت جبرئیلؑ امین سے قرآن کریم کا دَور (سننا اور سنانا) فرمایا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن مجید پڑھو کیوں کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قرآن میں ماہر ہے وہ معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر مشقت کے ساتھ پڑھتا ہے اس کے لیے دہرا اجر ہے۔
حدیث پاک ہے کہ صاحب قرآن سے قیامت کے روز کہا جائے گا : قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرو جیسے دنیا میں ترتیل (ٹھہر ٹھہر کر) سے کرتے تھے اور بلند منازل طے کرتے جاؤ۔ جنت میں تمہارے لیے وہ جگہ متعین ہوگی جس جگہ آخری آیت کی تلاوت پر تمہاری سانس رکے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بے شک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ مقدار میں تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
٭ توبہ و استغفار کی فضیلت
ہم فرشتے بھی نہیں کہ کبھی ہم سے گناہ نہ ہو اور ہمیں شیطان کی طرح ہمیشہ گناہ بھی نہیں کرتے رہنا چاہیے بل کہ اگر گناہ ہو جائے تو توبہ استغفار کر نی چاہیے تاکہ آئندہ کے لیے ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں سے بچ سکیں۔ تاہم اگر بار بار بھی توبہ ٹوٹ جائے تب بھی ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا : (اے باری تعالیٰ) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی جسموں میں روحیں باقی رہیں گی گم راہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : مجھے بھی اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے یعنی بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔''
٭ صدقہ و خیرات کی فضیلت
رمضان المبارک میں جہاں اور اعمال کا اجر بڑھ جاتا ہے اسی طرح صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب بھی بڑھ جاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں جب کہ جبریلؑ آپ کے پاس آتے تھے آپؐ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریلؑ رمضان کی ہر رات میں آپؐ کے پاس آتے تھے، آپؐ سے قرآنِ کریم کا دَور کرتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے۔
اس مہینے میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور واجب صدقات ادا کرنا تو انسان کے ذمے ہیں، ان کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ نفلی صدقات کا اہتمام بھی کیا جائے۔ کسی نادار روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، کسی محتاج کی مدد کرنا، کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا، یتیم اور بیواؤں کا خیال رکھنا وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں کہ انسان ان کو اس ماہِ مقدس میں ضرور کرے۔
٭ صبر و تحمل کی فضیلت
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ صبر و تحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں روزوں کی وجہ سے خشکی آجاتی ہے اور مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ایسے موقع پر اپنے آپ پر قابو پانا اور صبر سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے پر قابو پانے والے بردبار اور حلیم مزاج شخص کی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔ چناں چہ صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے : '' پہلوان وہ شخص نہیں جو غصے کے وقت لوگوں کو پچھاڑ ڈالے بل کہ پہلوان تو وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ ''
٭ نوافل کی فضیلت
حدیث پاک میں یہ بات بالکل وضاحت کے ساتھ آچکی ہے کہ رمضان المبارک میں نوافل کا ثواب فرض کے ثواب تک جا پہنچتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرائض کے علاوہ سنن اور نوافل کا بھی ذوق شوق سے اہتمام کریں۔ تہجد ، اشراق ، چاشت، تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد اور اوابین وغیرہ کو اپنا معمول بنائیں۔
رمضان المبارک کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس مہینے میں اللہ رب العزت کی رحمتوں، عنایات اور کرم نوازیوں کی عجیب شان ہوتی ہے۔
انہی برکات کا یہ ثمرہ ہے کہ اس میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستّر فرائض کے برابر کردیا جاتا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کمر ِہمت کس لیتے اور اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں تو سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔
رمضان المبارک میں چوں کہ اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے جتنی بھی عبادات انسان کر سکتا ہو ضرور کرے۔ روزمرہ کی چند عبادات کو مستقل مزاجی اور اعتدال اور اطمینان سے کیا جائے تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔
٭ تہجد کی فضیلت
نماز تہجد کو اپنی پوری زندگی کا معمول بنانا چاہیے، ورنہ کم از کم رمضان المبارک میں تو اسے ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیوں کہ ان دنوں میں ہمارے پاس اسے ادا کرنے کا کافی وقت ہوتا ہے اور انسان کے دل میں ہدایت و روحانیت کا نور پیدا ہوتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان سے دنیا کی طرف نزول کر کے فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز درمیانی رات کی نماز تہجد ہے۔''
''اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں بندے سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اگر ہو سکے تو تم ان بندوں میں سے ہوجاؤ جو اس مبارک وقت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔''
٭ سحری کی فضیلت
یہ اللہ تعالی کا خاص کرم ہے کہ وہ ہمیں اپنی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے پر بھی اجر و ثواب عنایت فرماتے ہیں۔ سحری بھی ہماری ان جسمانی ضروریات میں سے ایک ہے جس پر اللہ تعالی انعام و اکرام اور برکت سے نوازتے ہیں۔ احادیث پاک میں ہے۔
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سحری کیا کرو، کیوں کہ سحری کرنے میں یقینا برکت ہے۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں فرمایا : ''سحری والی برکت جو اللہ نے تم لوگوں کو عطا کی ہے، اسے چھوڑو نہیں۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : '' سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو۔''
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' بے شک سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔''
٭ روزے کی فضیلت
روزہ رمضان المبارک کی بہت اہم عبادت ہے اس کے فضائل پر مشتمل چند احادیث پیش خدمت ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: '' میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں۔ ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان کے لیے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔ جنت ہر روز ان کے لیے سجائی جاتی ہے۔ پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ عن قریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔ اس مہینے میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: کیا یہ شب قدر ہے؟ ارشاد فرمایا: نہیں، بل کہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم کرنے کے وقت دی جاتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: '' جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن رمضان کا روزہ چھوڑ دے اور پھر تمام عمر کے روزے بھی رکھے تو اس ایک روزے کا بدل نہیں ہو سکتا۔''
حضرت ابوعبیدہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : '' روزہ انسان کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔''
ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزے سے بھی اپنے دشمن یعنی شیطان سے حفاظت ہوتی ہے اور روزہ پھاڑ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ روزے کی حالت میں جھوٹ، غیبت اور اس قسم کے ناجائز کام کیے جائیں۔ لہذا روزے کے حقیقی فوائد اور ثمرات اس وقت حاصل ہوں گے جب انسان ان گناہ کی چیزوں اور لایعنی کاموں سے بچا رہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزہ دار کی جب وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم انسان کی جس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ (اے بندے) میں تیری ضرور مدد کروں گا، گو (کسی مصلحت کی وجہ سے) کچھ دیر ہو جائے۔
کعب بن عجرہؓ کہتے ہیں: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ۔ ہم لوگ قریب ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا : آمین۔ جب دوسرے زینے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا: آمین، جب تیسرے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا آمین۔ جب آپؐ خطبے سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپؐ سے ایسی بات سنی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت جبرئیلؑ میرے پاس آئے تھے۔ جب میں نے پہلے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی، میں نے کہا: آمین۔ پھر جب میں دوسرے زینے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے آپؐ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا: آمین۔ جب میں تیسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کے سامنے ا س کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی حالت میں آئیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں، میں نے کہا: آمین۔''
حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: '' رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس مہینے میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔''
حضرت زید بن خالدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''جس نے روزے دار کا روزہ افطار کرایا یا کسی غازی کو سامانِ جہاد دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔''
٭ فرض نمازوں کی پابندی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : '' جس نے نماز کی پابندی کی تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور، حجت اور نجات کا سبب بنے گی۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ پت جھڑ کے موسم میں باہر تشریف لے گئے اور ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑ کر ہلایا جس کی وجہ سے درخت سے پتے جھڑنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! ابوذرؓ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں، آپؐ نے فرمایا دیکھو جب کوئی مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس کے ذریعے اللہ کی خوش نودی اور رضا کا طالب بنتا ہے تو اس کے گناہ اسے طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' بتاؤ تو کسی کے دروازے پر نہر ہو وہ اس میں ہر روز پانچ بار غسل کرتا ہو کیا اس کے بدن پر میل کچیل رہ جائے گا ؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کے سبب خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ تعالیٰ کو بندے کا کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔
٭ تلاوت قرآن
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے بہت نسبت ہے۔ اسی مبارک مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں حضرت جبرئیلؑ امین سے قرآن کریم کا دَور (سننا اور سنانا) فرمایا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن مجید پڑھو کیوں کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قرآن میں ماہر ہے وہ معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر مشقت کے ساتھ پڑھتا ہے اس کے لیے دہرا اجر ہے۔
حدیث پاک ہے کہ صاحب قرآن سے قیامت کے روز کہا جائے گا : قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرو جیسے دنیا میں ترتیل (ٹھہر ٹھہر کر) سے کرتے تھے اور بلند منازل طے کرتے جاؤ۔ جنت میں تمہارے لیے وہ جگہ متعین ہوگی جس جگہ آخری آیت کی تلاوت پر تمہاری سانس رکے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بے شک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ مقدار میں تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
٭ توبہ و استغفار کی فضیلت
ہم فرشتے بھی نہیں کہ کبھی ہم سے گناہ نہ ہو اور ہمیں شیطان کی طرح ہمیشہ گناہ بھی نہیں کرتے رہنا چاہیے بل کہ اگر گناہ ہو جائے تو توبہ استغفار کر نی چاہیے تاکہ آئندہ کے لیے ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں سے بچ سکیں۔ تاہم اگر بار بار بھی توبہ ٹوٹ جائے تب بھی ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا : (اے باری تعالیٰ) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی جسموں میں روحیں باقی رہیں گی گم راہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : مجھے بھی اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے یعنی بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔''
٭ صدقہ و خیرات کی فضیلت
رمضان المبارک میں جہاں اور اعمال کا اجر بڑھ جاتا ہے اسی طرح صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب بھی بڑھ جاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں جب کہ جبریلؑ آپ کے پاس آتے تھے آپؐ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریلؑ رمضان کی ہر رات میں آپؐ کے پاس آتے تھے، آپؐ سے قرآنِ کریم کا دَور کرتے تھے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے۔
اس مہینے میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور واجب صدقات ادا کرنا تو انسان کے ذمے ہیں، ان کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ نفلی صدقات کا اہتمام بھی کیا جائے۔ کسی نادار روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، کسی محتاج کی مدد کرنا، کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا، یتیم اور بیواؤں کا خیال رکھنا وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں کہ انسان ان کو اس ماہِ مقدس میں ضرور کرے۔
٭ صبر و تحمل کی فضیلت
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ صبر و تحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں روزوں کی وجہ سے خشکی آجاتی ہے اور مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ایسے موقع پر اپنے آپ پر قابو پانا اور صبر سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے پر قابو پانے والے بردبار اور حلیم مزاج شخص کی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔ چناں چہ صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے : '' پہلوان وہ شخص نہیں جو غصے کے وقت لوگوں کو پچھاڑ ڈالے بل کہ پہلوان تو وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ ''
٭ نوافل کی فضیلت
حدیث پاک میں یہ بات بالکل وضاحت کے ساتھ آچکی ہے کہ رمضان المبارک میں نوافل کا ثواب فرض کے ثواب تک جا پہنچتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرائض کے علاوہ سنن اور نوافل کا بھی ذوق شوق سے اہتمام کریں۔ تہجد ، اشراق ، چاشت، تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد اور اوابین وغیرہ کو اپنا معمول بنائیں۔